غزہ کا دفاع جاری رکھیں، آیت اللہ خامنہ ای کی تاکید

Rate this item
(0 votes)
غزہ کا دفاع جاری رکھیں، آیت اللہ خامنہ ای کی تاکید

ایران کے سپریم لیڈر اور دنیا بھر کی اسلامی مزاحمتی تحریکوں کے مرشد اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے چار اکتوبر جمعہ کو تہران میں نماز جمعہ کی امامت کی اور عربی و فارسی میں دو الگ خطبات دیئے۔ اپنے خطبات میں انہوں نے فلسطین کی مزاحمت کو قانونی و جائز قرار دیا اور پوری دنیا کو واضح کر دیا کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن اور فلسطینی زمین پر فلسطینیوں کا حق ہے۔ تاہم فلسطینی قوم کی جدوجہد اپنے حق کی خاطر ہے اور جو کوئی بھی فلسطینی قوم کی حمایت کر رہا ہے، وہ بھی تمام بین الاقوامی قوانین کے مطابق جائز کام ہے، لہذا جو کچھ آج حزب اللہ غزہ کے دفاع اور حمایت میں کر رہی ہے، دنیا کی کوئی طاقت اور قانون اس جہاد کو ناجائز قرار نہیں دے سکتا۔ یعنی اگر فلسطینی قوم کی جدوجہد قانونی اور ان کی حمایت کرنا بھی قانونی طور پر جائز ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کی جانب سے غاصب اسرائیل کے خلاف کارروائی اور فلسطینیوں کی حمایت بھی ہر لحاظ سے قانونی اور جائز ہے۔

سپریم لیڈر نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے دو روز قبل غاصب صیہونی حکومت کو دیئے گئے جواب کو غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے جرائم پر کم ترین سزا سے تشبیہ دی ہے، یعنی اس بات کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ آئندہ دنوں میں غاصب صیہونی دشمن کو مزید سزا دی جا سکتی ہے اور اسی بات کا آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر میں بھی ذکر کیا کہ اگر صیہونی غاصب دشمن نے کوئی قدم اٹھایا تو ایران کا ردعمل بھرپور ہوگا، جو کہ جلد بازی پر نہیں بلکہ عسکری ماہرین کی رائے اور مشاورت سے وقت کے حساب کتاب کے ساتھ ہوگا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی روش کو وضاحت سے بیان کر دیا کہ انقلاب اسلامی ایران کے اقدامات اور کامیابیاں نہیں رکیں گی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے سید حسن نصراللہ کی شہادت کو ایک بڑا نقصان قرار دیا ہے اور حزن و غم کا اظہار کرنے کے ساتھ خطے کی عوام بالخصوص حزب اللہ اور لبنانی عوام سے عربی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات پر ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

جی ہاں یہ بات اس لئے بیان کی گئی، کیونکہ اسلامی مزاحمت کی تاریخ شہادت پر مبنی ہے۔ سید حسن نصراللہ سے پہلے بھی سیکڑوں شخصیات نے قربانیاں دی ہیں، لیکن مزاحمت جاری ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو میں لبنانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جارح دشمن کا مقابلہ کریں۔ طوفان الاقصیٰ کا اقدام ایک تاریخی اور درست اقدام تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے غاصب صیہونی دشمن کی شکست پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کیا کہ آج اسرائیل غزہ میں چھوٹے سے گروہوں کے سامنے بے بس ہوچکا ہے، حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ سمیت خطے کی دیگر مزاحمتی تنظیموں نے اسرائیل کو شکست دے دی ہے، تاہم اب وہ مزاحمت کے کمانڈروں کے قتل کے ذریعے بتانا چاہتا ہے کہ فتح اس کی ہے، جو واضح جھوٹ ہے، کیونکہ اسرائیل حماس اور جہاد اسلامی سمیت حزب اللہ کے مزاحمتی ڈھانچہ کو ختم کرنے یا نقصان پہنچانے میں ناکام ہوا، تاہم کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے حزب اللہ لبنان کی توصیف بیان کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ اور اس کے شہید رہنماء ایک شجرہ طیبہ ہیں، سید حسن نصر اللہ کا جسم ہمارے درمیان نہیں ہے، لیکن ان کی شخصیت، روح، نقطہ نظر اور مخلصانہ آواز ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم سب کے پیارے اور عزیز سید حسن نصراللہ کی شہادت سے ہمیں انتہائی دکھ پہنچا ہے، لیکن یاد رکھیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مایوس ہو جائیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے عربی خطبہ میں فلسطینی و لبنانی قوم کو کہا کہ یقین رکھیں، غاصب اسرائیل کا وجود کچھ نہیں ہے اور اس کا وجود باقی نہیں رہے گا، ان شاء اللہ۔ آیت اللہ خامنہ ای نے پوری دنیا میں فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے لئے ایک قانون مرتب کر دیا کہ جو کوئی بھی فلسطینی قوم کی حمایت کر رہے ہیں، وہ درست راستے پر ہیں۔ انہوں نے مزاحمت کرنے والوں کے لئے واضح کر دیا ہے کہ کوئی بھی اقدام جو غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے وجود کو نقصان پہنچائے، یہ پورے خطے کے انسانوں اور عوام کی خدمت ہے۔ آج خطے کی مزاحمت سے ثابت ہوچکا ہے کہ فتح مزاحمت کرنے والوں کی ہے۔ شہادتوں سے حوصلہ پست نہیں بلکہ بلند ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ غاصب صیہونی دشمن اسرائیل کی مسلسل دھمکیوں کے باوجود ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اپنے پروگرام اور طے شدہ وقت پر تشریف لائے اور خطبات دینے کے بعد نماز جمعہ اور نماز عصر بھی ادا کی۔ آج پوری دنیا اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ غزہ کی مزاحمت نے دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں اور طاقتوں کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اور لبنانی جوانوں کی مزاحمت نے آج غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو ستر سال پیچھے دھکیل کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے خطے میں امریکی مداخلت کی مذمت کی اور مسلمان اقوام کو باہمی تعاون کرنے کی تلقین کی کہ اگر مسلمان اقوام باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں تو یقیناً جلد کامیابی حاصل ہوگی۔ انہوں نے فلسطین پر فلسطینی قوم کے حق کو بیان کیا اور کہا کہ فلسطینی کون ہیں؟ آخر وہ کیوں جدوجہد کر رہے ہیں۔؟ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینی قوم کی حمایت میں کھڑے ہوں۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

Read 7 times