اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے وعدہ صادق میزائل آپریشنز کے ردعمل میں سراسیمگی اور خوف کے عالم میں اسرائیلی جوابی حملے کی ناکامی سے ایران کی اعلیٰ سطح کی ڈیٹرنس پاور (دبدبہ) کا بھرپور اظہار ہوا ہے۔ ایران کے دفاعی نظام پر اسرائیلی حملے کے بعد چند پہلووں پر بات ہو رہی ہے۔ صہیونی دشمن کو محور مقاومت کی جانب سے چند سطحوں پر شدید جنگ کا سامنا ہے۔ پہلی سطح غاصب صیہونی ریاست کو اپنی سرحدوں کے اندر ہی فلسطین اور لبنان سے مزاحمت اور جنگ کا سامنا ہے۔ دوسری سطح دور سے یعنی عراق اور یمن سے شدید دباو اور طاقت کے انوکھے استعمال سے لرزہ دینے والی جنگ درپیش ہے۔ سب سے اہم ایران کیساتھ براہ راست جنگ ہے۔ یہ جنگ کی آخری سطح ہے۔ صیہونی دشمن ایران کے براہ راست جنگ میں محتاط ہے، اس کی وجہ ایرانی طاقت کا خوف ہے، اسی کو ماہرین صیہونی دشمن کیخلاف ڈیٹرنس کی پاور یا دبدبہ قرار دیتے ہیں۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی حملے اسی وجہ سے محدود ہیں اور اسی تناظر میں اس کو امریکی حکومت سے بڑے پیمانے پر کارروائیاں نہ کرنے کی درخواست سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل ایرانی میزائل پاور اور تہس نہس کر دینے والے جنگی ساز و سامان کی وجہ سے جنگ کو براہ راست ایران تک پھیلانے میں خوفزدہ ہے۔ وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 میزائل آپریشنز کی وجہ سے صیہونی دشمن کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ ایران اسرائیل پر براہ راست حملوں کے ذریعے یہ ثابت کر چکا ہے کہ صیہونی رجیم کے خلاف حملہ نہ کرنیکی باتیں صرف ایک وہم ہے۔ ایران کے اسی خوف کیوجہ سے اسرائیل نے ایک محدود جوابی کاروائی کی ہے، وگرنہ اسی صیہونی ائیر فورس نے کیسے فلسطین اور لبنان کے شہروں کو دیدہ دلیری سے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔
دراصل صیہونی جس محدودیت کی بات کرتے ہیں، وہ ان کی منتخب کردہ نہیں بلکہ ایرانی جنگی تیاریوں کی وجہ سے مجبور ہیں کہ مخصوص دائرے سے باہر نہ نکلیں ورنہ یہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ فوجی کاروائی کی بجائے ان کا زیادہ زور نفسیاتی حربوں کے ذریعے خاص ماحول بنانے پر تھا، جس کے لئے انہوں نے ضد انقلاب قوتوں، سوشل میڈیا اور مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سافٹ پاور سے کام چلانے کی کئی کوششیں کی ہیں۔ اسی لئے اسرائیلی حملے کے بعد ضد انقلاب اسرائیل نواز میڈیا آوٹ لیٹس کو ان حملوں کے اھداف اور نقصانات بڑھا چڑھا کر دکھانے کا موقع نہیں ملا، نہ ہی مغربی میڈیا کے پاتھ کچھ آیا۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں یہ وجہ ہے کہ ایران کے سامنے نہ ٹک سکنی والی صیہونی قوت دہشت گردی، تخریب کاری اور ففتھ کالم کے ذریعے نقصان پہنچانے میں مہارت کو استعمال کرتی ہے۔
صیہونی دشمن کو اس بات کا پتہ ہے کہ براہ راست تصادم میں ان کے بس میں نہیں، اس لئے اس سے اجتناب ہی میں عافیت ہے۔ اسی تناظر میں دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی بھی مشرق وسطیٰ میں اس کشمکش کا دائرہ کار محدود رکھنے پر مجبور ہیں تاکہ ان کی موجودگی اور خطے میں مستقر دفاعی طاقت کو نقصان نہ پہنچے کیونکہ محور مقاومت نے ابھی تک اپنی طاقت کا ایک چوتھائی بھی مکمل طور پر استعمال نہیں کیا۔ امریکیوں کے نزدیک ان عوامل میں ایک یہ بھی ہے کہ نتن یاہو کا پاگل پن جنگ کی سطح اور دائرہ بڑھا سکتا ہے جس سے محور مقاومت کے تمام بازو خطے میں واضح زمینی برتری کو اپنے حق میں استعمال کر کے صیہونی حکومت کی رگ حیات کاٹ سکتا ہے اور مشرق وسطیٰ کی رائے عامہ کو نہ صرف صیہونی حکومت بلکہ امریکہ کے خلاف مزید بیدار کر سکتا ہے۔
اگرچہ کچھ لوگ وائٹ ہاؤس کے اس رویے کو انتخابات کے معاملے تک محدود سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں امریکا مشرق وسطیٰ میں نئی جنگ سے خوفزدہ ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ کب تک صیہونی حکومت کی حمایت کر سکے گا، خاص طور پر جب مزاحمتی قوتوں کی موجودگی میں جب ایران اعلی سطح کی جنگی قوت کا حامل ملک ہے۔ ایرانی ائیر ڈیفنس کی کاروائیوں کی تفصیل ابھی آ رہی ہے، لیکن یہ یقنی ہے تہران اور سمیت تمام شہروں مکمل امن ہے، اس سے کسی نہ کسی طرح یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب اس آپریشن میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ رائے عامہ کے میدان میں بھی یہ مسئلہ واضح ہے اور دفاعی لحاظ سے بڑے نقصان کی خبریں نہیں ہیں. بڑی بڑی دھمکیوں اور بڑھکوں کے باوجود اسرائیل ایران کیساتھ براہ راست پنچہ آزمائی سے قاصر ہے اور صرف محور مقاومت کیخلاف فلسطین اور لبنان کے شہروں کا نشانہ بنا رہا ہے۔
ایران کے پاس صیہونی کاروائی کا بھرپور جواد دینے کا واضح جواب ہے۔ نہ صرف صیہونی دشمن نے ایرانی سرزمین کو نشانہ بنایا ہے بلکہ اگر اس درندگی کا جواب نہ دیا گیا تو فلسطین اور لبنان کے عوام کیخلاف یہ مزید بھیانک حملے جاری رکھے گا۔ بے شک ایران کو جلدی نہیں لیکن ایران کی دفاعی طاقت کی موجودگی اور اثبات یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران جب چاہے اس کا دوچند جواب دے سکتا ہے اور دے گا، جیسا کہ گذشہ دو آپریشنز وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 میں یہ ثابت ہو چکا ہے۔
ایرانی ڈیٹرنس پاور اور محدود اسرائیلی حملہ
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے