اسلامی جمہوریہ کے کیلنڈر میں تیرہ آبان یا 3 نومبر "عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن" کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دن اور یہ عنوان ایرانیوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ایک بڑے اعزاز اور بافضیلت ایام میں سے ایک رہے گا۔ جو قوم دنیا میں استکبار دشمنی کی خصوصیت کے ساتھ پہچانی جائے، یہ اس کا منفرد اعزار نہیں تو اور کیا ہے۔؟ اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں سامراح دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگایا حاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے کیلنڈر میں ایک دن کو "عالمی استکبار سے مقابلے کا قومی دن" قرار دیا ہے۔ استکبار و سامراج کے خلاف مقابلے کا پرچم کئی دہائیوں سے ایرانی قوم اور اس کے الہیٰ نظام کے ہاتھ میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ استکبار مخالفت کو ایک قدر، ایک اعزاز اور ایک فضیلت کیوں سمجھا جاتا ہے اور تین نومبر کے دن کو استکبار مخالفت جیسے عنوان سے کیوں منسوب کیا گیا ہے۔ جو شخص استکبار کے تصور کو صحیح طور پر سمجھے گا، وہ استکبار کے خلاف لڑنے کی اندرونی قدر اور اہمیت کو بھی صحیح درک کرسکے گا۔ اس سے اس کی انسانی فطرت بیدار رہے گی اور وہ اپنے ضمیر سے شرمندہ نہیں ہوگا۔ اسی عقلانیت اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ "کاش استکبار لفظ کے حقیقی معانی کو سمجھ کر اس کی مخالفت کی جائے۔ استکبار کا مطلب ہے خود پسندی، خود برتری اور اس برتری کو دوسروں پر لاگو کرنے کی زبردستی۔ مستکبر سے مراد وہ شخص یا ادارہ ہے، جو اپنے اختیارات کو طاقت دھونس اور ہر ممکنہ ذرائع سے استعمال کرکے دوسرے پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مستکبر اپنی خواہشات کے حصول کے لیے اخلاقی اور انسانی اقدار میں سے کسی کی پاسداری نہیں کرتا۔ دھونس، جبر، لوٹ مار، جرم، ظلم اور قتل و غارت گری اس کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔
آج امریکہ دنیا کے مستکبرین کا لیڈر ہے اور اس ملک کو بجا طور پر "عالمی استکبار" کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ مردہ باد کے نعرے کا مطلب موت استکبار کے لیے، موت ظالموں کے لیے، موت تشدد اور غنڈہ گردی کے لیے، موت ان مجرموں کے لیے جو اپنی شیطانی خواہشات کے حصول کے لیے لاکھوں لوگوں کو قتل اور بے گھر کرتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی قوم پر دو ایٹم بم گرا کر، ویت نامی قوم کے خلاف بے شمار قتل و غارت گری کے ساتھ تباہ کن جنگ مسلط کرکے، دنیا کی کئی آزاد اور مقبول حکومتوں کے خلاف بے شمار بغاوتیں کرکے امریکہ نے اپنے آپ کو استعمار اور مستکبر ثابت کیا ہے۔ امریکی تاریخ اس طرح کے جرائم سے بھری پڑی اور اس کا ریکارڈ انتہائی سیاہ ہے۔ پچھتر برسوں سے زائد عرصے میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کی ہلاکتیں نیز افغانستان اور عراق جیسے ممالک پر حالیہ دہائیوں کے قبضے سے ثابت ہوتا ہے کہ "امریکہ کی قیادت میں عالمی استکبار" یا "بڑے شیطان" کا لقب امریکہ کے لئے انتہائی درست اور حقیقت کے عین مطابق ہے۔
تاہم اسلامی جمہوریہ کے کیلنڈر میں 3 نومبر کو "عالمی استکبار سے مقابلے کا قومی دن" قرار دینے کی کچھ تاریخی وجوہات بھی ہیں۔ تیرہ آبان 1343 شمسی کے دن امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی شاہ مخالفت اور شاہی بل کی شدید مخالفت کی وجہ سے ترکی جلاوطن کیا گیا تھا۔ اسی دن یعنی تیرہ آبان 1357 کے دن تہران کے یونیورسٹی طلبا کو خاک و خون میں غلطاں کیا گیا۔ مطلق العنان پہلوی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کو مظاہرہ کرنے کے جرم میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ تیرہ آبان 1358 بمطابق تین نومبر 1979ء کو تہران میں یونیورسٹی طلبا نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرلیا۔ امریکی سفارتخانہ اسلامی انقلاب اور ایرانی قوم کے خلاف جاسوسی اور سازش کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ تینوں تاریخی واقعات میں ایرانی قوم ایک طرف ہے اور امریکہ دوسری طرف۔
پہلے اور دوسرے واقعہ میں شاہ اور پہلوی حکومت نے امریکی ایما پر ایرانی طلبا اور ان کے رہبر پر ظلم کیا اور تیسرے واقع میں امریکی پالیسیوں کے ردعمل میں یونیورسٹی طلبا نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ تینوں تاریخی واقعات میں ایرانی قوم کی امریکہ کے ساتھ تصادم کی نوعیت سامرج دشمنی کی راہ میں جدوجہد کی ایک نوعیت ہے۔ قومی آزادی اور عزت کے حصول کی یہ جدوجہد اسلامی انقلاب کی بدولت حاصل کی گئی۔ آج بھی ایرانی قوم اسلامی قیادت کی رہبری میں اسلام کے جھنڈے تلے اپنی بصیرت اور ایمان کی بنیاد پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں بالخصوص غزہ اور لبنان میں گذشتہ ایک سال کے دوران صیہونی حکومت کے جرائم اور امریکہ کی مکمل حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت غاصب امریکہ اور اسرائیل کے خلاف لڑنا ضروری ہے اور اس عالمی استکبار اور استعمار کے خلاف "عالمی اتحاد" کی تشکیل ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی