حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری نے تاکید کی : دنیا کا کوئی شخص علم، حکمت، دانائی، شجاعت اور مدیریت میں حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے ھم پلہ نہیں جو امت مسلمہ کی قیادت کا صلاحیت رکھتا ہو۔
رپورٹ کے مطابق ، حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری حجت الاسلام سید حسن نصراللہ نے اسلامی جمہوریہ ایران ٹی وی کے چوتھے چائنل کو انٹرویو میں کہا : ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلامی دنیا اور حتی پوری دنیا میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جو علم، حکمت، دانائی، شجاعت اور مدیریت میں قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا ہمتا ہو اور امت مسلمہ کی قیادت کی صلاحیت رکھتا ہو۔
انہوں نے مزید کہا : میری نظر میں حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای ، امام خمینی (رہ ) کے بعد سب سے بڑی اسلامی شخصیت ہیں ۔
حزب اللہ لبنان فقط شیعوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا دفاع کر رہی ہے ۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہماری تنظیم کا منشور خطے کی تمام اقوام کے دفاع پر مشتمل ہے کیونکہ حزب اللہ لبنان اپنی پوری تاریخ میں امت مسلمہ کی حامی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم ہر روز لبنان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے اور لبنان کے دریایی پانی پر اپنا حق جتاتا ہے لہذا ہمیں ہمیشہ اپنے دفاع کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ بنت جبیل میں امن و امان کا راز اسلامی مزاحمت ہے جسکی وجہ سے دشمن اس خطے پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرتا، اگر چہ آج لبنان میں جنگ کی صورتحال نہیں لیکن حزب اللہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور آمادگی رکھتی ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا یہ دعوی درست ہے کہ حزب اللہ لبنان تشیع کی ترویج کرنے میں مصروف ہے؟ کہا کہ حزب اللہ لبنان ایک اسلامی تنظیم ہے جو اسلامی اصولوں کی پابند ہے۔ حزب اللہ لبنان ایسے افراد کا مجموعہ ہے جو مکتب اہلبیت علیھم السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور اہل تشیع ہیں لیکن اس تنظیم کی سرگرمیاں لبنان کے تمام عوام کیلئے ہیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا عیسائی۔
حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت کا نشانہ اسرائیل ہے :
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ یہ تنظیم تمام لبنانی عوام کی نمایندہ تنظیم ہے، حزب اللہ لبنان کی کوشش ہے کہ وہ ایک اسلامی تحریک کا اچھا اور ترقی یافتہ نمونہ پیش کرے لہذا اسکی شکل اسلامی مزاحمت اور جہاد والی ہے اور وہ اسلامی قوانین و اصول اور اسلامی اخلاقیات کی پابند تنظیم ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت کبھی بھی ملک کے اندر استعمال نہیں کی جائے گی اور ہم ہر گز لبنان آرمی یا سیکورٹی اداروں کے مقابلے میں نہیں آئیں گے، آپ لوگ کبھی بھی کسی کو جنوب لبنان میں مسلح حالت میں نہیں دیکھیں گے کیونکہ حزب اللہ لبنان کی طاقت خفیہ ہے اور جب تک اسرائیل ہم پر حملہ آور نہیں ہوتا ہم اپنی فوجی طاقت کا اظہار نہیں کرتے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ قومی مفادات کو اپنے تنظیمی مفادات پر ترجیح دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1982 میں اپنی تنظیمی فعالیت کے آغاز سے ہی ہم نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے ملک کا دفاع کرے لیکن اس نے ایسا نہ کیا لہذا لبنانی عوام کی ایک تعداد مسلح ہو گئی تاکہ یہ کام خود انجام دے سکیں۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ قومی حکومت ملک میں استحکام کا باعث ہے، موجودہ حکومت ہر قسم کے فتنے کو روکنے کا باعث بنی ہے اور ملک میں امن و امان کی فضا قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔
اسرائیل کے مقابلے میں حزب اللہ کی فتح ایک معجزہ سے کم نہ تھی:
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیل نے 1982 میں لبنان پر حملہ کیا اور دارالحکومت بیروت پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا، اسی وقت اس کے خلاف اسلامی مزاحمت کی تحریک معرض وجود میں آئی اور اسرائیل پر کاری ضربیں لگانے میں کامیاب ہوئی، اسلامی مزاحمت نے اسے عقب نشینی پر مجبور کر دیا، اگر صرف لبنان کی فوج ہوتی تو اسرائیل لبنان میں باقی رہتا لیکن جب اس نے دیکھا کہ یہاں حزب اللہ جیسی تنظیم بھی موجود ہے اور اسکے خلاف ملٹری آپریشنز اور گوریلا جنگ کر رہی ہے تو فورا لبنان سے بھاگنے پر مجبور ہو گیا کیونکہ اسے ہمارے آپریشنز اور بم دھماکوں سے شدید نقصان پہنچ رہا تھا۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے درمیان 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی فتح کا باعث اسرائیل کی کمزوری تھی یا حزب اللہ کی طاقت؟ کہا کہ یہ فتح خداوند کریم کی جانب سے ایک عظیم نصرت تھی اور ایک معجزہ سے کم نہیں تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی فوج خطے کی ایک طاقتور ترین فوج سمجھی جاتی ہے اور ہماری اصلی جنگ ہوائی مقابلے کی صورت میں تھی۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ تعداد، اسلحہ اور دیگر وسائل کے اعتبار سے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان بالکل موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن مجاہدین کے ایک گروہ نے اپنے شرعی وظیفے کا احساس کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کی اور خدا نے انہیں فتح اور کامیابی عطا کی، ہم روزمرہ اور معمولی قوانین کی روشنی میں بالکل سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان 33 دنوں میں کیا گزرا کیونکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس کیا ہے اور ہمارے پاس کیا ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اس سوال کے جواب میں کہ اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ میں آپ کی کامیابی کا راز کیا تھا ؟ کہا کہ خداوند اس وقت انسانوں کی مدد کرتا ہے جب وہ امتحان کے مرحلے سے گزر چکے ہوں، لبنان میں جو کچھ گذشتہ کئی عشروں خاص طور پر 1982 کے بعد انجام پایا وہ ان مخلص افراد کی مزاحمتی تحریک تھی جنہوں نے بڑی تعداد میں شہید اور زخمی پیش کئے اور اپنی فداکاری اور ایثار کے ذریعے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ خدا پر ان افراد کا یقین ان چند سالوں کے بعد ایمان میں تبدیل ہو گیا اور انہوں نے ایثار کا عظیم مظاہرہ کیا، ان 33 دنوں میں اسرائیل نے ہمارے مجاہدوں پر اتنی مقدار میں بم اور میزائل گرائے جو اس نے عرب ممالک کے ساتھ اپنے تمام گذشتہ جنگوں میں گرائے تھے لیکن ہمارے ایک مجاہد نے بھی میدان خالی نہیں کیا اور ڈٹ کر اسرائیل کا مقابلہ کیا، یہ معنوی آمادگی گذشتہ 20 یا 30 سال کی مزاحمت کا نتیجہ تھی۔
حزب اللہ کی میزائل طاقت دنیا کے 90 ممالک کے پاس نہیں:
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ آج اسرائیل خود یہ اعتراف کرتا ہے کہ حزب اللہ 2006 کی نسبت کئی گنا طاقتور ہو چکی ہے، حزب اللہ لبنان کی طاقت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے اور اسرائیل اس کو مان چکا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے اس سوال کے جواب میں کہ آج کی حزب اللہ اور 2006 کی حزب اللہ میں کیا فرق ہے؟ کہا کہ حزب اللہ کی عوام میں مقبولیت باعث بنی ہے کہ وہ ماضی کی نسبت زیادہ طاقتور ہو جائے، ہمارے مجاہدین کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہے اور ہمارا اسلحہ بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے میزائل مقبوضہ فلسطین کے کسی بھی حصے کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت کے حامل ہیں، حزب اللہ کی فوجی طاقت ماضی کی طاقت سے قابل موازنہ نہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی مزاحمت کی مضبوط تکیہ گاہ ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ لبنان اور خطے میں جو بات مشہور ہے وہ یہ کہ 2006 میں ہونے والی جنگ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان انجام پائی لیکن پشت پردہ بہت سی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران میں نماز جمعہ کے خطبے میں کہا تھا کہ ہم خطے میں اسرائیل مخالف تحریکوں کی مدد اور حمایت کرتے ہیں، یہ ایک واقعیت ہے۔ حزب اللہ ایک لبنانی تنظیم ہے اور اسکے رہنما بھی لبنانی ہیں، حزب اللہ لبنان کی خاطر جنگ لڑ رہی ہے اور ایران خدا کی خاطر ہماری مدد کر رہا ہے، ہمیں ایران کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی مزاحمت کی ایک مضبوط تکیہ گاہ ہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اگر اسرائیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا وہ کمزور ہوتا ہے تو اس میں لبنان، فلسطین، مصر، ایران اور تمام اسلامی ممالک کا فائدہ ہے، ہم اس مسئلے کو اس نظر سے دیکھتے ہیں، یہ ایک خالصانہ سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ اعتقادی، دینی اور سیاسی مسئلہ ہے۔
ایران روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے:
سید حسن نصراللہ نے اس سوال کے جواب میں کہ آپکی نظر میں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کا کس قدر امکان ہے کہا لبنان میں اسرائیل کی شکست اور عراق اور افغانستان میں امریکہ کی شکست کے پیش نظر اسکا امکان بہت کم ہے، دوسری طرف ایران روز بروز طاقتور ہوتا چلا جا رہا ہے اور خطے میں اسکے طاقتور دوست موجود ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران کے ساتھ کسی قسم کی جنگ ان کیلئے انتہائی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے، جنگ کی دھمکیاں صرف اور صرف ایک نفسیاتی حربہ ہے جسکا مقصد ایران کے ساتھ مذاکرات میں اپنے مطالبات منوانا ہے۔ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا ایران خطے کیلئے ایک خطرہ ہے؟ کہا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض ممالک کی جانب سے یہ منفی پروپیگنڈہ کیا گیا لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ کیونکہ ایران اسرائیل کیلئے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے لہذا عالمی سطح پر ایران کے خلاف دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ کوشش 1979 سے جاری ہے۔ گذشتہ کئی سالوں کے دوران جب بھی خطے میں سروے انجام دیا گیا تو لوگوں نے امریکہ اور اسرائیل کو اپنا دشمن نمبر ون قرار دیا اور ایران کو اپنا دوست ظاہر کیا، یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل اپنے منصوبوں میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے، انہوں نے اس منصوبے پر بہت زیادہ اخراجات کئے ہیں لیکن انہیں اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
خطے میں جنم لینے والی تحریکیں اسلامی بیداری کی تحریکیں ہیں:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ خطے میں پیدا ہونے والی عوامی تحریکیں ایک ناقابل انکار حقیقت ہیں جنہوں نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کو اپنا رول ماڈل بنا رکھا ہے، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد خطے میں سیاسی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں جو بعد میں فسلطینی انتفاضہ، 33 روزہ جنگ، 22 روزہ جنگ اور عراق میں عوامی مزاحمت کے نتیجے میں امریکہ کی شکست کی صورت میں ظاہر ہوئیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اگر قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ان تحریکوں کو اسلامی بیداری کا نام دیتے ہیں تو یہ بالکل صحیح اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسکے پٹھو ان تحریکوں کو اغوا کرنا چاہتے ہیں اور انکی ان کوششوں کو لیبیا، تیونس اور مصر میں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔