علامہ سید عارف حسین حسینی ایک مشہور عالم دین تھے جنہوں نے اسلام کو لوگوں میں عام کرنے لیۓ قابل قدر خدمات انجام دیں ۔ آپ کے والد کا نام سید فضل حسین تھا اور آپ 1320 ہجری شمسی میں پاکستان کے قبائلی علاقہ بنام پارا چنار میں ایک مذھبی اور روحانی خاندان میں پیدا ہوۓ ۔ پارا چنار کا علاقہ پاکستان کے صوبہ سرحد (جس کا نیا نام خیبر پختونخواہ ہے ) کے مرکزی شہر پشاور سے تقریبا 200 کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان اور افغانستان کے بارڈر پر واقع ہے۔ سید عارف کا خاندان پارا چنار کے ایک دیہات میں رہتا تھا جو پارا چنار سے کوئی 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس دیہات کا نام «پیوار» ہے اور اس میں تین قبیلے «غندی خیل»، «علی زائی» و «دویرزائی» رہتے ہیں ۔ سید عارف حسین حسینی کا تعلق دویرزائی «پیوار» سے ہے ۔ اس علاقے میں تقریبا 200 ہزار کے شیعہ آباد ہیں ۔ اس علاقے کے لوگ بڑے شہروں سے دور ہونے اور آزاد قبائلی قوانین اور رسوم میں جکڑے ہونے کی وجہ سے پسماندہ ہیں اور زندگی کی بنیادی ضرویات سے آج بھی محروم ہیں ۔
سید عارف حسین کو ابتداء ہی سے علم حاصل کرنے کا بےحد شوق تھا اور انہوں نے اپنے شوق کی تکمیل کےلیۓ نیک لوگوں کا راستہ اختیار کیا ۔
سب سے پہلے انہوں نے اپنے والد سید فضل سے تعلیم و تربیت حاصل کی ۔ ان کے والد تقوی میں کمال تھے جن سے سید عارف حسین نے بےحد فائدہ اٹھایا ۔ جب وہ سکول جانے کی عمر کو پہنچے تو انہوں نے اسکول میں داخلہ لیا اور بڑی تیزی سے علمی منازل طے کرتے چلے گۓ ۔ انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد انہوں نے مذھبی تعلیم کی طرف توجہ دی اور حوزہ علمیه جعفریه پارا چنار میں داخلہ لیا ۔ اس مدرسہ میں انہیں استاد حاجی غلام جعفر لقمان سے ادبیات عرب جاننے کا موقع ملا اور انہوں نے یہاں پر مذھبی میدان میں اپنے علم میں قابل قدر اضافہ کیا ۔ اپنی علمی تشنگی کو سیر کرنے کے لیۓ وہ 1346 شمسی میں نجف شریف (عراق ) میں واقع ایک حوزہ علمیھ میں چلے گۓ ۔ مالی مشکلات ہونے کے باوجود انہوں نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا اور مدرسہ علمیه " بشریه " اور پھر مدرسه علمیه دارالحکمه میں مقیم رہے ۔ سید عارف حسین حسینی بڑے خوش قسمت انسان تھے کہ انہیں بہت ہی قابل اساتذہ کے زیر سایہ رہنے کا موقع ملا ۔ ان کے اساتذہ میں آیت اللہ سید اسداللہ مدنی کہ جن سے انہوں نے " شرح لمعھ " ، سید مجتبی لنکرانی سے " رسایل " ، آیت اللہ مرتضوی سے " مکاسب " ، آیت اللہ شھید مرتضی مطھری سے " درس فلسفه ، آیت اللہ فاضل لنکرانی سے " جلد اول کفلیه " ، آیت اللہ محسن حرم پناہی سے " درس عقائد " ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی سے " خارج اصول " ، آیت اللہ شیخ جواد تبریزی سے " خارج فقه " وغیرہ وغیرہ کے علوم حاصل کیے ۔
سید عارف حسین حسینی مذھب کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور نجف میں اپنے قیام کے دوران جب انہیں حضرت امام خمینی رح کے نزدیک رہنے کا موقع ملا تو ان کے اندر سیاسی اور فکری تحولات ایجاد ہوۓ ۔ انہیں بعض وجوہات کی بنا پر عراق سے نکال دیا گیا جس کے بعد وہ پاکستان تشریف لے آۓ ۔ پاکستان آ کر انہوں نے سیاسی اور مذھبی سرگرمیوں میں بہت ہی فعال کردار ادا کیا ۔ سن 1353 شمسی میں انہوں نے ایک بار نجف اشرف کا رخ کیا کیونکہ وہ مزید علم حاصل کرنا چاہتے تھے مگر بدقسمتی سے انہیں عراق میں داخل نہیں ہونے دیا گیا اور پھر انہیں مجبوری کے تحت واپسی کا راستہ اختیار کرنا پڑا ۔ واپسی پر وہ قم تشریف لے گۓ اور پھر قم میں حوزہ علمیھ قم میں مقیم ہو گۓ ۔
یہاں پر انہوں نے دوسرے انقلابی کارکنوں کے ساتھ مل سیاسی سرگرمیوں میں پھرپور حصہ لینا شروع کر دیا اور قم میں مقیم دوسرے پاکستانی نژاد طالب علموں کو بھی اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کے لیۓ ترغیب دی ۔
ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ حکومت کی نظر میں آ گۓ اور حکومتی اہلکاروں نے ان پر نظر رکھنی شروع کر دی ۔ اسی دور وہ ان کی گرفتاری عمل میں آئی اور انہیں ملک سے باہر کر دیا گیا جس کے بعد وہ واپس پاکستان تشریف لے گۓ ۔
پاکستان جا کر بھی وہ بیکار نہیں بیٹھے بلکہ پاکستان میں بھی انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور پاکستان کی عوام میں شاہ ایران کا اصل چہرہ بےنقاب کیا ۔ انہوں نے حضرت امام خمینی کی حمایت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رہی ۔ انہوں نے امام خمینی کو مسلمانوں کے رہبر کے طور پر پاکستان میں متعارف کروایا ۔ ان کی اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے پشاور میں ایک بڑے اجتماع کے دوران حضرت امام خمینی کی حمایت کا اعلان کیا اور لوگوں کی امام کی حمایت کے لیۓ تیار کیا ۔
شھید سید عارف حسین حسینی 3 آگست 1988 شمسی کو پاراچنار سے پشاور تشریف لاۓ اور رات " رسھ علمیھ دارلمعارف"میں بسر کی ۔ اگلی صبح 4 مرداد کو انہیں لاہور میں ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دینا تھا اور اس کے بعد ایک بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران ایک اہم مسئلے کو لوگوں کو بتانا چاہتے تھے ۔
5 آگست 1988 اسی جمعہ کی صبح جب وہ نماز ادا کرنے کے بعد دوبارہ وضو کرنے کی غرض سے مدرسھ علمیه دارلمعارف کی دوسری منزل کی طرف گۓ وضو کرنے کے بعد جب وہ واپس سیڑھیاں اتر رہے تھے تو اسی دوران نامعلوم دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گۓ ۔ گولی لگنے کے بعد جب وہ زمین پر گر رہے تھے تو ان کے منہ سے لا الھ الا اللہ کی فریاد بلند ہوئی ۔ ایک عینی شاھد کا کہنا ہے کہ :
" مجھے ابھی تک ان کے زمین پر گرنے کی وجہ معلوم نہ ہو پائی تھی ۔ میں دوڑ کر ان کے نزدیک ہوا تاکہ ان کو زمین سے اٹھاؤں لیکن جب میں نے انہیں زمین سے اٹھایا تو دیکھتا ہوں کہ ان کا سینہ اور منہ گولیوں کا نشانہ بن چکا ہے ۔ "
واقعہ کی اطلاع پر مدرسہ کے طالب علم موقع پر پہنچ گۓ ۔۔ شھید عارف حسین حسینی کے بیٹے سید علی اور سید محمد حسینی جو اسی رات کو اپنے والد کے ہمراہ پارا چنار سے پشاور آۓ تھے ، وہ بھی روتے ہوۓ اپنے والد کے خون میں لت پت جسم کے قریب پہنچے ۔ انہیں فوری طور پر طبی مرکز میں پہنچایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوۓ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ بعد میں میڈیکل تحقیقات سے پتہ چلا کہ ان پر چلائی جانے والی گولیاں زہریلی بھی تھی ۔ خدا انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ ۔ آمین !