میں آج چند جملے مصائب پڑھنا چاہوں گا۔ آپ تھوڑی دیر پہلے سے موجود ہیں؛ مصائب پڑھے گئے اور آپ نے بھی سن لئے۔ ان دنوں ساری مجالس و محافل میں ذکر مصائب ہے۔ آج تاسوعا کا دن ہے اور رسم یہ ہے کہ اس دن ذاکرین اور خطباء اور نوحہ خواں حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کے مصائب پڑھتے ہیں۔
جس طرح کے تمام شواہد و قرائن سے ظاہر ہوتا ہے، جنگجو مردوں میں سے ـ طفل شش ماہہ اور گیارہ سالہ بچے کے سوا ـ اباالفضل العباس سب سے آخری فرد ہیں جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے قبل جام شہادت نوش کرگئے ہیں اور یہ شہادت بھی ایک عظیم عمل ـ یعنی خیام اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کے لب تشنہ باسیوں کی خاطر پانی لانے ـ کی راہ میں واقع ہوئی ہے۔
ائمہ اطہار علیہم السلام سے حضرت ابوالفضل علیہ السلام کی شان میں وارد ہونے والی زيارات اور کلمات میں دو جملوں پر زيادہ تاکید ہوئی ہے: ایک یہ کہ ابوالفضل العباس کی بصیرت کہاں ہے؟ سیدالشہداء کے سارے انصار و اعوان بابصیرت تھے؛ تاہم ابوالفضل (ع) نے بصیرت کا زيادہ مظاہرہ کیا۔ آج ہی کی مانند تاسوعا کی شام کو ایک موقع میسر آیا کہ آپ ان مصائب و آلام سے نجات پائیں یعنی دشمن کی طرف سے لوگ آئے اور آپ کے لئے ایک امان نامہ ساتھ لائے اور کہا: ہم آپ کو امان دیتے ہیں؛ تو آپ نے ایسا جوانمردانہ طرز عمل اپنایا کہ دشمن اپنی تجویز پر نادم ہوکر چلا گیا۔ کہا: میں حسین (علیہ السلام) سے جدا ہوجاؤں؟ وائے ہو تم پر (خرابی ہو تم پر)، اُف ہو تم پر اور تمہارے امان نامے پر۔
آپ کی بصیرت کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپ نے اپنے تین سگے بھائیوں کو ـ جو آپ کے ساتھ کربلا آئے تھے ـ ہدایت کی کہ میدان کارزار میں چلے جائیں اور وہ تینوں چلے گئے حتی کہ شہید ہوگئےآپ جانتے ہیں کہ یہ چار بھائی ایک ماں سے تھے: سب سے بڑی ابوالفضل العباس تھے اور پھر جعفر، عبداللہ اور عثمان۔ ایک انسان اپنے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے حسین بن علی (ع) پر قربان کرے؛ اپنی داغ دیدہ ماں کی فکر بھی نہ کرے کہ کہہ دیں کہ کم از کم بھائیوں میں سے ایک چلا جائے تا کہ والدہ کو ڈھارس ہو؛ اپنے چھوٹے بچوں کی سرپرستی کی فکر میں بھی نہ ہو جو اس وقت مدینہ میں تھے؛ یہ وہی بصیرت ہی ہے