آج امام موسی صدر نہ تو شہید ہیں کہ آپ کے لئے فاتحہ پڑھی جاسکے اور نہ ہی قید میں ہیں کہ آپ سے ملاقات کی جاسکے آنکھیں دیکھنے کو ترس رہی ہیں مگر سید کہاں ہیں؟
یہ25 اگست 1978 کا دن تھا. ایک ہوائی جہاز لیبیا کی طرابلس کے ہوائی اڈے پر اترا. امام موسی صدر اسی جہاز کے مسافر تھے. آپ کے ساتھی «شیخ محمد یعقوب» اور مشہور روزنامہ نویس «عباس بدرالدین» بھی آپ کے ہمراہ تھے. امام موسی صدر لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کی سرکاری دعوت پر لیبیا کے دورے پر آئے ہوئےتھے.
اس زمانے سے اب تک 27 سال کا عرصہ بیت چکا ہے مگر درج ذیل سوالات کا کوئی بھی اطمینان بخش جواب میسر نہیں ہے:
1. قذافی نے موسی صدر کے ساتھ کیا کیا؟
2. کیا امام موسی صدر ابھی تک جیل میں ہیں یا شہید کئے جاچکے ہیں؟
3. اگر شہید ہوئے ہیں تو آپ کا مدفن کہاں ہے اور اگر قیدی ہیں تو کس جیل میں ہیں؟
4. کیا آپ لیبیا کے شہر «تبرک» میں ہیں؟
5. کیا آپ لیبیا کے کسی صحرا میں قید ہیں؟
یہ سب ایک ایرانی نژاد لبنانی فیلسوف اور مشہور و معروف عالم دین امام موسی صدر کی زندگی اور آپ کے غائب ہوجانے کے بعد کے واقعات و حوادث پر مبنی ولایہ نیٹ ورک کی ایک ڈاکومینٹری کا موضوع ہیں جو بہت جلد آنے والی ہے.
امام موسی صدر نے انتھک محنت کرکے لبنان کی شیعہ آبادی کا احیاء کیا اور انہیں عزت و عظمت دی اور ان کو آواز عطا کی؛ وہ آواز جس کو سننے کے لئے آج دوست تو دوست، دشمن بھی بے چین رہتے ہیں. آپ نے لبنان کے شیعیان اہل بیت (ع) کو اندرونی اختلافات، خانہ جنگیوں اور دیگر سماجی مسائل سے نجات دلائی.
امام موسی صدر اور آپ کے دو ساتھی 1978 میں قذافی حکومت کے اہلکاروں سے ملنے لیبیا چلے گئے اور وہیں سے غائب ہوئے. اسی زمانے سے امام موسی صدر کی مقدر کا علم کسی کو نہیں ہوسکا ہے کہ کیا وہ زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں؟
آج امام موسی صدر نہ تو شہید ہیں کہ آپ کے لئے فاتحہ پڑھی جاسکے اور نہ ہی قید میں ہیں کہ آپ سے ملاقات کی جاسکے بلکہ ایک کمانڈر ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں اور ہماری آنکھیں آپ کے دیدار کے لئے ترس رہی ہیں مگر اتنے برس گذرنے کے باوجود آج بھی کوئی اٹھنے والے ہزاروں میں سے ایک سوال کا بھی اطمینان بخش جواب نہیں ہوسکا ہے اور اب تو ان کی شہادت کی خبریں بھی گشت کرنے لگی ہیں۔