معروف اور منکر کے معنی

Rate this item
(1 Vote)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا:

اذا امّتی تواکلت الامر بالمعروف و النّھی عن المنکر ، فلیاذنو ابوقاع من اللہ

جب میری امت امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑدے تو اللہ کی طرف سے عذاب کی منتظر رہے ۔

حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

لتامرّن بالمعروف ، و لتنھن عن المنکر ، او یستعملنّ علیکم شرارکم ، فیدعو خیارکم فلا یستجاب لھم

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضرور کرو، ورنہ فاسق ، فاجر اور شریر لوگ تم پر مسلط ہوجائیں گے، پھر تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی مستجاب نہیں ہوں گی۔

معروف اور منکر کے معنی

حضرت امام حسین (ع) نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسے عظیم فریضہ الہی کو اپنے قیام کا مقصد قرار دیا ہے۔ سید الشہداء (ع) نے اپنے وصیت نامہ میں قیامت تک آنے والوں کے تمام سوالات کاجواب خود لکھ دیا ہے ۔ اگر کوئی پوچھے کہ امام حسین (ع) نے یہ عظیم قربانی، یہ اسارتیں ، یہ شہادتیں کیوں پیش کیں؟ اور یہ معصوم بچے کیوں ذبح ہوئے ؟ ان سب سوالات کا جواب یہی ہے کہ امام حسین علیہ السلام امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتے تھے ۔

امر بالمعروف سے مراد کسی کی زندگی میں بے جامداخلت ، روکنا ٹوکنا ، کسی کے مزاحم ہونا نہیں ہے ، کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ معروف کے نام پر منکرات پھیلائے جارہے ہوتے ہیں جبکہ کبھی منکرات کے نام پر معروف سے لوگوں کو روکا جاتا ہے اس لئے کہ ایسے لوگوں کو نہ تو معروف کی شناخت ہے اور نہ ہی منکر کی پہچان ہے ، شہید تشیّع ، جناب مرتضی مطہری رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ امربالمعروف کے نام پر جتنے منکرات لوگوں نے پھیلائے ہیں کسی اور عنوان سے اتنے منکرات نہیں پھیلائے گئے ۔

حضرت امام حسین (ع) فرمارہے ہیں کہ میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنے جارہا ہوں میں ان چیزوں پر امر کرنے آیا ہوں جنہیں خدا نے اور تمہاری عقل نے تمہارے لئے تسلیم کیا ہے اور جن چیزوں سے تمہیں روکا ہے ان سے منع کرنے کے لئے نکل رہا ہوں یعنی وہ انسانی ، قرآنی ، دینی اور اسلامی اقدار جن کی ترویج کے لئے ، جن کو پھیلانے اور احیاء کرنے کے لئے ، انسانوں کے اندر متعارف کروانے کے لئے انبیاء (ع) یکے بعد دیگرے مبعوث ہوئے ، تا کہ انسانوں کی ان اقدار کی طرف رہنمائی کرسکیں، اور ان عالی اقدار کے مقابلے میں منفی صفات ، ٹھکرائی گئی صفات اور منکرات سے انسانوں کو بچاسکیں۔

پس معروف اور منکر در حقیقت دوقدروں کا نام ہے ۔ انسانی اور الہی اقدار کا نام معروف ہے منفی اقدار ، غیر انسانی صفات ، تمام برے اعمال اور صفات کا نام منکر ہے ۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اقدار کے دو حصے ہیں ایک حصہ وہ اقدار ہیں جنہیں وحی اور عقل نے تسلیم کرکے رسمیت سے پہچانا ہو ، جبکہ منکرات وہ حصہ ہیں جنہیں ٹھکرادیا گيا ہو رد کردیا گیا ہوا ورنہ ہی خدا نے تسلیم کیا ہو اور نہ ہی عقل نے قبول کیا ہو۔

لیکن کبھی ان اقدار کا نظام بدل جاتا ہے اور لوگ یہاں تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ منکر کو معروف اور معروف کو منکر سمجھنا شروع کردیتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ (ص) سے مروی حدیث میں بھی آیا ہے ۔

کیف بکم اذا رایتم المعروف منکراو المنکر معروفا

اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب معروف منکر اور منکر معروف بن جائے گا۔

قرآن کریم میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ تمام امت کے لئے قرار دیا گیا ہے لہذا امام امت کا بھی یہی فریضہ بنتا ہے کہ امام امت جب مشاہدہ کرے کہ قدروں کا نظام بدل گیا ہے امت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہو تو خود امام امت تن تنہا اس نظام اقدار کو بچانے کے لئے اقدام کرتا ہےجیسا کہ امام حسین (ع) نے یہی فرمایا کہ میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں ۔

Read 4565 times