مرحوم نے اپنے معنوي و عرفاني مقالات كے علاوہ بہت سے شاگردوں كي تعليم و تربيت بهي كي، ان كا يہ عمل بہت ہي گرانقدر ہے؛ ہم نے ان ميں سے بعض بزرگ شخصيات سے ملاقات اوران كي زيارت كي ہے: مرحوم آقائ طباطبائي، مرحوم آقائ آ سيد محمد حسن الہي – مرحوم كے بهائي- مرحوم آقائ آ ميرزا ابراہيم شريفي- جومرحوم آقائ قاضي كے داماد تهے، جو زابل ميں تهے اورآقائ قاضي كے ممتاز شا گردوں ميں سے تهے- مرحوم آقائ حاج شيخ عباس قوچاني، اور حال ہي ميں مرحوم آقائ بہجت اور ان كے علاوہ دوسرے بزرگ بهي تهے جيسے مرحوم آقائ حاج شيخ محمد تقي آملي، مرحوم آقائ شيخ علي محمد بروجردي اور دوسري متعدد شخصيات۔
رہبر معظم انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے مرحوم آيت اللہ سيد علي قاضي (رہ) كي علمي ، معنوي ، عرفاني اورعملي شخصيت كي ياد و احترام ميں منعقدہ كانفرنس كے نام اپنے پيغام ميں تاكيد كرتے ہوئے فرمايا: مرحوم آقائ قاضي دہر كے حسنات ميں سے ہيں اوربيشك بزرگوں ميں ان كي شخصيت كم نظير ہے۔
تبريز يونيورسٹي كے وحدت ہال ميں حجۃ الاسلام والمسلمين محمدي گلپائگاني نے رہبر معظم انقلاب اسلامي كے پيغام كو پيش كيا۔
بسم اللہ الرحمن الرحيم ٭
مرحوم آقائ حاج ميرزا علي آقائ قاضي كي ياد ميں سمينار كا اقدام بہت ہي خوب ، سزاواراورعمدہ اقدام ہے؛ انشاء اللہ يہ كام بہت ہي مفيد كام ثابت ہوگا۔ مرحوم آقائ قاضي – ميرزا علي آقائ قاضي – دہر كے حسنات ميں سے ہيں، بيشك مرحوم قاضي كي ممتاز علمي اورعملي شخصيت بزرگوں كے درميان اگر بے نظير نہ كہيں توكم نظيرضرورہے۔
مرحوم نے اپنے معنوي و عرفاني مقالات كے علاوہ بہت سے شاگردوں كي تعليم و تربيت بهي كي، ان كا يہ عمل بہت ہي گرانقدر ہے؛ ہم نے ان ميں سے بعض بزرگ شخصيات سے ملاقات اوران كي زيارت كي ہے: مرحوم آقائ طباطبائي، مرحوم آقائ آ سيد محمد حسن الہي – مرحوم كے بهائي- مرحوم آقائ آ ميرزا ابراہيم شريفي- جومرحوم آقائ قاضي كے داماد تهے، جو زابل ميں تهے اورآقائ قاضي كے ممتاز شا گردوں ميں سے تهے- مرحوم آقائ حاج شيخ عباس قوچاني، اور حال ہي ميں مرحوم آقائ بہجت اور ان كے علاوہ دوسرے بزرگ بهي تهے جيسے مرحوم آقائ حاج شيخ محمد تقي آملي، مرحوم آقائ شيخ علي محمد بروجردي اور دوسري متعدد شخصيات۔
اس سلسلے ميں سب سے اہم مسئلہ يہ ہے كہ ہمارے حوزات علميہ ميں ہمارےعلمي، فقہي وحكمي سلسلے ميںاور اس صراط مستقيم ميں ايك خاص الخاص طبقہ و سلسلہ موجود ہے جو سب كے لئے نمونہ عمل بن سكتا ہے جو درحقيقت چهوٹے بڑے علماء، تمام افراد اورجوانوں كے لئے بهي نمونہ عمل بن سكتا ہے۔يہ وہ لوگ ہيں جنهوں نے صرفظواہر پر ہي عمل نہيں كيا،بلكہ انهوں نےمعرفت، سلوك اور توحيد كي راہ ميں تلاش و كوشش اور جد وجہد كي اور اعلي درجات تك پہنچے اور سب سے اہم بات يہ ہے كہ انهوں نے سلوك و عرفان كي اس عظيم حركت ميں تصوف و عرفان كےبعضتخيّلاتي اور مصنوعي سلسلوں كي طرح عمل نہيں كيا بلكہ صرف شرع مقدس كے ذريعہ اسے حاصل كيا ہے۔
مرحوم آقائ قاضي كا يہي سلسلہ ، ان بزرگوں كا يہ مجموعہ ، جس كا آغاز مرحوم حاج سيد علي شوشتري سے ہوتا ہے سب كے سب طراز اول كے مجتہد تهے،يعني مرحوم آ سيد علي شوشتري جو شيخ كے شاگرد تهے اور شيخ كے سلوك و اخلاق كے استاد تهے، فقہ و اصول ميں شيخ كے شاگرد تهے اور سلوك و اخلاق ميں شيخ كے استاد تهے، شيخ ان كے پاس آتے تهے اور استفادہ اور فيض حاصل كرتے تهے ۔ شيخ كي وفات كے بعد وہ بهي مختصر مدت تك زندہ رہے ليكن اسمختصر مدت ميں شيخ نے جہاں درس چهوڑا تها وہاں سے انهوں نے پڑهانا شروع كرديا؛ مرحوم حاج سيد علي شوشتري كےدرس ميں شركت كرنے والے شاگردكہتے تهے كہ ہم نے علمي لحاظ سے شيخ اور ان كے درميان كوئي فرق محسوس نہيں كيا يعني ان كا علمي و فقہي مقام بهي اتنا ہي بلند تها، ان كے ممتاز شاگرد مرحوم آخوند ملا حسين قلي ہمداني ہيں جو عرفاني، معنوي اور سلوكي لحاظ سے بلند و بالا مقام پر فائز ہيں يعني مرحوم آخوند ملا حسينقلي كي عظمت و رفعت قابل توصيف نہيں ہے؛وہ علمي قابليت كے لحاظ سے علم فقہ و اصول ميں شيخ كے ممتاز شاگردوں ميں سے تهے؛ليكن عرفان، سلوك اور توحيد كا ان كي زندگي پر زيادہ غلبہ تها كيونكہ وہ اسراہ پر گامزن تهے، ان كے شاگرد جو مرحوم آقائ قاضي كے اساتيد تهے جيسے مرحوم حاج سيد احمد كربلائي، مرحوم حاج شيخ محمد بہاري اور ان جيسے دوسرے افراد، يہ سب وہ افراد تهے جو فقہي لحاظ سے اعلي ترين درجے پر فائز تهے؛يعني مرحوم حاج سيد احمد كربلائي ايسي شخصيت تهے كہ مرحوم ميرزا محمد تقي شيرازي اپني احتياطات كے سلسلے ميں ان كي طرف مراجعہ كرتے تهے اور وہ يقيني طور پر مرجعيت پر فائز تهے؛ ليكن وہ خود قبول نہيں كرتے تهے؛شكوہ كرتے كہ آپ احتياطات ميں ميري طرف كيوں رجوع كرتے ہيں مرجعيت قبول كرنے سے اجتناب كيا اور اسي عالم معنويت ميں رہے، ہمارے جد مرحومآقائ آسيد ہاشم نجف آبادي نے مرحوم آ سيد احمد كو ديكها تها ، درك كيا تها؛ وہ كہتے تهے كہ جب ہم رات ميں يا سحر كے وقت مسجد سہلہ كي طرف جاتے تهے يا واپس آتے تهے ، راستے ميں آ سيد احمد كا گهرپڑتا تها تو گهر سے مرحوم كے رونے كي آواز آتي تهي، ان لوگوں كے معنوي حالات اس قسم كے تهے۔
خوب، مرحوم آقائ قاضي بهي ان كے شاگرد ہيں البتہ مرحوم قاضي اپنے باپ مرحوم آقائ آ سيد حسين كے بهي شاگرد ہيں اور بعد ميں جب وہ نجف آئے تو وہاں مرحوم آ سيد احمد كے شاگرد بن گئے ، دس يا بارہ سال تك مرحوم سيد مرتضي كشميري كے شاگرد رہے ، البتہ مرحوم قاضي كے فرزند مرحوم آقائ آسيد محمد حسن نے ايك كتاب لكهي ہے جس ميں انهوں نے لكها ہے كہ مرحوم قاضي ، مرحوم سيد مرتضي كشميري كے سامنے تلمذ نہيں كرتے تهے بلكہ ان كي مصاحبت و ہمنشيني سے استفادہ كرتے تهے؛ليكن اسي كتاب يا مرحوم آقائ آ سيد محمد حسين طہراني كي كسي كتاب ميں، ميں نے پڑها ہے ابهي ميرے ذہن ميں نہيں كہ كہاں پڑها ہے، كہ مرحوم آقائ قاضي كہتے ہيں كہ ميں نے نماز پڑهنا سيد مرتضي كشميري سے سيكها ہے،آپ ملاحظہ كريں كہ ان كلمات كے كتنے گہرے اورعميق معاني ہيں۔ ہم بهي نماز پڑهتے ہيں اور خيال كرتے ہيں ہم اچهے اور بہترين انداز ميں نماز ادا كررہے ہيں، يہ بزرگ عارف كئي سال تبريزميں اپنے والد كي تربيت ميں رہے اور معنوي لحاظ سےكافي آگے بڑه چكے تهے ليكن جب نجف پہنچتے ہيں اور دس سال تك مرحوم آ سيد مرتضي كشميري كے پاس جاتے ہيں ، تو كہتے ہيں كہ ميں نے نماز ان سے سيكهي ہے، مرحوم حاج ميرزا عليآقائ قاضي كے شاگرد نقل كرتے ہيں كہ انهيں زندگي ميں سخت مالي اور اقتصادي مشكلات كا سامنا تها عيال كي كثرت تهي اور فقربهي تها ليكن جب نماز پڑهتے تهے تو پوري دنيا سے غافل ہوجاتے تهے يعني نماز ميں ذكر خدا ميں اس طرح خضوع و خشوع كے ساته مشغول اور مصروف ہوجاتے تهے كہ پوري دنيا سے فارغ ہوجاتے تهے، يہ غير معمولي گذرگاہيںخاص الخاص طبقہ و افراد كي گذر گاہيں ہيں، ہمارے لئے اس لحاظ سے حجت ہيں كہ ہم سمجه جائيں كہ يہ بهي ہے؛ يہ درجات، يہ سلوك، يہ خلوص اور يہ حركت اللہ تعالي كي راہ ميں ہے۔
يہ لوگ مكاشفات كا اظہار بهي نہيں كرتے تهے، ان سے بہت سے چيزيں نقل ہوئيں اورمرحوم آقائ قاضي كي زندگي كے عجائب كے بارے ميں منقول شدہ چيزيں مؤثق بهي ہيں اور نقل شدہ چيزيں ايك دو نہيں بلكہ كثرت سے ہيں؛ مؤثق بهي ہيں جن طرق سے نقل ہوئي ہيں وہ صحيح اورقابل يقين ہيں، ليكن يہ چيزيں ان بزرگوں كے نزديك كوئي اہم اور قابل توجہ چيزيں نہيں تهيں خود يہ بزرگ اپنے شاگردوں سے كہتے تهے؛ اگر مكاشفہ كي كوئي حالت آپ كے لئے حاصل ہوجائے اس پر توجہ نہ ديں ، آپ اپنا كام كرتے رہيں ، اپنے ذكر كو جاري ركهيں،اس خشوع كي حالت كي حفاظت كريں؛ يعني يہ ہيںان كے درجات ۔
بہر حال ايسي شخصيات كي ياد تازہ كرنا ، انهيں پہچنوانا اور ان كي معرفي بہت ہي اہم بات ہے البتہ اس بات پر توجہ ركهني چاہيے كہ ايسےافراد كي معرفي كے سلسلے ميں ماہر اور باكمال افراد سے استفادہ كرنا چاہيے۔ يعني ايسے افراد آئيں جو لفظ و زبان كے ذريعہ ان كے بارے ميں ہميں بتائيں تاكہ ہم كچه استفادہ كرسكيں ورنہ مرحوم آقائ حاج ميرزا علي آقائ قاضي اور ان جيسے افراد كے علمي و فقہي درجات تو بہت بلند ہيں ان كے بارے ميں بيان كرنا كافي نہيں كيونكہ وہ تو اعلي درجات پر فائز ہيں۔
خوب، الحمد للہ انهيں طولاني عمر بهي عطا ہوئي، انهيں بہت سي توفيقات بهي حاصل ہوئيں، انهوں نے بہت سے شاگردوں كي تربيتبهي كي،اور سلوك و عرفان كے لحاظ سے بهي وہ كم نظير ہيں يعني حقيقت ميں ان كي شخصيت ممتاز شخصيت ہے مرحوم كے فرزند مرحوم آقائ آ سيد محمد حسن نےجو كتاب لكهي ہے ميں نے اسے مكرر پڑها ہے اس كتاب ميں كچه خطوط ہيں البتہ كتاب كے متن و حاشيہ كو يكساں طور پر لكها گيا ہے اور متن و حاشيہ ميں تمييز پيدا كرنا مشكل ہے البتہممكن ہے پسماندگان كے پاس اصل متن موجود ہو، اگر توجہ كي جائے تو اس ميں چار پانچ خطوط ہيں جن ميں ايك ممكنہ طور پر آقائ طباطبائي كے نام ہے،البتہ عنوان نہيں ہے ليكن متن كو ديكه كر انسان سمجه جاتا ہے كہ يہ خط آقائ طباطبائي كے نام ہے؛ ايك خط ممكنہ طور پر مرحوم آقائ آ سيد محمد حسن الہي كے نام ہے، ايك دو خط مرحوم آ شيخ ابراہيم شريفي زابلي كے نام ہيں جو مرحوم كے داماد تهے؛ ايك خط ماہ رجب يا ذي قعدہ كے حلول كي مناسبت سےتمام شاگردوں كے نام ہے جس ميں كہتے ہيں كہ ماہ حرام شروع ہوگيا ہے اور حرام مہينوں كي اہميت كے بارے ميں كچه باتيں ذكر كرتے ہيں؛ ممكن ہے بعض خطوط دوسروں كے نام ہوں ؛ اگر آپ ان خطوط كو الگ اور جداگانہ طور پر شائع كريں توميري نظر ميں يہ كام بہت اہم يادگار كام ہوگا؛ بہر حال تمام حضرات كا سپاس گزار ہوں اور اميد كرتا ہوں كہ كام اچهي طرح جاري رہے۔
٭رہبر معظم كے پيغام كا متن آيت اللہ سيد علي قاضي كي ياد منانے والي كانگريس كے اركان كے اجتماع سے رہبر معظم انقلاب اسلامي كے خطاب سے منتخب كيا گيا ہے جو 26 /4/1391 ہجري شمسي ميں انجام پذير ہوا۔