انسانی تارخ میں ابتدا سے آج تک حق و باطل کے درمیان بہت سی جنگیں ھوئی ھیں لیکن ان تمام جنگوں میں وہ معرکہ اور واقعہ اپنی جگہ پر بے مثل ھے جو کربلا کے میدان میں رونما ھوا ، یہ معرکہ اس اعتبار سے بھی بے مثال ھے کہ اس میں تلواروں پر خون کی دھاروں نے ، برچھیوں پر سینوں نے اور تیروں پر گلوں نے فتح و کامیابی حاصل کی ، اس طرح اس جنگ کا مظلوم آج تک محترم فاتح اور ھر انصاف پسند انسان کی آنکھوں کا تارا ھے جبکہ ظالم ابد تک کے لئے شکست خود رہ اور انسانیت کی نگاہ میں قابل نفرت ھے۔
اس معرکہ میں یزید جیسے فاسق و فاجر حاکم سلطنت کے مقابل خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوٹے نواسہ سید الشھدا امام حسین علیہ السلام نے اس کی بیعت سے انکار کرتے ھوئے اپنی بغاوت کا اعلان کیا، آپ نے خود فرمایا: ”ھم اھل بیت نبوت ھیں ھم رسالت کے معدن ھیں، ھمارے گھروں میں فرشتوں کی آمد و رفت رھی ھے، خدا نے ھم سے ھی دنیا کا آغاز کیا ھے اور ھم ھی پر اس کائنات کا خاتمہ کرنے والا ھے جبکہ یزید فاسق و فاجر ھے، شراب پیتا ھے، محترم اور بے گناہ انسانوں کو خون بھاتا ھے اور کھلم کھلا گناہ اور برائیاں کرتا ھے لہٰذا میرے جیسے لوگ اس جیسے کی بیعت نھیں کرتے“ اس طرح امام حسین علیہ السلام نے اس اعلان کے ذریعہ اپنے ساتھ ماضی اور مستقبل کے تمام حق پسند انسانوں اور ایمان و حقانیت کا پرچم بلند کرنے والوں کی حیثیتوں کو واضح کرکے کسی بھی عھد میں ان کے باطل کے آگے نہ جھکنے کا اعلان کردیا۔
بظاھر اس کی بڑی سخت سزا امام حسین علیہ السلام کو دی گئی، آپ کوفہ والوں کی دعوت پر مکہ سے عراق کی طرف روانہ ھوئے، لیکن ابن زیاد جو یزید کی جانب سے کوفہ کا نیا گو رنر مقرر ھوا تھا، اس کی سفاکانہ چالوں، شدت پسندی اور مال و دولت اور منصب کی لالچ اور وعدہ وں کو فریب نیز اس کی طرف سے پھیلائے جانے والے عام خوف و ھراس نے اھل کوفہ سے تاریخ کی وہ سب سے بڑی غلطی کرائی جس کے برے اثرات عراق پر آج تک باقی ھیں، دنیا بھی اس کے مکروہ نتائج سے اب تک سرگرداں ھے ، اور مستقبل میں بھی خدا جانے کب تک اس کا شکار رھے۔
اھل کوفہ کی اکثریت نے نواسہ رسول امام حسین سے بے وفائی کی اور شام کے لشکر کے علاوہ آپ کو قتل کرنے کے لئے کربلا پھونچ گئے امام مظلوم نے اپنے ھمراہ کوئی لشکر نھیں لیا بلکہ اپنے چند باوفا ساتھیوں ، اپنے بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجو ں کے ھمراہ قربانی دی،قربان کی حکمت کی اپنی مظلومانہ روش کو اختیار کیا جواب میں ظالم اور سفاک و جری ھوگئے اور انھوں نے تین دن تک آپ پر پانی بند کرکے انتھائی درندگی کے ساتھ آپ کو آپ کے ساتھیوں اور اھل خاندان کے ھمراہ شھید کرڈالا، اس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان نام نھاد امتیوں نے رسول چشم مبارک کے بند ھونے کے چند ھی برسوں بعد آپ کے خاندان کو بڑی درندگی کے ساتھ قتل کردیا بلکہ آنحضرت کی عظمت و حرمت کو بھی امام حسین علیہ السلام کی لاش کے ھمراہ کربلا میں گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کرڈالا۔
قتل حسین مظلوم کے بعد ان کے خیموں میں آگ لگائی گئی، اور نواسہ رسول اسلام کے گھر کو بڑی بے باکی کے ساتھ لوٹ لیا گیا، رسول زادیوں کے سروں سے چادریں اتار لی گئیں اور امام حسین کے بیمار بیٹے امام زین العابدین علیہ السلام جو اس معرکہ میں بچ گئے تھے ان کے ھاتھوں اور پیروں میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں اور گلے میں طوق پہنایا گیا، اور انھیں سر برہنہ رسول زادیوں کے ھمراہ کربلا سے قید اور اسیر کرکے کوفہ اور وھاں سے شام لے جایا گیا۔
ان مقامات پر اگر چہ امام زین العابدین علیہ السلام بظاھر قیدی تھے اس کے با وجود اپنی مظلومیت کے ھمراہ اپنے باپ امام حسین علیہ السلام کی بے مثال قربانی اور ان کی مظلومیت اور ان کی حقانیت کا ھر موقع پر اعلان کرتے رھے، اور فریضہ امامت کو ادا کرتے رھے ، جس کی صرف ایک جھلک یھاں ذکر کی جاتی ھے ، کہ جب آپ کو اور ایک ھی رسی تمام اھل حرم کو باندھ کر یزید لعین کے دربار میں جھاں سات سو کرسی نشینوں کا مجمع تھا ، لایا گیا تو آپ نے یزید سے خطاب کرکے فرمایا : اے یزید یہ بتا اگر اس وقت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے دربار میں آجائیں تو وہ کھاں بیٹھنا پسند کریں گے ، تیرے پاس ، یا اپنی ان اولاد کے پاس جنھیں تو نے اس طرح ذلیل کرکے اور رسیوں میں جکڑ کر خاک پر بٹھارکھا ھے؟
لیکن مظلومیت کے اس اسیر شدہ قافلہ کی قیادت و سرداری جس شخصیت کے ھاتھوں میں تھی وہ کربلا کی شیر دل خاتون اور علی جیسے شجاع انسان کی شجاع بیٹی جناب زینب تھی ،اگر چہ آپ کا دل کربلا کے دردناک واقعہ سے ٹکڑے ٹکڑے تھا اور اپنی نگاھوں کے سامنے عزیزوں کا انتھائی سفاکانہ قتل اور اپنے عزیزترین بھائی یعنی حسین کا گلا شمر لعین کے ھاتھوں کٹتے ھوئے دیکھ کر آپ کی آنکھیں خون کے آنسو رورھی تھیں، اور خاص طور سے آپ کی بے پردگی نے آپ کو نیم جان بنارکھا تھا، اس کے باوجود آپ نے خاندان رسالت کی مظلومیت ، اپنے بھائی حسین کی حقانیت اور بنی امیہ کے ظلم و ستم کو آشکار کرنے کے کسی بھی موقع کو ھاتھ سے جانے نہ دیا۔
اھل کوفہ نے جب آل محمد کی اس بے کسی بیبیوں کی سربرہنہ اسیری نیز حسین اور ان کی اولاد اور انصار کے کٹے ھوئے سروں کو نیزوں پر بلند دیکھا تو رونے لگے اس پر جناب زینب سے ان کی ضمیروں کو جھنجھوڑتے ھوئے فرمایا: اب تم رورھے ھو ، اے اھل کوفہ تمھیں ھمیشہ رونا نصیب ھو پھلے تم نے ھی میرے بھائی کو خط لکھ کر بلایا اور جب وہ آئے تو ان کے ساتھ دغا کی اور انھیں کربلا میں تین دن کا بھوکا پیاسا قتل کرڈالا، ان کے عزیزوں کو تہہ تیغ کیا اور ان کے بچوں اور خواتین کو اسیر کرکے بازاروں اور درباورں میں پھرا رھے ھو، اور روبھی رھے ھو۔۔۔؟
جب کوفہ اور شام کے بازاروں میں ان اسیروں کی طرف صدقہ کے خرمے پھینکے جارھے تھے تو اس وقت آپ ان نادانوں سے اپنا تعارف کراتے ھوئے فرماتی تھیں: ھماری طرف صدقے کے خرمے نہ پھیکو، ھم آل محمد ھیں اور ھم پر صدقہ کھانا حرام ھے۔
اپنے بیمار بھتیجے امام زین العابدین (ع) کے ساتھ ساتھ آپ نے بھی قرآنی آیات اور احادیث رسول اکرم سے استدلال کرتے ھوئے یزید کے دربار میں ایسی تقریر فرمائی اور یزید کو اس کے ھمنواؤں کے سامنے اس طرح بے نقاب کردیا کہ وہ یزید جو اھل حرم کو پھلے دن اپنے دربار میں دیکھ کر غرور کے عالم مںی وہ اشعار پڑھنے لگا تھا جس کا مطلب تھا کہ ”بنی ھاشم نے حکومت کے لئے ایک کھیل کھیلا تھا ورنہ،نہ تو کوئی وحی آئی اور نہ کوئی رسول آیا اے کاش بدر میں قتل ھونے والے میرے بزرگ زندہ ھوتے اور دیکھتے کہ میں بنی ھاشم سے ان کے قتل کا کیسا سخت انتقام لیا ھے“ اب وھی یزید جناب زینب کے خطبوں کے سامنے بغلیں جھانکنے لگا اور اپنا الزام ابن زیاد اور شمر کے سر ڈالنے لگا، جناب زینب کے آتشیں خطبوں اور ان کی مظلومانہ فریاد نے چند دونوں میں ھی حقیقت کھول کر رکھ دی اور اھل شام کو یزید کی کرتوتوں کا پتہ چل گیا، کہ خلیفة المسلیمن بن کر وہ باغیوں کے قتل کا مرتکب ھوا ھے وہ کوئی خارجی نھیں بلکہ ان کے رسول کا نواسہ اور ان کی پارہ جگر فاطمہ زھرہ کا بیٹا ھے، اور یہ قیدی خود آنحضرت کے بچے ھیں جن کے ساتھ اس نے یہ بدسلوکی کی ھے۔ شام کی بدلتی ھوئی فضا نے یزید کو مجبور کردیا کہ وہ جلد از جلد اھل حرم کو رھا کردے اور یہ جناب زینب کی سب سے پھلی کامیابی تھی کہ آپ نے رھائی کے فوراً بعد خود یزید کے گھر یعنی شام میں اپنے بھائی کی صف عزا بچھائی، اور وہ اربعین کا دن تھا جب یہ دکھیا بہن اپنے بھائی کا چھلم کرنے کربلا پھونچی تھی اور اپنے بھائی کی قبر پر روتے ھوئے شام کی فتح کا اعلان کیا تھا۔