یہ کتاب مجھے ایک بار پھر خانہ خدا اور حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کے شوق و حسرت کی فضا میں لے گئی۔ ایسی حسرت اور ایسا شوق جس کے پورے ہونے کی امید نہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایام نوجوانی سے تا حال کبھی بھی میرا دل اس آتش شوق و حسرت سے کبھی خالی نہیں رہا۔ گھٹن کے اس سیاہ دور میں بھی جب اہل بصیرت یا بے بصیرت عالم رغبت و چاہت کے ساتھ یا سیر و سیاحت کی نیت سے بآسانی حج کے لئے جا سکتے تھے، میرے لئے یہ ممکن نہیں تھا۔ بلکہ یوں کہوں کہ کوئی بھی کارواں اور ٹور آپریٹر شاہ کی (خفیہ ایجنسی) ساواک کے خوف سے اس کی جرئت نہیں کرتا تھا کہ میرا نام اپنے عام حاجیوں کی فہرست میں شامل کرے، کارواں کے عالم دین کی حیثیت سے لے جانا تو بہت دور کی بات تھی۔ جی ہاں اس سخت دور میں بھی زیارت خانہ کعبہ اور مکہ و مدینہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قدم گاہ کا بوسہ لینے کی میری آرزو پوری نہ ہو سکی۔ یہ آرزو حالانکہ سنہ تیرہ سو اٹھاون ہجری شمسی (مطابق 1980 عیسوی) میں شہید محلاتی کے لطف سے دس روزہ سفر حج کے دوران پوری تو ہو گئی لیکن اس جذبہ شوق کی آگ کے شعلے اور بھی بھڑک اٹھے اور ان کی سوزش بڑھ گئی۔ اپنی صدارت کے دور میں میری امید یہ دور پورا ہو جانے کے بعد کے ایام سے وابستہ تھی لیکن اب۔۔۔۔۔؟ میرا جذبہ اور یہ شوق تسکین سے محروم اور میری امید تقریبا ختم ہے۔ صرف اس طرح کے سفر ناموں کو پڑھنا یا سننا تسلی کا راستہ ہے جو اس شوق کی آگ کو اور بھی شعلہ ور کر دیتا ہے۔
سفر حج کے موضوع پر ایک کتاب پرھنے کے بعد قائد انقلاب اسلامی کے تاثرات
Published in
نظریات و دینی مقالے