تمہید
جس وقت ہم ایمان و شجاعت و وفا کی بلندیوں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ہماری نظر اس بے نظیر اور برجستہ ترین شخصیت پر پڑتی ہے جسے ''عباس'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا فرزند رشید ۔ فضیلت،کمال اور جوانمردی میں جسکی مثال نہیں۔ خلوص و استقامت میں جو یکتا ہے۔ اور ہراس نیک اور انسانی خصلت جس سے انسانی کرامت وابستہ ہوا کرتی ہے ،کا مجسم پیکر ہے۔ہم نے ہمیشہ دینداری،حق طلبی ،ظلم کشی اور جانبازی کا درس اسی سے لیاہے۔آج کی مسلمان نسل اس مکتب و تحریک کی مرہون منت ہے جسکا علمبردار ابوالفضل العباس ہے ۔
اب جبکہ واقعۂ کربلا کو تقریباً چودہ صدیاں گزر چکی ہیں لیکن تاریخ اب بھی عباس کی کرامت و فضیلت سے جگمگا رہی ہے اور انکا نام وفا،ایثاراور جوانمردی کے ساتھ ذکر ہوتا ہے اورچودہ سو سال بھی عباس کی خوبصورت تصویر پر گرد و غبار بٹھانے سے قاصر رہے ہیں۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کا ایمان اور اولاد رسول ۖ کے تیئیں آپکی محبت اس قدر تھی کہ آپ ان کو اپنے بچوں سے زیادہ چاہتی تھیں۔جس وقت واقعۂ کربلا رونما ہوا مستقل کوفہ و کربلا سے آنی والی خبروں کا انتظار کرتیں۔جب کھبی اپنے کسی فرزند کی شہادت کی خبر سنتیں تو پہلے فوراً امام حسین علیہ السلام کی خیریت دریافت کرتیں ۔
عاشور وہ دن ہے کہ جب عظیم ارادوں کے حامل عظیم انسانوں نے اپنی عظمت و بلندی کو دنیا والوں کے سامنے رکھا جس سے تاریخ نے ایک نئی جان حاصل کی اور زمانے کی نبض نے کربلائی دلاوروں کے حوصلہ کے ساتھ ایک نئی حرکت کا آغاز کیا۔ کربلا ایک ایسا انسان ساز اور درس آموزمکتب بن کر سامنے آیا جہاں سے فارغ ہوئے شاگردوں نے خلوص،عہد اور جہاد کا تمغہ حاصل کیا۔عباس بھی اسی مکتب کے ایک ممتاز اور مایۂ ناز طالب علم کا نام ہے۔
اب بھی یہ عظیم درسگاہ کھلی ہے اور حق و حقیقت کے طالبوں کو اپنی آغوش میں پناہ دیتی ہے۔وفا و معرفت کی تعلیم دینی کے لئے اس درسگاہ میں ایک تجربہ کار استاد موجود ہے جسے علمدار کربلا کہتے جاتا ہیں۔جوعشق و شجاعت کی بلندیوں پر کھڑا حریت و آزادی کی راہ دکھاتا ہے۔
سرچشمۂ یقین اور کوثر ایمان تک رسائی کے لئے ہمیں مستقل راہنمائی کی ضرورت ہے۔ہماری روح و جان پیاسی ہے تو ہمارے دل مشتاق۔ اولیائے خدا جو طہارت و فضیلت کا مظہر ہواکرتے ہیں ہمیں ہماری منزل مقصود تک پہونچا سکتے ہیں۔
آئندہ سطروں میں آپ جو کچھ ملاحظہ فرمائیں گے وہ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کی شخصیت کی صرف ایک جھلک ہے۔امید ہے کہ اس بزرگوار شہید اور سردار رشیدکی یاداور اسکا نام ہمارے ذہن و زندگی کو روشنی عطا کریگا۔
عباس کو ''علمدار'' اور ''سپہ سالار'' بھی کہا جاتا ہے۔یہ لقب اس ذات کو کربلا میں علمداری کے نتیجہ میں ملا۔آپ رکاب حسینی میں لشکر حق کی سربراہی فرما رہے تھے اور خود سید الشہداء علیہ السلام نے آپکو ''صاحب لوائ'' کا خطاب دیاجو خود آپکے اس منصب کی اہمیت کا پتہ دیتا ہے۔امام صادق علیہ السلام نے ایک زیارت میں آپکو ''عبد صالح'' کے نام سے بھی یاد فرمایا ہے۔ایک حجت خدا اگر کسی شخصیت کو ''عبد صالح'' اور ''مطیع للہ و رسولہ'' کے لقب سے یاد کرے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے!
فرزند شجاعت کی ولادت
چند سال پیغمبر اکرم ۖ کی دختر گرامی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کو گزر چکے تھے۔بنی ہاشم اپنی تمام تر عزت و بزرگواری کے باوجود مظلومانہ زندگی گزار رہے تھے۔جس وقت علی اپنے دوسرے ہمسفر کی تلاش میں تھے تو عاشور کا منظر آپ کی نگاہوں کے سامنے تھا ۔حضرت امیر کے بھائی ''عقیل '' نسب شناسی میں خاصی مہارت رکھتے تھے اور قبائل عرب کی مختلف خصوصیات سے با خبر تھے۔لہٰذا آپ نے اپنے بھائی کو بلایااور ان سے کہا کہ شادی کے لئے ایک ایسی خاتون کا پتہ لگائیں جو نیک اور شائستہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر ،دلیراور شجاع خاندان سے تعلق رکھتی ہوجس سے ایک بہادر، شجاع اور دلیر فرزند کی ولادت ہو۔
کچھ دن گزرنے کے بعد جناب عقیل نے قبیلۂ بنی کلاب کی ایک خاتون کے بارے میں حضرت امیر کو بتایا جسمیں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں۔ حزام بن خالد کی بیٹی جنکا نام ''فاطمہ'' تھااور جنکے آباء و اجداد تمام بہادروں اور دلاوروں میں شمار کئے جاتے تھے۔والدہ کی جانب سے بھی نجابت،طہارت اور عظمت کی مالک تھیں۔پہلے ان کو ''فاطمۂ کلابیہ''کے نام سے پکارا جاتا تھا لیکن بعد میں ''ام البنین'' کے نام سے معروف ہوئیں یعنی بیٹوں کی ماں؛ جنمیں سے ایک ''عباس'' تھے۔
جناب عقیل اپنے بھائی کا رشتہ لیکر فاطمہ کے والد کے پاس گئے۔ان کے والد نے جناب عقیل کی درخواست کو خوشی کے ساتھ قبول کر لیا اور پورے فخر کے ساتھ ''ہاں'' کر دی اور حضرت علی علیہ السلام نے اس باعظمت خاتون کے ساتھ نکاح کیا۔فاطمہ سراسر پاکیزگی،نجابت اور خلوص کا پیکرتھیں۔شادی کے ابتدائی دنوں میں جب فاطمہ ،علی کے بیت الشرف تشریف لائیں تو حسن و حسین بیمار تھے۔آپ نے پوری عطوفت و مہربانی کے ساتھان دونوں کی تیمار داری کی۔
نقل ہوا ہے کہ جب انہیں فاطمہ کہ کر پکارا جاتا تو کہتی تھیں:''مجھے فاطمہ کہہ کر نہ پکاروتاکہ تمہاری والدہ ''فاطمۂ زہراء ''کی جدائی کا غم تازہ نہ ہو۔ مجھے اپنی خادمہ ہی سمجھا کرو۔''
اس مبارک شادی کے نتیجہ میں اللہ نے انہیں چار فرزندون سے نوازا؛ عباس ، عبد اللہ ،جعفر و عثمان اور یہ چاروں فرزند کچھ سال گزرنے کے بعد کربلا میں کام آئے اور جام شہادت نوش کیا۔ عباس ام البنین کے پہلے اور سب سے بڑے فرزندتھے۔
ام البنین کے اس پہلے فرزند کی ولادت چار شعبان ٢٦ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ عباس کی ولادت نے خانۂ علی کو ایک نئی روشنی عطا کی اور مولا کا دل امید سے سرشار ہو گیا۔چونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ کل جو کربلا سجے گی اسمیں میرا فرزند حسین کے لشکر کا علم سنبھال کر اپنی جان کو نثار کر یگا اور علی کا لخت جگرعباس،فاطمہ کے نور نظر حسین کے کام آئیگا۔
جس وقت عباس نے دنیا میں آنکھیں کھولیں،حضرت علی علیہ السلام نے ان کے کانوں میں اذان و اقامت کہی؛اللہ اور رسول کے نام سے کانوں کو آشنا کیا ،توحید ،رسالت اور دین کو پہچنوایا اور اپنے بیٹے کا نام'' عباس '' رکھا۔ولادت کے ساتویں دن اسلامی سنت کے مطابق ایک گوسفند کو عقیقہ کے طور پر ذبح کرکے گوشت فقراء و مساکین میں تقسیم کیا۔
کبھی کبھی حضرت امیر،عباس کے گہوارہ کو اپنے ہاتھ میں لیتے،ان کے ننہے ہاتھوں کی آستینوں کو اوپر کرتے اور بچے کے بازؤں کا بوسہ لیکر گریہ فرماتے ۔ایک دن ام البنین نے جب یہ منظر دیکھا تو گریہ کا سبب پوچھا۔آپ نے فرمایا : ''ایک دن یہ ہاتھ حسین کی نصرت کی خاطر جدا کر دئے جائیں گے۔اس روز کو یاد کرکے میں روتا ہوں۔''
علی کے گھر میں عباس کی ولادت جہاں ایک طرف خوشیاں لیکر آئی، وہیں کچھ غم بھی اپنے ہمراہ کئے۔خوشی اس بات کی کہ ایک مبارک فرزند گھر میں آیا ہے اور غم اس بات کا کہ آئندہ کربلا میں اس کو نہایت دشوار مراحل سے گزرنا ہے۔
عباس نے علی کے گھر میں اپنی وفادار اور باایمان والدہ کے زیر سایہ اور حسن و حسین علیہما السلام کے ساتھ تربیت پائی ۔ عترت رسولۖ اور اس پاکیزہ گھرانے سے انسانیت،صداقت و اخلاق کے عظیم درس حاصل کئے۔
شک نہیں کہ اس جوان کی فکری اور روحی شخصیت کی تعمیر میں حضرت امام علی علیہ السلام کی خاص تربیت نے ایک نمایاں کردار ادا کیا۔عباس کی اعلیٰ بصیرت اسی علوی تربیت کا نتیجہ ہے۔
حضرت عباس سلام اللہ علیہ کی ذاتی صلاحیت اور خاندانی تربیت کا اثر تھا کہ جسمانی رشد و ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معنوی کمالات کے مراحل طے ہوتے گئے جس کے نتیجہ میں آپ ایک ممتاز،شائستہ اور مایۂ ناز جوان جوان کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔صرف جسمانی طور پر ہی رشید نہیں تھے بلکہ عقل وخرد اور انسانی صفات میں بھی رشید تھے۔آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ کس عظیم روز کے لئے آپ کو پروان چڑھایا گیا ہے تاکہ اس روز حجت خدا کی نصرت کی خاطر اپنی جان نثار کر سکیں۔عباس عاشور کے لئے دنیا میں آئے تھے۔
جس وقت حضرت امیر علیہ السلام نے جناب ام البنین سے شادی کی یہ حقیقت اس وقت آپکی نگاہوں بھی۔اور اسکے بعد جب آپ بستر شہادت پر تھے اس وقت بھی آپ نے عباس کو پاس بلا کر اسی حقیقت کی یاد دہانی کرائی۔
٢١ رمضان ٤١ھ کی شب جس وقت حضرت امیر علیہ السلام اپنی عمر کے آخری لمحات گزار رہے تھے تو عباس کواپنی باہوں میں کر سینے سے لگایا اور اس دل شکستہ نوجوان سے فرمایا:''بیٹا!عنقریب عاشور کے دن میری آنکھیں تمہارے ذریعہ روشن ہوں گی؛میرے بیٹے!جب وہ عاشور آئے اور تم فرات کے کنارے پہونچو تو جبردار کہیں تم پانی نہ پے لینا در حالیکہ تمہارا بھائی حسین پیاسا ہو۔''
یہ وہ درس تھا جو عاشور کے آنے تک ہمیشہ عباس کے کانوں میں گونجتارہا۔
عباس خاندانی شرافت و نجابت کے حامل اور علی و ام البنین کے پاکیزہ سرچشمۂ کردار سے سیراب تھے۔ام البنین میں شرافت،نجابت،خلوص اور خاندان پیغمبرۖکی محبت اپنے کمال پر بھی۔خود اہل بیت کی جانب سے بھی آپ ایک خاص مقام ومنزلت اوراحترام کی حامل تھیں۔یہی وجہ تھی کہ واقعۂ کربلا کے بعد حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا آپ کے گھر گئیں اور آپکے فرزندوں کی شہادت کی خاطر تعزیت پیش کی اور یہ جناب زینب کا دستور تھا کہ آپ وقتاً فوقتاً آپ کے گھر جایا کرتیں اور آپ کے غموں میں شریک ہوا کرتی تھیں۔
جوانی کا دور
جس دن سے عباس نے اس دنیا مین قدم رکھا ،تبھی سے حضرت امیر المومنین،امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے کنارے پایا اور ان حضرات کے سایۂ عطوفت کے تلے علم و فضیلت کے سرچشمہ سے سیراب ہوتے رہے۔
چودہ سال ابوالفضل نے اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ گزارے اور یہ دور وہ تھا کہ جب امام اپنے دشمنوں سے بر سر پیکار تھے۔نقل ہوا ہے کہ عباس نے بھی بعض جنگوں میں شرکت کی ہے۔باوجودے کہ آپ کی عمر ١٢ سال سے زیادہ نہ تھی لیکن اس کے باوجود اس دور کے نامور جنگجوؤں کے مقابلہ پر آتے۔ امام علی علیہ السلام عباس ،امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کو معمولاً میدان جنگ میں جانے کی اجازت نہ دیتے ۔یہ حضرات اسلام کے مستقبل کے لئے ذخیرۂ الٰہی تھے۔عباس کے لئے بھی ضروری تھا کہ اپنے کو آئندہ رونما ہونے والے واقعۂ کربلا کے لئے آمادہ کریں۔
جنگ صفین میں آپ کی بہادری اور جاں نثاری کے بہت سے نمونے تاریخ نے نقل کئے ہیں ۔اگر ان تمام تاریخی منقولات کو صحیح مانا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب آپ کی ١٢ سال کی عمر میں وجود میں آئے ہیں۔
خود آپکے ١٣ سالہ بھتیجے قاسم بن حسن علیہما السلام نے ہی میدان کربلا میں وہ نمایاں کردار ادا کیا اور بہادری کے ایسے نمونے پیش کئے جس سے سب انگشت بدنداں رہ گئے۔آپ کے پدر بزرگوار نے بھی اپنی جوانی کے دور ان ''مرحب'' و '' عمرو بن عبدود'' جیسے نامور پہلوانوں کو جنگ خیبر و خندق میں زیر کیا۔آپکی والدۂ گرامی کے قبیلۂ ''کلاب '' ہی میں اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اجداد بھی اپنے دور کے سورماؤں اور بہادروں میں شمار کئے جاتے تھے۔درحقیقت ابو الفضل العباس شجاعت کے دو سمندروں کے ملاپ کا نتیجہ ہیں ،ایک شجاعت علوی اور دوسرا شجاعت فاطمی۔
وقت گزرا اور چالیس ہجری کا زمانہ آن پہونچاجس میں شہادت حضرت امیر علیہ السلام کا ہولناک اور دلخراش واقعہ پیش آیا۔اس وقت عباس کی عمر ١٤ سال کی تھی۔اس کم سنی میں عباس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کی کس طرح بابا کو شب کی تاریکی میں مظلومانہ دفن کیا جا رہا ہے۔ شک نہیں کہ اس ہولناک اور غم انگیز شہادت نے عباس کی حساس روح کو ایک گہرا صدمہ پہونچایا لیکن والد کے بعد حسن و حسین علیہما السلام جیسے بھائیوں کی عزت و شوکت کے زیر سایہ اپنے سفر زندگی کو جاری رکھا۔ وہ وصیت جو بابا علی نے شب شہادت عباس کو پاس بلا کر کی ،عباس اسے کبھی نہ بھولے ۔جانتے تھے کہ مستقبل قریب میں کچھ تلخ ایام کا سامنا کرنا ہے جس کے لئے کمر ہمت و شجاعت باندھنے کی ضرورت ہے تاکہ کربلا نامی منائے عشق میں اپنے کو قربان کر کے ابدیت سے ہمکنار ہوا جا سکے۔
تلخیوں سے پُر دس سال اور گزرے۔ ان سالوں میں امام حسن علیہ السلام عہدۂ امامت پر فائز ہوئے لیکن معاویہ نے اپنے چالبازیوں سے امام کو صلح کرنے پر مجبور کر دیا۔اموی ظلم و ستم اپنے عروج پر تھا۔حجر بن عدی اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ شہید کئے جا چکے تھے۔عمرو بن حمق خزاعی کو بھی جان شہادت نوش کرناپڑا۔ منبروں پر درباری ائمۂ جمعہ اور اموی نمکخوار حضرت امیر علیہ السلام کو اپنے دشنام کا نشانہ بنائے ہوئے تھے۔عباس یہ سب مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔جس وقت امام حسن نے جام شہادت نوش فرمایا اس وقت ابوالفضل کی عمر ٢٤ سال تھی اور اس عمر میں ایک اور داغ سینہ پر بیٹھا۔
جس وقت امام حسن علیہ السلام جام شہادت لئے بارگاہ خداوندی میں پہونچے ،اعزا ء و اقارب نے ایک بار پھر نبیۖ،علی اور فاطمہ کی رحلت کا احساس کیا ۔امام کا بیت الشرف نالہ و شیون کی صدائوں سے گونج اٹھا۔ عباس نے بھی اس غم کو اپنے دل میں جگہ دی۔لیکن اس کے علاوہ اور کوئی چارا نہ تھا۔لازم تھاکہ جبیں مرضیٔ الٰہی کے سامنے خم کر کے اپنے کو اس سے زیادہ تلخ لمحات کے لئے آمادہ کریں۔
جس وقت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے تابوت کو رخصت آخر کے لئے روضۂ پیغمبر ۖکی طرف لے جایا جا رہا تھا تو مروانیوں نے سمجھا کہ امام کے جنازہ کو وہاں دفن کرنے کا قصد رکھتے ہیں ،یہ سوچ کر انہوں نے بنی ہاشم کا راستہ روکا اور امام حسن مجتبیٰ کے جنازہ پر تیروں کی بوچھار کر دی۔یہ وہ موقع تھا کہ جوانان بنی ہاشم کا کاسۂ صبر لبریز ہو گیا اور وہ طیش میں آگئے۔اگر حضرت سید الشہداء ان کو صبر و ضبط کی تلقین نہ فرماتے تو زمین بدخواہوں کے خون سے رنگین ہو جاتی۔ عباس بھی ان بنی ہاشم کے درمیان موجود تھے لیکن حکم امام کے پیش نظر خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔چاہتے تھے کہ دشمن پر حملہ کریں لیکن امام حسین علیہ السلام نے ان کو امام حسن علیہ السلام کی وصیت یاد دلاکر صبر و بردباری سے کام لینے کو کہا۔
وقت گزرا اور عباس نے اپنے برادر بزرگوار امام حسین علیہ السلام کی زیر سرپرستی اپنی زندگی کے ایک اہم دور کا آغار کیا اور اس دور کے نشیب و فراز کو نزدیک سے دیکھا۔حضرت ابوالفضل نے اپنے پدر بزرگوار کی شہادت کے چند سال بعد امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی امامت کے ابتدائی دور میں عبد اللہ ابن عباس کی بیٹی ''جناب لبابہ'' سے شادی کی۔اس وقت آپکی عمر ١٨ سال کی تھی۔عبد اللہ ابن عباس امام علی علیہ السلام کے ممتاز شاگرد ،راوی اور مفسر قرآن تھے۔جناب لبابہ کی معنوی ،فکری اور علمی تربیت اسی مفسر قرآن کے ہاتھوں ہوئی۔اس مبارک شادی کے نتیجہ میں اللہ نے آپ کو دو فرزند''عبداللہ' اور ''فضل'' عطا کئے جو آگے چل کر بڑے علماء اور خادمین قرآن کے طور پر سامنے آئے۔آپکی نسل میں بھی ایسی شخصیتیں رہی ہیں جن کا شمار اپنے زمانے کے علماء اور راویان حدیث میں ہوا کرتا تھا۔ عباس میں موجود وہ نور علوی ہی تھا جس نے دین کے ایسے محافظوں کو آئندہ آنے والی نسلوں کے حوالہ کیاجو سب کے سب عالم،عابد،فصیح اور ادیب تھے۔حضرت عباس ٦١ھ میں واقعۂ کربلا کے پیش آنے تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔
ابوالفضل زندگی کے تمام مراحل میں اپنے برادر بزرگوار امام حسین کے ہمراہ رہے ور اپنی پوری جوانی کو آپکی خدمت میں گزارا۔ خود بنی ہاشم کے درمیان آپ کو ایک خاص عزت و شرف حاصل تھا۔یہ وجہ ہے کہ بنی ہاشم پروانوں کے مانند شمع عباس کے مانند حلقہ بنائے رہتے تھے۔ان جوانوں کی تعدار تقریباً تیس(٣٠) تھی اور امام حسن و امام حسین علیہ السلام کے دفاع کی خاطرہمیشہ آمادہ رہتے۔مدینہ کی محفلوں میں بھی ہمیشہ ان کے اور خاص طور پر عباس کے چرچے ہوا کرتے۔
سیرت ابو الفضل العباس
عباس کا چہرہ بھی حسین و خوبصورت تھا اور کردار بھی۔ظاہر نورانی تھا تو باطن بھی درخشاں۔گویا صورت آپکی سیرت کا آئینہ تھی۔ابو الفضل کا جمال اور آپکی نورانی شخصیت باعث بنی کہ آپ کو ''قمر بنی ہاشم'' کا نام دیا گیا۔
شجاعت و دلاوری کو اپنے پدر بزرگوار سے میراث میں حاصل کیا اور کرامت ،بزرگواری،عزت نفس اور پاکیزہ کردار میں قبیلۂ بنی ہاشم کے آئینہ دار تھے۔چہرے کی درخشش عبادت ،شب زندہ داری اور اللہ کی بارگاہ میں خضوع و خشوع کی حکایت کرتی۔ایک ایسے مرد میدان جو خدا کے عاشق ا ور اسکی راز و نیاز سے مانوس۔
مستحکم، استوار اور ایک آہنیں قلب کے مالک تھے۔آپکی فکر روشن،عقیدہ استوار اور ایمان راسخ تھا۔توحید اور محبت خدا سے پورا وجود لبریز تھا۔ آپکی عبادت اور خدا پرستی کا یہ عالم تھا کہ شیخ صدوق کے بقول سجدوں کے نشانات آپ کی پیشانی پر ہویدا تھے۔
عباس کا ایمان،بصیرت اور وفا اس قدر مشہور اور زباں زد خاص و عام تھا کہ ائمہ علیہم السلام بھی ہمیشہ ان صفات کا تذکرہ فرماتے اور انہیں ایک انسان کامل اور نمونۂ عمل کے طور پر پیش کرتے۔ایک روز امام سجاد علیہ السلام کی نظرحضرت عباس کے فرزند ''عبید اللہ ''پر پڑی تو آپ گریہ فرمانے لگے اور اسکے بعد آپ نے حضرت پیغمبر ۖ کے چچا جناب حمزہ اور اپنے عم بزرگوار حضرت عباس کو اس طرح یاد فرمایا:
''پیغمبراکرم ۖپر کوئی دن اُحد کے دن سے زیادہ سخت نہ تھا۔اس روز آپ کو چچا حضرت حمزہ علیہ السلام نے جام شہادت نوش کیا۔اسی طرح حسین بن علی علیہما السلام پر بھی عاشور سے زیادہ کوئی اور دن سخت نہ گزرا۔اس دن آپ تیس ہزار کے لشکر کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے اور دشمن کا خیال یہ تھا کہ فرزند رسول کو مارکر وہ اللہ سے نزدیک ہو سکتا ہے۔آخر کار بجائے اس کے کہ حضرت سید الشہداء کی خیر خواہانہ نصیحتوں کو سن کر باز آتے، ان کو شہید کر دیا۔''
اس کے بعدآپ اپنے چچا عباس کی فداکاری اور عظمت کے بارے میں فرماتے ہیں:''خدا میرے چچا عباس پر رحمت نازل کرے جنہوں نے اپنے بھائی کی خاطر ایثار و فداکاری کی اور اپنی جان تک کی بازی لگادی۔ایسی فداکاری کہ اپنے دونوں ہاتھوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔خداوند عالم نے بھی ان ہاتھوں کے بدلے انہیں دو پر عطا فرمائے ہیں جن کے ذریعہ آپ خلد میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں۔ خدا کے نزدیک حضرت عباس کو وہ مقام و منزلت حاصل ہے کہ قیامت کے دن تمام شہداء آپ کے مقام و منزلت کو دیکھ کر رشک کریں گے۔''
امام صادق علیہ السلام حضرت عباس کی بصیرت،معرفت اور حق و ولایت کی پاپندی کو سراہتے ہوئے یوں ارشاد فرماتے ہیں:''کان عمنا العباس نافذ البصیرة صلب الایمان،جاھد مع ابی عبداللہ (ع)و ابلی بلائاً حسناً و مضی شہیداً؛ ہمارے چچا عباس نافذ بصیرت اور استوار ایمان کے مالک تھے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ جہاد کیا ، مرحلۂ امتحان کو بخوبی سر کیا اور آخرکار شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔''
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صرف ایک شجاع علمدار نہ تھے بلکہ آپ کی شخصیت علمی،اخلاقی اور تقوائی خصوصیات سے بھی لبریز تھی۔آپکو میدان فقاہت میں بھی ایک خاص مقام حاصل تھااور راویوں کے نزدیک مورداعتماد و اطمینان فرد تھے۔بعض بزرگ علماء آپ کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:''عباس اولاد ائمہ میں موجود فقہاء اور دین کی شناخت رکھنے والوں میں سے ایک تھے۔آپ عادل،باتقویٰ،موثق و مطہر تھے۔''مرحوم قاینی فرماتے ہیں:''عباس فقہائے اہلبیت کے اکابرین اور فضلاء میں سے ایک تھے،بلکہ آپ ایسے عالم تھے جس نے کسی غیر کے سامنے زانو ئے ادب تہہ نہ کئے تھے۔''
حضرت عباس کے عظیم افتخارات میں ایک یہ ہے کہ آپ اپنی عمر میں ہمیشہ امامت و ولایت اور خاص طور پر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں سرگرم رہے۔حضرت ابوالفضل امام حسین علیہ السلام کی بنسبت وہی مقام رکھتے تھے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو پیغمبر کی بنسبت حاصل تھا۔
ایک دانشمند نے کچھ اس طرح سے باپ اور بیٹے کے درمیان موازنہ کیا ہے:
''عباس نے اپنے پدر کی طرح بہت سے میدانوں میں شجاعت وجوانمردی دکھائی۔ عباس اُسی طرح حسین کے پشت پناہ تھے جیسے علی پیغمبر کے۔ عباس نے میدان کربلا میں صبر و استقامت ،شجاعت،قوت بازو،ارادہ و ایمان...کا اسی طرح مظاہرہ کیا جس طرح علی میدان جنگ میں کیا کرتے تھے۔جس طرح سے علی روٹی اور خرما کی بوریوں کو اپنے کاندھوں پر لاد کر یتیموں اور مسکینوں کے لئے لے جاتے اسی طرح عباس بھی اپنے بھائی کے ہمراہ اور انکے کہنے پر مدینہ کے بہت سے فقراء کا پیٹ بھرتے۔جس طرح سے علی دربار نبوی ۖ کے باب الحوائج تھے اور در نبی پر آنے والا ہر شخص پہلے علی کو پکارتا اسی طرح عباس دربار حسینی کے باب الحوائج تھے۔اس طرح کہ کوئی محتاج اگر در حسین کا رخ کرتا تو پہلے عباس کو آواز دیتا۔اگرعلی نے شب ہجرت بستر نبی پر لیٹ کر پیغمبر ۖ کی راہ میں فداکاری کی تو عباس نے بھی اطفال حسینی کے لئے پانی لانے کی خاطر فداکاری کی۔علی نے رکاب پیغمبر ۖ میں شمشیر چلائی تو عباس نے رکاب حسین میں رزمی جوہر دکھائے۔جس طرح علی میدان جنگ میں تنہا دشمن کے مقابلہ پر جاتے اسی طرح عباس بھی ایک شب کی مہلت لینے کے لئے تنہا خیام عدو کی جانب گئے۔
القاب کے آئینہ میں
انسان کے نام کے ساتھ ساتھ اس میںموجوداخلاقی اور علمی صفات بھی اسے دوسروں سے ممتاز بناتے ہیں۔انہیں خصوصیات کی وجہ سے اسے کچھ القاب بھی دے دئے جاتے ہیںجن کے ذریعہ اسکو پکارا اور یاد رکھا جاتا ہے۔
جس وقت حضرت عباس کے القاب کو دیکھتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک آپ کی شخصیت کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بعض القاب آپکی زندگی ہی میں آپ کو دئے گئے لیکن بعض دیگر القاب سے شہادت کے بعد آپکو نوازا گیا۔
کبھی کبھی ایک نام یا لقب کتنا حسین ہو جایاکرتا ہے!اس وقت کہ جب وہ اسم اپنے مسمیٰ کے ساتھ ہماہنگ ہو جائے اور صاحب لقب واقعی طور پر اس لقب کا حقدار قرار پائے۔
امیر المومنین کے اس فرزند رشید کا نام ''عباس'' تھا چونکہ وہ میدان جنگ میں شیر کی طرح حملہ آور ہوتا اور اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتا۔ایسے غضبناک شیر کی طرح میدان کارزار میں اترتا کہ دشمن خوف و ہراس میں ڈوب کر لرز اٹھتا۔
ابوالفضل ،عباس کی کنیت ہے۔اس کی دو وجہ ہیں ؛ایک یہ کہ آپ کے ایک فرزند کا نام فضل تھا۔دوسرے یہ کہ آپ حقیقتاًفضیلت و نیکی کے باپ تھے ۔فضیلتیں اور نیکیاں آپ کے ہاتھوں پروان جڑھتی تھیں۔
آپکے القاب میں سے ایک ''ابو القریة'' یعنی مشک کا باپ بھی ہے۔چونکہ آپ بچپن سے ہی مشک کو اپنے دوش پر رکھ کر بنی ہاشم کے درمیان سقائی فرمایا کرتے تھے اس لئے آپکو یہ لقب عطا کیا گیا۔ ''سق'' بھی آپکے القاب میں سے ایک ہے یعنی پیاسوں اور بچوں کے لئے پانی لانے والا۔خاص طور پر کربلا کے سفر کے دوران کاروان حسینی کا منصب سقایت آپ ہی کو حاصل تھا اور آپ ہی خیام حسینی کے پیاسوں کے لئے پانی کا انتظام فرماتے تھے۔جب سات (٧) محرم کو اصحاب حسینی پر دشمن کی طرف سے پانی بند کر دیا گیا،آپ اپنے ساتھ چند افراد کو لے کر فرات کی طرف گئے اور دشمن کی صفوں کو چیر کر پانی لاکر خیموں تک پہونچایا۔آخر کار ١٠ محرم ؛عاشور کے دن آپ پیاسے بچوں کے لئے پانی لانے کی کوشش میں جام شہادت نوش فرماتے ہیں۔
عباس ہاشم،عبد المطلب اور ابوطالب کی اس مبارک نسل سے ہیں جس میں سبھی حاجیوں کے لئے سقایت کے فریضہ کو انجام دیا کرتے تھے۔حضرت امیر علیہ السلام نے بھی صرف اسی لئے بہت سے کنویں کھودے تاکہ پیاسے باآسانی سیراب ہو سکیں۔جنگ صفین میں بھی علی نے پانی پر قبضہ کر لینے کے بعد بھی معاویہ کے لشکر کو پانی پینے کی اجازت دی تاکہ علوی جوانمردی کا ایک اور نمونہ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہو سکے۔عباس بھی اسی گھرانہ اور خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت کا نام ہے۔
آپکو ''قمر بنی ہاشم'' کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔اس لئے کہ آپ بنی ہاشم کے درمیان نہایت جذاب اور خوبصورت چہرہ کے مال تھے اور چودھویں کے چاند کی طرح دورے ہاشمی ستاروں سے ممتاز رہتے۔
آپ '' باب الحوائج'' کے نام سے بھی مشہور ہیں۔آپکا حرم مبارک حاجتمندوں کا قبلہ ہے۔ آپ کی ذات سے توسل حاجات کی برآوری کا ضامن ہے۔اپنی حیات کے دوران بھی باب رحمت،درحاجت اور چشمۂ کرم تھے اس طرح کہ اگر کوئی ضرورتمند کبھی در حسین پر آتا تو عباس کے ذریعہ ہی وارد ہوتا اور آج شہادت کے بعد بھی ان لوگوں پر آپکی خاص عنایت رہتی ہے جو آپ کے نام کا سہارا کیا کرتے ہیں اور خداونعالم بھی آپکے ایمان،ایثار اور شہادت کے طفیل میں حاجتمندوں کی حاجتوں کو پورا کرتا ہے۔کم نہیں ہیں وہ لوگ جن کی جھولیاں آپ کے در پر آکر پُر ہوئی ہیں اور انکی حاجتیں ساحل مراد سے تک ہونچی ہیں۔متعدد کتابوں میں آپکی ایسی بہت سی کرامات کو جمع کیا گیا ہے ۔
علمدار،لشکر حسینی کا سپہ سالار،صاحب لوائ،مواسی(فداکاری کرنے والا)، طیّار اور عبد صالح آپکے دیگر القاب ہیں۔تقریباً سولہ(١٦) القاب آپکی ذات کے لئے ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک آپکی شخصیت کے ایک خاص گوشہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔
پوری زندگی حضرت عباس اپنے امام زمانہ کے لئے سپر بنے رہے اور کبھی حضرت سید الشہداء سے جدا نہ ہوئے۔ایک سائے کے مانند امام کے ساتھ رہتے۔ باوجودیکہ آپ خود علم ،تقویٰ ،پرہیزگاری،شجاعت اور فضیلت میں منزل کمال پر تھے اور ایک قابل مثال نمونۂ عمل سمجھے جاتے لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنی شخصیت کو اپنے امام کی شخصیت میں فنا کر دیا تھا۔اس طرح آپ اپنے کردار سے''ولایت کی اطاعت'' کا عملی درس دوسروں کا دیتے۔ ٣شعبان المعظم کو امام حسین علیہ السلام کی ولادت اور ٤ شعبان کو خود آپکی ولادت ہوناخود یہ ایک ایسا لطیف نکتہ ہے جو اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
چونکہ بات آپکے القاب کے سلسلہ میں ہے اس لئے ہم یہاں پر ائمہ علیہم السلام کی زبان مبارک سے ملے آپ کے کچھ القاب کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
امام صادق علیہ السلام آپکی ایک زیارت میں آپ کو خطاب کرکے فرماتے ہیں:''سلام ہو آپ پر اے عبد صالح ! خدا ،رسول،امیر المومنین،امام حسن و حسین علیہم السلام کے مطیع و فرمانبردار۔خدا کو گواہ قرار دے کر کہتا ہوں کہ آپ نے اسی راہ کا انتخاب کیا جسے بدر کے شہداء نے چنا تھا...''۔
زیارت ناحیہ میں امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف آپکو خطاب کرکے یوں فرماتے ہیں:''سلام ہو ابو الفضل ،امیر المومنین کے فرزند پر!وہ کہ جس نے اپنی جان اپنے بھائی پر قربان کر دی...جس نے خود کو حسین پر فدا کیااورمستقل حسین کی نگہبانی میں مشغول رہا،وہ کہ جسکے بازو قلم کر دئے گئے...''۔
شجاعت و وفا کا مظہر
وفاداری کے بغیر نہ شجاعت کی کوئی حیثیت ہے ،نہ ہی شجاعت کے بغیر وفاداری کاکوئی خاص فائدہ ہے۔راہ حق میں فرض شناس،وفادار اور ایک بہادر انسان کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔میدان جنگ میں ایسی بہادری کی ضرورت ہوتی ہے جس میں وفاکا رنگ پایا جاتا ہو۔یہ صفت کامل طور پر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے فرزند میں موجود تھی۔آپ ذاتی شجاعت اور موروثی شہامت کے حامل تھے۔عباس کے بابا علی نے شجاعت کو ایک نیا مفہوم عطا کیااور خود عباس نے بھی اسی کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دیا۔
میدان عاشورا ،شجاعت عباسی کے کی نمائش کے لئے بہترین اور مناسب ترین میدان تھا۔عاشور کے دن وفائے عباس اپنے عروج کی آخری منزل پر تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ کی شجاعت پر ''اطاعت امام'' کا پہرا تھا۔امام کی طرف سے آپکو کچھ ایسی سنگین ذمہ داریاں سپرد کی گئیں جن کے ہوتے ہوئے آپ کو یہ موقع بخوبی نہ مل سکا کہ آپ اپنی شجاعت کے آتش فشاں کو دشمن کے خون سے خنکی عطا کر سکیں۔کربلا میں آپکا گوہر شجاعت ،فانوس اطاعت میں قید ہوکر دنیا والوں کو حکم امام کے آگے بغیر چوں چرا کے سر جھکا دینے کاعظیم درس دے رہا تھا۔
آپ کی شجاعت کے بعض مناظر جو کربلا میں دیکھنے کوملے ،ان سے بخوبی آپکی بے نظیر شجاعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔لیکن اس سے بڑھ کرمظلومیت و تشنگی کے ساتھ آپ کی وفا نے فرات کے کنارے جوہنر نمائی کی اس سے بشریت انگشت بدنداں رہ گئی۔
امام علیہ السلام کی بنسبت آپکی اطاعت و وفا ایک مثال یہ ہے کہ آپ کبھی امام حسین علیہ السلام کے سامنے آپ کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھتے اور وہ بھی ایک غلام کے مانند! عباس امام حسین کے لئے بالکل ایسے ہی تھے جیسے حضرت امیر حضرت پیغمبرۖکے لئے ۔جب کبھی امام کوآواز دیتے تو ہمیشہ ''یاسیدی''،''یا ابا عبداللہ'' یا ''یابن رسول اللہ'' کہہ کر خطاب فرماتے ۔
کربلا میں آپکی شجاعت کی ایک مثال کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں:
''روز عاشور،''مارد بن صدیق'' جو لشکر یزید کے سرداروں اور سورماؤں میں سے ایک تھا اور صرف اپنے برابر والوں کے ساتھ جنگ کیا کرتا تھا،جنگ کے لئے آمادہ ہوا اور ہتھیاروں سے لیس ،لال رنگ کے مرکب پر سوار ہو کر عباس سے جنگ کی غرض سے میدان میں آیا۔اس سے پہلے کہ جنگ کا آغاز ہو ،(یہ سوچ کر کہ عباس پر رحم کرکے انہیں ایک موقع دے دیا جائے تاکہ وہ میدان چھوڑ کر چلے جائیں)عباس سے چاہا کہ تلوار کو زمین پر رکھ کر میدان سے واپس چلے جائیں۔اسکے بعد بلند آواز میں رجز خوانی کرنے لگا تاکہ عباس پر رعب و وحشت طاری ہو جائے۔لیکن ابوالفضل پر اسکا کوئی اثر نہ ہوا۔ آپ رجزخوانی کے ذریعہ اسکا جواب دیتے ہوئے اپنے کچھ افتخارات کا تذکرہ کیا۔اسکے بعد یکایک آپ اسکی طرف آگے بڑھے اور ایک شدید جھٹکے کے ساتھ نیزے کو اسکے ہاتھ سے چھین کر اسے زمین پر دے مارا اور اسی نیزہ سے اس پر ایک ضرب لگائی۔سپاہ دشمن نے چاہا کہ ''مارد'' کو عباس کے ہاتھوں سے نجات دلائی جائے ...شمر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھا تاکہ ''مارد'' کو میدان جنگ سے باہر لے جایا سکے،لیکن عباس نے اس سے پہلے ہی اسکا کام تمام کر دیا اور شمر کے کچھ ساتھیوں کو بھی واصل جہنم کیا۔
لشکر حسینی میں حضرت ابو الفضل العباس کا وجود جہاں دشمن کے لئے باعث رعب و وحشت تھا وہیں اطفال، اصحاب حسینی اور اہل حرم کے لئے قوت قلب اور اطمینان کا باعث تھا۔جب تک عباس زندہ تھے اس وقت تک اہل حرم اور بچے آسودہ خاطر اور مطمئن ہوکر سو جاتے چونکہ انہیں معلوم تھا کہ ابو الفضل نامی ایک شیر کی آنکھیں رات میں ان کی خاطربیداررہتی ہیں۔
عباس اور کربلا
چونکہ ہمارا ہدف کبلا کے آئینہ میں عباس کو پہچنوانا ہے اس لئے ہم کچھ اینے واقعات آپ کے سامنے پیش کریں گے جو حضرت ابو الفضل کے ، ایمان و وفا، اطاعت و جوانمردی، بصیرت و یقین اور راہ حق میں آپکی استقامت کی تصویر کش کرتے ہیں۔
سات محرم کا دن ہے۔چند روز ہیں کہ کاروان شہادت نے سرزمین کربلا پر اپنے خیمے لگا رکھے ہیں۔کوفے کے لشکر نے پانی کو اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں کہ پانی خیام حسینی تک جائے۔یہ حکم کوفہ کی جانب سے آیا ہے تاکہ پیاس کے ذریعہ حضرت سید الشہداء کو سودا کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
شمر بن ذی الجوشن جو لشکر یزید کا پلید ترین اور خبیث ترین جرثومہ تھا اور اہل بیت کی بنسبت شدید کینہ رکھتا تھا،آگے بڑھتا ہے اور پیاس کی بات کرتے ہوتے امام کو طعنہ دیتے ہوئے کہتا ہے:''مرتے دم تک تمہیں پانی نصیب نہیں ہوگا!''۔
حضرت عباس نے امام سے سوال کیا:''کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟'' امام نے فرمایا:''یقینا ہم حق پر ہیں۔
اسکے بعد آپ نے ان ملعونوں پر حملہ کیا اور انہیں فرات کے کنارے سے دور کھدیڑا۔پھر اصحاب امام نے پانی حاصل کیا اور اپنی پیاس بجھائی۔
لیکن اسکے بعد پھر فرات پر محاصرہ شدید ہوا اور پانی کا دوبارہ حاصل کرنا سخت ہو گیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیاس اور پانی کی قلت کی خیام حسینی میں آشکار ہونے لگی ۔خاص طور پر بچوں پر پیاس کا شدید غلبہ تھا۔ایسی صورتحال میں سب کی نظریں عباس پر لگی تھیں تاکہ کسی طرح پانی حاصل کرکے اس بحران سے نجات دلائیں۔حضرت سید الشہداء علیہ السلام نے عباس کے کاندھوں پر پانی لانے کی ذمہ داری رکھی۔عباس نے بنی ہاشم اور دیگر اصحاب کے درمیان سے تیس افراد کو اپنے ہمراہ لیا اور ٢٠ افراد پیدل آپکے ساتھ ہوئے ،ان سب کو لے کر آپ نے فرات کا رخ کیا۔پرچم کو ''نافع بن ہلال'' کے ہاتھوں میں دیا۔ فرات کا کنارہ دشمنوں کے حصار میں تھا۔ضروری تھا کہ ایک ایسا حملہ ترتیب دیا جائے جس سے دشمن کو پانی کے قریب سے ہٹا جا سکے اور اسکے بعد مشکوں کو پر کر کے انہیں کیام تک پہونچایا جا سکے۔
عباس اپنے مختصر سے لشکرکے ساتھ فرات کے کنارے پہونچے۔ مشکوں کو پانی سے بھرکر فرات سے باہر نکلے۔واپسی کے وقت فرات کے نگہبانوں نے انکا راستہ روکنا چاہاتاکہ پانی خیام حسینی تک نہ پہونچ سکے۔نتیجہ یہ ہوا کہ ٹکراؤ شروع ہو گیا ۔کچھ لوگ ان سے لڑائی میں مشغول ہوئے اور باقی لوگوں نے پانی لے جاکر خیموں تک پہونچایا۔ عباس لڑنے والے گروہ میں تھے ۔
یہ پہلا ٹکراؤ تھا جو لشکر حسینی اور لشکر کفر کے درمیان ،فرات کے کنارے وجود میں آیا۔
امان نامہ
خیموں کی پشت سے ایک آواز امام حسین علیہ السلام کے کانوں سے ٹکرائی۔شمر ملعون کی شیطانی آواز جو پکار کر کہہ رہا تھا:''کہاں ہیں ہمارے بھانجے؟ اسکے بعد اس نے عباس اور آپکے تین بھائیوں کو پکارا ۔یہ ملعون ان حضرات کے لئے امان نامہ لیکر آیا تھا۔
اس سے پہلے بھی ایک بار حضرت ابو الفضل کے ماموں نے ابن زیاد سے آپکے لئے امام نامہ لیا تھا لیکن آپ نے اسکو ادب کے ساتھ لوٹا دیا تھا۔ اس بار پھر شمر امان نامہ لیکر آیا تاکہ عباس اور انکے بھائیوں کو لشکر حسینی نے جدا کر سکے۔
حضرت عباس علیہ السلام نے پہلے تو اسکی بات پر کوئی توجہ نہیں دی اور اسے بالکل نظر انداز کر دیا،اس لئے کہ آپ اسکے مقصد کو پہچانتے تھے۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:''عباس اگرچہ یہ شخص فاسق ہے لیکن اسکی بات کا جواب دو۔دیکھو کیا چاہتا ہے''۔
حضرت عباس اپنے تین بھائیوں کے ساتھ خیمے سے برآمد ہوئے ۔ شمرلعیں نے وہ امان نامہ جو اس نے ابن زیاد سے لے رکھا تھا ،اسے عباس کے سامنے رکھا اور کہا:''اگر حسین سے جدا ہوکر ہماری طرف آجائو تو تمہاری جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔'' یہ سن کر عباس کے چہرہ کا رنگ غصہ سے سرخ ہو گیا۔چلا کر اس سے فرمایا:''خدا کی لعنت ہو تجھ پراور تیرے امان نامہ پر!اے کاش کہ تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں! تو مجھ سے چاہتا ہے کہ میں فرزند زہراء سے جدا ہو کر پست ولعین کی اطاعت کا طوق اپنی گردن میں ڈالوں؟! تو ہمارے لئے امان لایا ہے در حالیکہ فرزند رسول کے لئے کوئی امان نہیں ہے؟!''ایک دوسری مقام یوں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:''اللہ کی امان ،عبید اللہ کی امان سے بہتر ہے۔''
اس طرح وہ پلید شخص ناکام ہو کر واپس چلا گیا۔شمر چاہتا تھا کہ عباس کو لشکر حسینی سے جدا کرنے کے ذریعہ ان کے لشکر کو کمزور اور لشکر یزید کو قوت بخشے۔عباس ایک ایسے نامور مرد میدان کا نام ہے جس کا وجوداصحاب حسینی کے لئے قوت قلب کا باعث تھا۔اب جب کہ شہادت کا سنہرا موقع قریب آن پہونچا ہے یہ کیسے ممکن ہے عباس فرزند زہراء کو چھوڑ کر اپنے کو ابدی سعادت سے محروم کر لیں؟!
شمر اس طرف گیا اور عباس امام کی طرف آئے۔اس وقت زہیر نے عباس سے کہا:''چاہتے ہو کہ ایک واقعہ تمہارے لئے بیان کروں اور ایسی بات تم کو بتاؤں جو میں نے خود اپنے کانوں سے سنی ہے؟'' حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا:کہو۔
اس وقت زہیر نے اس واقعہ کے بارے میں عباس کو بتایا جس میں حضرت علی علیہ السلام نے ایک شجاع خاتون سے نکاح کرنے کی بات اپنے بھائی حضرت عقیل کے سامنے رکھی۔اس کے بعد کہا:''تمہارے والد نے اسی دن کے لئے تمہاری خواہش کی تھی۔ لہٰذا کہیں ایسا نہ ہو کہ آج تم اپنے بھائی کی حمایت سے محروم رہ جاؤ!''
عباس سلام اللہ علیہ جواب میں فرماتے ہیں:''اے زہیر ! تم چاہتے ہو کہ آج میری حوصلہ افزائی کرو؟! خدا کی قسم !آج وہ کر دکھاؤ گا جو تم نے ہرگز نہ دیکھا ہوگا ایسی جنگ کروں گا جو کسی نے نے نہ دیکھی ہوگی...