شھید برھان الدین ربانی افغانستان کی متعہدترین اور متخصص ترین شخصیتوں میں تھے جنکا اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ دیرینہ دوستانہ روابط تھے جسکا اندازہ شھادت سے دو دن پہلے تہران میں منعقدہ بین الاقوامی اسلامی بیداری کانفرنس میں ولی امر مسلمین حضرت امام خامنہ ای کے ساتھ ملاقات سے بھی آشکار تھا ۔
شھید برھان الدین ربانی ۱۹۴۰ میں مرکز ولایت بدخشان افغانستان کے فیض آباد نامی شھر میں پیدا ہوئے ۔ وہ افغانستان میں استاد ربانی اور پروفسر ربانی کے نام سے مشھور تھے ۔
وہ ۱۹۶۳ میں دانشکدہ شرعیات (الھیات کالج) فارغ ہوئے اور ۱۹۶۸ کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے مصر چلئے گئے اور وہاں الازھر یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔ وہ مصر میں اخوان المسلمین کے افکار سے متاثر ہوئے ۔
۱۹۵۷ میں دانشگاہ شرعیات کابل میں دوسرے اساتذہ جیسے غلام محمد نیازی، سید محمد موسی توانا، وفی اللہ سمیعی(ظاہر شاہ حکومت کا آخری عدلیہ وزیر)،استاد محمد فاضل، عبدالعزیز فروغ، سید احمد ترجمان کے ہمراہ ھدایت نہضت جوانان مسلمان کو قائم کیا اور ۱۹۷۲ میں غلام محمد نیازی کے استعفی دینے پر اس تحریک کی قیادت کو شھید ربانی نے جمعیت اسلامی افغانستان کے نام سے سنبھالی ۔
محمد داوود خان کی۱۹۷۳ میں بغاوت کے ساتھ تحریک اسلامی افغانستان کے اعضاء کہ جنہیں اخوانی کہا جاتا تھا حکومت وقت جو کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان سایہ تلے چل رہے تھے کے دباو میں آگئے ۔ جن فوجی افسروں نے محمد داوود خان کو بغاوت میں مدد کی تھی وہ کمیونسٹ پارٹی افغانستان سے تعلق رکھتے تھے جو کہ اس زمانے میں اور ڈیموکریسی کی دہائی کے مخالف گنے جاتے تھے کہ جنکا مدارس ، یونیورسٹیوں اور علمی مراکز اور حکومتی اداروں میں آپسی اختلاف رہتا تھا ۔ حکومت ان کے ہاتھ آنے سے ، خاص کر وزارت داخلہ جو کہ پیپلز پارٹی کا ممبر تھا،نے اسلامی افکار رکھنے والے جماعتوں کے خلاف وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔
۱۹۷۴ میں شھید ربانی اور دیگر اسلامگرا کارکنان کہ جنکے پیچھے داوود خان کی حکومت لگی ہوئی تھی افغانستان سے نکل کر پاکستان چلے گئے جہاں ذولفقار علی بھٹو کی حکومت تھی اور پشتونستان مسئلے کو لے کر پاکستان کے روابط افغانستان کے ساتھ ٹھنڈے تھے اسلئے پاکستان میں انکی خوب آو بھگت ہوئی اور انہوں نے اسلامی تحریک کے مہاجروں کے مسلح کرنا شروع کیا تاکہ داوود خان کی حکومت کا تختہ پلٹ سکیں لیکن اسلامی تحریک کے بعض قائدین از جملہ شھید ربانی داوود خان کے خلاف عسکری تحریک چلانے کے مخالف تھے اور حکومت پاکستان کے ساتھ بعض اسلامی جماعت کے نزدیک روابط ہونے کی وجہ سے مہاجرین پر دباو بڑھایا گیا اور شھید ربانی پاکستان سے سعودی عرب چلے گئے ۔
انکی جماعت حکومت مخالف مضبوط ترین سیاسی جماعت تھی ۔ یہ جماعت معتدل تھی اور قائم ہونے سے لیکر ہی مصر کی اخوان المسلمین سے متاثر تھی ۔
شھید ربانی روسی حامی حکومت کے خاتمہ تک حکومت مخالف تھے اور روسی فوج کا افغانستان سے انخلا اور حکومت افغان مجاھدین کے سپرد کرنے کے حامی تھے ۔
مجاھدین کی کامیابی اور ۲۸ جون۱۹۹۲ میں نجیب اللہ احمدزی کی حکومت کا خاتمے پر افغانستان کے موقت صدر جمہور منتخب ہوئے اور صدر جمہور کو انتخاب کرنے کا اختیار شورای اھل حل و عقد جو کہ بعد میں لویی جرگہ سے جانا جانے لگا اسے شھید ربانی نے قائم کیا تھا جس میں زیادہ تر جمعیتی تھے ۔
شورای حل و عقد نے ۳۰ دسمبر۱۹۹۲ کو شھید برھان الدین ربانی کو افغانستان کے مجاھدین حکومت کا صدر جمہور منتخب کیا ۔
مجاھدین حکومت پر ۲۶ستمبر ۱۹۹۶ کو شدید حملات ہوئے اور حکومت طالبان کو منتقل کی گئی لیکن شھید ربانی جس نے مرکزی حکومت کو مزار شریف منتقل کیا ہے ابھی افغانستان کا باقاعدہ صدر جمہور تسلیم کیا جاتا تھا اور آہستہ آہستہ ملک پر انکی کمانڈ ڈھیلی پڑ گئی اور ملک کے صرف ۱۰ فیصد پر حکومت فرما رہے ۔
افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان کی شکست کے ساتھ بن کانفرنس میں احمد کرزائی کو موقت صدر جمہور منتخب کیا گیا اور شھید برھان الدین ربانی نے ۲۲ دسمبر۲۰۰۱ کو باقاعدہ اجلاس میں حکومت کو افغانستان کے موقت ادارے کو سونپ دیا ۔
صدر جمہور کے لئے منعقدہ الیکشن میں شھید ربانی نے حامد کرزائی کی حمایت کی جوکہ منتخب ہوکر کامیاب ہوگئے ۔
انہوں نے پارلمنٹ الیکشن میں ولایت بدخشان سے پہلے نمایندے کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری آراء کے ساتھ پارلمنٹ سیٹ جیت لی ۔
شھید ربانی نے ۲۰۰۷ میں جہادی اور کمیونسٹ جماعتوں کے سربراہوں پر مشتمل ایک فرنٹ قائم کیا جس کے بارے میں سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فرنٹ افغانستان کے سب سے بڑا اور مہم فرنٹ ہے ۔
شھید ربانی شھادت کے وقت افغانستان پارلمنٹ ممبر اور افغانستان امن کونسل کے سربراہ تھے ۔
احمد ضیاء مسعود نایب صدر جمہور افغانستان اور افغانستان کے نامور کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے شھید برھان الدین ربانی کی شریک حیات کے بھائی ہیں ۔
بین الاقوامی سٹیج پر انکی آخری حاضری تہران میں منعقدہ بین الاقوامی اسلامی بیداری کانفرنس تھی جس میں ولی امر مسلمین حضرت امام خامنہ ای اور عالم اسلام کے دیگر سیاسی اور مذھبی قائدین کے ساتھ انکی تصویریں ذرائع ابلاغ کے توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی ۔
وہ عالمی مجلس برای تقریب مذاھب اسلامی کے عمومی اجلاس کے ایکزیکٹیو ممبر تھے اور مجلس تقریب کی طرف سے ایران اور ایران سے باہر منعقدہ متعدد کانفرنسوں میں شرکت کرتے تھے ۔