آیۃ اللہ میرزا نائینی کا نام محمد حسین ہے آپ کے والد شیخ الاسلام میرزا عبدالرحیم نائینی تھے آپ نے 1861 میں نائين شہر میں عالم و فاضل گھرانے میں آنکھ کھولی ۔
آیۃ اللہ نائينی نے اپنے وطن میں ہی ابتدائي تعلیم حاصل کی اس کے بعد سترہ سال کی عمر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لۓ اصفھان چلے گۓ آپ نے سات سال تک اصفھان میں تعلیم حاصل کی ،اصفھان کے بعد نجف اشرف کا رخ کیا اور نجف میں مختصر قیام کے بعد سامرا چلے گۓ اس زمانے میں سامرا میں آیۃ اللہ سید محمد حسن شیرازی صاحب فتوی تحریم تنباکو ،آیۃ اللہ سید اسماعیل صدر اور آیۃ اللہ سید محمد طباطبائی فشارکی اصفھانی مقیم تھے ۔
آیۃ اللہ نائينی نے ابتدا میں آيۃاللہ فشارکی اور آیۃاللہ صدر کے دروس میں شرکت کرنا شروع کیا اور کچہ مدت بعد ان دروس کے علاوہ آیۃ اللہ شیرازی کے درس میں بھی جانے لگے اور نو سال تک ان کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا کچھ ہی عرصہ میں آپ آيۃ اللہ شیرازی کے اھم شاگردوں اور مشیروں میں شامل ہوگۓ اور ان کے خصوصی درس میں بھی شرکت کرنے لگے ،آيۃ اللہ شیرازی کی وفات کے بعد آپ سید اسماعیل صدر کے درس میں شرکت کرنے لگے اور دو سال بعد اپنے استاد کے ساتھ ہجرت کر کے کربلا آگۓ اور آخر کار تیرہ سو سولہ ہجری قمری میں نجف اشرف آگۓ اور یہیں سکونت اختیار کی ۔
آیۃ اللہ نائینی نے نجف میں مدرسہ بکتاشیھا سے تدریس کا آغاز کیا آپ کے درس میں سیکڑوں کی تعداد میں علما و فضلا شرکت کیا کرتے تھے آخوند خراسانی (صاحب کفایہ ) کے درس کے بعد آپ کا درس سب سے بہتر مانا جاتا تھا۔
تنبیہ الامۃ
آيۃ اللہ نائينی کی یہ تصنیف وہ مشہور کتاب ہے جس میں آئينی حکومت کے نظام اور فکری پہلووں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے یہ کتاب 1327 ھ ق میں بغداد میں اور ایک سال بعد تہران میں شایع ہوئی ۔
اس کتاب کو پڑھے لکھے طبقے خاص کر علماء کے درمیان خاصی مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ برسوں بعد بھی علما کی توجہ کا مرکز بنی رہی 1954میں مرحوم آیۃ اللہ طالقانی نے اس پر مقدمہ لکھ کر اور مفید حاشیہ لگا کر تیسری مرتبہ چھپوایا۔
اس کتاب کی ابتدا میں نجف کے دو بزرگ مراجع آیۃ اللہ العظمی محمد آخوند خراسانی اور عبد اللہ مازندرانی کے تقریظ ہیں۔
مرحوم آیۃ اللہ سید محمود طالقانی اس کتاب پر مقدمے میں لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ہر ایک کے لۓ مفید ہے وہ لوگ جو حکومت کے بارے میں اسلام اور اھل تشیع کے نظریات جاننا چاھتے ہیں انہیں اس کتاب میں اسلام اور بالخصوص اھل تشیع کے تفصیلی نظریات مل جائیں گے آیۃ اللہ نائینی نے اپنی اس کتاب میں آئینی حکومت اس کے اصول اور مخالفین کو ان کے اعتراضات کا مکمل جواب دیا ہے ۔
یہ کتاب علما و مجتھدین کے لۓایک استدلالی اور اجتھادی کتاب ہے اور اجتماعی مسائل کے سلسلے میں عوام کے لۓ رسالہ عملیہ کا حکم رکھتی ہے ۔
معاصر مفکر شھید مطہری لکھتے ہیں کہ انصاف یہ ہے کہ کسی نے بھی علامہ نائینی کی طرح توحید عملی، اجتماعی اور سیاسی کو قرآن و نھج البلاغہ سے ماخوذ محکم دلیلوں سے بیان نہیں کیا ہے ۔
ایران میں انقلاب مشروطہ (آئينی انقلاب ) کے بعد افراتفری کے عالم اور بعض حادثات سے تنگ آکر نیز حکمران طبقے کی من مانیوں کو دیکھتے ہوۓ آیۃ اللہ نائينی نے اپنی کتاب بازار سے اٹھوالی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ انہوں نے اپنے نظریات پر بھی نظر ثانی کی ہو بلکہ انہوں نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ موقع پرست عناصر اس بے مثال کتاب سے غلط فائدہ نہ اٹھانے پائيں ۔
ڈاکٹر سید محمد ثقفی علامہ نائینی اور تحریک مشرطیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "آیۃ اللہ نائینی ان اھم شخصیتوں میں سے ہیں جنھوں نے آئینی حکومت کی واضح تصویر پیش کی ہے انہوں نے کتاب تنبیہ الامۃ و تنزیہ الملۃ لکھ کر اسلامی مشروطہ حکومت کے اصول عالمانہ طریقہ سے بیان کۓ ہیں اور اصول سیاست اسلامی نیز آئين تدبیر حکومت کو واضح کیا ہے ۔
علامہ نائينی کی اس کتاب کو اسلامی حکومت کے بارے میں مجتھد و فقیہ کی لکھی ہوئی پہلی علمی کتاب کہا جاسکتا ہے آيۃ اللہ نائينی نے اس کتاب کو مشروطہ حکومت کے حامیوں اور اس حکومت پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں لکھا ہے انہوں تحریک مشروطہ اور تاریخ اسلام میں ظلم و استبداد کے خلاف جدوجھد کے بارے میں کافی تفصیل سے لکھا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں علامہ نائینی اپنے زمانے کی سیاست سے پوری طرح آگاہ تھے اور وہ بڑی طاقتوں کے خطروں اور ان کے مد نظر مفادات سے بخوبی واقف تھے ،اسلام اور علما اسلام کے بارے میں فریدون آدمیت کی تنگ نظری اور کینہ پروری سے سب آگاہ ہیں تاہم انہوں نے آیۃ اللہ نائینی کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ نائینی حوزوی علوم میں مھارت رکھنے کے علاوہ حکمت عملی پر بھی عبور رکھتے ہیں اپنے زمانے کے سیاسی حالات سے بخوبی واقف ہیں اور مشروطہ حکومت کے دور اول کے مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہیں اسلامی ملکوں پر مغرب کی یلغار کا انہیں شدت سے احساس ہے اور ان کے قومی جذبات حیرت انگیز ہیں سیاسی امور پر ان کی تنقیدیں مستحکم اور مدلل ہوتی ہیں خلاصہ یہ کہ وہ پرھیزکار اور بزرگوار تھے۔
علامہ نائینی کی علمی شخصیت کے بارے میں موافق اور مخالف متفق نظر آتے ہیں سب کا کہنا ہے کہ وہ اصول و فقہ کے علاوہ فلسفہ و سماجیات و حکمت عملی پر عبور رکھتے تھے اور اس زمانے میں شایع ہونے والے جرائد پر نظر رکھتے تھے اسی تبحر علمی کی بنا پر انہوں نے نۓ میدانوں میں قدم رکھا اور مشروطہ حکومت اور استبدادی نظام کی وضاحت کی ۔
آیۃ اللہ طالقانی کے مطابق مرحوم نائینی کی کتاب تنبیہ الامۃ گرچہ مشروطہ حکومت کے جواز میں لکھی گئی ہے لیکن اس میں اسلام کے سیاسی احکام اور اسلامی حکومت کے کلی اھداف بیان کۓ گۓ ہیں ،انہوں نے اپنی اس کتاب میں آئينی تحریک کی ابتدا میں علماء اسلام کے مد نظر اس اسلامی حکومت کے خدوخال واضح کۓ ہیں جس کے ذریعے وہ ظلم و استبداد کا خاتمہ کرکے عدل وانصاف اور اسلامی قوانین کو نافذ کرنا چاھتے تھے۔
آیۃ اللہ نائينی کی نظر میں اھل مغرب اور مغرب پرست افراد کے برخلاف اسلامی حکومت تھی انہوں نے گرچہ اپنے زمانے کی رائج سیاسی اصطلاحات استعمال کی ہوں لیکن ان ہی الفاظ کے سہارے انہوں نے صدر اسلام سے ظلم ستم اسکی ابتدا اس کے پرپگینڈوں کے منفی اثرات اور بنی امیہ کے ہاتھوں خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہونے اور بنی امیہ کی حکومت کے سراسر ظلم و ستم پر استوار ہونے پر واضح دلیلیں دی ہیں اور جس مشروطہ حکومت کی تصویر پیش کی ہے وہ پوری طرح سے اسلامی قوانین پر مبنی ہے ، مرحوم نائینی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ "عادل و منصف اور قوم کے مفادات کا تحفظ کرنے والی حکومت قائم کرنے کی بہترین راہ یہ ہے کہ ایک ایسا شخص حکومت کا سربراہ ہو جو عصمت نفسانی کا مالک ہو تاکہ احکام خداوندی اور شریعت اسلامی سے ذرہ برابر انحراف نہ کرسکے ۔
اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ جب تک ایسی حکومت تشکیل نہ پاجاۓ مندرجہ ذیل امور پر توجہ کرنی چاہیے
الف قانون سازی
ب عقلاء کی نگرانی
آیۃ اللہ نائينی نے حکومت کی دو قسمیں بیان کی ہیں
الف :استبدادی حکومت :انہوں نے جھل و نادانی اور ملت و حکومت کے حقوق سے عدم واقفیت کو ظلم و استبداد کا سرچشمہ قرار دیا ہے،وہ لکھتے ہیں اس شجرہ خبیثہ (ظلم واستبداد ) کا سرچشمہ حکومت و قوم کے حقوق کے بارے میں قوم کی جہالت ہے اور اسی بناپر حکومتی اداروں میں عوام کے خلاف ظلم بڑھتا جاتا ہے ۔
ب: حکومت قانون :اس حکومت کے لۓ آیۃ اللہ نائينی کی نظر میں آیئن کی ضرورت ہے جس میں عوام کی فلاح و بہبود اور بادشاہ کے اختیارات محدود کرنے کے لۓ قوانین وضع کۓ گۓ ہوں اور جس کے تحت قوم کی علمی اور خیرخواہ شخصیتیں مل بیٹھ کر ملک کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں یعنی قومی پارلمنٹ وجود میں آۓ ۔
آیۃاللہ نائينی کی نظر میں مساوات
آيۃ اللہ نائينی پرآئینی حکومت کے حامی مسلمان و کافر کو مساوی قرار دینے کا الزام لگاتے ہیں اس مغالطے کا جواب وہ اس طرح دیتے ہیں کہ قانون مساوات اسلامی سیاست سے ماخوذ وہ مبارک قانون ہے جو عدل وانصاف کی اساس اور تمام قوانین کی روح ہے شارع مقدس نے اس قانون پر اس لۓ تاکید کی ہے کہ ہر حکم ہر موضوع و عنوان پر بطور قانون اور بطور کلی مرتب ہو،اور عمل درآمد کے موقع پر تمام مصادیق و افراد پر مساوی طریقے سے لاگو ہو شارع نے اس قانون کے تحت ذاتی امور کو قطعا ملحوظ نظر نہیں رکھا ہے اور نہ کسی کو کسی کا حق سلب کرنے، کسی کے جرم سے چشم پوشی کرنے اور نہ رشوت ستانی اورنہ من مانی کی گنجائش رکھی ہے ۔
اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کے تمام افراد خواہ حکمران طبقہ ہو یا عوام ہوں وہ سب قانون کے سامنے برابراور مساوی ہیں ۔
آیۃ اللہ نائينی نے ان لوگوں کو بھی مستحکم جواب دیا ہے جو مادر پدر آزادی اور لاقانونیت کو مساوی سمجھتے تھے آیۃ اللہ نائینی کہتے ہیں کہ آزادی تمام قوموں کا مشترکہ ھدف ہے خواہ وہ دین دار ہوں یا بے دین ۔
آیۃ اللہ نائینی کی نظر میں آزادی دین داری کے منافی نہیں ہے اور وہ مذھبی اقلیتوں کو جیسے یہودیوں اور عیسائیوں کو ملک کی ترقی وپیشرفت نیز ٹیکس کی ادائيگی میں شریک کرنے اور حکام سے باز پرس کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے بلکہ اسے صحیح اور منطقی تصور کرتے ہیں ۔
تفکیک قوا
آیۃ اللہ نائينی کا نظریہ ہے کہ ملک کے انتظامی اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں الگ الگ رہنا چاہیے اور قانون کے مطابق اپنے فرائض بخوبی انجام دینے چاہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ مورخین کے مطابق یہ کام ایرانی بادشاہ جمشید نے کیا تھا اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے بھی ملک اشتر کو مصر کا گورنر مقرر کرتے وقت اس امر کی تاکید فرمائی تھی ،کتاب کے آخر میں آیۃ اللہ نائينی نے ان لوگوں کا جواب دیا ہے جو آئين کی تدوین کو بدعت سمجھتے ہیں ۔
عالم اسلام کی یہ عظیم شخصیت کئی دھائيوں تک اسلام و مسلمین کی خدمت کرنے کے بعد بروز ھفتہ چھبیس جمادی الاول تیرہ سو پچپن ھ ق مطابق انیس سو چھبیس عیسوی کو نداے حق کو لبیک کہتے ہوے اپنے معبود حقیقی سے جاملی اور اسے جوار رحمت حق میں ابدی سکون مل گیا ، آیۃ اللہ نائينی نجف اشرف میں مولاے کائنات کے حرم مقدس کے صحن مبارک میں سپرد خاک کیا گیا ۔