شیخ محمود شلتوت

Rate this item
(0 votes)

شيخ محمود شلتوت ٥شوال ١٣١٠ ھ ق مصر کے ايک صوبہ ’بجيرہ‘[١] ضلع ’ ايقاي البارود‘‘ کے ايک گاوں ’’ منشاۃ بني منصور‘‘ کے ايک عظيم الشان علمی اور ادبی گھرانے ميں پيداہوئے ، آپ کے والد’’ شيخ محمد ‘‘نے اس نومولود کا نام محمود رکھا اور اسکي تعليم و تربيت ميں کوئي کسر نہيں چھوڑي ۔

تحصيل کي شروعات

ابھي محمود کي عمر کے سات سال گذرنے نہ پائے تھے کہ باپ کا سايہ سر سے اٹھ گيا۔ چچا ’ شيخ عبد القوي شلتوت‘ نے اپنے بھتيجے کي سرپرستي اپنے ذمہ لے لي، محمود ميں ذہانت ، نبوغ اور درخشاں استعداد کے آثار شروع ہي سے نمایاں تھے ، جب ان آثار کو چچانے ديکھا تو گاوں ہي کے ايک مکتب ميں علوم اسلامي اور معارف کي تحصيل کے لئے بٹھاديا۔

چونکہ مصر کے مکتب خانوں کے قوانين ميں سے ايک قانون يہ بھي تھا کہ عربی ادب کے شروع کرنے سے پہلے پورے قرآن کو حفظ کرنا ضروري تھا لہذا محمود نے کچھ ہي عرصہ ميں پورا قرآن حفظ کرڈالا۔

اعلی تعلیم

شيخ محمودنےعلم کے اعليٰ درجات حاصل کرنے کے لئے ١٣٢٨ ھ ق مطابق ١٩٠٦ ئ ميں شہر اسکندريہ کي طرف ہجرت کي اور اسکندريہ يونيورسٹي [٢]ميں داخلہ لے ليا۔

محمود کي ذہانت اور بے مثال استعداد کود يکھ کر اسکندريہ يونيورسٹي کے تمام اساتذہ اور طلاب حيرت زدہ تھے ، پڑھائي کے لئے دل و جان سے محنت کي اور ١٣٤٠ ق مطابق ١٩١٨ ميں اسکندريہ يونيورسٹي کي عالي سند حاصل کرلي اور انہيں بہترين طالب علم ہونے کا ايوارڈ ملا حالانکہ ابھي عمر کے کل ٢٥ سال ہی گذرے تھے۔

انہوں نے ١٣٤١ ھ مطابق فروري١٩١٩ ميں اپني تعليم کو پايہ تکميل تک پہنچایااور اسي يونيور سٹي ميں استاد کي حيثيت سے مشغول تدريس ہوگئے۔

شيخ محمود شلتوت کي طالب علمی اور تدريس کا زمانہ ’’ سعد زغلول‘‘ کي رہبري ميں مصر کي عوامي تحريک کا زمانہ تھا ، مصر کے سارے شہروں اور ديہاتوں میں سعد زغلول[٣] کي حمايت اور مصر پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے ،ان حالات کو ديکھ کر شيخ محمود شلتوت نے بھی اپنا انقلابي وظيفہ نبھاتے ہوئے زبان اور قلم سے مصر کي عوامي تحريک ميں حصہ ليا۔

الازہر يونيورسٹي ميں داخلہ

شيخ محمد مصطفي مراغي عقيدہ کے اعتبارسے شيخ محمود شلتوت کے ذہن پر چھائے ہوئے تھے ١٣٦٠ ھ مطابق ١٩٣٨ ميں الازہر يونيورسٹي کي رياست کے دوران جناب شلتوت کے مقالہ کا مطالعہ کيا اور اس کے ذريعہ ان کے قلم کے اعجاز اور عربی ادب پر مہارت کو ديکھ کر الازہر يونيورسٹي ميں تدريس کے لئے دعوت دے دي ، اس دوران شلتوت اسکندريہ يونيورسٹي ميں مشغول تدريس تھے، شيخ مصطفي مراغي کے دعوتنامہ پر لبيک کہتے ہوئے قاہرہ کا سفر کيا اور الازہر يونيورسٹي ميں استاد کي حيثيت سے مشغول تدريس ہوگئے۔

جنا ب شلتوت نے متعدد اساتيد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کيا ليکن ان تمام اساتيد ميں صرف تين اساتذہ ان کي تعليم و تربيت ميں سب سے زیادہ حصہ دار رہے ہيں:

١۔ استاد شيخ الجيزاوي : اسکندريہ يونيورسٹي ميں شيخ محمود شلتوت کے اساتيدميں سے تھے۔

٢۔ شيخ عبد المجيد سليم: استاد عبد المجيد سليم ١٣٠٤ ھ مطابق اکتوبر ١٩٨٢ ئ مصر کي سرزمين پر پيدا ہوئے ابتدائي تعليم حاصل کرنے کے بعد الازہر يونيورسٹي ميں داخلہ ليا اور ١٣٣٠ ميں وہاں سے فارغ التحصيل ہوگئے، انہوں نے اپني تعليم کوپايہ تکميل تک پہنچانے کے بعد قضاوت، تدريس اور فتواکميٹي کے رکن کی حیثیت سے اپني علمی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ان کا شمارمحمد عبدہ کے شاگردوں ميں ہوتا ہے۔

عبد المجيد سليم کا شمار’’ جماعت تقريب مذاہب اسلامي‘‘ کے بانیوں ميں ہوتا ہے بلکہ اس کے ايک اہم رکن بھي تھے ، ان کي سب سے بڑي خصوصيت صراحت اور شجاعت تھي ، انہيں اوصاف کے پيش نظر جب آپ نے ١٣٦٨ ھ ميں ديکھا کہ حکومت الازہر يونيورسٹي کے داخلي امور ميں دخالت کرنا چاہتي ہے تو فوراً اس کي صدارت سے استعفيٰ دے ديا،جب دربار حکومت کے ديوان کے رئيس نے اس طرح عبد المجيد سليم کا رد عمل ديکھا تو دھمکي دي : تم اپنے اس رويہ کي بنا پر تنبيہ کئے جاوگے ،يہ سن کر شيخ عبد المجيد نے نڈر ہوکر کہا: سن لو! جب تک ميں اپنے گھر اور مسجد کے درميان حرکت کرتا رہوں گا ،مجھے کوئي خطرہ لاحق نہيں ہوسکتا۔( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٩ ش،ص٢٤)

تقريب اور اتحاد اسلامي کے ميدان ميں عرصہ دراز تک خدمت کرنے کے بعد روز پنجشنبہ ١٠ صفر ١٣٧٤ ق ميں دار فاني کو وداع کيا۔( خفاجي، ج١، ص ٣٠٦)

٣۔ شيخ امام محمد مصطفي مراغي: مملکت مصر کے صوبہ ’’سوہاج‘‘ کے ايک شہر ’’ مراغہ‘‘ ميں ١٣٠٣ ھ مطابق مارچ١٨٨١ م کوپيدا ہوئے ، بچپنا گذرتے ہي حفظ قرآن ميں مشغول ہوگئے اور بہت جلد پورا قرآن حفظ کرليا، آپ کا شمار محمد عبدہ کے شاگردوں اور ان کے پيروکاروں ميں ہوتا ہے اور آپ کي شخصيت ان کے عقائد اور نظريات سے بے حد متآثر تھی

آپ کے بارے ميں جناب رشيد رضا کہتے ہيں: ’’ ان کا شمار محمد عبدہ کے خالص ترين شاگردوں ميں ہوتا ہے ۔( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٩ ش،ص ٢٤)

جب محمد عبدہ کو سوڈان کا سفر درپيش ہوا تو انہوں نے شيخ مصطفي مراغي کو اپنے ہمراہ لیا اور وہاں آپ نے قضاوت کي ذمہ داري سنبھال لي، جناب شيخ محمود شلتوت اپنے استاد کي تعريف و تمجيد کرتے ہوئے فرماتے ہيں: جناب شيخ مصطفي مراغي کے پاس جو کچھ علم و عقل اور افکار و نظريات تھے وہ سب شيخ محمد عبدہ کي دين تھے‘‘( احمدي، ١٣٨٣ ش ،ص٥٤)

’’ مجمع التقريب ‘‘ کميٹي کے سیکرٹری جنرل محمد تقي قمي ان کے بارے ميں اس طرح اظہارخیال کرتےہيں:’’ [امام مراغي] ايک باوقار ، بانظم اور ايک بابصيرت انسان تھے ‘‘...وہ ایمانی جوش و جذبے سے سرشارتھے اور لوگوں کو ايک نقطہ اور ايک مرکز پر لانے اور ان کے درميان رابطہ ايجاد کرنے ميں بنيادي کردار ادا کرتے تھے ، انہوں نے بعض علماء جيسے شيخ مصطفي عبد الرزاق اور شيخ عبد المجيد سليم کو میدان عمل اور اتحاد کی کوششیں کرنے کی ترغیب دلائي ۔ ( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٩ش، ٦٥)

انہوں نے اپنے بعد بطور يادگار قرآن اور معارف اسلامي کے ميدان ميں آثار چھوڑ ے جيسے ’’ الاوليائ والمحجورين‘‘ ’’ قرآن کے ترجمہ کے متعلق ايک بحث‘‘، ’’ لغوي اور دروسي مباحث کے ہمراہ سورہ لقمان ، حجرات، الحديد، اور والعصر... کي تفسير ‘‘( احمدي، ١٣٨٣ش، ص٥٤)

شاگرد

١۔ عباس محمود عقاد

عباس محمود عقاد ايک زبردست شاعر، نقاد اور مصر کے صحافیوں ميں سرفہرست تھے ، ان کي ولادت ١٣١١ ق مطابق ١٨٨٩ شہر ’’ اسوان‘‘ ميں ہوئي ، آپ کا مشغلہ صحافت تھا ليکن شعر کہنے ميں يد طولاني رکھتے تھے۔ آپ کے بيشتر آثار اشعار سے متعلق ہيں جيسے ’’ ديوان شعر، وحي الاربعين، ہديۃ الکروان و عابر السبيل‘‘ ان تاليفات کے علاوہ دو کتابيں اور ’’ عبقريۃ محمد‘‘ اور ’’ عبقريۃ عمر‘‘ اسلامي شخصيتوں کے متعلق تحرير کي ہيں۔( المنجد في الاعلام، ص ٤٧١)

٢۔ شيخ علي عبد الرزاق

 

الازہر يونيورسٹي سے کنارہ کشي

شيخ مصطفي مراغي الازہر يونيورسٹي ميں بطور اصلاح کچھ تبديلياں لانا چاہتے تھے جس کے پيش نظر انہوں نے حکومت مصر کي حمايت حاصل کرنے کے لئے اپنا پروگرام حکومت وقت کے سپرد کيا، ان کي حمايت ميں جناب شلتوت نے متعدد مضامین لکھے اور ان کے پروگرام کو الازہر يونيورسٹي کی ثقافتي اور علمي حالت کو بہتر بنانے کي راہ ميں ايک بہترين اقدام کے طور پر سراہا۔

ليکن مصر کے فاسد اور غيروں پر بھروسہ کئے ہوئے دربارنے اس کي مخالفت کي ، يہ ديکھ کر جناب مصطفي مراغي نے الازہر يونيورسٹي کي رياست سے استعفيٰ دے ديا، دربار نے آپ کا استعفيٰ قبول کرتے ہوئے ’’ شيخ محمد ظواہري‘‘ کو الازہر کي رياست سونپ دي ، شيخ محمد ظواہري ، الازہر کي رياست پانے کے بعد دربار کے مقاصد کو پورا کرنے کا ارادہ بنايا ليکن انہيں دورانديش علمائ کي مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جب ظواہري نے اپنے آپ کو مخالفتوں کے گھيرے ميں ديکھا تو انہوں نے بچاو کے لئے مخالفوں کے سربراہوں کو برخاست کرديا جن ميں شيخ محمود شلتوت بھي تھے ، جنہيں ١٣٥٣ ق مطابق ١٧ ستمبر ١٩٣١ ئ ميں برطرف کيا گيا۔

جناب شلتوت الازہر سے نکلنے کے بعد ايک لحظہ کے لئے بھي بيکار نہيں بيٹھے بلکہ اپنے شاگرد شيخ علي عبد الرزاق کو ہمراہ لے کر عدالت ميں وکالت اور اخبارات ميں مقالہ نويسي ميں مشغول ہوگئے ليکن الازہر کے متعلق اپنے نظريات سے دستبردار نہيں ہوئے اور اپنے تمام مقالوں ميں الازہر ميں اصلاحات کے لئے تاکيدکيا کرتے ۔

يونہي کچھ مدت گذري ليکن الازہر کے ذمہ دار روں کو اس بات کا احساس ہوگيا کہ بزرگ اساتذہ جيسے شلتوت وغيرہ کے نہ ہونے کي وجہ سے الازہر کي اہميت کم ہوتی جارہی ہے لہذا ١٣٥٣ ق مطابق ١٩٣٥ئ ميں دوبارہ مجبور ہو کر تدريس کے لئے دعوت دے دي لہذا اسي سال شريعت کالج ميں مشغول تدريس ہوگئے۔

علمي افتخارات

شيخ محمود شلتوت کو ان کے علمی کارناموں کی وجہ سے دوران حيات ہی متعدد بار سراہاگيآ ۔ ١٣٨٠ ق مطابق ١٩٥٨ ميں چلي کی يونيورسٹي کي جانب سے اور ١٣٨٢ ق مطابق ١٩٦٠ ميں جکارتا يونيورسٹي کي جانب سے اعزازی ڈاکٹريٹ کي سند حاصل کي ۔( خفاجي، ج٣، ص ٤٤٤)

الازہر کي صدرات

مصر کي حکومت نے دوبارہ ١٣٥٩ ق مطابق ١٩٣٧ ميں شيخ مراغي کو الازہر کي رياست سونپ دي ، شيخ محمود شلتوت کي لياقت، تدبير اور شيخ مراغي کا لگاو اس بات کا سبب بناکہ آپ کو شريعت کالج کا قائم مقام سربراہ بناديں۔

شيخ مراغي نے ١٣٧٩ ق مطابق ١٣٥٧ ئ ميں شيخ شلتوت کو الازہر کا قائم مقام صدر بناديا۔

شيخ محمود شلتوت ١٣٨٣ق، مطاق ١٩٦١ ميں مصر کے صدر کي جانب سے الازہر کے وائس چآنسلرکے عھدے کے لئے منتخب ہوئے ، انہوں نے اپني صدارت کے دوران الازہر اور اسلام کے لئے بيش بہا خدمات انجام دیں

جناب شلتوت نے الازہر يونيورسٹي کے لئے جو اصلاحي پروگرام تيار کئے تھے ، ان ميں سب سے زيادہ اہم مذہبي تعصبات کا قلع قمع کرنا تھا ، جب کسي رپورٹر نے آپ سے سوال کيا: آپ کے دور ميں الازہر يونيورسٹي کا ہدف کيا ہوگا؟

جناب شلتوت نے جواب ديا: ميرے پروگرام کا بنيادي ہدف، تعصبات سے جنگ ، علوم ديني کے متعلق ہمدلي اور مل جل کر تحقيق کرنا اورايسي راہيں تلاش کرنا جن کے ذريعہ دين و ايمان کي خدمت ہوسکے اور ہر اس دليل کا اتباع کرنا جو کسي بھي افق سے طلوع کرے۔

اگر مسلمان ان معاني کو جامہ عمل پہنا ديں تو ايک ايسي طاقت کے مالک بن جائيں گے کہ جس کے سايہ ميں چين و سکون کے ساتھ اپني عظمت رفتہ اور شوکت کو زندہ کرليں گے اور ان مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرليں گےجو تعصبات کي وجہ سے وجود ميں آئي ہيں اورمتحدہوکرزندگي گذارسکیں گے(بي آزار شيرازي ١٣٧٧ش،ص٣٥٥جمہوري اسلامي ، ١٩١٠١٣٧٩ ،ويژہ نامہ ص١٠)

الازہر يونيورسٹي کي صدارت کے دوران تين اہم کاموں ميں سے ايک کام بقيہ مذاہب اہل سنت کي فقہوں کي تدريس کے ساتھ فقہ شيعہ کي تدريس کا سلسلہ شروع کيا، اس ضمن ميں انہوںنے فرمايا:’’ تقريب بين المذاہب اسلامي کے مدنظر الازہر يونيورسٹي کے قوانين اور مقررات ميں سے ہے کہ اس يونيورسٹي ميں کسي بھي تعصب کے بغير سني اور شيعہ فقہيں دليل و برہان کے ساتھ پڑھائي جائيں‘‘( جمہوري اسلامي ، ١٩١٠١٣٧٩ ،ويژہ نامہ ص١٠)

علمي کارنامے

١۔ ’’ تحقيقات اسلامي اکيڈمي ‘‘ کي تآسيس

اس موسسہ کي بنياد شيخ شلتوت نے رکھي جس ميں تمام مذاہب کے نمائندے اکٹھا ہوتے ہيں اوراسلام کے مختلف موضوعات پر بحث کرتے ہيں۔( مردم ودين ، ص١٦)

٢۔ ہالينڈ کي کانفرنس ميں شرکت

شيخ محمود شلتوت ١٣٥٩ق مطابق ١٩٣٧ئ ميں الازہر يونيورسٹي کي نمائندگي ميں ہالينڈ ميں برپا ہونے والي عالمي کانفرنس ’’لاہہ‘‘ ميں شرکت کي اوراس ميں ايک مقالہ پيش کيا جس کا عنوان تھا ’’ المسوليۃ المدنيۃ والجنائيۃ في الشريعۃ الاسلاميۃ ‘‘ چونکہ يہ مقالہ علمي اور ادبي لحاظ سے زبردست تھا، لہذا کانفرنس کي جانب سے اسے بہت سراہا گيا اور پھر اسے بعنوان نمونہ شائع بھي کيا گيا۔

٣۔ ريڈيوپر کي جانے والي تفسير کے کميشن کے رکن

اس کميشن کا فریضہ تھا کہ مصر ميں ريڈيو پر جو قرآن کي تفسير بيان کي جاتي ہے ، اس پر نگرانی کرے ، شيخ شلتوت اس کميٹي کے ايک فعال رکن تھے اور آپ ہي کے مشورے پر صبح ميں قرآن کي تلاوت پيش کرنے سے پہلے اوراس کے بعد ’’ حديث الصباح‘‘ کے نام سے قرآن کي تفسير بيان کي جاتي تھي۔

٤۔ الازہرکي فتوا کميٹي ميں رکنیت

اس کميٹي کا سب سے بڑا فریضہ يہ تھا کہ سماج کي ضروريات کے پيش نظر فقہ کے مختلف ابواب ميں فتوے صاد ر کرے۔

٥۔ مصر کے صف اول کے علماء کي انجمن ميں رکنیت

شيخ شلتوت جس وقت اس کميٹي کے رکن بنے اس وقت اس کميٹي کے سب سے جوان رکن تھے ليکن عمر کي کمي کے باجود دوسروں کے مقابلہ ميں جب اس کے پہلے جلسہ ميں شرکت کي تو ايسے ايسے اہم مشورے دئيے کہ جسے سننے کے بعد اس کميٹي ميں شيخ عبد المجيد کي رياست کے تحت ايک دوسري کميٹي بنائي گئي تاکہ شيخ شلتوت کے مشوروں پر تحقيق کر کے اس کو عملي جامہ پہنايا جائے۔

٦۔ مغربي جرمني کي حکومت ميں متعہ کے متعلق شيخ کے نظريات

مغربي جرمنی کي حکومت نے الازہر يونيورسٹي کے رئيس شيخ شلتوت کے نام ايک خط لکھا اور درخواست کي کہ اسلامي نقطہ نظر سے تعدد زوجات کے مسئلہ کو بطور مفصل لکھ بھيجيں تاکہ وہ لوگ اس کي مدد سے مغربي جرمني کے مردوں کے لئے تعدد زوجات کے مسئلہ کو حل کرسکيں ، شيخ شلتوت نے ان کي درخواست کا مثبت جواب ديتے ہوئے ايک مسودہ تيار کيا ، يہ مسودہ انگلش، جرمن، اور فرينچ ميں ترجمہ ہوا اورا سکے متعلق کہا جانے لگا کہ اس مسودہ ميں شيخ شلتوت نے جو بحث کي ہے وہ بے مثال ہے جو مغربي جرمني ميں ازدواج اور عورتوں کي بڑھتي ہوئي تعداد کو حل کرسکتي ہے ۔( مکارم شيرازي ، اسفند ١٣٣٨ ش،ص٤٤)

٧۔ مصرمیں عربی زبان کے ثقافتی مرکز ميں رکنیت

شيخ شلتوت کے اقدامات

شيخ شلتو ت نے ١٥خرداد ١٣٤٢ ش کے واقعہ کے ٦ روز بعد ايک خط لکھا اور تمام مسلمانوں سے درخواست کي :ايراني علمائ کي حمايت کرو جو حق سے دفاع کي وجہ سے قيد خانوں ميں بند ہيں ، انہوں نے اس خط ميں علمائ کي گرفتاري اورا ن کي ہتک حرمت کو بشريت کے لئے ايک دھبہ قرار ديا اور باضابطہ طورپر شاہ ايران کے نام ٹيلي گراف بھيجا کہ علمائے اسلام کي حرمت کا خيال رکھے اور اسے پائمال نہ کرے اور جلد از جلد گرفتار کئے گئے علما اوران کے ہمراہ افراد کو آزاد کرے۔

اعلاميہ کا متن

بسم اللہ الرحمن الرحيم

ہذا بيان للناس

’’ اس دور ميں کھلم کھلا پروپگنڈے اور بے حرمتياں ہورہي ہيں جن کي قرباني ايران کے علمائ ہيں، يہ وہ غيرت مند لوگ ہيں جو لوگوں کو خدا کي طرف دعوت ديتے ہيں اور اپنے دين کي حفاظت کرتے ہيں ، ان کا جرم صرف يہ ہے کہ تعليمات الٰہي کو عام کرتے ہيں، علمائے اسلام اور ايراني علمائ نے متعدد بار شاہ ايران کے ظلم سہے ہيں اور قید کئ گئے ہيں، امر بالمعروف جو ہر غير عاجز کا وظيفہ ہے اور نہي عن المنکر جو ہر غير عاجز پر واجب ہے ، سے روکے گئے ہيں حالانکہ ان دو واجبوں پر عمل کرنے کے خيرات و برکات امت اسلام کونصيب ہوں گے اور اس کے نتائج ملت ايران کو حاصل ہوں گے ، اس لئے کہ کسي بھي قوم کي حيات اس کے اخلاق سے وابستہ ہے اور اخلاق کا محتوا دين خدا يعني احکام، آداب ،تعليمات وغيرہ سے مل کر بنتا ہے اخلاقيات کو کمال بخشنا اور اس راہ ميں معنوي راہنما اور تاثير گذار عناصر ملت کے علمائے اخلاق ہوتے ہيں جو اپني تبليغ ، رہبري اور مواعظ کے ذريعہ اس کے تکامل کي راہوں کو ہموار کرتے ہيں ۔

اے مسلمانو! ميں تمہيں آگاہ کرتا ہوں : دنيا کے تمام مسلمانوں اور ايران کي مسلمان قوم کے اوپر ہونے والے مظالم کو معمولي نہ سمجھو بلکہ پوري طاقت سے علمائے ايران کو ايران کے ڈکٹيٹر کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے مقابلہ کرو( ولاترکنوا الي الذين ظلموا فتمسکم النار و ما لکم من دون اللہ من اوليا ثم لاتنصرون) اور ظالموں پر بھروسہ نہ کرو کہ ايک دن ضرور آگ تمہارا دامن پکڑے گي ،اس وقت خدا کے سامنے بے يار و مددگار ہوجاوگے اور کوئي تمہاري مدد نہيں کرے گا۔١٨ محرم،١٣٨٣

محمود شلتوت، شيخ الازہر ، ( روحاني[زيارتي]ج١، ص ٥٣٢)

اسرائيل کو رسميت دينا

امريکہ اور انگلينڈ کي مسلسل کوششوں کے نتيجہ ميں ٨٩١٣٢٦ ش مطابق ٢٩ نومبر ١٩٤٧ئ ميں اقوام متحدہ نے فلسطين کو دوحصوں ميں تقسيم کرنے کي پاليسي پاس کردي جس کي وجہ سے فلسطين کا ايک حصہ يہوديوں کے نام اور دوسرا حصہ فلسطينيوں کے نام کردياگيا، اسي کے پانچ مہينہ کے بعد اسرائيلي حکومت کا قيام عمل ميں آيا اورا سکے وجود ميں آتے ہي بعض ملکوں نے اسے رسميت دے دي۔

محمد رضاشاہ جو امريکہ اور انگلينڈ کا سراپا غلام تھا اور اپني بقا کوانہيں کي نوکري ميں سمجھتا تھا ، اسرائيل کو تسلیم کرتے ہوئے بيت المقدس ميں سفارت خانہ کھول ديا، اس خبر کے نشر ہوتے ہي ايران کے تمام علما اور بيرون ملک رہنے والے تمام علما نے اس اقدام پر بڑا سخت اعتراض کيا ، اس وقت کے مذہبي رہبر آيۃ اللہ کاشاني نے اس اقدام کي رد ميں ايک سخت تقرير کي، عربي ممالک نے بھي شاہ ايران کو بڑا برا بھلا کہا اور علمائے اسلام سخت احتجاج کیا۔

شيخ محمود شلتوت نے بھي اسرائيل سے اسلامي ممالک کے روابط کو ٹھکراتے ہوئے شاہ ايران کي مذمت کي اور اس سلسلہ ميں آيۃ اللہ بروجردي کے نام ٹيلي گراف روانہ کيا۔

ٹيلي گراف کا متن يہ ہے :

بسم اللہ الرحمن الرحيم

خدا کا درودو سلام ہو ہمارے تمام بھائيوں اور آپ کے بھائيوں اور ايران کے شفيق علما پرنيز ان لوگوں پر بھي ہو جو مدافع اسلام اور مسلمانوں کي يکجہتي کے نگہبان ہيں، امابعد: يہ مسلم ہے کہ جناب عالي اور تمام لوگوں نے وہ اندوہناک خبرسني ہوگي جو آج کل منتشر ہوئي ہے اور يہ بھي سنا ہوگا کہ شاہ ايران نے اس اسرائيل کو تسلیم کرلیاہے جس نے سرزمين فلسطين پر غاصبانہ قبضہ کياہے، وہاں کے لوگوں کو بے گھر اوران کے حقوق کو غصب کیا ہے۔

يہ دنيا کے مسلمانوں کے لئے بڑے افسوس کا مقام ہے کہ وہ بادشاہ جو خود بھي مسلمان اورا سکي قوم بھي مسلمان ہے وہ مسلمانوں کے دشمن کي حمايت کررہا ہے اور ان کي طرف دست دوستي بڑھا رہا ہے ، ميں نے دو مرتبہ شاہ کے لئے ٹيلي گراف روانہ کيا ہے اور يہ بات گوش گذار کردي ہے کہ يہ اقدام ان لوگوں کے لئے ايک بہانہ بن جائے گا جو ان روابط کو ختم کرنا چاہتے ہيں جسے ہم محکم بنا نا چاہتے ہيں۔

يقينا آپ بھي اس اقدام سے متاثر ہوں گے اور اس کي مذمت کرنے کے لئے شدت سے کوشش کريں گے اور يقينا آپ کا کوشش کرنا اچھے نتائج کا حامل ہوگا ، آپ کے جواب کا منتظر ، والسلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کا بھائي محمود شلتوت ، شيخ الازہر ( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٩ش ص٢٦٢)

ليکن افسوس يہ ہے کہ يہ ٹيلي گراف اس وقت قم پہنچا کہ جب آيۃ اللہ بروجردي بستر بيماري پر تھے اور اسي بيماري ميں رحلت فرماگئے ، اس واقعہ سے شيخ شلتوت اپنے و ظيفہ سے دست بردار نہيں ہوئے بلکہ ايک دوسرا خط آيۃ اللہ العظميٰ محسن حکيم اعلي اللہ مقامہ( متوفي ١٣٩٠ق ) کو لکھا اور ان سے درخواست کي کہ اس کے متعلق کوئي اقدام کريں۔

شيخ محمود شلتوت کي طرف سے لکھے گئے يہ دونوں خط چند اہم نکات کے حامل ہيں:

١۔ سر زمين قدس کو آزاد کرانے کے لئے سعي و کوشش کرنا۔

٢۔ ان لوگوں سے مقابلہ کرنا جو کسي بھي طرح سے اسرائيل کي حمايت کرنا چاہتے ہيں۔

٣۔ علمائے تشيع کے ساتھ گہرا رابطہ جسے آپ کے خطوط ميں بخوبي ملاحظہ کيا جاسکتا ہے۔

٤۔ شيعہ علمائ سے مسلسل ان تمام مسائل ميں مشورہ لينا کہ جو دنيا کے مسلمانوں سے متعلق ہيں۔

جب يہ ٹيلي گراف آيۃ اللہ العظميٰ سيد محسن الحکيم اعلي اللہ مقامہ کو ملا تو فوراً آپ نے تہران ميں مقيم آيت اللہ سيد علي بہبہاني کے نام ايک ٹيلي گراف روانہ کيا اور انہيں اس ماجرا سے باخبر کيا اور آيت اللہ بہبہاني کے نام ايک ٹيلي گراف روانہ کيا اور انہيں اس ماجرے سے باخبر کيا اور آيت اللہ بہبہاني نے بھي علمائے اسلام کي ناراضگي کو شاہ کے سامنے بيان کرديا۔

اتحاد کی کوشش ۔

اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ ، شيخ محمود شلتوت کا شمار کم نظير علما سے ہوتا ہے جنہوں نے اسلامي اتحاد کے لئے ايک خاص اہتمام کيا ، ان کي نظر ميں وحدت کے تحقق کے لئے ايک ايسے مشترکہ نقطہ نظرکو حاصل کرنا ضروري ہے جس پر تمام مذاہب اسلامي متفق ہوں اور تمام مذاہب اسلامي کے درميان مشترکہ نقطہ قرآن کريم ہے ، اس سلسلہ ميں شيخ شلتوت فرماتے ہيں: ’’ اسلام نے لوگوں کو اتحاد کي دعوت دي اور وہ چيز کہ جس سے مسلمان تمسک کرسکيں اور اسکے گرد اکٹھا ہوسکيں اسے حبل اللہ کي صورت ميں پيش کيا ، يہ نکتہ قرآن کي بے شمار آيتوں ميں ملاحظہ کيا جاسکتا ہے اور ہر ايک سے زيادہ سورہ آل عمران کي اس آيت ميں واضح و وروشن ہے جس ميں خدا فرماتا ہے : ’’ واعتصموا بحبل اللہ جمعيا ولا تفرقوا‘‘ ؛خدا نے ہر قسم کے تفرقہ اور اختلاف سے منع کيا ہے جو تعصب کي بنا پر وجود ميں آنے والے تفرقہ کو بھي شامل ہے ، حديث صحيح ميں وارد ہوا ہے : ’’ لاعصبيۃ في الاسلام‘‘ دين اسلام ميں کوئي تعصب نہيں ہے ۔( روزنامہ جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص٩)

ايک دوسرے مقام پر کتاب خدا ور سنت رسول کو تمام مذاہب اسلامي کے لئے نقطہ مشترک قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:’’ اختلاف سے منع کرنا، مذہبي اختلاف کو بھي شامل ہے ، اگرچہ فقہ کے اعتبار سے مذاہب اسلامي متعددہیں اوران کے مباني متفاوت ہيں اس کے باوجود يہ سب کے سب کتاب خدا اور سنت رسول۰ سے وجود ميں آئے ہيں، مذاہب اسلامي کي کثرت اور بہت سے احکام ميں نظريات کے باہمي اختلاف کے ہوتے ہوئے بھي يہ سارے مذاہب نقطہ مشترک اور کلام مشترک کي طرف پلٹتے ہيں کہ جو مصادر اصلي پر ايمان اور کتاب خدا اورسنت رسول کو مقدس ماننا ہے‘‘ ( جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص٩)

وحدت کے اسباب

١۔ ترک تعصب

جب ايک صحافي نے شيخ محمود شلتوت سے سوال کيا: اتحاد کو قائم کرنے والے اسباب کيا ہیں؟

انہوں نے جواب ديا: پہلا سبب تعصب سے دوري اور عدل و انصاف کي رعايت کرنا ہے ، يہ ايک ايسي شرط ہے جو ديگر شرائط کے وجود ميں آنے کے لئے ايک مقدمہ ہے جيسے کہ کسي اسلامي ثقافت کا وجود ميں آنا اور نظريات و افکار سے فائدہ اٹھانا، اس مقصد کوپانے کے لئے کتابيں شائع ہوں، مجلات اور ميگزينيں منتشر ہوں، نظريات اور خيالات سے استفادہ کيا جائے ، علمي مراکز اور يونيورسٹياں ايک دوسرے سے آشنا اور اساتيد اور طلاب کا ایک دوسرے کی یونیورسٹیوں کا دورہ کریں ، برادرانہ ماحول ميں نشستيں منعقد ہوں اور ايک دوسرے کے مشوروں سے بہرہ مند ہوا جائے اور اس طرح تمام مشکلات حل کي جائيں اور مسلمانوں کے باہمي روابط کواسي طرح مستحکم کيا جائے جيسا کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فرماتے ہيں:’’ اگر امت اسلام کا کوئي يک عضودرد کرنے لگے تو ديگر اعضائ کو آرام نہ ملے ‘‘ ( جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص١٠)

شيخ شلتوت علمي محفلوں ميں جو اختلافات پائے جاتے ہيں اور عوام الناس ميں جو خشک تعصبات پائے جاتے ہيں ، ان دونوں کے درميان فرق بتاتے ہوئے فرماتے ہيں:’’ نظريات کا اختلاف فطری اور ايک اجتماعي ضرورت ہے کہ جس سے چھٹکارا ممکن نہيں ہے اور وہ اختلاف جو مذہبي تعصبات اور افکار کے انجماد کا باعث ہوتا ہے ، ان دونوں ميں بڑا فرق ہے اس لئے کہ تعصب مسلمانوں کے ربط باہمی کوتباہ کر ديتا ہے اور ان کے دلوں ميں دشمني اور نفرت کا بيج بوديتا ہے ليکن جو اختلافات حقيقت کے بعد اور مخالفوں کے نظريات کا احترام رکھتے ہوئے وجود ميں آتے ہيں وہ قابل تمجيد اور مورد قبول ہيں ‘‘( ( جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص١٠)

ايک دوسرے مقام پر بيان کرتے ہيں:’’ ہر گز کسي کے ذہن ميں يہ خيال نہ آنے پائے کہ وہ حقيقت مطلق تک پہنچ گيا ہے لہذا دوسروں پر لازم ہے کہ اس کي پيروي کريں بلکہ وہ يہ کہے کہ ميں جس نتيجہ تک پہنچا ہوں وہ صرف ايک عقيدہ اور ميري کوششوں اور ميري تحقيق کا نتيجہ ہے لہذا کسي کو يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ بے بنياد ميرا پيروکار ہوجائے بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ ميري باتوں کي حقيقت کو تلاش کرنے کے لئے دلائل ڈھونڈے، پس اگر اس کو دليل مل گئي تو ميں اس کے بعد اس کي تائيد کروںگا‘‘ ( مردم و دين ، ص١٤)

دين کے علما کا کردار

کسي بھي دين کے علما اس دين کے مقاصد کو حاصل کرنے ميں سب سے بڑا کردار ادا کرتے ہيں پس اگر اسلام کے دانشور اور علما لوگوں کو اتحاد کے فوائد اور اختلاف کے نقصانات نيز دشمنوں کے ہتھکنڈوں سے آگاہ کريں تو اسلامي اتحاد وجود ميں آجائے گا اور پھر پورا اسلام عالمي کفر کے مقابلہ ميں صف آرا ہوجائے گا۔

شيخ محمود شلتوت اتحاد اسلامي کے لئے علما کے ممتاز کردار کے پيش نظر ان سب کو اتحاد کي طرف دعوت ديتے ہوئے کہتے ہيں: ’’ ميں ايک بار پھر شيعہ اور سني علما کو نام خدا، کتاب خدا اور حبل اللہ سے تمسک کا واسطہ دے کر اتحاد کي دعوت ديتا ہوں ، اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ خدا کے نزديک وہي لوگ باکرامت ہيں جو ہر ايک سے پہلے اس مقدس ہدف کو حاصل کرليں اور اس سے پہلے انہيں اختلافات کي وجہ سے مسلمانوں کے درميان جو شگاف پڑا ہے ، اسے اور اس کے نقصانات کو ملاحظہ کرتے ہوئے ہمارے نعرہ ’’ اتحاد اسلامي ‘‘ پر لبيک کہے ۔( بي آزار شيرازي،١٣٧٩ش، ص١٨٣)

دشمن کاناجائز فائدہ اٹھانا

عالمي استکبار کي سازشوں ميں سے ايک سازش مسلمانوں کے درميان تفرقے کا بيج بونا ہے تاکہ اس کے ذريعہ وہ اپنے شرمناک مقاصد تک پہنچ سکے اور مسلمانوں کے مفادات تاراج کرسکے۔

اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ استکبار سے زيادہ کسي کو بھي مسلمانوں کے تفرقہ کو ديکھ کر مزہ نہيں آتا ، شيخ شلتوت مسلمانوں کو اس حقيقت کي طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہيں:’’ خدا نے مسلمانوں کو حکم ديا ہے کہ کلمہ وحدت کواپنا ئيں ،پارٹي بازي اور تفرقے سے پرہيز کريں جو قدرت و طاقت کو نابود کرديتے ہيں اسلئے کہ استکبار نے اسي تفرقہ کے ذريعہ بہترين نتائج حاصل کئے ہيں‘‘۔( اخبار تقريب ،ص٤٩و٥٠ ص٤١)

استعمار کو يہ پسند نہيں ہے کہ امت اسلامي متحد ہوجائے اس لئے کہ اسے اچھي طرح معلوم ہے کہ اگر يہ لوگ متحد ہوگئے تو ان کے مقاصد کے سامنے ديوار بن جائيں گے اور ہر گز اس بات کي اجازت نہيں ديں گے کہ ان کے مفادات اور ذخآئرناجائز طريقہ سے لوٹ لے جائيں ، اسي لئے وہ ہر اس اقدام کا مقابلہ کرتے ہيں جو اتحاد اسلامي کا موجب بنے، اسي سلسلہ ميں ميرزا خليل کمرہ اي مرحوم شلتوت کا ايک واقعہ نقل کرتے ہيں کہ جس سے استعمارکي سازش سمجھ ميں آتي ہے ،لکھتے ہيں:’’ ميں نے اپنے وفد کے ساتھ مصر کے سفر کے دوران دو مرتبہ شيخ شلتوت سےملاقات کي ايک مرتبہ الازہر يونيورسٹي ميں اور دوسري مرتبہ ان کے مکان پر ، ان دو ملاقاتوں ميں شيخ شلتوت نے ہمارے سامنے ايسے حقائق اور اسرار سے پردہ اٹھايا کہ جس سے بيگانوں کي مداخلت اور مشرقي ممالک بلکہ بين المذاہب روابط ميں انکے نامرئي ہاتھ اور سازشیں دکھائي دیتی ہیں انہوں نے بيان کيا کہ ’’ ميں بہت پہلے تقريباً تيس سال پہلے سے فقہ اماميہ کے متعلق جانکاري حاصل کرنا چاہتا تھا اور عراق و ايران سے کچھ کتابوں کو منگوايا ليکن ابھي تک مجھے کوئي کتاب موصول نہ ہوسکي اگرچہ استعمار کا قبضہ ختم ہوچکا ہے ليکن نہر سوئز کي فتح کے بعد آپ لوگوں کي کتابيں آنا شروع ہوگئيں اور جب ميں نے ان کا مطالعہ کياا ور حقيقت سے آگاہي کے بعدمجھ پر حجت تمام ہوگئي تو کسي بھي بات يا مقام و مرتبہ سے متاثر ہوئے بغير وہ فتوا دے ديا‘‘( بي آزار شيرازي ١٣٧٩ش،ص٩٥، ناصر الدين کمرہ اي سے منقول،ص١٧)

دار التقريب ميں شلتوت کا کردار

مصر ،شہر قاہرہ ميں تقريب مذاہب اسلامي کي کميٹي ١٣٦٠ ق مطابق ١٩٤٨ ميں مذاہب اسلامي کو متحد کرنے کے لئے وجود ميں آئي ، اس کميٹي کے اراکين علامہ محمد تقي قمي ، شيخ محمود شلتوت ، شيخ محمد مصطفي مراغي، مصطفي عبد الرزاق اور عبد المجيد سليم تھے۔

علامہ شلتوت اس کميٹي کوسراہتے ہوئے کہتے ہيں:’’ يہ تحريک’’ دار التقريب‘‘ جو مختلف اسلامي مذاہب کو متحد کرنے کے لئے چلي تھي کچھ ہي مدتوں ميں دنيا کي ايک استوار اور علمي حقيقت اور تفکرات اسلامي کي ايک تاريخ بن گئي، اس پر مسلمانوں کے درميان برادري اور محبت نيز اصلاح طلبي کي روح سايہ فگن ہوگئي تاکہ خداوند عالم کا يہ کلام محقق ہوسکے:’’ صرف باايمان لوگ ہيں جو آپس ميں دوستي کرتے ہيں ، پس اپنے بھائيوں کے درميان صلح برقرار کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ رحمت خدا کے مستحق بن سکو‘‘( مردم و دين ،ص٩)

شيخ شلتوت ’’ دار التقريب‘‘ کي فضا کو محبت اور برادري کا نام ديتے ہوئے فرماتے ہيں:’’ وہاں[دار التقريب] پر ايک مصري ، ايراني کے پاس، ايک لبناني اور عراقي، پاکستاني کے پاس بيٹھتا ہے ،وہاں پر ايک ميز کے گرد شافعي اور حنبلي ، ايک شيعہ يا زيدي کے پاس بيٹھتا ہے ، ان کي صدائيں فضا ميں گونجتي ہيں ، وہاں پر علم ، اخلاق، تصوف، فقہ اور ديگر تمام مباحث پيش کئے جاتے ہيں اور ان پر برادري ، دوستي ومحبت اور حق طلبي...کي روح حکم فرماہوتي ہے‘‘( مردم و دين ، ص١٦)

شيخ محمد تقي قمي جو ’’ دار التقريب ‘‘ کے موسس ہيں ، شيخ شلتوت کي بے نظير خدمات کے متعلق فرماتے ہيں:’’ جس زمانہ ميں استاد بزر گ شيخ شلتوت نے ہمارے ساتھ دارالتقريب کي بنياد ڈالنے کے لئے تعاون کيا ، اس زمانہ ميں وہ الازہر يونيورسٹي کے ايک عظيم استاد شمار کئے جاتے تھے ، انہوں نے مذاہب اسلامي کو متحد کرنے کے لئے اپنے دوستوں اور ہم فکر لوگوں کے ساتھ ہميشہ کوشش کی ، ايک جلسہ ميں انہوں نے يہ مشورہ ديا کہ شيعہ اور سني حضرات کو ايک تعبير ميں شامل کيا جائے، انہيں کسي فرقہ ، يا طائفہ کا نام دينے کے بدلے مذاہب اسلامي کي تعبير استعمال کي جائے اور جب الازہر يونيورسٹي کے معاون بنے تب بھي دارا لتقريب ميں مشغول رہے...‘‘ ( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٧ ش، ص٦٩)

محمد تقي قمي ايک دوسري جگہ دار التقريب اور شيخ شلتوت کي جانفشانيوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہيں:’’ شيخ محمود شلتوت ١٧ سال تک دار التقريب کےرکن رہے اور اپني عمر کے آخري پانچ سالوں ميں الازہر يونيورسٹي کي صدارت سنبھالي ليکن ان سب کے باوجود الازہر کي صدارت سے پہلے اور اس کے بعد شيعوں اور سنيوں کو ايک دوسرے سے قريب کرنے ميں کوشاں رہے ‘‘ ( ( جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص٩)

شيخ محمود شلتوت خود اپني زباني دارا لتقريب کا تاريخچہ بطور مفصل بيان کرتے ہيں کہ جس کا خلاصہ يہ ہے :’’ مسلمانوں کو اس بات پر افتخار کرنا چاہئيے کہ وہ اپنے مذاہب کو ايک دوسرے سے نزديک کرنے ميں سبقت لے رہے ہيں...ميري آرزو تھي کہ ميرے دانشمند بھائي، اصلاح پسندوں کے رہبر، محمد تقي قمي دار التقريب کا تاريخچہ تحرير فرماتے تاکہ ايسے مجاہد اوردانشور اپني زباني اس راہ ميں جن زحمتوں کے متحمل ہوئے ہيں اور جو جو فداکارياں انجام دي ہيں اور کبھي بھي ان کا تذکرہ نہيں کيا، ان سب کو بيان کرتے۔

محمد تقي قمي وہ پہلےشخص ہیں کہ جنہوں نے اس ہدف کي طرف لوگوں کو دعوت دي اور اسي کي وجہ سے اس ملک کا سفر کيا تاکہ دار التقريب کي بنياد ڈاليں ، شروع سے اس کے ساتھ ساتھ رہے ، اپني ذہانت ، علم ،اخلاص، عزم راسخ اور حوادث ايام کے سامنے صبر و تحمل کرتے ہوئے اس کي نشو و نما ميں لگے رہے ، يہاں تک کہ خدا کے لطف سے انہوں نے خود اپني آنکھوں سے اسے ايک سایہ دار درخت کي صورت ميں ديکھ ليا جو ثمر دہي ميں لگا ہوا ہے اوراس کے سايہ ميں اس ملک کے اور ديگر ممالک کے علما بہرہ مند ہورہے ہيں يا يو ں کہا جائے : کوئي ہے جو دارالتقريب کے اہداف و مقاصد اور رمز و اسرار نيز اس کي بنياد ڈالنے والے سے بخوبي واقف ہو ۔

ميں شروع سے انديشہ تقريب پر منظم پروگرام کي طرح ايمان رکھے ہوئے تھا اور اس کي پيدائش کے بعد سے آج تک اس کے تمام امور اور تقريب مذاہب کي تمام سرگرمیوں ميں حاضررہا ہوں۔

الازہر يونيورسٹي کي رياست کے دوران مجھے اتني فرصت ملي جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ريشہ دار اور اسلامي مذاہب کي فقہوں کي پيروي کے لئے جن ميں شيعہ بھي شامل ہيں ، جواز کا فتوا صادر کروں اور يہ وہ فتوا ہے جو دار التقريب ميں ہماري موافقت کے ذريعہ وجود ميں آيااور منتشر کيا گيا جس نے تمام اسلامي ممالک ميں انقلاب برپاکرديا اور ان لوگوں کي آنکھوں کو حقيقت کي طرف کھول ديا جو حق اور تقريب مذاہب کي کوشش ميں مصروف تھے ليکن دوسري طرف اس مسئلہ کو لے کربحث و مجادلہ کا بازار بھي گرم ہوگيا، مجھے اس فتوے پر پورا ايمان تھا لہذا جب بھي کوئي اس کے بارے ميں وضاحت مانگتا تو اسے تفصيلي خط لکھتا اور اس کي تائيد کرتا اور معترض حضرات کے اشکالات کا جواب ديتااوراس کي تائيد ميں جو مقالات لکھے جاتے اور تقريريں ہوتيں ان کي حمايت کرتا يہاں تک کہ مسلمانوں کے درميان يہ فتوا اصل مسلم اور ايک پابرجا حقيقت بن گيا ليکن وہ لوگ جو تعصب کا شکار تھے اور ان کي فکريں محدود تھيں وہ اپني فکر کي پستي ، فرقہ وارانہ اختلافات اور سياسي جھگڑوں ميں پڑے رہے اور اس فتوا کے متعلق شبہات اور بيہودہ باتيں کرتے رہے۔

ميري آرزو تھي کہ ان لوگوں کے سلسلہ ميں زيادہ زيادہ سے بولتا جنہوں نے اس دعوت کے لئے ايثار کيا ، وہ لوگ جنکے ساتھ ميں نے علمي مباحثہ کئے ،افکار ردو بدل کئے اور خط وکتابت کي جن ميں سر فہرست مرجع عاليقدر آقا حسين بروجردي’’ احسن اللہ في الجنۃ مثواہ‘‘ اور دوشخصيتيں شيخ محمد حسين آل کاشف الغطا اور سيد شرف الدين موسوي رحم ھم اللہ ہيں ، اگرچہ ابتدائي فضا سرزنش ، تہمت ، سوئ ظن اور بہتان وغيرہ کا شکار ہوئي ليکن تقريب بين المذاہب اسلامي ( يعني سنيوں کے چار معروف مذاہب، شيعہ اور زيدي) کميٹي کا وجود ميں آنا ايک کاميابي کي شکل ميں ظاہر ہوا اور کينہ پرور لوگوں کے غم وغصہ کا باعث ہوا ، متعصب اور متحجر لوگوں نے ہر طرف سے تقريب کي دعوت کے خلاف پروپيگنڈے شروع کردیا ، سني حضرات يہ سوچتے تھے کہ دار التقريب انہيں شيعہ بنا نا چاہتا ہے اور شيعہ حضرات يہ خيال کرتے تھے کہ ہم انہيں سني بنا ناچاہتے ہيں ، ايسے وہ تمام لوگ جو تقريب کے اہداف سے آگاہ نہ تھے يا جاننا نہيں چاہتے تھے،وہ کہا کرتے تھے :تقريب تمام مذاہب کو نابود کرنا چاہتاہے يا انہيں ايک بنانا چاہتا ہے ، ميں خدا کا شکر گزار ہوں کہ تقريب مذاہب اسلامی کي کوششیوں سے فکری اصلاح کا بھی آغاز ہوا اورمسلمانوں کے درميان گہرے اور وسيع تاثرات چھوڑے، مسلمانوں کو اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ انہوں نے اپنے عمل اور فکر کے ذريعہ کلمہ وحدت اور مذاہب اسلامي کي تقريب کے لئے ايک دوسرے سے سبقت لي ، اخلاص اور دار التقريب کے سربراہوں اور ديگر معاصر مسلمانوں کے صائب تفکرات کے ذريعہ اس راہ ميں کامياب ہوئے۔

ميں خدا کي راہ ميں اس دعوت کي کاميابي کے لئے دعا گو ہوں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کي کھوئي ہوئي عزت اور آبرو واپس لوٹ آئے اوران کے حق ميں خدا کا يہ فرمان صادق ہو ’’ کنتم خير امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر و تومنون باللہ ‘‘ تم بہترين امت ہو جو لوگوں کے لئے قيام کرتے ہو ،نيکيوں کي طرف دعوت دیتے ہو اور برائيوں سے روکتے ہو اور خدا پر ايمان رکھتے ہو۔

’’ قل ہذہ سبيلي ادعوا الي اللہ علي بصيرۃ انا و من اتبعني ‘‘ کہہ ديں: يہ ميرا راستہ ہے ، ميں اور ميرے پيروکاربصيرت کے ساتھ لوگوں کو خدا کي طرف دعوت ديتے ہيں۔

’ يا ايھا الذين آمنوا استجيبواللہ وللرسول اذا دعاکم لما يحييکم‘‘ اے ايمان لانے ولو! خدا اور اس کے رسول کي دعوت پر لبيک کہو جب وہ تمہيں اس چيز کي طرف دعوت ديں جو تمہيں زندگي عطا کرتي ہے ۔

والسلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٧ ش، ص٥٧)

شيعہ علمائ سے رابطہ

١۔ آيۃ اللہ برجردي سے رابطہ

مسلمانوں کو متحد کرنے کي راہ ميں شيخ شلتوت کے ديگر کارناموں کے علاوہ ايک کارنامہ يہ بھي تھا کہ آپ نے تمام مذاہب کے علما مخصوصاً شيعہ علمائ سے برابر رابطہ رکھا، انہيں شيعہ علما مخصوصاً آيۃ اللہ بروجردي۲ سے بڑي محبت تھي اور متعدد بار آپ کي تعظيم و تکريم کي۔

بطور مثال : جب آپ کو معلوم ہو اکہ محمد تقي قمي ايران جانا چاہتے ہيں تو آيۃ اللہ بروجردی کے نام ايک خط لکھا اور محمد تقي قمي کے ساتھ روانہ کيا، انہوں نے اپنے خط ميں آيۃ اللہ بروجردي سےارادت کا اظہار کرتے ہوئے مبارک باد دي کہ مذاہب اسلامي کو نزديک کرنے ميں آپ کے اقدامات راہگشا اور موثر رہے ہيں‘‘(بي آزار شيرازي ، ١٣٧٧ش، ص٣١٦، مکتب اسلام ، خرداد ، ١٣٤، ص٦٠)

٢۔ آيۃ اللہ کاشف الغطا کي امامت ميں نماز جماعت۔

شيخ محمود شلتوت فلسطين ميں برپا ہونے والي اسلامي کانفرنس ميں شرکت کرنے کے لئے جب بيت المقدس کا سفر کيا تو ديگر علما کے ساتھ آيت اللہ کاشف الغطائ کي امامت ميں نماز جماعت ادا کي اور پھر ايک مقالہ ميں شيعوں اور سنيوں کا ايک صف ميں کھڑے ہوکر نماز جماعت پڑھنے کي کيفيت کو اس طرح بيان کيا: ’’ يہ مسلمانوں کے لئے کتنے خوشگوار لمحات ہيں کہ فلسطين کي اسلامي کانفرنس ميں شرکت کرنے والے مسلمانوں کے نمائندے مسجد الاقصي ميں شيعہ امامي کے مجتہد ، محترم استاد شيخ محمد حسين آل کاشف الغطائ کي امامت ميں نماز جماعت ادا کريں ، بغير اس کے کہ اس شخص ميں جو اپنے آپ کو سني کہتا ہے اور اس شخص ميں جو اپنے آپ کو شيعہ کہتا ہے ،کوئي فرق ہو، سب نے اکٹھا ہو کر شانہ بہ شانہ ايک صف بنائي جو خدا ئے واحد کے ماننے والے اورايک قبلہ پر ايمان رکھنے والے ہيں۔( بي آزار شيرازي ،١٣٧٩ ش ص ٤١)

تاريخي فتوا

شيخ محمود شلتوت کي زندگي کا سب سے بڑا کارنامہ و ہ فتوا ہے جسے انہوں نے معتبر مذہب تشيع کي فقہ کي پيروي کرنے کے جوازکے متعلق صادر کيا تھا، شيخ شلتوت نے يہ فتوا دے کر تقريب مذاہب کے لئے ايک بہت اہم قدم اٹھايا تھا۔

فتوا کا تاريخی پس منظر

جس زمانہ ميں الازہر يونيورسٹي کي رياست شيخ عبد المجيد سليم کے ہاتھوں ميں تھي ، اس وقت انہوں نے مذاہب اہلبيتٴ کي پيروي کرنے کے متعلق فتوا صادر کرنا چاہا اور اس امر مہم کو انجام دينے کے لئے پورا ارادہ رکھتے تھے ليکن استکبار کي جانب سے اہلسنت کے مقدسات کے متعلق کچھ کتابيں شائع ہوئيں جو دار التقريب کے ارکان کے ہاتھوں ميں پہنچا دي گئيں۔

اس کتاب کو ايک شيعہ عالم دين کي طرف منسوب کيا گیا، جس ميں نہ کوئي تاريخ تھي نہ کوئي محل نشر اور نہ ہي کسي مطبع کا ايڈريس تھا، اس کتاب نے مذہب تشيع کے خلاف ايک غم و غصہ کي لہر دوڑا دي۔

اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ اس فتنہ کے پيچھے استعمار کا ہاتھ تھا، جب عبد المجيد سليم کواس سوچي سمجھي ساز ش کا سامنا کرنا پڑا تو بگڑتے حالات کو ديکھ کر وہ تاريخي فتوا نہ دے سکے اور فتوا دينے سے منصرف ہوگئے اور پھردوسري فرصت کي تلاش ميں لگ گئے ، اس کے بعد اجل نے فرصت نہيں دي ليکن مدتوں بعدان کے شاگرد شيخ محمود شلتوت نے وہ تاريخي فتوا صادر کرديا۔

شايد تقدير يہي تھي کہ يہ فتوا شيخ شلتوت کے ذريعہ صادر ہوا ور ان کا نام پوري دنيا ميں مشہور ہو۔

شيخ محمود شلتوت کا فتوا تين عناصر پر مشتمل ہے :

١۔ کسي بھي مسلمان پر واجب نہيں ہے کہ وہ ہر صورت ميں اہل سنت کے چار مذاہب ميں سے کسي ايک کي پيروي کرے بلکہ ہر ايک کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ مذاہب فقہي ميں سے کسي بھي مذہب کو اختيار کرسکتا ہے ۔

٢۔ ايک مذہب سے دوسرے مذہب کي طرف منتقل ہونا جائز ہے ۔

٣۔ ہرفرد مسلمان کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ شيعہ اماميہ کي فقہ پر عمل کرے اگرچہ وہ عمل کرنے والا سني ہي کيوںنہ ہو۔( نجف آباد ١٣٦٤ش ، ص١٧٥)

فتوا کا متن

آخر کار ١٧ ربيع الاول ١٣٧٨ ھ ميں فقہ جعفري کے رئيس امام جعفر صادق عليہ السلام اور پيغمبر اعظم حضر رسول اکرم صلي اللہ عليہ آلہ وسلم کي ولادت با سعادت کے مبارک دن شيعہ امامي ، زيدي ، شافعي، حنبلي، مالکي اور حنفي مذاہب کے نمائندوں کے سامنے شيخ محمود شلتوت نے مکتب تشيع کي پيروي کرنے کے متعلق فتوا صادر کرديا۔

فتوا کا متن اس طرح ہے :

’’ مکتب جعفري جو مذہب اماميہ اثنا عشريہ سے پہچانا جاتاہے ايک ايسا مکتب ہے جس کي پيروي ديگر مکاتب اہل سنت کي طرح شرعاً جائز ہے لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اس حقيقت کو سمجھنے کي کوشش کريں اور کسي مشخص مکتب کے متعلق ناحق تعصبات سے دست بردار ہوجائيں اسلئے کہ خدا کا دين اور اس کي شريعت کسي خاص مکتب ميں منحصر نہيں ہے بلکہ تمام مذاہب کے ائمہ مجتہد اور ان کا اجتہاد بارگاہ خداوندي ميں مقبول ہے پس وہ لوگ کہ جو صاحب نظر اور صاحب اجتہاد نہيں ہيں وہ اپنے مورد نظر جس مکتب کي چاہيں تقليد کرسکتے ہيں اور اس کے احکام پر عمل کرسکتے ہيںاوراس ميں عبادات و معاملات ميں کوئي تفاوت نہيں ہے۔( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٧ ش ، ص٣٤٥)

اس فتوا کے صادر ہوتے ہي عالم اسلام کي نگاہيں متوجہ ہوگئيں اور بيشتر مفکرين نے اسے شيعہ سني روابط کے لئے ايک انقلاب سمجھا اوراس کي حمايت کي ليکن کوتاہ نظر اور تفرقہ ڈالنے والوں نے اس اقدام کي مذمت کي اور مذہب تشيع کو رسميت دينے پر اعتراض کيا۔

شيخ شلتوت کے نزديک اس فتوا کے صادر ہونے کے علل و اسباب ميں سب سے بڑا سبب علمائے شيعہ کي فقہي کتابوں کا مطالعہ اور ان کے دلائل ميں غور وفکر اور تحقيق کرنا تھا، شيخ شلتوت کي رائے يہ تھي کہ فقہ شيعہ کے بعض احکام دلائل کي رو سے اہلسنت کي فقہ پر فوقيت رکھتے ہيں اسي وجہ سے انہوں نے بعض احکام مخصوصا گھريلو امور، شادي بياہ ، طلاق ، ارث اور انہيں جيسے ديگر موارد ميں فقہ شيعہ کے مطابق فتوا ديا ہے اور مکتب تشيع کے متعلق ان کے ہاتھوں سے تحرير کيا گيا تاريخي فتوا امام رضا عليہ السلام کے ميوزيم ميں محفوظ ہے۔

شيخ شلتوت نے اس راہ ميں شيعوں اور سنيوں کو اعتقادي اعتبار سے متحد کرنے کے لئے ديگر موثر اقدامات بھي انجام دئيے ہيں کہ جن ميں سے ايک اقدام الازہر يونيورسٹي ميں فقہ مقارن کي تآسيس اوراسکے قوانين کو تيار کرنا تھا، فقہ مقارن کے درس ميں مختلف موضوعات جيسے تين طلاقوں کا مسئلہ ، رضايت کے ساتھ طلاق معلق، ارث ، طہارت وغيرہ کے احکام کي تدريس ہوتي تھي۔

آثار

شيخ شلتوت نے اپني زندگي ميں مختلف موضوعات پر بيس سے زيادہ کتابیں اور معتبر مقالات بطور ميراث چھوڑ ے ہيں تاکہ تشنگان معارف ان کے مطالعہ سے مستفيض ہوسکيں۔

کتابيں

١۔ تفسير القرآن الکريم ، مجمع التقريب بين المذاہب الاسلامي ، تہران ١٣٧٩ ش

يہ کتاب مجلہ ’’ رسالۃ الاسلام ‘‘ ميں چودہ سال کي مدت ميں شائع ہونے والے مقالات کا مجموعہ ہے جسے مرتب کر کے شائع کيا گياہے۔

٢۔ مقارنۃ المذاہب في الفقہ

جيسا کہ اس کتاب کے موضوع سے واضح وروشن ہے،مذاہب اسلامي کو اکٹھا کرنے کے موضوع پر تحرير کي گئي ہے۔

شيخ شلتوت نے اس کتاب ميں فقہ مقارن کے متعلق بحث کي ہے اور تمام مذاہب اسلامي کے فقہي نظريات کو بيان کيا ہے اور پھر اسي نظريہ کو مانا جو زمان و مکان اور حالات سے سازگار اور قوي دلائل پراستوار تھے۔( اخبار تقريب ، ش ٤٦، ٤٥، ص٣٠)

٣۔من توجيہات الاسلام، مطبوعات الادارۃ العامۃ للثقافۃ الاسلاميۃ ،١٩٥٩ئ

مولف نے اس کتاب ميں بعض ديني مفاہيم اور موضوعات کے متعلق وضاحت دي ہے اور سماج کي بعض اخلاقي مشکلات کے متعلق اسلام کے نظريہ کا ذکر کيا ہے ۔

اس کتاب کے بعض حصے سيد خليل خليليان کے ذريعہ بزبان فارسي ’’ عوام اور دين ‘‘ ، ’’ اخلاق‘‘ ،’’ معاشرے کي کھيتي ميں‘‘ ،’’ اسلام اور يادگاريں‘‘ کے عنوانات کے تحت ترجمہ ہو کر تہران ميں شرکت سہامي انتشارات کے ذريعہ ١٣٤٤ ش ميں شائع ہوچکے ہيں ۔

٤۔ الفتاويٰ، دار الشروق ، قاہرہ ١٤٢١ھ

يہ کتاب ان سوالوں کے جوابات پر مشتمل ہے جو شيخ شلتوت سے ان کي زندگي ميں کئے گئے تھے اور انہوں نے ان کے جوابات دئيے تھے ، شيخ شلتوت کي يہ کتاب عالم اسلام کي ايک بہترين کتاب سمجھي جاتي ہے اور مختلف اسلامي ممالک ميں مسلمانوں کي توجہ کا مرکز ہے ۔

٥۔ من ہدي الکتاب ، دار الکتاب العربي للطباعۃ والنشر، قاہرہ ، ص٣٦٠

يہ کتاب پانچ فصلوں ’’ الي القرآن الکريم ، منہج القرآن في بنا المجتمع ، القرآن والمرآۃ الاسلام والعلاقات الدوليۃ في السلم والحرب ‘‘ پر مشتمل ہے ۔

٦۔ الاسلام عقيدۃ و شريعۃ ، دار القلم ، قاہرہ

اس کتاب کا شمار شيخ شلتوت کي اہم کتابوں ميں ہوتا ہے جو تين فصلوں پر مشتمل ہے ، ’’ عقيدہ ، شريعت، مصادر شريعت ‘‘

شيخ شلتوت نے پہلي فصل ميں بعض موضوعات جيسے اسلام کے بنيادي مسائل ( توحيد ، نبوت ، قيامت ، قضا و قدر...) اور دوسري فصل ميں عبادات کي شرح ، گھراور سماج کے احکام اور ميراث جيسے مسائل پيش کئے ہيں اور آخري فصل ميں شريعت کے منابع اور مصادر ( قرآن ، سنت اور رآي) کے متعلق بحث و گفتگو کي گئي ہے۔

٧۔ الي القرآن الکريم ، دار الہلال ، قاہرہ نيز تہران ، سازمان تبليغات اسلامي، ١٣٦٤ ش

شيخ شلتوت قرآن کے ہدف کوتين موضوعات ميں منحصر سمجھتے ہيں ( عقائد کے متعلق معلومات حاصل کرنا تاکہ دل کو بت پرستي اور شرک سے پاک کيا جاسکے ، اخلاقيات سے آراستہ ہوناتاکہ نفس کي تربيت کي جاسکے اور انسانوں کي شان و منزلت بڑھے اور احکام کا جاننا تاکہ ايک سالم زندگي گذاري جاسکے ) ( الي القرآن الکريم ، مقدمہ ،ص٦)

انہوں نے اس کتاب ميں درج ذيل عنوانات کے تحت بحث کرنے کي کوشش کي ہے :

١۔ يسئلونک ( اس عنوان کے تحت مختلف موضوعات کے متعلق سوالات کے جواب لائے گئے ہيں)

٢۔ منہج القرآن في بناء المجتمع

٣۔ المسوليۃ المدنيۃ والجنائيۃ في الشريعۃ الاسلاميۃ

٤۔ القرآن والقال

٥۔ القرآن والمرآۃ

٦۔ تنظيم العلاقات الدوليۃ الاسلاميۃ

٧۔ الاسلام والوجود الدولي للمسلمين

٨۔تنظيم النسل

٩۔ رسالۃ الازہر

١٠۔ فقہ القرآن والسنۃ

١١۔ القتال في الاسلام

شيخ شلتوت کي بعض کتابيں فارسي زبان ميں بھي شائع ہوچکي ہيں جيسے:

الف۔ اسلام آئين زندگي، مولف : شيخ محمود شلتوت ، مترجم : عبد العزيز سليمي ، تہران ، نشر احسان ، ١٣٨٢ ش ، ص ٧٤٩

ب۔سيري در قرآن کريم: قرآن کے چھبيس سوروں کے بنيادي مفاہيم اور موضوعات پر ايک نظر ، مولف : شيخ محمود شلتوت ، مترجم : حسين سيدي، مشہد ، شرکت بہ نشر، ١٣٧٧ ش، ص٢٤٠

خورشيد قاہرہ کا غم انگيز غروب

آخر کار اسلام کي يہ عظيم شخصيت ٢٧ رجب ١٣٨٣ ق ميں دارفاني سے دار باقي کي طرف کوچ کر گئي اور اسلامي معاشرے کو داغدار بنادياشيخ شلتوت جيسي بے مثال شخصيت جنہوں نے مذاہب اسلامي کو متحد کرنے کے لئے بڑي جانفشاني کي ، ان کي رحلت کے بعد بڑي بڑي شخصيتوں نے تعزیت نامہ روانہ کيا، منجملہ صاحب الذريعۃ ، حضرت آيۃ اللہ شيخ آقا بزرگ تہراني نے علمائے نجف کي نمائندگي ميں تعزیت نامہ بھيجا اسي طرح حوزہ علميہ قم اور تقريب مذاہب اسلامي کميٹي کي جانب سے ان کي شخصيت کو يادگار بنانے کے لئے ’’ شيخ محمود شلتوت اور آيۃ اللہ بروجردي۲ کے افکار‘‘ کے عنوان کے تحت تہران ميں بتاريخ ١٩١٠ ١٣٧٩دو روزہ سيميناربرمنعقد کيا گيا جو بتاريخ ٢١١٠ ١٣٧٩ تک چلا جو شيعوں اور سنيوں کے لئے تجديد عہد کے مانند تھا۔

اسي سيمينار ميں الازہر يونيورسٹي کے رئيس کے قائم مقام شيخ محمود عبد الغني عاشور کي سرپرستي ميں ايک علمي وفد نے شرکت کي اور علماے مصر کي عالي رتبہ شخصيتوں ميں سے جن لوگوںنے شرکت کي اور اپے علمي مقالات پيش کئے ، ان ميں سر فہرست مصر کے مفتي اعظم ڈاکٹر نصر فريد محمد واصل ہيں۔( جمہوري اسلامي ١٩١٠١٣٧٩ويژہ نامہ ص٩)

منابع و مآخذ

١۔ آيت اللہ مکارم شيرازي ، ماہنامہ مکتب اسلام

٢۔ احمدي ، مھدي، محمد عبدہ، رايت اصلاح ( طلايہ داران تقريب ٤) جمعيت تقريب مذاہب اسلامي ١٣٨٣

٣۔ ازغندي ، علي رضا، روابط خارجي ايران ، ١٣٥٧ ، ١٣٢٠ ، نشر توس ، ١٣٧٦ ش

٤۔ الاسلام عقيدۃ و شريعہ ، دار القلم، قاہرہ

٥۔ المنجد في الاعلام ، لبنان ، چاپ ٢٧، ١٩٨٢ئ

٦۔ بر آورد استراتژيک مصر، انتشارات موسسہ فرہنگي مطالعات و تحقيقات بين المللي ايران، تہران ، ١٣٨١ ش

٧۔ بي آزار شيرازي ، کريم ،شيخ محمود شلتوت طلايہ دار تقريب، مجمع جہاني تقريب مذاہب اسلامي ، ١٣٧٩ ش

٨۔ خرمشاہي ، بہائ الدين ، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہي ، انتشارات دوستان، اول، ١٣٧٧ش

٩۔ خفاجي، محمد عبد المنعم ، الازہر في الف عام ، بيروت ، مکتبۃ الکليات الحديثۃ

١٠۔ روحاني ( زيارتي) ، سيد حميد، بررسي و تحليلي از نہضت امام خميني، مرکز اسناد انقلاب اسلامي ، تہران

١١۔ شلتوت ، محمود ، در کشتزار اجتماع، سيد خليل خليليان ، شرکت سہامي انتشار، ١٣٤٤ش،تہران

١٢۔ شريعتمداري ، حسين ، روزنامہ کيہان ، ١٣٨٢ ش

١٣۔ شلتوت ،محمود ، سيد خليل خليليان ، شرکت سہامي انتشار، ١٣٤٤ش،تہران

١٤ اسلام و ياد بود ہا، شرکت سہامي انتشار، ١٣٤٤ش،تہران

١٥۔ مردم و دين سيد خليل خليليان، انتشارات الہام ، تہران

١٦۔ صالحي نجف آبادي ، مجموعہ مقالات ، نشر دانش اسلامي، ١٣٦٤ ش

١٧۔ غروي، سيد محمد ، مع علمائ النجف الاشرف، دار الثقلين ، بيروت ، اول، ١٣٦٤ق

١٨۔ ماہنامہ اخبار تقريب، مجمع تقريب مذاہب اسلامي

١٩۔ مجاہد ، زکي محمد ، الاعلام الشرقيۃ، دار الغرب الاسلامي، بيروت ، دوم، ١٩٩٤ئ

٢٠۔ مہاجري، مسيح ، روزنامہ جمہوري اسلامي ، ١٣٧٩ش

٢١۔ نبوي ، مرتضي، روزنامہ رسالت، ١٣٧٤ ش

٢٢۔ نہج البلاغہ، ترجمہ محمد دشتي

٢٣۔ ہمبستگي مذاہب اسلامي ، ترجمہ و نگارش کريم بي آزار شيرازي، تہران، سازمان فرہنگ و ارتباطات اسلامي ، ١٣٧٧ ش

 

 

 

١۔صوبہ بحيرہ کا شمارمصر کے اہم صوبوں ميں ہوتا ہے جس کي مساحت ١٠١٣٠کيلوميٹر ، جمعيت چاليس لاکھ اور دلتاي نيل کے غرب ميں ہے واقع ہے اور اس کي راج دھاني شہر ’’ دامانہور ‘‘ ہے۔

اس صوبہ کے اہم شہر ، دلنجان،رشيداور کفرالدوار ہيں۔

اس صوبہ کے زيادہ ترلوگوں کا پيشہ کاشتکاري اور زراعت ہے اس لئے کہ اس صوبہ کي زراعي زمينيں مصر کي زراعي زمينوں کے مقابلہ ميں١٩١٤ صد ہیں( برآورد استراتژيک مصر، ج ١، ص ١٠١)

٢۔يہ کالج ،اسکندريہ يونيورسٹي کے سب سے قديمي کالجوں ميں سے ہے جو الازہر يونيورسٹي کے زير نظر چلتاہے۔

٣۔ سعد زغلول مصر کي ايک قومي شخصيت کا نام ہے اس لئے کہ اسي کے ذريعہ مصر کي آزادي کا آغاز ہوا تھا ، جب١٢٩٧ ميں جنگ سے کنارہ کشي کے دو دن پہلے مصر کي آزاد لينے کے لئے برطانيہ کي ہائي کمشنر کورٹ پہنچے تو ان کي درخواست منظور نہيں کي گئي لہذا آزادي حاصل کرنے کے لئے ’’ وفد‘‘ پارٹي کي بنياد رکھي،اس کے کچھ ہي مدتوں کے بعد سعد اوران کے دوستوں کو پہلے جزيرہ ’’مالت ‘‘اور پھر’’ سي شل‘‘ جزيروں کي طرف جلاوطن کرديا، پس جب انگلينڈ نے کانگريس اوراس کي سربراہوں کے کہنے پر مصر پر اپني مالکيت کا اعلان کيا تو مصر کے قوم پرستوں نے شدت سے ان کا مقابلہ کيا يہاں تک کہ ان لوگوں نے مصر سے اپني مالکيت کو ختم کرديااور سلطان فواد مصر کا بادشاہ بن کر مصر کے امور کو اپنے ہاتھوں ميں لے ليايہاں تک يہ بادشاہي آئيني حکومت ميں بدل گئي، اس وقت سے مصر کي کامل آزادي ١٣٢٥ئ تک ايک طرف بادشاہ مصر فواد اور انگلينڈ اور دوسري طرف وفد پارٹي جس ميں قوم پرستوں کي اکثريت تھي، اقتدار حاصل کرنے کے لئے سخت مقابلہ آرائي ہوئي، زغلول جلاوطني کي زندگي کاٹنے کے بعد جب مصر لوٹے ہيں تو بھر پور ووٹ سے مصر کے وزير اعظم بنے ليکن انگلينڈ نے زغلول کي وزارت کي مخالفت کي جس سے مجبور ہوکرانہوں نے استعفيٰ دے ديا او رپھر ١٣٠٦ ئ ميںان کي وفات ہوگئي( طلايہ داران تقريب، محمد عبدہ، ص٥٠)

Read 2893 times