سيد امام موسی صدر

Rate this item
(0 votes)

خدا نے تمام انسانوں کے سامنے دین اسلام کو پیش کیا ہے تاکہ یہ مذھب ہر انسان کی زندگي کے تمام پہلووں پرحکم ہولیکن ہم دیکھتےہیں کہ انسانوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے اب تک ایسا نہیں ہوسکا ہے۔ جب ہم اپنے ملک کے موجودہ حالات کی طرف نگاہ کرتےہیں تو تمام لوگوں کا اسلام کو اپنے دلوں اور زندگیوں پرحاکم کرنا ایک خواب سے کم نظر نہیں آتا، وہ خواب جس پرصرف ہنسا جاتاہوں۔ اس سے ہماری ہمتیں پست ہوجاتی ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ ایسے خواب دیکھنا وقت کی بربادی ہے۔ یاپھر یہ ہوتا ہےکہ ہم ایک یا دو میدانوں میں اپنی نسبی اور جزئي ترقی کو بہت بڑی کامیابی تصورکرنے لگتےہیں۔ جب تک ہماری ہمت اور فکر بلند نہیں ہوگي اور آسمانوں میں پرواز نہیں کرے گي اس وقت تک ہمارے ملک میں اسلام کا مستقبل روشن نہیں ہوگا اور کروڑوں انسان ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے اسلام کے جاودانی پیغام سے محروم رہیں گے۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ ہم کیا کریں کہ ہماری فکریں اور ہمتیں بلند پرواز کریں؟ اس سوال کا اہم ترین جواب یہ ہے کہ عصر حاضر کی ایسی شخصیتوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے جو اپنے سماج میں ایسی تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہوئي ہوں جو ماضی میں عام طورسے قابل تصور ہی تھیں۔

اس قسم کی ایک درخشاں شخصیت سید امام موسی صدر کی ہے، جنکی زحمتوں کے نتیجے میں آج لبنان کی حزب اللہ تمام مسلمانوں اور تمام عدل پسند انسانوں کے لئے حیات بخش مثال بن گئي ہے، امام موسی صدر کی زندگي کا مطالعہ نہ صرف اس لئے ضروری ہے کہ آج لبنان میں زندگي کے ہرشعبہ میں بے مثال کامیابیاں دیکھی جاسکتی ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ امام موسی صدر سے پہلے کا لبنان اور آج کے ہندوستان میں شباہتیں بہت زیادہ ہیں۔ اگر آج اسلام اور مسلمان ہندوستان میں مظلوم ہیں اور وہاں مادیت اور مغربی تہذیب حاکم ہے تو آج سے پچاس برس قبل لبنان میں مسلمانوں کے حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہوچکے تھے لیکن امام موسی صدر نے انہیں جس راہ پرگامزن کیا اس کےنتیجے میں وہ آج پورے عالم اسلام کا چشم و چراغ بن گئے ہیں، اگر ہم میں ذرا بھی اسلامی حمیت ہے تو ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہیے۔

 

الف : مختصر سوانح حیات:

امام موسی صدر کی ولادت انیس سو ستائيس میں قم میں ہوئي، ان کاخاندان اصالتا لبنانی تھا جسمیں متعدد علماء اور مراجع گذرےہیں۔ سید صدر نے دینی تعلیم کے ابتدائی مراحل قم میں طے کئے، بعد میں چند سال نجف اشرف میں تعلیم حاصل کی، جدید تعلیم بھی قم میں حاصل کرنا شروع کی لیکن پھر تہران جاکر "اقتصادی حقوق " میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس زمانے کے فاضل طلاب جیسے آیت اللہ شہید بہشتی ، آیت اللہ جعفر سبحانی ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور آیت اللہ نوری ھمدانی انکے قریبی دوستوں اور ساتھیوں میں سے تھےاور یہ لوگ مل کرایک علمی مجلہ بھی نکالا کرتےتھے ۔ بعد میں لبنان میں شہید چمران کا بھی گہرا ساتھ رہا ۔

جب لبنان میں شیعہ مسلمانوں کے رہبر سید عبدالحسین شرف الدین کی ان سے آشنائي ہوئي تو انہوں نے امام موسی صدر کی شخصیت سے متاثر ہوکر ان کو اپنا وصی اور جانشین قراردیا اور انیس سو اٹھاون میں علامہ سید شرف الدین کے انتقال کے بعد امام موسی صدر اکتیس برس کی عمر میں لبنان پہنچے ۔

لبنان میں لوگوں کے درمیاں رہ کر بیس پچیس برسوں زحمتيں برداشت کرکے اسکول اور کالج شروع کروائے ، فقرا اور حاجت مندوں کےلئے امدادی ادارے قائم کئے ، دوسرے مذاھب کے لیڈروں اور ان کے ماننے والوں سے باہمی تعامل کے کام شروع کروائے۔ شیعوں کو سیاست میں ایک مضبوط اور اثر انداز قوت بنایا، اور اسرائيل سے مقابلے کےلئے فوج بھی تیار کی ۔ انیس سو اناسی میں لیبیا کے ایک دورے میں پراسرار طور پرلاپتہ ہوگئے۔ یہی مانا جاتا ہےکہ اسرائیل اور دوسرے دشمنوں کے اشارے پرلیبیا کے حاکم معمر قذافی نے انہیں شہید کروادیا ہے۔( لیکن ان کے اھل خانہ ، دوستوں ، شاگردوں اور ان کے دفتر کے کارکنوں کا کہنا ہےکہ ان کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ امام موسی صدر زندہ ہیں اور قذافی کی جیل میں قید وبند کی صعوبتیں اٹھارہےہیں ۔ ایڈیٹر)

امام موسی صدر کی زندگی سے حاصل ہونے والےدس سبق

ان کی زندگي نمونہ عمل تھی اور ہے ان کےطریقہ کار پرچل کر ہم بھی اپنی قسمت سدھار سکتےہیں اور اپنی زندگي کو جہت دار اور ھدف مند بناسکتےہیں۔

اول : ذمہ داری کا احساس اور اسکی صحیح شناخت

یہ امام موسی صدر کی زندگي کی سب سے بڑی خصوصیت ہے ۔ اسکی مثال ان کا حوزہ علمیہ کو ترک کرکے لبنان جیسے پچھڑے علاقے کی طرف ہجرت کرنا ہے۔ خاص طور سے جب ہم اس بات کو مد نظر رکھیں کہ اس زمانے میں انہيں آیت اللہ بروجردی کی طرف سے اٹلی میں تام الاختیار وکیل بناکر بھیجا جارہاتھا۔

دوم : اسلام کی عمیق شناخت

وہ ایک واقعی اسلام شناس تھے ۔ درجہ اجتھاد پرفائز ایک مجتھد مسلم تھے اور آپ کا ہر کام اسلام اور قرآن کی آیات کی روشنی میں ہوتا تھا وہ یہ کہتے تھے کہ اسلام ہی دنیوں اور اخروی نجات و سعادت کا سبب ہے ۔ انہوں نے جہاں محراب ومنبر کے ذریعے خدمات انجام دیں وہیں ایک عالم دین کی حیثیت سے لوگوں کو سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے کے راستے بھی دکھائے ۔

سوم : خود اعتمادی اور شجاعت

احساس ذمہ داری اور دین شناسی کے نتیجے میں امام موسی صدر کسی بھی ضروری کام کو انجام دینےسے نہیں ڈرے ، مثال کے طور پر جب شیعوں اور فلسطینیوں میں جھڑپیں شروع ہوئيں تو انہوں نے محاذ پرجاکر یہ جھڑپیں رکوائیں ۔ اسی طرح انہوں نے قدامت پسندوں کی چہ می گوئيوں کی بھی کبھی پرواہ نہ کی اور اپنے ھدف کی طرف گامزن رہے۔

چہارم : عام آدمی کی طرح رہتے تھے

امام موسی صدر پسماندہ اور ستم رسیدہ لوگوں کی دل سے عزت اور احترام کیا کرتےتھے اور ایسا کوئي کام نہیں کرتے تھے جس سے ان کی دل آزاری ہو۔ ان کی سادہ اور بے آلائش زندگي اس بات کا بین ثبوت ہے۔

پنجم : بچوں اور جوانوں کی تربیت پرخاص توجہ

امام موسی صدر یہ بخوبی جانتے تھے کہ اسلام کا مستقبل روشن کرنےوالی یہی جواں نسل ہے ۔ اسی لئے شروع ہی سے ان کی طرف خاص توجہ کرتےتھے مجتھد و رہبر ہونے کےباوجود بھی ان کے ساتھ گھل مل کررہتے تھے ، جوانوں کے ساتھ بڑے دوستانہ انداز میں پیش آتے تھے، ان کی بے دینی یا اخلاقی کمزوریوں کی وجہ سے انہیں ڈانٹنے اور خود سے دور کرنے کےبجائے انہیں اپنے اعمال اور محبت بھرے انداز سے اصلاح کی دعوت دیتے تھے۔ انہوں نے لبنان ہجرت کرنے کے بعد جوانوں کے لئے ایک ورزش گاہ یافٹبال کا گروانڈ تیار کروایا۔

اسلام کے ذریعے صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کو فائدہ پہنچانا۔

امام موسی صدر کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہےکہ انہوں نے کوشش کی کہ انکے کام کا چہرہ اور تشخص مکمل طور پردینی اور شیعی رہے لیکن اسکے فوائد حتی الامکان تمام لبنانیوں تک پہنچیں۔ مثال کے طورپرانہوں نے حرکت المحرومین کے نام سے ایک کمیٹی بنائي جسکا ہدف ہرقسم کے معاشرتی ظلم اور معاشرےمیں حاکم قبائلی سیاسی نظام کا مقابلہ کرنا تھا یعنی یہ خدمت تمام لبنانیوں حتی غیر مسلمانوں کے لئےبھی انجام دی جاتی تھی اور اس کمیٹی کافائدہ سب کو پہنچتاتھا۔

بہترین دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ ملکر کام کرنا۔

امام موسی صدر کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ بہترین افراد کو اپنے حلقے میں سمولیتےتھے اور ان کے مشورے اور تعاون سے کام کرتےتھے یہ ان کی کامیابی کےاہم ترین رازوں میں سےایک ہے ۔ ساتھیوں میں سرفہرست شہید مصطفی چمران کا نام ہے ۔

اذیتوں اور نادانوں کی دشمنیوں کو برداشت کرنا

امام موسی صدرکے لئے یہ بات بالکل واضح تھی کہ دشمن کون ہے ، دشمن کو بھلا ان سےبہتر کون پہچان سکتاتھا۔ عالمی سامراج ،صیہونی حکومت اور ان کے لبنانی پٹھو یہ سب امت اسلامیہ کے دشمن تھے اور آج بھی ہیں۔ دشمنوں سے وہ سختی سے پیش آتےتھے

لیکن اگر ان کےعلاوہ کوئي اور ان سے دشمنی کا اظہار کرتاتو اس کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے۔ یہاں فلسطینی لیڈروں اور قدامت پسندانہ فکر رکھنےوالے مومنین کا ذکرضروری ہے کیونکہ ان لوگوں کی وجہ سے امام موسی صدر کو بڑی اذیت ہوئي اور انہوں نے بے پناہ مصائب جھیلے ، کچھ فلسطینیوں نے تو ان کےگھر پرراکٹوں سے بھی حملہ کردیا لیکن پھر بھی امام موسی صدر نے ہرگز انتقام نہ لیا اور اپنے چاہنےوالوں کو ہمیشہ حقیقی دشمن کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتےرہے۔

فکری وثقافتی محاذ کو اصل محاذ سمجھنا

گرچہ امام موسی صدر نے سیاسی اور عسکری میدانوں میں چونکا دینے والی خدمتیں انجام دی ہیں تاہم یہ حقیقت ان سے کبھی پوشیدہ نہیں رہی کہ یہ ساری چیزیں فرع ہیں اور اصل خلیفۃ اللہ کہلائے جانے کےلئے انسان کی فکر اورروحانی تربیت کی ہے،ان کی تمام تر توجہ اسی بات پرمرکوزرہتی تھی کہ وہ کس طرح اس کام سے لوگوں کو بہتر انسان اور بہتر مسلمان بناسکیں۔

ترقی کو جاری رکھنے کے لئے اہم اقدامات

امام موسی صدر کے اغوا کے بعد بھی قوم کی ترقی کا سلسلہ جارہی رہا رکا نہیں اور یہ نتیجہ تھا ان کی تدبیروں اور طریقہ ہائے کار کا انہوں نے شروع ہی سے اس پرتاکید کی تھی کہ لوگوں کو مستقل طورپر کام کرنا آنا چاہیے ، البتہ ایک ہی ہدف اور مشترکہ اقدار کےتحت ، اسکے علاوہ انہوں نے معاشرے میں مختلف تنظیمیں اور گڑوہ تشکیل دئے جو افراد کے تبدیل ہونےکےباوجود بھی اپنا کام انجام دیتے رہے اور دے رہےہیں ، ان کا ایک نمونہ مجلس اعلائے شیعیان لبنان ہے ۔

یہ تھی مختصر اور طائرانہ نظر اس عظیم مرد مجاھد کی زندگي پر جس نے اپنی ذات سے لبنان کی شیعہ قوم اور عام طورسے لبنانی قوم کو زمیں سے آسمان پر پہنچادیا۔ خدا ان کی راہ کو قائم و دائم رکھے اور ان کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطاکرے۔

 

بشکریہ : رسالہ اصلاح لکھنو

Read 3053 times