ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنا اور ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنا اور محاذ آرائی چھوڑ دو۔۔۔۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اہل بیت (ع) اور قلب حضرت ولی عصر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہم سے خوش ہوں تو ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ نہیں اچھالنا چاہیئے۔ اگر ہمیں عزاداری عزیز ہے تو ہمیں متحد ہونا چاہیئے۔ ہمیں صرف اور صرف اسلام و قرآن و اہل بیت کے نام پر متحد ہونا چاہیئے۔ آج اتحاد کی ضرورت ہے۔ اتفاق کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ہم کیوں اتحاد کو خراب کرتے ہیں۔ میں یہ بار بار کہتا ہوں بخدا! صرف مورچے مختلف ہیں۔ عالم ہو، خطیب ہو، ذاکر ہو، پیش نماز ہو، ملنگ ہو سب کے سب قرآن و اہل بیت (ع) کے سپاہی ہیں لیکن کسی کا مورچہ منبر ہے، کسی کا محراب ہے، کسی کا مورچہ مسجد ہے، کسی کا مورچہ مدرسہ ہے، کسی کا مورچہ امامباڑہ ہے، کوئی قلم کے ذریعے، کوئی زبان کے ذریعے سب کے سب ایک مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جب سب کا مقصد ایک ہے تو اختلاف کس بات کا؟ دیکھیں برادر عزیز! اگر کسی سے ہم کوئی بات سن لیں تو ہمیں اس سے درگزر کرنا چاہیئے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہمیں آگے نہیں بڑھانا چاہیئے۔ ہمیں وسیع تر مسائل کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔
(1) آپ نے اوپر والے پیراگراف میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی ملتان میں قرآن و سنت کانفرنس کا ایک اقتباس پڑھا ہے۔ شہید کے دور کی قرآن و سنت کانفرنسوں کا تشیع پاکستان کی حیات سیاسی میں ایک اہم کردار ہے۔ ان کانفرنسز میں شہید نے متعدد موضوعات پر بحث فرمائی ہے جن میں سے چیدہ چیدہ یہ ہیں: امام خمینی (رہ) کی رہبری، انقلاب اسلامی ایران، اسلام اور سیاست، پاکستان کے موجودہ نظام پر تنقید، پاکستان میں امریکی، روسی، اسرائیلی اور سعودی مداخلت کی شدید مخالفت، استعماری قوتوں کا قبیح چہرہ اور ان کے ایجنڈے، پاکستانی میں اسلامی نظام کے قیام کے لئے عملی جدوجہد، جمہوریت، اتحاد بین المسلمین، اتحاد بین المومنین، ایرانی حجاج کرام پر سعودی حکومت کی جارحیت اور انتخابات میں شیعہ قوم کی شرکت۔ چونکہ اس وقت پاکستان میں انتخابات کی گہما گہمی ہے لہذا اس حوالے سے شہید کی تقاریر کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ ان تقاریر کے صحیح فہم کے لئے ان کانفرنسز کے بعد مختلف شہروں میں ہونے والی پریس کانفرنسز اور انٹرویوز بھی اہمیت کے حامل ہیں لہذا ان سے بھی اقتباسات پیش کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کانفرنسوں میں اسلام اور سیاست، اسلامی نظام کے نفاذ، جمہوریت اور استعمار شناسی کے حوالے سے شہید نے جو ارشادات فرمائے ہیں ان کے اقتباسات بھی پیش خدمت ہیں۔ مقالے کی طوالت کے لئے پیشگی معذرت قبول کیجئے گا۔
یاد رہے کہ شہید عارف حسین الحسینی (رہ) شہید مرتضی مطہری (رہ) کے بعد دوسرے فرد ہیں جنہیں امام خمینی (رہ) نے اپنا فرزند کہا ہے۔ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی (رہ) کے بقول شہید عارف حسینی (رہ) نے فکر امام خمینی (رہ) کو پاکستان میں اس طرح پیش کیا ہے جیسے آئینہ حقائق کو پیش کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امام خمینی (رہ) نے شہید کے چہلم کی مناسبت سے یہ جملے فرمائے کہ:"پاکستان کے باشرف اور غیور عوام جو حقیقی معنوں میں ایک انقلابی ملت ہیں اور اسلامی اقدار کے پابند ہیں اور جن سے ہمارا قدیمی، گہرا انقلابی، ایمانی اور ثقافتی رشتہ ہے میں انہیں اس امر کی تاکید کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ وہ شہید راہ حق (علامہ عارف الحسینی) کے افکار کو زندہ رکھیں"اسلام اور سیاست اسلام اور سیاست کے موضوع پر شہید قائد (رہ) کے خطابات سے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ 1۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام میں دین سیاست سے جدا نہیں بلکہ سیاست دین کا ایک جزو ہے اور ہم نے یہ دیکھ لیا کہ ہمارے سیاسی مسائل، ہمارے مذہبی مسائل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمارے مذہبی مسائل ہمارے سیاسی مسائل سے جدا نہیں۔ (2)۔2 ہمارے نزدیک اصل دین ہے۔ دین کل ہے۔ سیاست اس کا ایک جزء ہے۔ ہم سیاست کو دین کا تابع سمجھتے ہیں۔ ہم نے اس حوالے سے ایک منشور کا اعلان کیا ہے۔ (3)3۔ اسلام میں سیاست تدبیر امور کا نام ہے ملکی اور بین الاقوامی امور میں مداخلت کرنے کا نام ہے۔ بنابریں ہر سیاست کو دھوکہ اور فریب نہیں کہا جا سکتا۔ اسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم ہے اس حوالے سے مسائل میں مداخلت کرنا یہ بھی سیاست میں آتا ہے اسے دھوکہ و فریب سے تعبیر دینا صحیح نہیں۔
اسلامی نفاذ کا اعلان: لاہور، ملتان، ڈیرہ غازیخان، فیصل آباد اور ملتان میں ہونے والی ان کانفرنسز میں شہید نے کئی مقامات پر اسلامی نظام کے نفاذ کا ذکر فرمایا ہے ان کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:1۔ برادران عزیز! ہمیں اس بات پر بڑی خوشی ہے کہ آج کا مسلمان بیدار ہو گیا ہے اور مسلمانوں میں حرکت آ گئی ہے۔ وہ متوجہ ہو گئے ہیں کہ ہمارا مرکز صرف اور صرف اسلام ہے۔ ہمیں اتحاد بین المسلمین قائم کرکے امریکی یا روسی ایجنٹوں کو اپنی صفوں سے نکال کر اپنے ممالک میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہیئے۔ (5)2۔ پاکستان کے قائدین کی نظروں میں اور سابقہ ہندوستان کے مسلمانوں باشندوں کی نظروں میں دو چیزیں تھیں: ایک مستقل مملکت اور دوسری چیز اس مملکت کی بنیاد اسلام۔ پہلی چیز تو قائد اعظم محمد علی جناح کے زمانے میں انجام تک پہنچ گئی لیکن دوسرا مقصد کہ اس ملک میں اسلامی نظام ہو، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب تک ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ (6)3۔ ہم پاکستان میں اسلامی نظام کا پرچم دیکھنا چاہتے ہیں۔ (7)4۔ (آج ہم) پورے ملک میں اسلامی نظام کا مطالبہ کریں گے اور اسلامی نظام کے لئے جدوجہد کریں گے۔ ایک ایسے اسلامی نظام کا نفاذ کہ جس کے تحت مسلمان اخوت اسلامی اور صلح و صمیمیت کے ساتھ اپنے مکتب و عقائد کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور مشترکہ دشمن کے مقابلے مین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔ (8)5۔ ہم سوچتے ہیں کہ پاکستان مین اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیئے، یہ ذمہ داری ان متعہد علماء کی ہے جو درباروں میں حکومت کے اشاروں پر کام نہیں کرتے بلکہ وہ صرف اور صرف خدا، رسول (ص)، قرآن اور مسلمین کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ افراد جن کو انہوں (ضیاء حکومت) نے کمیٹیوں میں لیا ہے یہ کبھی حکومت کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ (9)
6۔ شہید کی زندگی کی آخری پریس کانفرنس میں جوکہ جولائی 1988ء میں پارا چنار میں منعقد ہوئی جب آپ سے پاکستان میں اسلامی حکومت کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:"پاکستان میں جو مذہبی تنظیمیں، مذہبی پارٹیاں ہیں، علماء ہیں اگر یہ سب تنگ نظری کو چھوڑ دیں، اسلام کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھیں اور مل کر ایک مشترکہ پروگرام بنائیں اور مل کر کام کریں تو یہ بات ممکن ہے۔" (10)7۔ ہم اس نظام کو کب تک برداشت کرتے رہیں گے؟ جس نظام میں سپر طاقتوں کے مفاد کا خیال رکھا گیا ہو، جس نظام میں مغربی قوانین ہم پر مسلط ہوں، جس نظام میں مغربی تہذیب ہمارے گھروں میں، ہمارے معاشرے میں، ہمارے اسکولوں میں، غرض ہر جگہ روز بروز بڑھ رہی ہو۔ تو ہم نے احساس کیا کہ ہم جتنی جد و جہد کر لیں، انفرادی طور پر جتنی بھی کوشش کر لیں لیکن اگر یہ غلط اور فاسد نظام ہم پر مسلط ہے تو ہم اپنی جد و جہد میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکتے۔۔۔ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ ہم پاکستان میں ایک اسلامی نظام قائم کریں گے۔ ہم کب تک بیٹھ کر یہ دیکھتے رہیں گے کہ ہمارے فیصلے واشنگٹن میں ہوں۔۔۔۔ نہیں نہیں اسلامی غیرت ہمیں یہ اجازت نہیں دیتی۔
(11) جمہوریت اور انتخابات شہید عارف حسین الحسینی نے قرآن و سنت کانفرنسوں میں جمہوریت کے بارے میں جو کچھ بیان فرمایا ہے اس کے چند اقتباسات کا مطالعہ فرمائیں:1۔ پاکستان بنانے والوں کے تین بڑے مقاصد بیان کرتے ہوئے شہید فرماتے ہیں: ان کا تیسرا مقصد یہ تھا کہ اس ملک میں جو بھی اقتدار میں آئے، بادشاہت، ڈکٹیٹرشپ کے عنوان سے نہیں بلکہ جمہوری طریقے سے آئے۔ پوری قوم کا نمائندہ بن کر حکومت کے تخت پر پہنچے۔ ان کا مقصد اسلامی نظام تھا اور ایسے قوانین کا نفاذ تھا جو قرآن و سنت سے لئے گئے ہوں۔۔۔۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بزرگ قائدین کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہو اور جو بھی اقتدار میں آئے عوام سے منتخب ہو کر آئے لیکن آج تک ہم صحیح طور پر ان کا یہ مقصد پورا نہیں کر سکے۔ (12)2۔ علی (ع) نے دنیا کو بتایا کہ ایک اسلامی نظام کیسا ہوتا ہے؟ علی (ع) نے صحیح ڈیموکریسی کے خطوط واضح کئے۔ اگر غریبوں اور محروموں کا درد ہے تو صرف اور صرف علی (ع) کے سینے میں۔ (13)3۔ "جمہوری عمل ملک میں ختم ہو گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جہاں جمہوریت کو ملک میں نقصان پہنچا ہے وہاں ہماری ملکی معیشت بھی مارشل لاء سے متاثر ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ملک میں ایک نمائندہ جمہوری حکومت برسراقتدار نہیں آتی تب تک ہمارا ملک مستحکم نہیں ہوگا۔ ملکی سالمیت کے لئے ضروری ہے کہ جنرل ضیاء الحق فوری طور پر جماعتی بنیادوں پر 73 کے آئین کے تحت انتخابات کروائے۔ جو بھی پارٹی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو جائے وہ حکومت بنائے۔ ہمیں امید ہے کہ انشاءاللہ اگر صحیح طور پر غیر جانبدارانہ انتخابات ہوئے اور ایک نمائندہ حکومت آئی تو ملک کی معیشت پر بھی اس کے اچھے اثرات ہوں گے اور اس سے ملکی استحکام بھی پیدا ہوگا۔
(14)4۔ جب تک ملک میں صحیح نمائندہ حکومت نہیں بنے گی ہمارے مسائل اور مشکلات چاہے اندرونی ہوں یا بیرونی حل نہیں ہو سکتے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل صحیح نمائندہ حکومت کے قیام پر ہے۔ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، پاکستان میں اسلامی نظام کی خواہاں ہے اور پاکستان میں اسلامی نظام کے لئے قرآن و سنت کی بالادستی کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، پاکستان میں ایک ایسے اسلامی نظام کی خواہاں ہے جو فرقہ واریت سے بالاتر ہو۔ (15)5۔ آپ کے نزدیک استعمار جہاں اسلام کا دشمن ہے وہاں حقیقی جمہوریت کا بھی دشمن ہے۔ آپ فرماتے ہیں:"اگر آپ بغور ان (امریکہ و اسرائیل) کی خصوصیات کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ کس طرح انسان کے دشمن ہیں۔ نام تو حقوق بشر کا استعمال کریں گے، نام تو جمہوریت کا استعمال کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ بات تو جمہوریت کی کرتے ہیں لیکن کس قدر جمہوریت کے دشمن ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح امریکہ کو دیکھیں کہ اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار سمجھتا ہے لیکن خود کس قدر جمہوریت کا احترام کرتا ہے کہ ایران میں ایک جمہوری حکومت ہے۔ عوام کے انتخابات کے ذریعے منتخب حکومت ہے (انقلاب اسلامی تو اپنی جگہ) لیکن ان کی منطق کے مطابق یہ ایک عوامی حکومت ہے۔ اگر یہ جمہوریت کے دشمن نہ ہوتے تو آج ایران کی جمہوری حکومت کی مخالفت نہ کرتے۔ (16)6۔ اب اگر ملک میں عوام اور سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ان پر دباؤ ڈالا گیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ (ضیاء) انتخابات کروا دیں اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہو۔
(17) انتخابات میں شرکت قرآن و سنت کانفرنسوں میں شہید عارف حسین الحسینی (رہ) نے دین اور سیاست کے ارتباط پر روشنی ڈالی، آپ نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے عزم کا اظہار فرمایا اور جمہوریت کی حقیقت اور اس کے دشمنوں کی نشاندہی فرمائی۔ قرآن و سنت کانفرنسز اور ان کے بعد ہونے والے آپ کے انٹرویوز کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اسلامی نظام کو جمہوریت کے قالب میں نافذ کرنا چاہتے تھے۔ آپ پاکستان میں اسلام اور حقیقی جمہوریت کے اجراء کے لئے انتخابات کا راستہ اپنانا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں شہید عارف حسین الحسینی کے رہنما فرمودات ملاحظہ فرمائیں: 1۔ تحریک سیاسی جماعت نہیں ہے۔ مثلاً ان موجودہ جماعتوں کا جو کردار ہے ان جیسی نہیں ہے لیکن یہ سیاست میں ضرور حصہ لے گی کیونکہ دین اسلام میں سیاست جزو دین ہے جو دین سے جدا نہیں۔ (18)2۔ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے لیکن وسیع معنوں میں۔ ہمارے مقاصد اور اہداف صرف چار یا پانچ دینی مطالبات نہیں ہیں۔ وہ بھی ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ مکی مسائل میں اپنا کردار ادا کرنا، بین الاقوامی مسائل سے غافل نہ رہنا اور زندگی کے دیگر جو شعبے ہیں ان میں اپنا کردار ادا کرنا۔ (19)3۔ تحریک کے انتخابی منشور کے بارے میں سوال کے جواب میں آپ فرماتے ہیں: تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے گذشتہ 6 جولائی کو مینار پاکستان پر ایک منشور عوام کو دیا تھا۔ اس منشور میں نظام کے حوالے سے، اقتصاد کے حوالے سے، اور جتنے بھی شعبہ ہائے زندگی ہیں، ان کے حوالے سے ہم نے اپنا موقف واضح کردیا ہے۔ اب مزید دوسرے منشور کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ جب ہمیں یہ احساس ہوا کہ اس میں کچھ ترامیم کرنی ہیں یا ان میں کچھ چیزیں زیادہ کرنی ہیں تو یہ ہم کر سکتے ہیں لیکن منشور جو ہم نے 6 جولائی کو مینار پاکستان پر دیا تھا ہمارا وہی منشور ہے۔ اس میں ہم نے ایک منشور کمیٹی بنائی تھی۔ انہوں نے قرآن و سنت اور مراجع عظام کے فتاویٰ کو مدنظر رکھ کر یہ منشور بنایا ہے۔
(20)4۔ انتخابات میں دوسری جماعتوں سے الحاق کے بارے میں سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہماری تحریک جو ایک مذہبی تنظیم ہے اور ہماری منزل مقصود اسلام ہے۔ ہم انتخابات کے حوالے سے کسی بھی پارٹی سے الحاق کر سکتے ہیں۔ البتہ ابھی ہم نے طے نہیں کیا ہے۔ ہمارا انتخاب کے حوالے سے اتحاد ہو سکتا ہے۔ کسی کے ساتھ ہم مدغم ہو جائیں یہ بالکل ممکن نہیں ہے۔ ہماری تحریک ایک مستقل، علیحدہ اور اپنا ایک منشور رکھتی ہے۔ اپنے اہداف و اغراض ہیں اور اپنے ادارات ہیں الحمدللہ۔ انشاءاللہ پورے ملک میں چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں، شمالی علاقہ جات میں ہماری بھرپور نمائندگی ہے۔ ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہماری جماعت ملک گیر جماعت ہے اور ہر جگہ پر لاکھوں کی تعداد میں عوام کی حمایت اس تحریک کو حاصل ہے۔ (21)5۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ایک خاص فقہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ کیا الیکشن میں یہ امید ہے کہ دوسرے لوگ بھی آپ کو ووٹ دیں گے تو آپ نے فرمایا:اس سلسلے میں یہ ہے کہ اصل مسئلہ منشور کا ہے۔ ٹھیک ہے ہماری تحریک کا نام "تحریک نفاذ فقہ جعفریہ" ایک فقہ کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے لیکن جو ہمارا منشور ہے وہ ہم نے ملک کے لئے بنایا ہے اس میں اسلام کے حوالے سے بات کی ہے۔ اس میں پاکستانی ہونے کے حوالے سے پاکستان کے شہریوں کے مفادات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی ہمارا منشور دیکھ لے گا، خواہ وہ سنی ہو، خواہ وہ شیعہ ہو، خواہ وہ غیر مسلم ہو، اگر انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کے مسائل تحریک کے پلیٹ فارم سے حل ہو سکتے ہیں تو وہ ضرور تحریک کو ووٹ دیں گے۔
(22)6۔ اہل سنت کے تحریک کو ووٹ دینے کے امکان کے حوالے سے سوال کے جواب میں فرمایا: وہ تو آپ کے پروگرام پر منحصر ہے اگر انہوں نے آپ کے پروگرام کو پسند کیا تو ہو سکتا ہے کہ اہل سنت بھی آپ کو ووٹ دے دیں اور آپ کے ساتھ تعاون کریں۔ (23)7۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ خود الیکشن میں حصہ لیں گے؟ تو آپ نے فرمایا:اس سلسلے میں ابھی 8 جولائی (1988ء) کو گذشتہ جمعہ کو اسلام آباد "جامعہ اہل بیت" میں ہماری مرکزی کونسل کی ایک میٹنگ ہوئی۔ جس میں تفصیلی گفتگو ہوئی اور یہ ہم نے طے کیا کہ ہم نے انتخابات میں حصہ لینا ہے لیکن ہم نے پہلے بھی ایک سیاسی سیل بنایا تھا جسے آپ الیکشن سیل کہہ سکتے ہیں۔ اس کو ہم نے کہہ دیا ہے کہ اس کو توسیع دیں اور اس میں کچھ افراد بھی لے لیں اور حالات پر کڑی نظر رکھیں۔ مطالعہ کرتے رہیں پھر ہم دیکھیں گے کہ حکومت کیا اعلان کرتی ہے۔ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں یا غیر جماعتی بنیادوں پر، متناسب نمائندگی وغیرہ تو جس طرح کا اعلان ہوگا اس طرح ہمارا سیاسی فیصلہ ہوگا کہ ہمیں کیا لائحہ عمل کرنا ہے۔ (24) استعمار دشمنی تشیع کا طرہ امتیاز ہے، یاد رہے کہ استعمار دشمنی تشیع کی شناخت ہے۔ برائت از مشرکین ہماری آئیڈیولوجی کا حصہ ہے۔ ہم کسی صورت پر اپنی شناخت اور آئیڈیولوجی پر سمجھوتا نہیں کر سکتے۔ ہم نے شہید کی فکر سے الہام لیتے ہوئے تکفیریوں کے ساتھ ساتھ امریکی اور اسرائیلی ایجینٹوں کو بھی پاکستان سے نکال کر عبرت ناک شکست دینی ہے۔ یہ کام مشکل ضرور ہو سکتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اس سلسلے میں شہید کے قرآن و سنت کانفرنسز سے اقتباسات حاضر خدمت ہیں۔
1۔ شیعہ اجتماعات جہاں بھی ہوں چاہے وہ نماز جمعہ ہو یا نماز پنجگانہ ہو یا کوئی دوسری تقریب آپ دیکھیں گے کہ شیعہ مردہ باد امریکہ، مردہ باد روس اور مردہ باد اسرائیل کے نعرے لگاتے ہیں وہاں کبھی مسلمانوں کے خلاف کفر کے فتوے صادر نہیں کئے جاتے۔ مسلمانوں کے خلاف کافر کافر کے نعرے ہمارے ہاں نہیں لگائے جاتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سے مردہ باد امریکہ، مردہ باد روس اور مردہ باد اسرائیل کہنے کا انتقام لیا جا رہا ہے۔ (25)2۔ اگر ہم گہرائی میں جائیں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ ہمارے ملکی حالات کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ امریکہ ہے۔ یہ امریکہ بڑا شیطان ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ امریکہ ہے کہ جو ہمیں کبھی فرقہ واریت کے نام سے لڑوا رہا ہے اور کبھی قومیت کے نام سے آپس میں نفرتیں پیدا کر رہا ہے۔ کبھی سیاست کے میدان میں ہمارے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اگر ہم پاکستان میں اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو جب تک ہم امریکہ کی غلامی سے آزاد نہیں ہوں گے جب تک ہم اسلام اور خدا کے سائے میں پناہ نہیں لیں گے تو اس وقت تک ہمارے مسائل میں اضافہ ہی ہوگا اور کمی ہر گز نہیں ہو گی۔ (26)3۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ نہ تو امریکہ کے ساتھ مربوط ہے اور نہ ہی روس کے ساتھ مربوط ہے اور دونوں کو اسلام اور مسلمانوں کا دشمن سمجھتی ہے اور یہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا امتیازی نشان ہے کہ اس کے جلسوں میں مردہ باد امریکہ، مردہ باد روسیہ اور مردہ باد اسرائیل کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ ہمیں اس میں کوئی عار نہیں ہے۔
(27) آخر میں چنیوٹ کی قرآن و سنت کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے نام قائد شہید کا ایک پیغام نقل کرنے کے ساتھ مقالے کا اختتام کرتا ہوں۔ امید ہے یہ فرمان امت محمدیہ (ص) کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ اے علمائے اسلام اب وقت آ گیا ہے کہ تنگ نظری کو چھوڑ دیں۔ آپ کی اس تنگ نظری سے اسلام و مسلمین کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ایک دوسرے کو تسلیم کریں۔ ایک دوسرے کے احساسات و جذبات کو مجروح نہ کریں۔
(28) حوالہ جات
1۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔ اسلوب سیاست صفحہ 84 (دیگر تمام حوالہ جات بھی اسی کتاب سے ہیں لہذا ان میں صرف صفحہ نمبر نقل کیا جائے گا) 2۔ص 65۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔
3۔ ص 69۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔ 4۔ ص 120۔ کراچی میں انٹرویو۔
5۔ ص 82۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔ 6۔ص 61۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔ 7۔ ص 62۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔ 8۔ ص 64۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔9۔ ص 162۔ 10۔ ص 348۔11۔ ص 65 و 66۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔12۔ ص 100۔ قرآن و سنت کانفرنس، ڈیرہ اسماعیل خان۔13۔ ص 74۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔
14۔ ص 346۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔15۔ ص 105 و 106۔ قرآن و سنت کانفرنس، ڈیرہ اسماعیل خان۔16۔ ص 324۔17۔ ص 162۔ قرآن و سنت کانفرنس چنیوٹ۔ 18۔ ص 123۔ کراچی میں انٹرویو۔19۔ ص 119۔ کراچی میں انٹرویو۔20۔ ص 348 و 349۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔ 21۔ ص 337۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔ 22۔ ص 338۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔23۔ ص 121۔ کراچی میں انٹرویو۔24۔ ص 349۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔25۔ ص 94۔ قرآن و سنت کانفرنس فیصل آباد۔ 26۔ ص 90۔ قرآن و سنت کانفرنس فیصل آباد۔
27۔ ص 80۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔28۔ ص 162۔ قرآن و سنت کانفرنس چنیوٹ۔