انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر

Rate this item
(1 Vote)

انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر

اسلام میں انسانی حقوق توحیدی فکروسوچ پر استوار ہیں کہ جس نے اسلامی حقوق بشر کو مغربی حقوق بشر سے ممتاز کر دیا ہے۔ اسلام انسانی حقوق کو انسانی عزت و کرامت کا لازمہ سمجھتا ہے کیونکہ دینی نظریے کے مطابق انسان زمین میں خدا کا جانشین ہے اور اس لحاظ سے عزت و تکریم کا لائق و سزاوار ہے۔

خداوند متعال نے عالم ہستی کو بہترین انداز میں پیدا کیا ہے تاکہ انسان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کو احسن انداز سے پورا کر سکے۔ اسی لیے جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اسے انسان کے اختیار میں قرار دیا ہے اور اپنی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے انسان کا ہاتھ کھلا رکھا ہے۔ لیکن انسان اپنے وجود اور عالم ہستی کی حقیقت کی تفسیر میں تضاد اور شش و پنج کا شکار ہو گیا ہے اور آفرینش اور معقول زندگی کے راستے سے بھٹک کر حرص و لالچ اور جاہ طلبی میں پڑ گیا ہے اور اس نے اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لیے دوسرے انسانوں کے حقوق کو پامال کرنا شروع کر دیا۔

دھمکی، امتیاز، بدامنی، فقر و غربت، بھوک اور جنگ و جدل انسانی معاشرے کی تاریخ کے تاریک پہلو ہیں کہ جن کے برے اثرات آج بھی انسانی معاشروں اور قوموں پر سایہ فگن دکھائی دیتے ہیں۔

انسانی حقوق قدیم یونان میں صرف معاشرے کے ممتاز اور خاص طبقے کے لیے تھے۔ دین مسیح کے پیروؤں کے ساتھ روم کی قدیم بادشاہتوں کا ظالمانہ رویہ انسانی معاشرے کے ساتھ ظلم و جارحیت کا ایک نمونہ ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں انسانوں کے حقوق سے بےاعتنائی آہستہ آہستہ ایک معمول کی چیز بن گئی۔ جنگ و خونریزی کے ایک دور کے بعد مختلف منشور اعلامیے اور دستاویزات تیار کی گئيں کہ جن کو تیار کرنے والوں نے انسانی معاشروں کے دکھوں کے مداوا کے لیے انسانی حقوق کی بات کی اور انہوں نے طے کیا کہ معاشرے کی زندگی کو ایک اصول کے تابع کیا جائے کہ جو فردی اور اجتماعی حقوق کا ضامن ہو۔

انسانی حقوق کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششوں میں سے ایک انیس سو اڑتالیس میں انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ تھا۔ یہ اعلامیہ جو اس سے پہلے کے منشوروں اور اعلامیوں سے کامل تر نظر آتا ہے، انسان کی فردی اور اجتماعی آزادیوں اور بہت سے بنیادی حقوق کا حامل ہے اور اس نے قوموں میں اس امید کو زندہ کیا کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے پر عمل درآمد سے ان کے تمام حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔

انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ ان حکومتوں کی مشترکہ فکر و سوچ کا نتیجہ ہے کہ جو واضح طور پر مغربی لبرل ازم کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں۔ اگرچہ یہ اعلامیہ بہت سی قانونی تبدیلیوں کا باعث بنا لیکن اس میں پائے جانے والے نقائص، اس کی من پسند تشریح اور اس پر عمل درآمد کے طریقۂ کار نے بہت سے انسانوں کو اپنے حقوق تک پہنچنے کے سلسلے میں مشکل سے دوچار کر دیا۔

دوسری جانب اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے کہ جس میں انسانی حقوق کے بارے میں مکمل معیارات اور قوانین موجود ہیں۔ حقوق بشر کے بین الاقوامی معیارات میں مقرر کیے گئے انسانی حقوق اور اسلامی انسانی حقوق میں بہت سے مشترکات پائے جاتے ہیں۔ جیسے زندگی کا حق، آزادی بیان کا حق، عقیدے کی آزادی، تعلیم کا حق، مکان اور عدم امتیاز وغیرہ۔ لیکن واضح سی بات ہے کہ انسانی حقوق کا خیال رکھنے کے لیے پیش کی گئي اقدار اس وقت عالمی حمایت کی حامل ہو سکتی ہیں کہ جب تمام تہذیبیں اور ثقافتیں نہ صرف قول میں بلکہ فعل میں بھی اس میں شریک ہوں۔ انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ مرتب کرنے والوں کی جانب سے مغربی مکاتب کی پیروی اس اعلامیے میں اعلی دینی تعلیمات کو نظرانداز کرنے کا باعث بنی اور مذہب کو رنگ نسل اور زبان کے ساتھ امتیاز اور تفریق کے عامل کی حیثیت سے بیان کیا گيا۔

اسی بنا پر اسلامی ممالک ایک ٹھوس اعلامیہ کی شکل میں انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کو بیان کرنے پر مجبور ہوئے کہ جس کی بہت سی شقیں شکل اور مضمون کے لحاظ سے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے ساتھ ملتی جلتی ہیں لیکن انسان کی ذات پر نگاہ کے سلسلے میں بہت سے اختلاف اور امتیازات رکھتی ہیں۔

 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

اسلام میں انسانی حقوق کی بنیاد توحیدی فکر و سوچ پر استوار ہے جس کی وجہ سے اسلامی حقوق بشر مغربی حقوق بشر سے ممتاز ہو گئے ہیں۔ اسلام انسانی حقوق کو انسانی عزت و کرامت کا لازمہ سمجھتا ہے کیونکہ دینی نظریے کے مطابق انسان زمین میں خدا کا جانشین ہے اور اس لحاظ سے عزت و تکریم کا لائق و سزاوار ہے۔ خداوند عالم سورۂ اسراء میں فرماتا ہے کہ ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔

درحقیقت امتیاز و تفریق اور نسل پرستی کا خاتمہ انسانی حقوق کے اعلامیہ کا تازہ نتیجہ نہیں ہے۔ وہ اصول جو آج مغربی انسانی حقوق کے ارکان کو تشکیل دیتے ہیں، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔ دین اسلام کا ظہور دنیا میں امتیاز اور تسلط کی نفی سے شروع ہوا اور خدا پیغمبروں نے انسانوں کے حقوق کو پورا کرنے اور معاشروں میں امن و انصاف قائم کرنے کے لیے کوششیں کیں۔ اسلام کا استدلال یہ ہے کہ تمام انسان رنگ نسل اور قومیت کے اختلاف کے باوجود ایک ہی جسم کا حصہ ہیں اور انہیں ایک جیسا پیدا کیا گیا ہے۔

اسلام کی نظر میں جب تک انسان کی معنوی اور باطنی زندگي کی اصلاح نہیں ہو گي اس وقت تک مادی عوامل اجتماعی امن و امان قائم کرنے میں مؤثر نقش ادا نہیں کر سکتے۔ اس بنا پر مکتب اسلام انسان کے اجتماعی تشخص کو اس کے اخلاق اور اعتقادات میں قرار دیتا ہے اور اسے انسانی زندگی کے مشترکات کی بنیاد سمجھتا ہے۔ وہ انسانوں کی برابری اور مساوات کے سلسلے میں انہیں ایک دوسرے کا بھائي قرار دیتا ہے۔

دوسرا اہم نکتہ یہ کہ عالمی اعلامیوں میں انسانی حقوق کے عنوان سے جو کچھ کہا گیا ہے وہ مکمل طور پر انسانی زندگی کے مادی پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے لیکن انسان کے اخلاقی اور معنوی حقوق کی کوئي بات نہیں کی گئی ہے۔ آج کسی سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ دوسروں پر ظلم و جارحیت معاشروں میں اخلاقی قدروں کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ اسی سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی حکومتوں کی خود سری نے انسانی حقوق کے مسئلے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور انسانی حقوق کی حقیقت مغربی حکومت کی پالیسیوں میں جگہ جگہ پامال ہو رہی ہے۔

مغربی حقوق بشر پر اسلامی حقوق بشر کے امتیازات کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران نے دو ہزار آٹھ میں یوگینڈا کے دارالحکومت کمپالا میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے دوران " اسلامی حقوق بشر اور انسانی کرامت" کا دن معین کرنے کے لیے ایک قرارداد پیش کی جسے تمام اسلامی ملکوں نے اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ اس قرارداد کے مطابق پانچ اگست کو اسلامی حقوق بشر اور انسانی کرامت کے دن کے طور پر معین کیا گیا۔ اس طرح یہ اسلامی حقوق بشر کے شعبے میں اسلامی تعاون تنظیم کی اہم ترین دستاویز کے طور پر ثبت ہوئی۔ اس دن کو معین کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اور اسلامی ملک اسلام میں حقوق بشر کو دنیا والوں تک پہنچائيں اور موجودہ دنیا کو انسانی حقوق کے جو چیلنج درپیش ہیں ان کے بارے میں بحث و مباحثہ کریں۔

اسلامی حقوق بشر کا اعلامیہ پچیس شقوں پر مشتمل ہے جس میں اشرف المخلوقات کی حیثیت سے انسان کے شرف اور عزت و کرامت کی بات کی گئي ہے۔ اس اعلامیہ میں اس بات کا ذکر بھی کیا گيا ہے کہ اگرچہ انسان نے مادی علوم میں ترقی و پیشرفت کے کئی مراحل طے کیے ہیں لیکن اپنے حقوق اور تمدن کی حمایت کے لیے اسے ایمان و معنویت کی شدید ضرورت ہے۔

Read 5605 times