عیسائیوں کی نظر میں عشق حسینی کی تجلی

Rate this item
(0 votes)

عیسائیوں کی نظر میں عشق حسینی کی تجلی

اس مضمون میں ہم حضرت امام حسین(‏ع) کے بارے میں عیسائی محققین اور مصنفین کے چنندہ مضامین اوراشعار کے ترجمے پیش کرنے جارہے ہيں ۔

تاریخ انسانیت ، عظیم واقعات اور رزمیہ کارناموں سے سرشار ہے ۔ ان واقعات میں بعض ایسے ہیں جو جغرافیائی ، قومی ، نسلی ، لسانی اور مذہبی تمام حدود پار کرگئے ہیں اور انہیں عالمی سطح پر اہمیت حاصل ہے اس طرح سےکہ ان واقعات نے دانشوروں ، حقیقت کے متلاشیوں اور مختلف مذاہب کے محققوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے ۔ ان جاوداں رزمیہ کارناموں میں سب سے بلندی پر واقعۂ عاشورا متجلی ہے کہ جس کی روشنی سے ہر زمانے میں تمام نسلیں مستفید ہوتی رہی ہیں ۔ حضرت امام حسین (ع) کی مسلمان ، ہندو ، سکھ ، عیسائی اور دیگر ادیان کے ماننے والوں نے اپنے اپنےادراک کے مطابق تعریف کی ہے کیوں کہ جو کام امام (ع) نے اپنی شہادت کے ذریعے انجام دیا اس نے بشریت کو اعلی انسانی اقدار سے آشنا کردیا ۔ اس درمیان عیسائیوں نے جو حضرت امام حسین (ع) سے اظہار عقیدت کیا ہے وہ قابل غور اور لائق تعریف ہيں ۔

کتاب " پدر ، پسر اور روح القدس " ، اہل بیت پیغمبر علیھم السلام کےبارے میں ایک عیسائي شاعر کے گرانبہا اشعار کا مجموعہ ہے ۔ اس کتاب کے محقق " محمد رضا زائری " کتاب کے مقدمے میں لکھتےہيں کہ ہماری احادیث اور روایات میں ذکر ہوا ہےکہ " کوئی بھی اہل بیت علیھم السلام کی مدح میں اس وقت تک شعر نہیں کہہ سکتا کہ جب تک کہ اسے غیبی مدد حاصل نہ ہو ۔ لبنان کی فرانسیسی یونیورسٹی میں اسلام اور عیسائيت کے تعلقات کی نئی راہ کے حوالے سے مطالعے اور معلومات کے حصول نے یہ موقع فراہم کردیا کہ ہم تاریخی تجربات سے مزید آشنائی حاصل کریں چنانچہ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ عیسائي شعراء نے اگر امت کے باپ حضرت علی ( ع) اور ان کے بیٹے حضرت امام حسین (ع) کے لئے اشعار کہے ہیں اور طبع آزمائی کی ہے تو یہ بھی بلا شبہ روح القدس کی عنایت کے سبب ہے ۔

وہ اس کتاب کو " عیسائي شاعروں اور مصنفین کی کتابوں میں محبت علی کی تجلی اور عشق حسینی کا جلوہ " اور اسے پیغمبر اسلام اور ان کے اہل بیت سے ، عیسائی شاعروں اور مصنفین کی عقیدت و محبت کا مظہر قرار دیتےہیں ۔ ہم اس مرحلے میں ان اشعار ميں سے چند شعر کا ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔

انسان کی زندگي ميں ایسے ایام بہت ہی شاذ ونادر ہیں کہ جن میں پوری تاریخ یکجا اور مجسم ہوجائے ۔ ان تاریخوں میں سےایک ، روز عاشورا ہے ۔ روز عاشور جن چیزوں کو مجسم کرتا ہے وہ صرف تاریخ شیعہ نہیں ہے بلکہ شہداء کی تاریخ اور تاریخ شہادت ہے جو باعث بنتی ہے کہ ان کی یادیں انسانوں کی روحوں کی گہرائیوں میں اتر جائيں اور ہر انسان علم وآگہی کے ساتھ ان سے ہمدردی اوراظہار محبت کرے ۔ امام حسین (ع) کا ایمان اور ان کے اصحاب باوفا کی وفاداری ، ظلم کے خلاف قیام اور اہل بیت کی جاں نثاری ، وہ اقدار ہیں جو کربلا میں مجسم ہو گئي ہیں ۔ کربلا کے مصائب ، زمان و مکان کی سرحدوں سےماوراء ہیں جو انسانی اقدار کی دہلیز پر دستک دیتے ہوئے ایک اعلی ترین نمونہ بن گئے ہیں ۔ اور درس کربلا صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام انسانیت کےلئے ہے تاکہ ہر کوئي اس سے درس حاصل کرے اور فیضیاب ہو ۔

یہ بیان ممتاز عیسائي ادیب و قانونداں اور لبنان کی سابقہ تین حکومتوں کے وزیر " ادمون رزق" کا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین (ع) کی محبت ایک شعلہ ہے جو ہر حق پسند انسانوں کے دلوں میں شعلہ ور ہے ۔

" آہ ، واحسرتا حسین کی شجاعت و بہادری پر " یہ جناب زینب کی صدا تھی کہ جس میں اتنی للکار تھی کہ جیسے تلواریں آپس میں ٹکرا رہی ہوں ۔۔۔ غمزدہ لیکن کوہ استقامت بن کر دربار یزيد میں یزید کو للکارتے ہوئے فرماتی ہیں اے یزید تو چاہتا تھا کہ جن پر غلبہ حاصل کرلے آج وہی تجھ پر غالب آگئے ہیں تو مکر و فریب سے کام لے کر خود پسندانہ رویہ اختیار کررہا ہے ۔گناہوں کے سنگين بوجھ سانپوں کی مانند تیری گردن میں حلقہ زن ہیں ۔ تو جانوں اور ضمیروں کو خریدتا اور خود پر فخر کرتا ہے لیکن ہمیشہ یہ یاد رہے اور اسے بھول مت جانا کہ اہل بیت کی کوئي قیمت نہیں ہے ۔ تو ہرگز ہماری وحی کے نور کو بجھا نہیں سکتا اور ہمارے خاندان کے درخت کو خشک نہيں کرسکتا اس لئے کہ ہماری یادیں عاشقوں کے دلوں میں جاوداں ہیں ۔ ہم نے اس عظیم دن ميں تیرےتخت حکمرانی کو لرزہ بر اندام کردیا ۔ یاد رکھ کہ بہشت کی نعمتیں میرے لئے ہیں اور آتش جہنم اور بدبختی تیرا مقدر ہے ۔

یہ منتخب بیان ، لبنانی تاریخ تمدن اور عربی ادب کے استاد " جارج شکور" کا ہے ۔ وہ ان جملہ عیسائی دانشوروں ميں سے ہیں جن کی متعدد کتابیں اہل بیت پیغمبر علیھم السلام سے متعلق شائع ہوچکی ہیں ۔ جارج شکور کی 2001 میں کتاب " حسینی کارنامہ " اور 2007 میں کتاب " امام علی (ع) کا جہاد " کے عنوان سے شائع ہوئي ۔ شکور، معاشروں میں پھیلی بیداری اور جوانوں میں پائے جانے والے جراتمندانہ جذبے کو خون حسین (ع) کا رہین منت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں ۔ " اے حیسن آپ لائق ستائش ہیں ، آپ نے کتاب کربلا میں اپنے خون سے جو تاریخ رقم کردی ہے ساری دنیا اس کے بارے میں شرح لکھتی رہے گي ۔ بغض وکینے میں آپ کا سر تن سے جدا کردیا گيا اورآپ اور آپ کے عزیزوں کے سروں کونیزوں پر بلند کرکے کشاں کشاں پھرایا گيا ۔ اور حسین کی عورتیں اور بچے ، جنہیں دیکھ کر خون کے آنسو بہاتے رہ گئے اور ان کا جگر کباب ہورہا تھا ۔ لیکن اے زمانہ دیکھ لے کہ کربلا کے شہداء کا خون آج بھی ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح رواں دواں ہے ۔امام حسین (ع) کی تحریک اور انقلاب جاوداں ہوگيا اور آج ان کا پیغام دلوں میں نقش ہوگيا ہے ۔ جس زمانے سے لبنان جورو جفا کی بھینٹ چڑھا ہے اور ستمگروں نے سر غرور اٹھایا ہے مکتب حسین (ع) کے پروانوں نے اپنی جانیں ہاتھوں پر لے کر جرات و بہادری کے ساتھ اپنی غصب شدہ زمینوں کو آزاد کرایا اور ببانگ دہل امام حسین کا یہ جملہ دہرایا کہ حق کبھی بھی ضائع نہیں ہوسکتا ۔

کتاب " پدر ، پسر اور روح القدس " کے ایک اور حصے میں بعض اشعار کا ترجمہ اس طرح سے ذکر کیا گيا ہے ۔

میں حسینی کارنامے کو اس سے بالا تر سمجھتا ہوں کہ اس پر آنسو بہاؤں بلکہ ایسی شہادت کہ جس نےحق کو دوبارہ زندہ کردیا اس پر خوش ہونا چاہئے اور اس کی تکریم کرنی چاہئے ۔ ان کا خون ابھی بھی ضمیروں کو بے قرار کئے ہوئے ہے ۔۔۔ اور جب مقتول حق ہے ، تو قاتل جو بھی ہو وہ کافر اور باطل کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ حسین شہید کا خون ، کریم اور بخشنے والا ہے ۔ یہ خون ضائع نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ حق اور حقیقت کی رہنمائی کے لئے روشنی بکھیر رہا ہے ۔ شہادت ایک ایسی چاشنی ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی سوائے ان عظیم انسانوں کے جنہوں نے قسم کھائی ہے کہ وہ ستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور ظالم سےانتقام لیں گے ۔ حقیقیت بیانی وہ ہے جسے کہنے میں کوئی ہچک نہ ہو۔ آپ ہی بتائیے کیا حسین (ع) پیغمبر کی آغوش کے پررودہ نہیں تھے ؟ کیا پیغمبر کے دل میں ان کی محبت ، سب سے زیادہ نہیں تھی اور سب سے زيادہ ان ہی کو نہیں چاہتے تھے ؟ کیا انہیں جوانوں کے سید و سردار کے لقب سے نہیں نوازا کہ جن کی خوشبو سے مشام بہشت سرشار ہے ۔ کیا ان کے لبوں کے بوسے نہيں لئے اور انہیں اپنے سینے سے نہیں لگایا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

" پولس سلامہ " ایک اور شاعر ہیں جنہوں نے اہل بیت علیھم السلام خاص طور پر امام حسین (ع) کی مصیبت میں بہت زيادہ اشعار کہے ہیں ۔محمد رضا زائری اپنی کتاب میں امام حسین (ع) سے پولس سلامہ کی عقیدت و محبت کا ذکر کرتے ہوئے خود ان ہی کی زبانی لکھتے ہيں " میں بچپنے سے قرآن مجید اور تاریخ اسلام کا شیفتہ تھا ۔ اور جب بھی شہادت حضرت علی اور ان کے فرزند امام حسین علیھماالسلام کی بات آتی تھی تو حق کی نصرت اور باطل کے خلاف جنگ کا شعلہ میرے سینے میں روشن ہوجاتا ۔ ممکن ہے کوئی یہ اعتراض کرے کہ ایک مسیحی کو اسلام کی تاریخ بیان کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ میں ایک عیسائي ضرور ہوں لیکن تنگ نظر عیسائی نہیں ہوں ۔ اگر علی اور آل علی کی محبت تشیع ہے اور ظلم کے خلاف قیام اور حسین اور ان کے بچوں پر جو ظلم ہوا اس پر اظہار ہمدردی کرنا ہی شیعہ ہونا ہے ، اگر شیعہ یہی ہیں تو میں اعلان کرتا ہوں کہ میں شیعہ ہوں ۔

سلامہ نے ایک منظوم کلام ميں واقعۂ کربلا ، امام حسین (ع) کی تحریک کے آغاز اور اس تحریک کے مختلف مراحل اور حضرت امام حسین (ع) کی شہادت کو تفصیل سے بیان کیا ہے وہ اس منظوم کلام کے ایک حصے میں لکھتے ہیں " ميں نے اس قدر گریہ کیا کہ میرا تکیہ آنسوؤں سے تر ہوگيا اور میرے قلم سے گریہ کی آواز بلند ہوگئي ۔ حسین تیرے غم نے مجھ مسیحی کوبھی رلادیا دیا اور آنسوؤں کے قطرے میرے آنکھوں سے جاری ہوئے اور تابندہ ہوگئے ۔ ہرگز اس شخص کی کیفیت جو دور سے آگ کا نظارہ کرتا ہے اس جیسی نہیں ہوسکتی جو خود آگ میں جل رہا ہے ۔

کتاب پدر ، پسر اور روح القدس میں اسی طرح "سلامہ" کے وہ اشعار جو انہوں نے عاشورا کے سلسلے میں کہے ہیں اورامام حسین (ع) سے مخصوص ہیں اس طرح سے ہیں " شمر چلا رہاتھا دوڑو اور اسے قتل کردو۔ بد ترین شقی زرعہ بن شریک نے تلوار کھینچی اور امام حسین (ع) کے شانے اور گردن پرایسی ضرب ماری جس سے امام (ع ) عرش زین سے فرش زمین پر آگئے شمر دوڑا تاکہ سر کو بدن سے جدا کرے اے کاش اسی وقت اس کا ہاتھ خشک ہوگيا ہوتا ، شمر نے پیغمبر کے نواسے کے سر مبارک کو تن سے جدا کیا اور پنجتن پاک کا خاتمہ کردیا۔ مظلوم امام کے بدن سے لباس بھی اتار لئے اور ان کی لاش پر گھوڑے دوڑادیئے ۔

سلامہ مزید کہتے ہيں ۔ آج عالم عرب اپنے جیالوں اور بہادروں کو پہچاننے اور پیروی کرنےکا محتاج ہے لیکن جیسی بہادری و شجاعت علی (ع) میں موجود تھی عرب کےکسی بھی بہادر میں نہیں تھی ۔ جس طرح سے کہ کوئ بھی آج تک امام حسین (ع) سے زیادہ ظالموں کے مقابلےمیں شجاعت و بہادری کا مظاہرہ نہیں کرسکا ہے ۔ اور کیوں نہ ایسا ہو کہ علی (ع) محمد (‏ص) کے پروردہ اور حسین (ع) محمد (ص) کے دل کا ٹکڑا ہیں ۔

Read 3271 times