اسلام میں علم کی فضیلت

Rate this item
(16 votes)

اسلام میں علم کی فضیلت

اسلام میں حصول علم کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے ۔ خداوندمتعال نے قرآن کریم میں سب سے  پہلے پڑھنے ،علم اور کتابت سے اپنے کلام کا آغاز کیا ہے ۔ کیونکہ علم انسان کو سعادت وتکامل کاراستہ بتاتا ہے اور اسے قوی وتوانا بنادیتا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کو اپنی خواہشات کے مطابق بہتر بناسکے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ علم حاصل کی ترغیب دلاتے تھے ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ میں آیا ہے کہ آپ جنگ بدر کے بعد ہر اس اسیرکو جو مدینہ کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھاتا تھا آزاد کر دیتے تھے ۔اس عمل سے اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔آپ تمام علوم کو اہمیت دیتے تھے ، چنانچہ آپ نے اپنے بعض صحابیوں کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ۔ معروف حدیث سے بھی جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے ، اسلام میں تعلیم کی  اہمیت کا پتہ چلتاہے ، حصول علم کے بارے میں آپ کی ترغیب اور تاکید سبب بناکہ مسلمانوں نے بڑی سرعت وہمت  کے ساتھ علم حاصل کیا اور جہاں بھی انھیں  علمی آثار ملتے  تھے اس کا ترجمہ کرڈالا ۔اس طریقہ سے یونانی ، ایرانی ، رومی ،مصری ،ہندی اور بہت سی دوسری تہذیبوں کے درمیان رابطے کے  علاوہ تاريخ انسانیت کے عظیم تہذيب وتمدن کو اسلامی  تہذیب وتمدن کے نام سے خلق کرلیا ۔

مسلمانوں کی نظر میں علم ودین ایک دوسرے  سے جدا نہیں ہیں ، بلکہ علم دین کا ہمزاد شمار ہوتاہے اور سائنسی علوم  جیسے فزکس ، نجوم ، زمین شناسی، طب ، ریاضیات وغیرہ مسلمانوں کے علمی مراکز میں پڑھائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں علمی  اور دینی مراکز میں عظیم اور بڑی بڑی لائبریریاں قائم ہوئیں اور علم و دین نے لازم ملزوم کی طرح ترقی  کی ، یہ ایسی حالت میں تھا  کہ علم ودین کے رابطے کے بارے میں عیسائیت کے غلط استفادے  نے یورپ کی تاریخ کو عصر ایمان اور عصر علم کے دوحصوں میں تقسیم کردیااورعلم کو ایمان کے مقابلے میں قرار  دیدیا ، قرون وسطی میں علمی اور  فلسفی مسائل میں  نظریات پیش کرنے کا صرف کلیسا کو حق حاصل تھااور کسی بھی دانشور کو کلیسا کے نظریات کے خلاف  علمی نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں تھا اور کلیسا کے نظریات کے خلاف علمی نظریہ کو کفر والحاد کے مساوی اوربرابر سمجھاجاتا تھا ۔ جس کے مطابق بہت سے دانشوروں کو کلیسا کے خلاف علمی نظریہ رکھنے کی وجہ سے جیلوں میں پھانسی دیدی گئی  یا پھر انھیں آگ میں جلادیا گيا۔

چنانچہ اسلام نےدینی اور تاریخی لحاظ سے کبھی بھی علم کی مخالف نہیں کی ہے بلکہ اسلام نے  اس کے برخلاف اپنے آغاز ظہور سے  علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اوربہت سی آیات و روایات میں علم اور  عالم کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے ۔ اسلام میں علم کا مقام بہت بلند وارفع ہے اور حصول علم کو دینی فریضہ قرار دیاگیا ہے اور اسلام میں  علم کے بارے  میں کوئی محدودیت نہیں ہے ، اسلام کی نظر میں تمام نافع علوم مطلوب اور پسندیدہ ہیں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم کی تعریف نہیں کی جاسکتی ہے بنابر ایں ہر مفید اور اچھے علم کو حا صل کرلو ۔ طبق روایات علم کو کسی مخصوص شعبے سےمنحصر نہیں کیاگیا ہے بلکہ  ہر اس علم کو حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے جو لوگوں کے لئے مفید ہو۔ درحقیقت مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انسا ن کے علم میں جتنا اضافہ ہوگا خدا کے بارے میں اس کی معرفت میں بھی زیادہ اضافہ ہوگا کیونکہ اسلامی فکر میں علم اور دین کے  درمیان مکمل اتفاق پایا جاتا ہے اسلام میں علم نافع حاصل کرنے پرتاکید کی گئی ہے صرف علم دین  نہیں ہے جو آخرت کے لئے مفید ہو بلکہعلم نافع سے مراد وہ علم ہے جو انسان کے لئے مفید واقع ہو چاہے مادی نفع ہو یا معنوی اور اخروی نفع ہو ۔

سورہ مجادلہ کی گیارہویں آیت علم کی اہمیت اور علماء کی  برتری اور ان کے اعلی وبلند مقام کی وضاحت کی گئی ہے ، ارشاد ہوتا ہے کہ خدا صاحبان ایمان اور جن لوگوں کو علم دیاگیا ہے ان کے درجات کو بلند کرناچاہتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ۔

لفظ درجات کاکسی مخصوص حد کی تعیین کے بغیر مطلق استعمال ہوا ہے ۔قرآن کریم میں جس سے اس کی عظمت بزرگی کی نشاندھی ہوتی ہے ۔ اس آیت شریفہ کی تفسیر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو ذر خدا ،ملائکہ اور انبیاء طالب علم کو دوست رکھتے ہیں اور علم کودوست نہیں رکھتامگر سعادت مند انسان ۔ بس خوش نصیب ہے قیامت کے دن وہ طالب علم جو اپنے گھر سے باہر نکلے اور علم کے ایک دروازے کو اپنے لئے کھول دے۔ خدا اس کے ہر قدم پر اس کے لئے شہدائے بدر کے ایک شہیدکا ثواب لکھتا ہے اور وہ صبح وشام خدا کی مرضی کے مطابق زندگی  گذار تا ہے اور مرنے کے بعد وہ آب کوثر سے سیراب ہوگا اور بہشت کے پھل کھائے گا اور بہشت میں حضرت خضر علیہ السلام کا دوست اور رفیق ہوگا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن  جب پل صراط پر عالم اور عابد جمع ہوں گے تو عابد سے کہا جائے گا کہ بہشت میں داخل ہوکر اپنی عبادتوں سے بہرہ مند ہوجاؤ اور عالم سےکہا  جائے گا کہ یہاں بیٹھو اور جسے چاہو اس کی شفاعت کرو اس لئے کہ جس کی شفاعت کروگے خدا اسے قبول کرلے گا ، عالم قیامت کے دن انبیاء کرام علیہم السلام کی صف میں کھڑا ہوگا اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی  جتنی شفاعت کرستکاہے  شفاعت کرے گا اس لئے کہ قیامت کے دن تین گروہ گہنگاروں کی  شفاعت کریں گے ۔ انبیاء ، علماء اور شہدا۔

اہلبیت علیہم السلام کی احادیث میں بھی حصول علم کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان فرد پر واجب ہے ، حصول علم کے بارے میں واجب کی حد تک تاکید سے اسلام میں لوگوں سے جہالت ونادانی کے خاتمہ اور علم ودانش کے حصول کی  اہمیت کا پتہ چلتاہے کہ ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ حدیث میں فرماتے ہیں کہ آگاہ ہوجاؤ کہ خدا اس شخص کو جو حد سےزیادہ علم حاصل کرتا ہے دوست رکھتا ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس جملے سے مراد یہ ہے کہ علم  کے لئے کوئی حد نہیں ہے انسان  کبھی بھی علم کی انتہا کو نہیں پہونچ سکتاہے۔ بنابر ایں جس مقدار میں  بھی علم حاصل کیاجائے ‍ خدا اس پر راضی ہے ۔ لیکن جو لوگ  اس راہ میں زیادہ جد وجہد اور کوشش کرتے ہیں وہ خدا کی بارگاہ میں زیادہ محبوب ہیں ۔ عالم بزرگ اور مفسر قرآن علامہ محمد حسین طباطبائی سورہ مبارکہ زمر کی نويں آیت پراستناد کرتے ہوئے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہوجائيں گے جو نہیں جانتے ہیں ؟  کہتے ہیں کہ اس آیت میں علم کے ہونے اورنہ ہونے کے بارے میں مطلق کہاگیا ہے ۔ لیکن مفاد  آیت  کے مطابق خدا کاعلم ہے چونکہ خدا کے بارے میں علم انسان کو  کمال کی منزلوں تک پہونچادیتا ہے اور حقیقت میں نافع کے معنی یہی ہیں اور اس کا نہ ہونا نقصان دہ  ہے، چنانچہ دوسرے علوم  مال ودولت کی مانند ہیں کہ جو صرف دنیوی زندگی کے لئے سود مند ہیں جو دنیا کے فناہونے کے ساتھ فنا ہوجائيں گے ۔ پس مؤمنین کی دوقسمیں ہیں ،عالم اور غیر عالم ، پہلے  گروہ کو بر تری حاصل ہے ۔ جیساکہ سورہ علق  میں آیا ہے کہ اسحدا کانام لیکرپڑھوجس نے پیداکیا ہےجس نےانسان کوجمے ہوئے خون سے  پیداکیا  ہے،  پڑھو اور تمہارا پرودگار بڑاکریم ہے  جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم  دی ہے اورانسان کووہ سب کچھ بتادیاہےجو اسےنہیں معلوم تھا ۔ اس آیت میں انسان  کے نازل ترین اور اعلی ترین مرتبہ وجودی کا  ذکر کیاگیا ہے ۔انسان کا اعلی اوربرترین مرتبہ عالم ہونا ہے کیونکہ خدانے اپنی کرامت کی  صفت کے بعد تعلیم  کی صفت کو اپنی  طرف منسوب کیا ہے اور دوسری طرف علقہ یعنی جمے ہوئے خون کو نازل ترین  مرتبہ وجود دی قراردیا ہے ۔ پس علم کی طرف حرکت کرنا انسان کے لئے کمال ہے ۔

علم سے متعلق احادیث میں مرد اورعورت دونوں شامل ہیں ،البتہ بعض روایات میں عورتوں کے لئے حصول علم کے وجوب کی خاص طورپر  وضاحت کی گئی ہے   چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم کاحاصل کرنا مرد وعورت دونوں پر واجب ہے ، انبیاء  کرام علیہم السلام کی  نظر میں علم کا حاصل کرنا کسی  خاص گروہ یا نسل سے  مخصوص نہیں ہے ۔بلکہ ہرانسان  کو  چاہئیے کہ وہ جہالت ونادانی سے دور ہونے کے لئے علم کے حصول کے لئے قدم اٹھائے ،  قرآن کریم کی بہت سی آیات میں  خدا لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے اور کائنات کے اسرار ورموز کی شناخت کی دعوت دے کر  لوگوں کے سامنے معرفت کے نئے دریچے کھولنا چاہتا ہے ۔ خدا نے شناخت ومعرفت کو ایک اہم اور ضروری ذمہ داری قرار دیا ہے  چنانچہ اس نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ انسان کی تعلیم کو ان کی بعثت کا مقصد قرار دیا ہے ۔  اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دعوت اس  وقت دی گئ کہ جب جہالت ونادانی کے بادل سعودی معاشرے پر چھا ئے ہوئے تھے اور لوگ گہرے اور عمیق خواب غفلت میں پڑے ہوئے تھے

Read 11365 times