حمزہ بن عبد المطلب پیغمبر اسلام (ص) کے چچا تھے آپ عرب کے شجاع ترین شخص اور صدر اسلام کے بہادر اور رشید مرد تھے آپ نے اپنے بتیجھے کے شانہ بشانہ اسلام کی نصرت کی۔ اور سخت ترین مراحل میں پیغمبر اکرم (ص) اور دین اسلام کا دفاع کیا۔ قریش کے سردار اور عرب کے بڑے بڑے سورما ان کی شجاعت اور ابہت کے سامنے خوف کھاتے تھے۔
انہوں نے اپنی پوری قدرت کےساتھ مکہ کے نازک ترین ماحول میں پیغمبر اکرم (ص) کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا اور ابو جہل سے پیغمبر (ص) کا انتقام لینے کی غرض سے اس کا سر پھوڑ دیا تھا جو اس نے شان رسالت میں گستاخی کی تھی لیکن کوئی ان کےسامنے آنے کی جرئت نہ کر سکا۔
جناب حمزہ جنگ بدر میں قریش کے سب سے بڑے پہلوان ’’ شیبہ‘‘ کے مقابلہ کے لیے گئے اور اسے زمین بھوس کر دیا کئی ساروں کو واصل جہنم اور زخمی کیا۔
جناب حمزہ کا خاندان
جناب حمزہ بن عبد المطلب بن ہاشم کی والدہ سلمی عمرو بن زید بن لبید کی بیٹی تھیں۔ اور آپ کے بھائیوں میں سے عبد اللہ، ابو طالب، ابولہب، وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ان کی بہنیں بھی عاتکہ، امیمہ، صفیہ، اور برّہ تھیں۔
پیغمبر کا رضاعی بھائی
ابو لہب کی کنیز ثوبیہ جس نے جناب حمزہ کو دودھ پلایا تھا اس نے کچھ دن رسول خدا (ص) کو بھی دودھ پلایا۔( امتاع الاسماع، ص6) اس وجہ سے جناب حمزہ پیغمبر اسلام کے رضاعی بھائی بھی ہیں۔
دوسری طرف سے جناب حمزہ نے قبیلہ بنی سعد کی رہنے والی سعدیہ نامی خاتون کا دودھ بھی پیا تھا اور بعد میں وہ خاتون رسول خدا(ص) کی دائیہ بھی رہی ہیں یعنی رسول خدا(ص) کو بھی انہوں نے دودھ پلایا۔ لہذا جناب حمزہ دو اعتبار سے رسول خدا(ص) کے رضاعی بھائی ہوئے، ثوبیہ کی طرف سے بھی اور سعدیہ کی طرف سے بھی (سدالغابة، ج1، ص15)
پیغمبر کے لیے منگنی
خدیجہ جو اس وقت کی بہت بڑی تاجرہ تھی اس نے رسول خدا (ص) کو اپنے غلام میسرہ کے ساتھ تجارت کے لیے شام کی طرف بھیجا۔ میسرہ نے اس سفر میں رسول خدا (ص) سے کچھ کرامات کو مشاہدہ کیا جو اس نے واپس پہنچ کر خدیجہ کے لیے بیان کیں۔
جناب خدیجہ نے ایک شخص کو رسول خدا (ص) کی خدمت میں بھیجا اور آپ سے شادی کے لیے اپنی تمنا کا اظہار کیا۔ رسول خدا(ص) نے اپنے چچا سے مشورہ کیا اس کے بعد جناب حمزہ کے ساتھ خویلد بن اسد بن عبد العزی کے پاس رشتہ کے لیے گئے اور جناب خدیجہ کی منگنی کی۔( سيرة النبي، ج 1، 205)
جناب حمزہ اور بیٹے کی کفالت
ایک سال قریش قحط اور خشکسالی کی وجہ سے ایک شدید پریشانی میں گرفتار ہوئے۔ جناب ابوطالب کے یہاں اہل و عیال کافی زیادہ تھا۔ اس وجہ سے رسول خدا(ص) نے اپنے چچا عباس جو اس زمانے میں بنی ہاشم میں سب سے زیادہ ثروتمند تھے سے کہا: آئیں آپ کے بھائی ابوطالب کے پاس چلتے ہیں اور ان کی مدد کے لیے ان کی اولاد میں سے ایک کوکفالت کے لیے میں اپنے پاس لے جاتا ہوں اور ایک کو آپ لے جائیں۔
جناب عباس نے قبول کر لیا۔ جناب حمزہ کو خبر ملی تو وہ بھی اس کام کے لیے ان کے ساتھ ہو لئے۔ حضرت ابو طالب نے کہا: عقیل کو میرے پاس چھوڑ دو باقی والوں میں سے انتخاب کر لو۔ رسول خدا(ص) نے علی علیہ السلام کا انتخاب کر لیا۔ جناب عباس نے طالب، اور جناب حمزہ نے جعفر کا انتخاب کیا۔( سيرة النبي، ج 1، ۲۰۸)
جناب حمزہ کا اسلام لانا
پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے بعد جناب حمزہ بھی خدا کی وحدانیت اور پیغمبر(ص) کی رسالت پر ایمان لائے اور اپنے بتیجھے کے دین کو قبول کیا۔ جناب حمزہ کے اسلام لانے کے بعد قریش کی پیشنہادیں یکے بود دیگرے شروع ہو گئیں۔ اس لیے کہ انہوں نے دیکھا کہ سب سے زیادہ شجاع شخص پیغمبر پر ایمان لے آیا ہے۔ لہذا انہیں جناب حمزہ کی حمایت کی امید نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن پیغمبر اکرم(ص) نے ان کی کوئی فرمائش بھی قبول نہیں کی۔
ابوجہل نے قریش کے درمیان تقریر کی اور اس کے بعد قریش نے پیغمبر کے قتل کا منصوبہ بنایا۔
ایک دن ابو جھل نے رسول خدا (ص)کو صفا کے مقام پر دیکھا تو انہیں گالیاں دیں۔ پیغمبر(ص) نے اس کے بکواس پر کوئی توجہ نہیں کی۔ عبد اللہ بن جدعان کی کنیز اس ماجرا کو دیکھ رہی تھی اس نے فورا اس بات کی خبر جناب حمزہ کو دی۔
جناب حمزہ کو بہت برا لگا انہوں نے ابو جہل سے انتقام کا ارادہ کر لیا لہذا فورا اٹھے اور ابو جہل کی تلاش میں نکلے، دیکھا کہ ابوجہل قریش کے ایک مجمع کے درمیان بیٹھا ہوا ہے۔ جناب حمزہ بغیر اس کے کہ کسی سے کوئی بات کریں سیدھے ابوجھل کی طرف بڑھے اور اپنی کمان کو اس کے سر پر دے مارا۔
ابو جھل کا سر پھٹ گیا۔ اس کے بعد جناب حمزہ نے کہا: تو پیغمبر کو گالیاں دیتا ہے؟ میں ان پر ایمان لایا ہوں جس راستے پر وہ چلیں گے اس پر میں چلوں گا۔ اگر تیرے اندر جرئت ہے تو میں میرے ساتھ مقابلہ کر۔ ابو جہل نے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا: میں نے محمد کے حق میں برا کیا۔ حمزہ کو حق ہے کہ ناراض ہو۔ (فرازهايي از تاريخ پيامبر اسلام، ص 114)
اسلام کی دن بدن ترقی سے قریش کی نگرانی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اور پیغمبر کو اذیت و آذار کا سلسلہ مزید بڑھتا گیا۔ حتی آپ (ص) کے چچا ابو لہب اور ان کی بیوی بھی آپ(ص) کو اذیت کرنے سے باز نہیں آتے تھے خاص طور پر اس وجہ سے کہ وہ پیغمبر اکرم کے پڑوسی تھے اپنے گھر کا سارا کوڑا کرکٹ رسول خدا (ص) کے اوپر ڈالتے تھے۔ حتی انہوں نے بھیڑکی اوجری ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ البتہ جناب حمزہ نے ان سے بھی انتقام لے لیا۔
جناب حمزہ اسلام کی ابتدائی جنگوں میں
۱۲ ربیع الاول کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی، جناب حمزہ جس طرح سے مکہ میں رسول اسلام (ص) کے سپر تھے مدینہ میں بھی آپ نے رسول اسلام(ص) کی بھر پور حمایت کی۔ ہجرت کے دوسرے سال ۱۷ رمضان کوجب جنگ بدر وجود میں آئی تو جناب حمزہ نے نہایت بہادری کے ساتھ جنگ بدر میں شرکت کی اور دشمن کا مقابلہ کیا جنگ بدر میں آپ قریش کے پہلوان عتبہ کے مد مقابل جنگ کی اور اسے زمین بوس کیا۔
جنگ بدر میں مشرکین مکہ نے شکست کھانے کے بعد مسلمانوں سے بدلہ چکانے کے لیے جنگ احد کی۔ جنگ احد میں ہندہ جگر خوارہ نے پہلے سے اپنے حبشی غلام کو جناب حمزہ کو قتل کے لیے آمادہ کر رکھا تھا تاکہ جنگ بدر میں جناب حمزہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے اپنے باپ عتبہ کا بدلہ لے۔ ھندہ کا حبشی غلام جنگ کے دوران مسلسل جناب حمزہ کی تاک میں رہا اور فرصت پاتے ہی اس نے جناب حمزہ کے سینے میں نیزہ کا وار کر دیا۔
جناب حمزہ کی شہادت
جیسا کہ بیان کیا جنگ احد میں ھندہ نے اپنے حبشی غلام کو اپنے زیورات دینے اور آزاد کرنے کی قیمت کو جناب حمزہ کی شہادت قرار دیا۔ حبشی غلام نے جنگ احد میں انہیں نیزہ مار کر شہید کر دیا اس کے بعد ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے جناب حمزہ کے کان و ناک کاٹ کر اور اس کے بعد جناب حمزہ کا جگر نکال کر چبا دیا اسی وجہ سے اسے ہندہ جگر خوار کہا جاتا ہے۔
رسول خدا (ص) کو جناب حمزہ کی شہادت کا صدمہ
جب پیغمبر اکرم (ص) کو جناب حمزہ کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کو بھیجا تاکہ ان کے بارے میں خبر لائیں حضرت علی علیہ السلام نے جب جناب حمزہ کی لاش کو اس کیفیت میں دیکھا تو رسول خدا (ص) کے پاس واپس جانے کی ہمت نہ کر سکے۔
جب حضرت علی (ع) رسول اسلام کے پاس خبر لے کر واپس نہیں گئے تو رسول اسلام خود جناب حمزہ کی لاش پر تشریف لائے۔ جب آپ نے جناب حمزہ کو اس رقت بار حالت میں دیکھا تو فرمایا: میں ہرگز آپ سے زیادہ کسی کا مصیبت میں مبتلا نہیں ہوں گا، اس موقع سے زیادہ کوئی موقع میرے لیے سخت نہیں ہوگا۔ :"لن اصابَ بِمِثْلکَ ابَداً، ما وَقَفتُ مَوقِفاً قَطٌّ اَعنيَ...".[ تاريخ پيامبر اسلام، دکترآيتي، ص323)
اس کے بعد فرمایا: اگر خدا مجھے طاقت دے تو میں عمو حمزہ کے بدلے میں قریش کے ستر افراد کو قتل کروں۔ اور ان کے بدن کے اعضا کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں۔ اس ہنگام حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور یہ آیت تلاوت کیا: : وَ إِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصّابِرينَ[نحل/ 126) اگر آپ ان کو سزا دینا چاہتے ہیں تو اپنی سزا میں اعتدال سے کام لیں اور اگر صبر سے کام لیں گے تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ بہتر ہے‘‘۔
رسول خدا(ص) نے یہ پیغام الہی سننے کے بعد فرمایا: پس میں صبر کروں گا اور ان کا انتقام خدا پر چھوڑ دوں گا۔ اس کے بعد اپنے کندھے سے برد یمانی کو اتار کر جناب حمزہ کے اوپر ڈال دیا
پیغمبر اکرم (ص) تھوڑی دیر تک جناب حمزہ کی لاش کے پاس کھڑے رہے اس کے بعد فرمایا: جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ سات آسمانوں پر لکھا ہے کہ حمزہ بن عبد المطلب اللہ کے شیر اور اس کے رسول کے شیر ہیں‘‘۔ (تاريخ پيامبر اسلام، دکتر آيتي، ص323)
رسول خدا(ص) سے روایت ہوئی ہے: جو شخص میری زیارت کرے اور میرے چچا حمزہ کی زیارت نہ کرے اس نے میرے حق میں جفا کی ہے‘‘۔ (کليات مفاتيح الجنان، زيارت نامه حضرت حمزه)۔
جب جنگ احد تمام ہو گئی تو مسلمانوں نے اپنے شہیدوں کو دفنانا شروع کیا۔ رسول خدا(ص) نے جناب حمزہ اور دیگر شہدا کو بغیر غسل کے دفنانے کا حکم دیا۔ اور فرمایا: انہیں اسی طرح خون میں لت پت دفنا دو میں ان پر گواہ ہوں‘‘۔
جناب حمزہ کا جنازہ پہلا جنازہ ہے جس پر رسول خدا(ص) نے چار تکبیریں نماز ادا کی۔ اس کے بعد باقی شہدا کے جنازے بھی جناب حمزہ کے جنازہ کے پاس لا کر رکھے گئے رسول خدا(ص) نے ہر شہید پر نماز کے ساتھ جناب حمزہ پر بھی نماز پڑھی۔ چنانچہ ستر مرتبہ جناب حمزہ پر نماز ادا کی گئی۔ (طبقات محمد بن سعد کاتب واقدي.)
رسول خدا(ص) کے حکم کے مطابق جناب حمزہ کو عبد اللہ بن جحش کی لاش کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفنا دیا۔( کليات منتهي الامال ، ص 77.)