تفسيربالراٴى کے معنى

Rate this item
(0 votes)
تفسيربالراٴى کے معنى

اس بات کے مسلم ہوجانے کے بعد کہ اسلام ميں تفسيربالرائي کى کوئى جگہ نہيں ہے اور يہ عمل قطعا حرام اور ناجائزہے ۔ علماء اسلام کے درميان اس روایت کى تشریح ميں اختلاف شروع ہوگياکہ تفسيربالراى کے معنى کياہيں اورقرآن کى کس طرح کى تفسيرجائزنہيں ہے ۔

علامہ سیوطى نے اتقان ميں حسب ذيل احتمالات کا تذکرہ کيا ہے  :

۱۔ قرآن مجيدکو سمجھنے کے لئے جن پندرہ علوم کى ضرورت ہے ،جن سے مزاج عربیت ، اسلوب ادبیت اورآہنگ قرآن کا اندازہ کيا جاسکتاہے ۔ ان سب ميں مہارت پیداکئے بغیرقرآن مجيدکى آيات کے معنى بيان کرنا۔

۲۔ قرآن مجيدميں متشابہات کے مفاہیم کامقررکرنا۔

۳۔ فاسد مذاہب اورعقائد کو بنياد بناکران کى روشنى ميں قرآن مجيدکي آيات کے معانى مقررکرنا۔

۴۔ اس اندازسے تفسيرکرنا کہ یقینا يہى مراد پروردگار ہے جب کہ اس کاعلم راسخون فى العلم کے علاوہ کسى کونہيں ہے ۔

۵۔ اپنى ذاتي پسند اورخواہش کو بنياد بناکر آيات قرآن کى تفسيرکرنا۔

۶۔ مشکلات قرآن کى تفسيرصحابہ اورتابعین کے اقوال سے مددلئے بغیربيان کردینا ۔

۷۔ کسى آیت کے ایسے معنى بيان کرنا جس کے بارے ميں معلوم ہوکہ حق یقینا اس معنى کے خلاف ہے ۔

۸۔ ظواہرقرآن پرعمل کرنا ۔ اس عقیدہ کى بنيادپرکہ اس کاظہور ہے ليکن اس کاسمجھنا معصوم کے بغیرممکن نہيں ہے ۔

          ان تمام اقول سے صاف واضح ہوجاتاہے کہ ان ميں تفسيربالراي کى واقعیت کى تحليل نہيں کى گئى ہے بلکہ اس کے طریق کارپربحث کى گئى ہے کہ تفسيربالراى کرنے والا کياکياوسائل اختيارکرتاہے ۔ خصوصیت کے سا تھ صحابہ اورتابعین کى امدادکے بغیرتفسيرکو تفسير بالراى قراردینے کا مطلب يہ ہے کہ صحابہ اورتابعین کوہرطرح کى تفسيرکرنے کاحق ہے صرف ان کے بعدوالوں کى تفسيربالراي کرنے کاحق نہيں ہے اورانھیں صحابہ کرام ياتابعین سے مدد لیناپڑے گى جب کہ روايات ميں اس طرح کاکوئى اشارہ نہيں ہے اورنہ قانونا يہ بات صحيح ہے ۔ مرادالہى کى غلط تفسيرکرنابہرحال حرام ہے چاہے صحابہٴ کرام کریں ياکوئى اوربزرگ ۔ اس لئے کہ ان سب کوخداکى طرف سے کوئى الہامى علم نہيں دياگياہے ۔ ائمہ اہلبيت (ع)اس قانون سے اس لئے مستثنى ہيں کہ انھیں پروردگارکى طرف سے علم قرآن دے کر دنياميں بھیجاگياہے جس کے بے شمارشواہد تاريخ اورسیرت کى کتابوں ميں موجودہيں ۔         

          تفسيربالراى کى حقيقت کوسمجھنے کے لئے اس نکتہ کونظرميں رکھنابے حدضرورى ہے کہ مذکورہ روايات ميں تفسيربالراى جرم نہيں ہے بلکہ راى کى اضافت ضميرکى طرف ہے يعنى اپنى رائے سے تفسيرکرنا ۔ جس کامطلب يہ ہے کہ مقام تفسيرميں رائے اوراجتھاد کااستعمال کرنامضرنہيں ہے ۔مضريہ ہے کہ مرادالہى کوطے کرنے ميں اپنى ذاتى رائے کودخیل بناياجائے اوراسى بنيادپربعض علماء نے وضاحت کى ہے کہ تفسيرکاکام رائے اوراجتہادکے بغیرممکن نہيں ہے ليکن اس رائے کوشخصى نہيں ہوناچاہئے بالکہ قانوني ہوناچاہیے ۔اورقانى اورشخصى کافرق يہ ہے کہ جس تفسيرميں دیگرآيات کے مزاج کوپیش نظررکھاجاتاہے اورآيات ميں اجتہادى نظرکے بعدمعنى طے کئے جاتے ہيں وہ تفسيربالراي نہيں ہے اورجس تفیسرميں تمام آيات سے قطع نظرکرکے اپنى ذات اوراپنى فکراورخواہش کوحکم بناياجاتاہے وہ تفسيربالراى ہے ۔ دوسرے لفظوں ميں يوں کہاجائے کہ دنياکے ہرکلام کى تفسيروتشریح اسى کلام کے الفاظ وعبارات کى روشنى ميں ہوتى ہے اورقرآن مجيدکى تفسيروتشریح کے لئے جملہ آ يات کے مزاج پرنگاہ رکھنے کى ضرروت ہوتى ہے اوراس کے بغیرصحيح تفسيرنہيں ہوسکتى ہے۔اس لئے باربار تدبر فى القرآن کى دعوت دى گئى ہے کہ انسان پورے قرآن پرنظررکھے اوراسى کى روشنى ميں ہرآیت کامفہوم طے کرے ۔

 

          الرايٴ اورراٴيہ کے فرق کونگاہ ميں رکھنے کے بعد يہ بات واضح ہوجاتى ہے کہ آيات قرآن کى تفسير ميں استقلالى رائے مضرہے اوراس کااستعمال جرم ہے ليکن وہ رائے جومطالعہٴ قرآن سے حاصل ہوئى ہے اورجس کے حصول ميںتفکراورتدبرفى القرآن سے کام ليا گياہے اس کے ذریعہ تفسيرقرآن ميں کوئى مضائقہ نہيں ہے اوروہى تفسيرقرآن کاواحدذریعہ ہے ، جس کے چنددلائل اس مقام پردرج کئے جارہے ہيں ۔  

۱۔ روايات نے تفسيربالراى ميں دونوں احتمالات کاذکرکياہے ۔ يہ بھى ممکن ہے کہ انسان واقعى مرادکوحاصل کرلے اوريہ بھى ممکن ہے کہ غلطى کرجائے ۔ يہ اوربات ہے کہ واقع کے ادراک ميں بھى ثواب سے محروم رہے گا اوريہ اس بات کي علامت ہے کہ ذاتى رائے کااستعمال مضرہے اگرچہ اس کے منزل تک پہونچانے کاامکان بھى ہے ليکن اس طریقہء کارکى اجازت نہيں دي جاسکتى ہے ،بلکہ صحيح طریقہٴ کاروہى ہے کہ تمام آيات کے مراجعہ کے بعد آيات کامخفى مفہوم منظرعام پرلاياجائے ۔

۲۔ تفسيربالراى کى روايات عام طورپرسرکاردوعالم سے نقل ہوئى ہيں اورآپ نے اس کى شدت سے ممانعت کى ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ يہ وہ طرےقہٴ کارہے جس کاامکان سرکارکے زمانے ميں بھى تھا بلکہ کچھ زيادہ ہى تھا اوراسى لئے آپ نے شدت سے منع کياہے اورشاےد اس کارازيہ تھا کہ اس دورميں قرآن مجيد مکمل شکل ميں امت کے ہاتھوں ميں موجودنہ تھا اوراس طرح ہرشخص کے لئے تمام آيات کى طرف مراجعہ کرنااوران کے اسلوب وآہنگ سے استفادہ کرناممکن نہيں تھااوريہ خطرہ شدیدتھا کہ ہرشخص اپنى ذاتي پسندياخواہش سے آيات کامفہوم طے کردے ۔اس لئے آپ نے شدت سے ممانعت فرمادى کہ يہ راستہ نہ کھلنے پائے ورنہ قرآن کے مفاہےم تباہ وبربادہوکررہ جائےں گے ۔

۳۔ اگرہرمسئلہ ميں روا يات ہى کى طرف رجوع کياجائے گا اورآيات کى کوئى تفسيرروايات کے بغےرممکن نہ ہوگى توتدبرفى القرآن کے کوئى معنى نہ رہ جائیں گے اوران روايات کابھى کوئى مقصدنہ رہ جائے گا جن ميں روايات کى صحت وخطاکامعيارقرآن مجيدکوقراردياگياہے اوريہ کہاگياہے کہ ہمارى طرف سے آنے والى روايات کوکتاب خداپرپیش کرواوردیکھوکہ موافق ہيں يانہيں ۔اگرموافق ہيں تولے لو ورنہ دےوارپرماردو ۔ظاہرہے کہ اگرروايات کے بغیرقرآن مجيدپرعمل کرناممکن نہ ہوگا تواس کا کوئى مفہوم ہى متعین نہ ہوسکے گا ،اورجب مفہوم متعین نہ ہوگا توکس چےزپرروايات کوپیش کياجائے گا اورکس کى مطابقت اورعدم مطابقت کوحق وباطل کامعياربناياجائے گا ۔

          اس کامطلب يہ ہے کہ قرآن مجيدکى آيات کے پوشیدہ معانى کاانکشاف کرنے کے لئے قرآن مجيدہى کے اسلوب اورآہنگ کومعياربناياجائے گا اوراس ميںکسى شخص کي ذاتى رائے ياخواہش کادخل نہ ہوگا ۔

          تفسيربالراى کى ايک مختصرمثال يہ ہے کہ قرآن مجيدنے بيان کياکہ ”ان من شئي الاعندناخزائنہ الخ“(ہمارے پاس ہرشے کے خزانے ہيں)۔ اس آیت کودیکھنے کے بعدمفسرین نےاندازہ کياکہ آسمان پرکوئى عظیم خزانہ ہے جہاں کائنات کى ہرشے کاذخيرہ موجودہے ۔اس کے بعد دوسرى آيت پرنظرڈالى ”وماانزل اللہ من السماء من رزق فاحيابہ الارض بعد موتھا“(خدانے آسمان سے رزق نازل کياہے اوراس کے ذرےعہ مردہ زمےن کوزندہ بنا ديا ہے ) ۔ اوراس سے اندازہ ہواکہ بارش کوبھى رزق کہاجاتاہے اوراس کابھى خزانہ آسمان پرہے ۔ پھراپنى ذاتى فکرکا اضافہ کياکہ انسان اورحےوان آسمان سے نازل نہيں ہوتے ،لہذا خزانہ سے مرادآسمانى اشياء ہيں ،زمےن کى چيزيں نہيں ہيں ۔ حالانکہ اس تخصیص کااسے حق نہيں تھا اس لئے کہ اسے نہ آسمان کى حقیقت معلوم ہے اورنہ نزول کے طریقہ کاعلم ہے اورقرآن مجيد سے ان حقائق کاادراک کئے بغيران کے بارے ميں اظہاررائے کاکوئي حق نہيں ہے اوراس کوتفسيربالراى ياقول بلاعلم کانام دياجائے گا ۔  

          رہ گياسیوطى کايہ بيان کہ صحابہٴ کرام کى تفسيرسے قطع نظرکرکے تفسيرکرنے کوتفسيربالراي کہاجاتاہے اورجس کى دلیل يہ دى گئى ہے کہ وہ عصرپیغمبرميں موجودتھے اورانھیں حقائق قرآن کاعلم تھااوران سے سترہزارروايات نقل ہوئى ہيں

          تواس کاواضح ساجواب يہ ہے کہ قرآن مجيدکادعوي ہے کہ وہ ہرشے کاتبيان ہے  اس کے متشابہات محکمات کے ذريعہ واضح ہوجاتے ہيں لہذا اسے اصحاب کے فکرکي کوئى ضرورت نہيں ہے پھراس کى تحدى کے مخاطب کفارومشرکین ہيں اوروہ اصحاب کے فہم کے محتاج ہوگئے توتحدى اورچیلنج کے کوئي معنى نہ رہ جائیں گے ۔

          دوسرى لفظوں ميں يوں کہاجائے کہ اصحاب کاقول ظاہرکلام کے مطابق ہے توظہور خودہى کافى ہے کسى قول کى ضرورت نہيں ہے اورخلاف ظاہرقرآن ہے توتحدى بےکارہے اوراس کاکوئى مفہوم نہيں ہے اس لئے کہ جس کلام کے معنى معلوم نہ ہوں اوروہ خود غیرواضح ہواس کامقابلہ اورجواب لانے لانے کاسوال ہى نہيں پیداہوتاہے ۔

          رہ گئے احکام کے تفصیلات توان کے لئے مرسل اعظم اورمعصومین کى طرف رجوع کرنے کى ضرورت ہے اوريہ بھى مطابق حکم قرآن ہے کہ جورسول دےدے اس لے لو،اورجس چیزسے منع کردے اس سے رک جاؤ ۔ گوياآیت کامفہوم عربى زبان کے قواعدکے اعتبارسے واضح ہے اوراس پرعمل کرنے کے لئے مرسل اعظم کى طرف رجوع کرنے کى ضرورت ہے جیساکہ خودمرسل اعظم نے قرآن مجيد سے تمسک کرنے کاحکم دياہے اورکھلى ہوئي بات ہے کہ اس کلام سے تمسک کرناممکن نہيں ہے جس کامفہوم واضح نہ ہو اورجس کے بارے ميں کسى طرح کى تحقيق اورتفتيش تفسيربالراي قرارپاجائے ۔

          اس مقام پريہ سوال ضرورپیداہوسکتاہے کہ رسول اکرم (ص)نے قرآن اوراہلبيت دونوں سے تمسک کرنے کاحکم دياہے اوريہ فرمادياہے کہ يہ دونوں جدانہيں ہوسکتے ہيں تواس کامطلب يہ ہے کہ قرآن مجيدکے معانى کااخذکرنا عترت واہليبيت کى توضیح کے بغیرممکن نہيں ہے ۔ ليکن اس کاواضح ساجواب يہ ہے کہ قرآن اورعترت دونوں سے تمسک کرنے کاحکم دینااس بات کى علامت ہے کہ دونوں اپنے اپنے مقام پرحجت ہيں کہ اگرحکم قرآن ميں موجودہے اوراہلبيت کى زندگى سامنے نہيں بھى ہے تووہ بھى واجب العمل ہے ۔ اوراگراہلبيت نے فرماديا ہے اورقرآن مجيدميں نہيں بھى مل رہاہے توبھى واجب العمل ہے فرق صرف يہ ہے کہ قرآن ظاہرالفاظ کے معانى معین کرتاہے اوراہلبیت مقاصدکى وضاحت کرتے ہيں جس طرح کہ قرآن مجيد نے اجمال سے کام لياہے اورسرکاردوعالم نے اپنے اقوال واعمال سے اس اجمال کى وضاحت کى ہے اوراس کابہترین ثبوت يہ ہے کہ خود اہلبيت نے بھى آيات قرآن سے استدلال کياہے اوراس کے ظہورکاحوالہ دے کرامت کومتوجہ کياہے کہ اس کے الفاظ وآيات سے کس طرح استنباط کياجاتاہے ۔

          محاسن ميں امام محمدباقر(ع)کايہ واضح ارشادموجودہے کہ ”جس شخص کاخيال يہ ہے کہ قرآن مجيدمبہم ہے وہ خودبھى ہلاک ہوگيااوراس نے دوسروںکوبھى ہلاک کرديا۔-“

          خلاصہ کلام يہ ہے کہ قرآن کى تفسيرکاصحيح راستہ تفسيرقرآن بالقرآن ہے ۔ ارشادات معصومین کا سہارالےنااس لئے ضرورى ہے کہ اس سے آيات قرآن کوجمع کرکے ايک نتیجہ اخذکرنے کاسلےقہ معلوم ہوتاہے اورمعصومین عليہم السلام نے اسى اندازسے قوم کى تربیت بھى کى ہے ، چنانچہ امیرالمومنین کے دورميں جب دربارخلافت ميں اس عورت کامقدمہ پیش ہواجس کے يہاں چھ مہینے ميں بچہ پیداہوگياتھا اورحاکم وقت نے حدجارى کرنے کاحکم دےديا توآپ نے فرماياکہ اس عورت پرحدجارى نہيں ہوسکتى ہے اس لئے کہ قرآن مجيدنے اقل مدت حمل چھ ماہ قراردى ہے اورجب قوم نے حیرت واستعجاب کامظاہرہ کيا توآپ نے دومختلف آيات کاحوالہ ديا ۔ ايک آیت ميں انسان کے حمل اوررضاعت کاکل زمانہ تےس ماہ بتاياگياہے اوردوسرى آیت ميںعورتوں کے دوسال دودھ پلانے کاتذکرہ کياگياہے ۔ اوردونوں کوجمع کرکے فرماياکہ دوسال مدت رضاعت نکالنے کے بعد حمل کازمانہ صرف چھ ماہ باقى رہ جاتاہے لہذانہ اس ولادت کوغلط کہاجاسکتاہے اورنہ اس عورت پرحدجارى کى جاسکتى ہے ۔ جس کامقصد يہ ہے کہ قرآن مجيدسے استنباط کرناہے توايک آیت سے ممکن نہيں ہے ،آيات کوباہم جمع کرناہوگا اورسب کے مجموعہ سے ايک نتیجہ اخذکرناہوگااوراسي کانام تفسيرقرآن بالقرآن ہے کہ انسان کوحمل کے بارے ميں قرآني نظريہ معلوم کرناہے

 

Read 2993 times