رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے استاد حضرت آیت الله عبدالله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ زخرف کی آیت «وَقَالُوا۟ یَـٰٓأَیُّهَ ٱلسَّاحِرُ ٱدْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَهِدَ عِندَکَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ ﴿٤٩﴾» کی تلاوت کرتے ہوئے بیان کیا : جب بنی اسرائیل پر عذاب نازل ہوا تو فرعون اور اس کے ساتھیوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے کہا کہ ہم لوگوں پر سے عذاب ہٹا لیا جائے تا کہ ہم لوگ ہدایت حاصل کریں لیکن جب خداوند عالم نے ان پر سے عذاب ہٹا لیا تو وہ لوگ پھر پہلے کی طرح اپنے کفر پر اصرار کرنے لگے ۔
انہوں نے وضاحت کی : فرعوان کی اقداری نظام دولت و طاقت ہے ، کہتا ہے کہ مصر کی سلطنت کہ وہ میرا ہے اور مصر میں بہنے والا دریا بھی میری ملکیت میں جاری ہے ، یہ دریای نیل میرے حکمرانی میں ہے یا اس دریا کا بعض حصہ میرے تدبیر کے ذریعہ میرے قصر سے گذرتا ہے ، وہ ایسا شخص تھا جو بصر کا حامل تھا مگر بصیرت نہیں رکھتا تھا ، موسی کلیم اللہ کا وجود مبارک جب قیادت کے فرائض کو اختیار کیا تو اس زمانہ میں ان میں لکنت کی مشکلات نہیں پائی جاتی تھی لیکن جب برسوں مسلسل فرعون کے دربار میں رہے تو ان کی زبان میں لکنت بھی ہونے لگی ، موسی علیہ السلام کے سلسلہ میں کہا کہ وہ اچھی طرح گفت و گو نہیں کر سکتے ہیں ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے آیت « أَمْ أَنَا۠ خَیْرٌۭ مِّنْ هَـٰذَا ٱلَّذِى هُوَ مَهِینٌۭ وَلَا یَکَادُ یُبِینُ ﴿٥٢﴾ فَلَوْلَآ أُلْقِىَ عَلَیْهِ أَسْوِرَةٌۭ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَآءَ مَعَهُ ٱلْمَلَـٰٓئِکَةُ مُقْتَرِنِینَ ﴿٥٣﴾» کی تلاوت کرتے ہوئے اظہار کیا : وہ ایسا شخص ہے کہ جو مھین و خوار ہے اور اچھے سے گفت و گو نہیں کر سکتا ہے ، یا اس دلیل کی بنا پر کہ فرعون کا معرفتی نظام حس و تجربہ ہے اور حضرت موسی علیہ السلام کی گفت و گو نہیں سمجھتا ہے ، اگر وہ حق پر ہے اور کمال پر پہوچنا چاہتا ہے تو کیوں اس کے پاس سونا نہیں ہے کیوں سونے کا کنگن نہیں پہنتا ہے ۔
انہوں نے بیان کیا : عوام کے لئے تعلیم کے بجائے تبلیغ کرتا ہے اور تعلیل کے بجائے تکرار سے استفادہ کرتا ہے ، معاشرے کو ایک تبلیغ کے ذریعہ اور اس معاشرے کو سو بار تکرار سے یقین حاصل ہو جاتی ہے ، فرعون نے بھی اسی کام کو انجام دیا ، پہلے کہا معرفت شناسی نظام حس و تجربہ ہے اور اقداری نظام سونا و چاندی ہے اور معاشرے کے ذہن کی صفائی لوگوں کے نظر انداز و ذلت کے ذریعہ ہوتا ہے «فَٱسْتَخَفَّ قَوْمَهُۥ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ کَانُوا۟ قَوْمًۭا فَـٰسِقِینَ ﴿٥٤﴾» ۔
حضرت آیتالله جوادی آملی نے آیت «فَلَمَّآ ءَاسَفُونَا ٱنتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَـٰهُمْ أَجْمَعِینَ ﴿٥٥﴾» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کیونکہ ہمارے غصہ کا سبب بنا ہے اس لئے ہم نے اس سے انتقام لیا ہے ، اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا ہے ، ایک وقت ہے کہ خداوند عالم عادی شخس کو ہلاک کرتا ہے لیکن اس کے بعد کی آیت میں فرماتا ہے کہ ان میں سے بعض شرک کے رہنما تھے ، کہا یہ لوگ جو کہ شرک و کفر کے رہنما تھے ان کو میں نے آئندہ والوں کے لئے نمونہ کے عنوان سے قرار دیا ہے ۔
انہوں نے خطبہ قاصعہ حضرت امام علی علیہ السلام کے ایک بخش جس میں حضرت موسی علیہ السلام کے سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اظہار کیا : خطبہ قاصعہ کو پڑھئے ، نہج البلاغہ کو قرآن کریم کے ساتھ استفادہ کرنا چاہیئے مگر افسوس کی بات ہے کہ وہ مقام نہیں دیا جا رہا ہے ، وہ لوگ اپنے پاس سے کچھ نہیں کہرتے ہیں وہ خداوند عالم کی بات کو بیان کرتے ہیں ، حرم مسجد کی طرح ہے ، یہ اس مقدس مقام کا اثر ہے ، وہ لوگ قرآن ناطق ہیں اور یہ قرآن کریم کتاب صامت ہے.