صدر اسلام کی اہم شخصیتوں میں سے ایک، جو حضرت علی (ع) سے خاص محبت رکھتے تھے اور حضرت علی (ع) بھی انھیں کافی چاہتے تھے، میثم تمّار تھے۔ ان کی کامیاب زندگی اور ان کی فخر و مباہات والی شہادت تمام آزاد انسانوں اور مسلمانوں کے لئے درس، سر مشق اور الہام ہے۔
وہ یحیی کے بیٹے تھے اور ان کا لقب ابو سالم تھا اور وہ امام علی ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے صحابی تھے۔ ان کا وطن، سر زمین " نہروان" تھا، یہ علاقہ عراق اور ایران کے درمیان واقع ہے، بعض مورخین نے انھیں ایرانی اور اہل فارس جانا ہے۔
میثم کے والدین نے ان کے لئے اسی نام کا انتخاب کیا تھا۔[i] تمّار کا لقب میثم کو اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ کوفہ میں خرما فروش تھے۔[ii]
امام علی علیہ السلام نے انھیں بنی اسد کی ایک عورت سے خریدا تھا اور اس کے بعد انھیں آزاد کیا تھا اور انسے مخاطب ہوکر فرمایا:" تمھارا نام کیاہے؟ انھوں نے جواب میں کہا : ابو سالم۔ امام (ع) نے فرمایا:" پیغمبر (ص) نے مجھے خبر دی ہے کہ تیرے باپ نے تیرا نام میثم رکھا ہے۔"
میثم نے کہا:" خدا، رسول خدا اور امیرالمؤمنین نے سچ فرمایا ہے، میرا نام میثم ہے۔"
اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:" اپنے نام کی حفاظت کرنا اور اپنی کنیت ابو سالم قرار دینا۔"
میثم تمّار نے آزاد ہونے کے بعد علوم ولایت کے خرمن سے علم و دانش اور فضیلت کی کافی خوشہ چینی کی کہ ان میں سے اہم علم " بلایا و منایا"[iii] اور تفسیر قرآن کا علم تھا۔
ابن ابی الحدید اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:" علی (ع) نے بہت سے علوم میثم کو سکھائے اور انھیں اسرار سے واقف کیا۔"
علی (ع) اور میثم کے درمیان جو اخلاص و صمیمیت تھی اس سے ان دو کے درمیان مودت و محبت کے رابطہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت علی (ع) میثم کی خرما کی دوکان پر جاتے تھے اور وہاں پر ان سے گفتگو کرتے تھے اور انھیں قرآن مجید اور دینی معارف کا درس دیتے تھے۔
تفسیر اور تاویل قرآن کا علم
میثم، عالم اسلام کے ایک بڑے مفسر قرآن ہیں اور تنزیل، تفسیر، اور تاویل قرآن میں اس قدر متبحر تھے کہ ابن عباس، جو مفسرقرآن اور علی(ع) کے شاگرد تھے اور ان کی تفسیر عام و خاص کے لئے پسندیدہ تھی، جب میثم کی تفسیر و تاویل کے درس میں بیٹھے توحکم دیاکہ ان کے لئے قلم و کاغذ لایا جائے تاکہ قرآن مجید کے بارے میں میثم کے کلام کو لکھ لیں۔
میثم نے کہا: تفسیر قرآن کے بارے میں جو پوچھنا چاہتے ہو، پوچھ لو، کیونکہ میں نے قرآن مجید کی تفسیر و تاویل امیرالمومنین(ع) سے سیکھی ہے۔"
اس کے بعد اپنی تفسیر ابن عباس کے سامنے پیش کی اور انھوں نے اسے لکھا۔ اس کے بعد میثم نے اپنی شہادت کی کیفیت کو ابن عباس کے سامنے بیان کیا۔ ابن عباس نےخیال کیا کہ میثم ساحر اور پیشنگوئی کرنے والوں میں سے ہیں، اس لئے انھوں نے ان کی تفسیر کو نابود کرنا چاہا ، میثم نے کہا:" اسے اپنے پاس رکھنا، اگر میری شہادت کی خبر سچ نہ نکلی ، تو اسے نابود کرد ینا"۔[iv]
حدیث ومناقب کے راوی:
میثم نے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے بہت سی احادیث سنی ہیں اور انھوں نے اس سلسلہ میں ایک کتاب مرتب کی تھی کہ افسوس، کچھ روایتوں کے علاوہ اس کتاب کا کچھ باقی نہیں بچا ہے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے ان کی تحریروں کو بیان کرتے تھے۔
امام علی (ع) کو متعارف کرانا:
میثم، امام علی علیہ السلام کو متعارف کرانے کے بہت ہی مشتاق تھے۔ وہ عام لوگوں کو امام اور آپ (ع) کی عظمت کی طرف متوجہ کراتے تھے اور حتی کہ جب وہ ایک مدت تک ابن زیاد کے چنگل سے بچنے کے لئے روپوش تھے،تو ہر فرصت سے استفادہ کرکے علی علیہ السلام کے مناقب اور فضائل بیان کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے۔
دور اندیشی اور علم غیب
میثم اسرار سے واقف تھے، وہ بہت سے آنے والے حوادث اور فتنوں سے آگاہ تھے اور ضرورت کی صورت میں افراد کی ظرفیت کے مطابق لوگوں کو ان کے بارے میں آگاہ فرماتے تھے۔ من جملہ، کوفہ میں مسلم کی شہادت کے بعد، میثم ومختار اور امام حسین (ع) کے بعض صحابیوں کے حاکم کوفہ ابن زیاد کے ہاتھوں گرفتار ہونے کی پیشنگوئی بھی ہے۔
میثم نے مختار سے کہا: تم قید سے آزاد ہوجاؤگے اور امام حسین (ع) کی خونخواہی کے لئے انقلاب کروگے اور ہمارے قاتل ابن زیاد کو قتل کر ڈالو گے۔[v]
فن خطابت اور سخن وری:
میثم: ایک فصیح و بلیغ مقرر تھے اور وہ بازار کوفہ کے میوہ فروش تھے اور دوسرے میوہ فروشوں کے ترجمان تھے۔ بازار کوفہ کے دوکانداروں کی طرف سے جب ابن زیاد کی شکایت کی جاتی تھی، تو وہ ان کے نمایندہ کے عنوان سے حاکم کوفہ کے پاس جاتے تھے۔
اس کے علاوہ، میثم، " کمیل ابن زیاد" جیسے افراد کے قدم بہ قدم امام علی علیہ السلام کے،طاعت اور عبادت کے مواقع پر حاضر ہو کر حضرت (ع) کی عرفانی شبوں میں پروردگار سے راز و نیاز کے لمحات میں شریک ہوتے تھے۔
علی (ع) کے ہمدم
جیسا کہ اشارہ کیا گیا، ،میثم امیرالمؤمنین (ع) کے قریبی دوستوں اور اصحاب میں سے تھے، انہوں نے کبھی کبھی کوفہ کے نخلستانوں میں امام علی (ع) کی مناجات کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں میثم فرماتے ہیں:" ایک رات کو میں امیرالمؤمنین کے ہمراہ تھا ،ہم دونوں ،کوفہ سے باہر آئے، سب سے پہلے امام علی (ع) نے مسجد جعفہ میں چار رکعت نماز پڑھی اور ان جملوں سے بارگاہ الہی میں راز و نیاز کیا: اے میرے معبود تجھے کیسے پکاروں جبکہ میں نے تیری نافرمانی کی ہے اور کیسے تجھے نہ پکاروں جبکہ تجھے پہچانتا ہوں اور تیری محبت میرے دل میں مستحکم ہے میں نے تیری طرف ایک ایسے ہاتھ کو پھیلایا ہے ، جو گناہوں سے بھرا ہے۔ چشم امید رکھتاہوں۔ ۔ ۔جب دعا ختم ہوئی، پیشانی کو سجدہ میں رکھ کرسو مرتبہ" العفو" کہا اور اس کے بعد مسجد سے باہر آئے۔ میں ان کے ہمراہ تھا۔ تھوڑی سی راہ طے کرنے کے بعد، حضرت (ع) نے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور فرمایا: اس لکیر سے آگےنہ بڑھنا اور خود چلے گئے ۔ میں ڈر گیا کہ کہیں دشمن اور معاندین امام کو کوئی گزند نہ پہنچائیں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چلتا گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ امام اپنے سر کو کمر تک ایک چاہ میں ڈال کر مناجات پڑھ رہے ہیں۔ میری موجودگی کو محسوس کرکے فرمایا: کون ہو؟ میں نے کہا میثم۔ فرمایا کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ لکیر سے آگے نہ بڑھنا؟ میں نے کہا: جی ہاں، لیکن میرے دل نے آرام نہیں پایا اور آپ کی جان کے بارے میں خائف ہوا۔ فرمایا: کیا میری گفتگو سے کچھ سمجھے؟ میں نے کہا: نہیں، اس کے بعد میرے لئے یہ شعر پڑھا:
وفی الصدر لبانات اذا ضاق لھا صدری
نکّت الارض بالکف وایدیت لھا سرّی
فمھما تنبت الارض فذاک النبت من بذری
"میرے سینہ میں کچھ اسرار ہیں، جب سینہ پھٹنے کو آتا ہے ، اپنے ہاتھ سے زمین کھود کر اپنے اسرار کو اسے بتاتا ہوں ۔ جب زمین سے کوئی گھاس اُگتی ہے، وہ گھاس میرے بیج کا ماحصل ہوتی ہے۔"
جس طرح میثم تمار خود اہل بیت (ع) کی خدمت میں تھے، ان کے دو بیٹے بھی اہل بیت (ع) کے صحابی تھے۔ شعیب بن میثم ، امام صادق (علیہ السلام) کے صحابی تھے اور صالح بن میثم امام باقر و امام صادق (ع) کے صحابی تھے۔
ایک بڑا رازدار
میثم تمار، امام علی (ع) کی شاگردی کی روشنی میں بعض اسرار کے بارے میں آگاہ ہوئے تھے اور کبھی کبھی مستقبل کی خبر دیتے تھے کہ یہاں پر ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
امام علی (ع) کی شہادت کی خبر
امام رضا علیہ السلام نے اپنے آبا و اجداد سے نقل کی گئیایک حدیث میں فرمایا ہے: " ایک دن میثم تمار، امام علی (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت (ع) کو سوئے ہوئے پایا۔ بلند آواز میں کہا: خدا کی قسم آپ کی ریش مبارک کا، آپ کے سرمبارک کے خون سے خضاب کریں گے۔ امام (ع) نیند سے بیدار ہوئے اور فرمایا: میثم داخل ہو جاؤ، میثم داخل ہوئے اور پہلے والے جملہ کو پھر سے دہرایا۔ امام نے فرمایا: سچ کہا تو نے، خدا کی قسم تیرے ہاتھ پاؤں اور زبان کو کاٹ دین گے، محلہ کناسہ کے درخت خرما کو کاٹ دیں گے اور اس کے چار حصے کریں گے اور ان میں سے ایک حصہ پر تجھے دار پر چڑھادیں گے اور دوسرے حصہ پرحجر بن عدی کو اور ایک حصے پر محمد بن اکتم کو اور پھر دوسرے حصے پر خالد بن مسعود کو دار پر چڑھا دیں گے۔"
میثم نے کہا: یہ کام کون کرے گا؟ فرمایا: بنی امیہ کا ناپاک زادہ، عبیداللہ بن زیا۔
حبیب کی شہات کی خبر
ایک دن، بنی اسد کے جمع ہونے کے ایک میدان کے کنارے، میثم گھوڑے پر سوار حبیب بن مظاہر سے ملاقی ہوئے، جبکہ حبیب بھی گھوڑے پر سوار تھے۔
حبیب نے کہا:" میں ایک بوڑھے کو جانتا ہوں کہ اس کے سر کے اگلے حصہ میں بال نہیں ہیں اور اس کا پیٹ پھولا ہوا ہے اور دارا لرّزق میں خربوزہ بیچ رہا ہے،[vi] اہل بیت(ع) کی دوستی کی راہ میں پھانسی کے پھندے کی طرف بڑھ رہا ہے۔"
میثم نے جواب میں کہا:" میں بھی ایک سرخ رو مرد کو پہچانتا ہوں،جس کے دو لمبے گیسوہیں، وہ پیغمبر اکرم (ص) کے نواسے کی مدد کرنے کے لئے شہر سے باہر جارہا ہے اور قتل کیا جاتا ہے اور اس کے سر کو کوفہ کی سڑکوں اور گلیوں میں پھرایا جارہا ہے۔"
یہ دونوں اس گفتگو کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ جن لوگوں نے ان کی اس گفتگو کو سنا، انھوں نے ان پر دروغ گوئی اور سحر کا الزام لگاتے ہوئے کہا:" ہم نے ان دو سے زیادہ جھوٹے نہیں دیکھے ہیں۔" اسی اثناء میں " رشید ہجری" پہنچے اور میثم اور حبیب کے بارے میں سوال کیا۔ انھیں واقعہ سنایا گیا، رشید نے کہا: خداوند متعال، میثم پر رحمت نازل کرے۔ وہ یہ کہنا بھول گئے ہیں کہ حبیب کے سر کو کوفہ لانے والے کو دوسروں کی بہ نسبت ایک سو درہم زیادہ انعام دیا جائے گا۔"
عاشورا ئے حسینی(ع)کے بارے میں پیشنگوئی
ایک دن میثم نے لوگوں کی ایک جماعت سے کہا:
" خدا کی قسم، یہ امت پیغمبر (ص) کے فرزند کو قتل کرے گی۔ جب محرم کے دس دن گزریں گے، دین کے دشمن اس دن کو اپنے لئے برکت کے دن کے عنوان سے منائیں گے۔"
شہادت کے انتظار میں
امام علی علیہ السلام نے مختلف مواقع پر میثم تمّار کی شہادت سے انھیں آگاہ کیا ہے۔
ایک دن امام علی علیہ السلام نے لوگوں کی ایک جماعت اور اپنے دوستوں کے سامنے میثم سے مخاطب ہوکر فرمایا: " اے میثم! میرے بعد تجھے گرفتار کریں گے اور تجھے پھانسی پر لٹکائیں گے۔ دوسرے دن تیرے منہ اور ناک سے خون بہے گا اس طرح کہ تیری داڑھی رنگین ہو گی اور تیسرے دن ایک ضرب سے تیرا پیٹ چاک کردیا جائے گا، یہاں تک کہ تیری جان نکل جائے گی، اس کے انتظار میں رہنا، تیری دار کی جگہ عمرو بن حریث کے گھر کے سامنے ہوگی اور تو دسواں شخص ہوگا جسے دار پر چڑھایا جائے گا، تیری دار کی لکڑی دوسروں کی بہ نسبت چھوٹی ہوگی اور زمین کے نزدیک تر ہوگی۔ میں اس خرما کے درخت کو تجھے دکھلا دوں گا جس پر تجھے سولی پر چڑھایا جائے گا۔"
اور دودن بعد اس خرما کے درخت کو انھیں دکھلادیا۔
اسی طرح ایک اور دن امام علی (ع) نے میثم سے کہا:" تو اس وقت کیا کرےگا، جب بنی امیہ کا زنازادہ تجھ سے میرے بارے میں اظہار بیزاری کا مطالبہ کرے گا؟ میثم نے کہا: اے امیرالمؤمنین! خدا کی قسم میں ہرگز آپ سےبیزاری کا اظہار نہیں کروں گا۔ امام نے فرمایا: تجھے قتل کر ڈالیں گے اور تجھے دار پر چڑھا دیں گے۔ میثم نے جواب میں کہا میں صبر کروں گا، یہ مصیبت میرے لئے راہ خدا میں معمولی ہے۔ امام (ع) نے فرمایا: اس صورت میں تو میرے مقام پر ہوگا۔"
امام علی علیہ السلام کی رحلت کے بعد میثم ہر روز اس درخت خرما کے پاس جاتے تھے جس پر انھیں سولی پر چڑھانا قرار پایا تھا، اور اس خرما کے درخت سے مخاطب ہوکر کہتے تھے: کیسے مبارک درخت ہو جو میرے لئے پیدا کئے گئے ہو ، اس کے نیچے جھاڑو دے کر وہاں پر نماز پڑھتے تھے۔
اس کے علاوہ وہ عمرو بن حریث کے پاس جاکر کہتے تھے: میں تمھارا ہمسایہ بننے والا ہوں، میرے لئے ایک اچھا ہمسایہ بننا۔ عمرو بن حریث ان کی مراد نہیں سمجھتے تھے اور کہتے تھے:" کیا ابن مسعود کے گھر کو خریدنا چاہتے ہو؟"
سفر مکہ
میثم تمّار سنہ60 ہجری میں ، اس سال جب امام حسین (ع) نے کوفہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا، خانہ خدا کی زیارت کے لئے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ایک دن میثم، ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
ام سلمہ نے ان کا نام پوچھا۔
کہا: میں میثم ہوں۔
ام سلمہ نے کہا:
"خدا کی قسم میں نے بہت بار سنا ہے کہ رسول خدا (ص) تجھے راتوں کی نصب شبوں میں یاد کرتے تھے اور اسی طرح تیرے بارے میں علی (ع) کے سامنے سفارش فرماتے تھے۔"
یہاں پر میثم نے امام حسین (ع) کے بارے میں پوچھا۔
ام سلمہ نے کہا : وہ اپنے ایک باغ میں گئے ہیں۔
میثم نے کہا:" جب وہ واپس لوٹیں گے، تو میرا سلام ان تک پہنچانا اور کہنا کہ ہم عنقریب ہی خدا کے حضور ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔
اس کے بعد ام سلمہ ایک عطر لائیں تاکہ میثم اپنی داڑھی کو معطر کرلیں ۔
میثم نے اپنی داڑھی کو معطر کرنے کے بعد کہا: آپ نے میری داڑھی کو معطر کیا، لیکن عنقریب میری داڑھی محبت اہل بیت (ع) میں خون سے خضاب ہوگی۔
اس کے بعد ام سلمہ نے فرمایا:" امام حسین (ع) آپ کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں۔"
میثم نے کہا:" میں بھی انھیں ہمیشہ یاد کرتا ہوں، اس وقت ایک کام پر جارہاہوں اور ان کی ملاقات تک صبر نہیں کرسکتا ہوں۔"
میثم نے خانہ خدا کی زیارت کے بعد کوفہ کا رخ کیا۔ لیکن کوفہ کے حالات درہم برہم اور تتر بتر ہوچکے تھے۔ مسلم اور ہانی کو عبیداللہ ابن زیاد نے شہید کیا تھا۔ عبیداللہ ڈر گیا کہ اگر میثم کوفہ میں قدم رکھیں گے،تو لوگوں کو اپنے گرد جمع کرلیں گے، اس لئے حکم دیا کہ انھیں کوفہ میں داخل ہونے سے پہلے گرفتار کریں۔ عبیداللہ کے سپاہیوں نے میثم کو قادسیہ کے مقام پر گرفتار کر کے عبیداللہ کے پاس پیش کیا، بعض افراد نے میثم کی طرف اشارہ کرکے عبیداللہ سے کہا: یہ شخص علی (ع) کی نظر میں سب سے محبوب تر تھا۔
عبیداللہ نے کہا: افسوس ہو آپ پر، کیا علی اس عجمی کا اس قدر احترام کرتے تھے؟!
اس کے بعد کہا: کیا تم میثم ہو؟
میثم نے کہا: ہاں
عبیداللہ نے کہا: تیرا پروردگار کہاں ہے؟
میثم نے کہا: ظالموں کی گھات میں اور تم ایک ظالم ہو۔
عبیداللہ نے کہا: ابو تراب سے اظہار نفرت کرو۔
میثم نے فرمایا: میں ابو تراب کو نہیں جانتا ہوں۔
عبیداللہ نے ایک بار پھر کہا: علی بن ابیطالب سے اظہار نفرت کرو۔
میثم نے جواب میں کہا: ایسا نہیں کروں گا۔
عبیداللہ نے کہا:" خدا کی قسم میں تیرے دونوں ہاتھ پاؤں کاٹ دوں گا اور تجھے دار پر چڑھا دوں گا۔"
میثم نے جواب میں کہا: اس دن کی میرے مولانے مجھے خبر دی ہے۔
عبیداللہ نے پوچھا: تیرے مولانے اور کیا کہا ہے؟
میثم نے جواب دیا: انھوں نے فرمایا ہے: تیرے ہاتھ پاؤں اور زبان کو کاٹ دیں گے اور تجھے دار پر چڑھا دیں گے۔
عبیداللہ نے پوچھا: کیا تیرے مولا نے یہ نہیں کہا کہ یہ کام کون انجام دے گا؟
میثم نے جواب دیا: ہاں ، فرمایا کہ بنی امیہ کا زنا زادہ عبیداللہ بن زیا د یہ کام کرے گا۔
عبیداللہ شدید طور پر غضبناک اور بے چین ہوا اور میثم کے جواب میں کہا: میں تیرے ہاتھ پاؤں کو کاٹ دونگا، لیکن تیری زبان کو چھوڑ دوں گا تاکہ تیرے مولا کا جھوٹ ثابت ہوجائے۔"
میثم نے کہا : میرے مولا نے جھوٹ نہیں کہا ہے اور انھوں نے جو کچھ کہا ہے، اسے انھوں نے پیغمبر خدا (ص) جبرئیل اور خدا سے سنا ہے۔ تم ان کی کیسے مخالفت کرسکتے ہو؟ میں عصر اسلام میں پہلا شخص ہوں گا، جس کی زبان پر لگام لگادی جائے گی۔"
عبیداللہ نے حکم دیا، کہ میثم کو مختار ثقفی کے ہمراہ زندان میں ڈال دیا جائے اور ایساہی کیا گیا۔
زندان میں میثم نے مختار سے کہا: تم آزاد ہو گے اور امام حسین (ع) کی خونخواہی کے لئے قیام کروگے اور اس شخص ( عبیداللہ) کو قتل کر ڈالو گے۔
دار پر شہادت:
عبیاللہ نے اپنے کہنے کے مطابق حکم دیا کہ میثم کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انھیں دار پر لٹکادیں۔ لیکن ، ولایت کے فداکار میثم، دار پر بھی اپنی آرزؤں سے دست بردار نہیں ہوئے اور فضائل اہل بیت (ع) کے بارے میں احادیث بیان کرنے لگے اور کہتے تھے: اے لوگو! جو بھی امام علی (ع) کی احادیث سننا چاہتا ہے، وہ میرے قریب آئے۔"
لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوئے اور ان کے کلام کو سنتے تھے۔ ابن زیاد کو خبر دی گئی کہ میثم نے دار پربنی امیہ کو رسوا کرکے رکھ دیا، عبیداللہ نے ایک ملازم کو بھیجا تاکہ اس کی زبان کاٹ دے۔ مامور نے میثم کے پاس آکر کہا: " اپنی زبان کو باہر نکالو تاکہ میں اپنے امیر کے حکم سے اسے کاٹ دوں۔" میثم نے جواب میں کہا: کیا عبیداللہ یہ تصور نہیں کرتا تھا کہ میرے مولا جھوٹ بولتے ہیں؟ لو یہ میری زبان ہے! اور اس کے بعد اپنی زبان باہر نکالی۔ ملازم نے بڑی بے رحمی سے ان کی زبان کاٹ دی اور میثم کا چہرہ خون سے خضاب ہوا۔
بالآخر تیسرے دن جبکہ میثم دار پر لٹکے ہوئے تھے، ایک ملعون نے خنجر سے ان کا پیٹ چاک کیا اور اس طرح وہ جان بحق ہوکر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ سر انجام میثم، امام حسین (ع) کے عراق (کربلا) میں داخل ہونے سے دس دن پہلے، 22ذی الحجہ سنہ 60 ہجری کو شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔
میثم کی شہادت کے بعد عبیداللہ نے ان کے جنازہ کو دار سے اتار کر دفن کرنے کی اجازت نہیں دی۔
کوفہ کے سات خرما فروشوں نے میثم کے جنازہ کو دفن کرنے کا فیصلہ کیا، رات کی تاریکی میں بعض افراد نے میثم کے جنازہ پر مامور محافظوں کو گفتگو میں مشغول کیا اور دوسرے چند افراد جنازہ کو دار سے اتار کر لے گئے اور ایک نہر کے کنارے قبیلہ مراد کے قبرستان میں دفن کر دیا۔[vii]عبیداللہ کو اس امر کا خوف تھا کہ میثم کا مزار شیعوں کے اجتماع کا مرکز نہ بنے، اس لئے دوسرے دن کچھ لوگوں کو مامور کیا کہ میثم کے جنازہ کو تلاش کریں، لیکن تلاش و کوشش کے بعد بھی ان کا مزار نہیں مل سکا۔
شہید کا مزار
شہادت کے بعد ایک مدت تک میثم کا پاک بدن دار پر تھا۔ ابن زیاد نے میثم کی بے احترامی کرنے کی غرض سے اجازت نہیں دی کہ ان کے جنازہ کو دار سے اتار کر دفن کریں۔ اس کے علاوہ اس منظر کو جاری رکھنے سے دوسرے لوگوں کو ڈرانا اور یہ دکھانا مراد تھا کہ علی (ع) کے پیرؤں اور دفاع کرنے والوں کا انجام یہی ہوتا ہے ۔ لیکن وہ اس حقیقت سے غافل تھا، کہ شہید، حتی کہ شہادت کے بعد بھی راہنمائی کرتا ہے، الہام بخشتا ہے، امید پیدا کرتا ہے اور ظلم و جبر کی حکومتوں کے لئے خوف اور زوال کا سبب بنتا ہے۔
میثم کےسات ہم کار خرما فروش مسلمان تھے جوغیرتمند اور دیندارتھے، وہ اس منظر کو برداشت نہ کرسکے کہ شہید میثم بدستور دار پر رہیں، انھوں نے آپس میں عہد و پیمان کیا کہ شہید کے جنازہ کو اٹھا کر سپرد خاک کریں۔ انھوں نےجسد اور دار کی حفاظت میں مقرر کئے گئے مامورین کو غافل کرنے کی ایک تدبیر سوچی اور نقشہ کو اس صورت میں عملی جامہ پہنایا کہ: رات کی تاریکی میں اس جگہ کے قریب آگ جلادی اور کچھ لوگ اس آگ کے پاس کھڑے رہے۔
محافظ گرمی سے استفادہ کرنے کے لئے اس آگ کی طرف آئے، جبکہ شہید کے دوستوں میں سے چند افراد میثم کے جسد مقدس کو نجات دلانے کے لئے آگ سے دور بیٹھے ہوئےتھے۔ قدرتی طور پر جب مامورین آگ کی روشنی میں کھڑے تھے، ان کی آنکھیں تاریکی میں واقع دار کے منظر کو نہیں دیکھ سکتی تھیں ۔ شہید کے دوستوں میں سے چند افراد نے اپنے آپ کو جسد کے پاس پہنچا دیا اور اسے دار سے اتار کر اس جگہ کی دوسری طرف ایک خشک شدہ تالاب میں سپرد خاک کیا۔
صبح ہوئی تو، مامورین نے جنازہ کو دار پر نہیں پایا، ابن زیاد کو خبر پہنچی۔ ابن زیاد جانتا تھا کہ میثم کا مدفن علی علیہ السلام کے پیرؤں کے لئے مرکز بن جائے گا۔ اس لئے مامورین کی ایک بڑی جماعت کو میثم کا جنازہ تلاش کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر تفتیش اور جستجو کرنے کا حکم دیا۔ لیکن بڑی تلاش و کوشش کے باوجود انھیں جنازہ کا کہیں سراغ نہیں ملا اور مایوس ہوکر لوٹ گئے۔
میثم تمار کا مزار
اس وقت شہید میثم تمار کا مرقد عاشقان نبی (ص) و اہل بیت (ع) کے لئے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔
میثم تمار کا مرقد، مسجد کوفہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر کوفہ۔۔۔ نجف کی اصلی سڑک کے کنارے پر واقع ہے۔ میثم تمار کی قبر پر ایک چھوٹی ضریح اور اس کے اوپر ایک نیلے رنگ کا گنبد ہے ، جوحق کی کامیابی اور باطل کی رسوائی اور نابودی کاےگواہ ہیں۔ ان کے سنگ قبر پر میثم کا نام علی علیہ السلام کے صحابی کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔
حواشی:
[i]۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر؛ الاصابہ فی تمییز الصحابہ، بیروت، دار المکتب العلمیہ، 1415، طبع اول: ج6، ص 249
[ii]۔ میثم تمار، ص 10
[iii]۔ وہ علم جو بلاؤں اور مستقبل کی خبر دیتا ہے۔
[iv]۔ ثقفی کوفی، ابو اسحاق ابراھیم بن محمد ؛ الغارات، ترجمہ عزیزاللہ عطاردی، بیجا، عطارد، 1373، ص 572۔
[v]۔ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج 6، ص 251۔ 250 والارشاد، ج 1، ص 325۔ 324۔
[vi]۔ بعض نقلوں میں آیا ہے کہ عبیداللہ کے حکم سے ان کے منہ میں لگام لگادی گئی۔ ( کشی،ج 1، ص 295۔ منتھی الامال۔ ج 1، ص 404)
[vii]۔ ایک قول کے مطابق دفن کے بعد جنازہ پر پانی جاری کیا گیا تاکہ دیکھا نہ جائے۔