حضرت ام البنین سلام اللہ علیھا کی سیرت

Rate this item
(6 votes)

                  

فاطمہ کلابیہ کا نام اوران کا شجرہ نسب :

   ان کا نام فاطمہ اور کنیت ام البنین ( بیٹیوں کی ماں) تھی۔ ان کے ماں باپ بنی کلاب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اجداد تھے۔ ان کے باپ حزام اور ماں ثمامہ یا لیلی ہیں۔ ان کے شوہر علی بن ابیطالب علیہ السلام اور ان کی اولاد عباس علیہ السلام ، عبداللہ، جعفر اور عثمان ہیں کہ چاروں بیٹے سرزمین کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی رکاب میں شہید ہوئے۔ حضرت ام البنین (ع) کی آرام گاہ، مدینہ منورہ میں قبرستان بقیع میں ہے۔

   فاطمہ ایک پاک دامن اور باتقوی لڑکی تھیں۔ ان کے اخلاقی فضائل، انسانی کمالات، ایمانی طاقت ، ثابت قدمی، صبر و برد باری، بصیرت و دانائی اور قدرت بیان نے انھیں خواتین کی سردار بنا دیا تھا۔

   حزام بن خالد بن ربیعہ بن وحید بن کعب بن عامر بن کلاب، ام البنین (ع) کے والد ہیں، وہ ایک شجاع بہادر اور راست گو شخص تھے اور ان کی مخصوص صفتوں میں شجاعت تھی۔ وہ عربوں میں شرافت کا مجسمہ سمجھے جاتے تھے اور عفو و بخشش، مہمان نوازی، دلاوری، شرافت،جوانمردی اور قوی استدلال میں مشہور تھے۔ ام البنین کی ماں، ثمامہ( لیلی) بنت سہیل بن عامر بن کلاب ( رسول خدا اور امام علی کے اجداد) تھیں۔ وہ اپنی اولاد کو تربیت دینے میں کافی کوشش کرتی تھیں اور تاریخ میں ان کا چہرہ درخشاں ہے۔ اس خاتون کی خصوصیت میں گہری سوچ ، اہل بیت (ع) سے دوستی، ماں کا فریضہ ادا کرنے کے ضمن میں اولاد کو ایک ہمدرد معلم کی حیثیت سے اعتقادی امور اور ہمسرداری کے مسائل اور دوسروں سے معاشرت کے آداب سکھانا قابل ذکر ہے۔ بہت سی تاریخ کی کتابوں میں ان کے خاندان کی گیارہ ماؤں کا ذکر کیا گیا ہے، جو سب کی سب شریف اور اصلی عرب خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور وہ حقیقت میں شجرہ طیبہ کی مصداق تھیں، جس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس پاک درخت کا پھل بیشک عباس بن علی اور عثمان بن علی وغیرہ تھے۔

   اس خاتون کا خاندان ایک بنیادی اور جلیل القدر خاندان تھا جس کے افراد بہادری اور دستگیری میں مشہور تھے اور ان میں سے ہر ایک عظمت اور شرافت میں مشہور تھا اور ہم یہاں پر خلاصہ کے طور پر ان کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

   ام البنین کے شجرہ نسب کی شرافت کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں: " تاریخ نے ام البنین کے آباء و اجداد اور ماموں کو ایسے متعارف کرایا ہے جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ عربوں میں ایک شجاع اور شہسوار تھے اور ان کی شرافت اور عظمت اس حد تک تھی کہ وقت کے بادشاہ بھی اس کا اعتراف کرتے تھے۔" حضرت ابو الفضل العباس(ع) کی والدہ گرامی کے شجرہ نسب کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں بہت سے مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ شائد ایک جملہ سے " ام البنین" کے خاندان کی عکاسی کی جاسکتی ہے اور وہ جملہ یہ ہے کہ ام البنین کے ماں باپ کا خاندان شجاعت، کرامت، اخلاق، سماجی حیثیت اور عظمت کے لحاط سے قریش کے بعد عربوں کے مختلف قبیلوں میں ممتاز خاندان تھا۔

ام البنین(س) اور ایک نورانی تولد

   حزّام بن خالد،" بنی کلاب" کے بعض افراد کے ہمراہ سفر پر گئے تھے۔جب وہ سفر سے واپس لوٹے، تو ان کی باوفا شریک حیات، ثمامہ بنت سہیل، جو حاملہ تھیں، نے وضع حمل کیا تھا اور موتی جیسی درخشان ایک بیٹی کو جنم دیا تھا۔ حزّام نے اپنی بیٹی کی پیدائش کے بارے میں باخبر ہونے کے بعد اس کا نام " فاطمہ" رکھا اورعربوں کی رسم کے مطابق اس کے لئے ایک کنیت کا بھی انتخاب کیا اور یہ کنیت "ام البنین" تھی۔

   فاطمہ، یعنی فضیلتوں کی ماں نے دوسرے بچوں کے مانند بچپن کا دور گزارا اور ایک مہربان اور پاک دامن ماں اور شجاع باپ کے دامن میں پرورش پائی، جو بہت سے اخلاقی اوصاف کے مالک تھے۔

   فاطمہ کیماں کے بارے میں مورخین یوں لکھتے ہیں:" ثمامہ، ام البنین کی ماں، ایک ادیب ، مکمل اور عاقل خاتون تھیں ۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو عربوں کے آداب سکھائے اور ایک لڑکی کی ضرورت کے مطابق اسے زندگی میں خانہ داری، شوہر کے حقوق جیسے امور کی تربیت دی۔"

ام البنین (س)کی پیدائش کی تاریخ:

   حضرت ام البنین کی تاریخ پیدائش کے بارے میں کوئی صحیح اطلاع دستیاب نہیں ہے اور تاریخ نویسوں نے ان کی پیدائش کی تاریخ کو درج نہیں کیا ہے، لیکن اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ان کے بڑے بیٹے، حضرت ابو الفضل علیہ السلام کی پیدائش سنہ 26ہجری میں واقع ہوئی ہے۔ بعض مورخین نے ان کی پیدائش کے بارے میں ہجرت کے تقریبا پانچ سال بعد ( کوفہ کے آس پاس) کا اندازہ لگایا ہے۔

ام البنین کے خاندان کی نمایاں خصوصیات:

   حضرت ام البنین کے خاندان میں کئ اہم خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو سب کی سب حضرت عباس ( علیہ السلام) کی صورت میں واضح اور روشن ہوئی ہیں:

الف) شجاعت اور دلاوری، جس کا انہوں نے کربلا میں خوبصورت ترین انداز میں مظاہرہ کیا۔

ب) ادب، سنجیدگی، خود اعتمادی اور ضبط نفس کا ان کی 34 سالہ زندگی میں واضح مشاہدہ کیا جا سکتاہے۔

ج) ہنر اور ادبیات کو ام البنین نے اپنے ادیب اور شاعر ماموں " لبید" سے وراثت میں پایا تھا اور حضرت ابوالفضل العباس نے اپنی ادیبہ ماں سے۔

د) ایثار و قربانی اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا، ان کے عشق امامت و ولایت میں ظاہر ہوا۔

ھ) وفاداری اور عہد و پیمان کی پابندی۔

حضرت علی علیہ السلام کا شادی کرنے کا فیصلہ:

   عقیل، علم انساب میں یدطولی رکھتے تھے اور ان کی بات اس سلسلہ میں حجت مانی جاتی تھی۔ ان کے لئے مسجد النبی (ص) میں ایک چٹائیبچھائی جاتی تھی جس پر وہ نماز ادا کرتے تھے اور اس کے بعد عرب قبائل علم انساب کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لئے ان کے گرد جمع ہوتے تھے۔ وہ ایک حاضر جواب شخص تھے۔ اسی لئے حضرت علی بن ابیطالب نے جب ازدواج کا ارادہ کیا تو اپنے ماہر انساب بھائی سے مخاطب ہوکر فرمایا: میرے لئے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیجئے، جو شجاع اور دلیرمرد عربوں کی نسل سے ہو تاکہ میں اس کے ساتھ شادی کروں اور وہ میرے لئے ایک بہادر اور شہسوار بیٹے کو جنم دے۔"

   حضرت عقیل بن ابیطالب نے ، بنی کلاب کے خاندان سے ام البنین کا انتخاب کیا،جوشجاعت میں بے مثال خاندان تھا، اوراپنے بھائی کے جواب میں کہا:" آپ ام البنین کلابیہ سے شادی کیجئے، کیونکہ ان کے آباء و اجداد سے شجاع تر عربوں میں کوئی نہیں ہے۔ حضرت عقیل نے بنی کلاب خاندان کی دوسری خصوصیات بھی بیان کیں اور امام (ع) نے اس انتخاب کو پسند فرمایا اور عقیل کو خواستگاری کے لئے ام البنین (ع) کے باپ کے پاس بھیجا۔

دلاور عرب خاندان سے ایک خاتون

   حضرت علی علیہ السلام نے فاطمہ کلابیہ کی تائید کرنے اور انھیں پسند کرنے کے بعد اپنے بھائی عقیل کو خواستگاری کے لئے فاطمہ کے باپ کے پاس بھیجا۔

   حزّام ، چونکہ ایک مہمان نواز شخص تھے، اس لئے انہوں نے حضرت عقیل کی مکمل طور پر خاطر مدارات کی اور دل کھول کر ان کا خیر مقدم کیا اور ان کے لئے قربانی کی۔ عربوں کی رسم یہ تھی کہ مہمان کی تین دن تک مہمان نوازی کرتے تھے اور تیسرے دن ان کی حاجت کے بارے میں سوال کرتے تھے اور ان کی تشریف آوری کی وجہ کے بارے میں پوچھتے تھے۔ چونکہ ام البنین کا خاندان مدینہ سے باہر زندگی گزارتا تھا، اس لئے انہوں نے بھی اسی رسم و رواج پر عمل کیا۔ چوتھےدن حضرت عقیل کی تشریف آوری کی وجہ کے بارے میں سوال کیا اور حضرت عقیل نے جواب میں کہا : میں دینی پیشوا اور عظم اوصیاء،امیرالمومنین علی بن ابیطالب کی طرف سے آپ کی بیٹی فاطمہ کی خواستگاری کے لئے آیا ہوں۔ حزام ، چونکہ اس قسم کی تجویز کے بارے میں تصور نہیں کرتے تھے، اس لئے متحیّرہوگئے، اور اس کے بعد پوری صداقت سے کہا: کس شریف نسل اور عظمت والے خاندان سے ! لیکن اے عقیل! امیرالمؤمنین کے لئے ایک صحرا نشین عورت شائستہ نہیں ہے، جو صحرا نشینوں کی ابتدائی تہذیب و تمدن میں پلی ہو۔" انھیں ایک بلند مرتبہ تمدن والی عورت سے ازدواج کرنا چاہئے اور ان دو تمدنوں کے درمیان فرق ہے۔" عقیل نے ان کے کلام کو سننے کے بعد کہا:" جو کچھ آپ کہتے ہیں، اس سے امیرالمؤمنین باخبر ہیں اور ان اوصاف کے باوجود وہ ان سے رشتہ ازدواج قائم کرنا چاہتے ہیں۔" اس کے بعد ام البنین کے والد نہیں جانتے تھے کہ کیا کہیں، اس لئے حضرت عقیل سے مہلت چاہی تاکہ بیٹی کی ماں ثمامہ بنت سہیل اور خود بیٹی سے پوچھ لیں اور جناب عقیل سے مخاطب ہوکر کہا:" عورتیں اپنی بیٹیوں کے جذبات اور حالات سے زیادہ واقف ہوتی ہیں اور ان کی مصلحتوں کے بارے میں زیادہ جانتی ہیں۔"

   ام البنین کے باپ جب اپنی بیوی اور بیٹی کے پاس گئے، تودیکھا کہ ان کی بیوی، ام البنین کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھیں۔حزام بن خالد کمرے میں داخل ہوئے اور ان سے علی علیہ السلام کو قبول کرنے کے بارے میں سوال کیا اور کہا:"کیا تم ہماری بیٹی کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شریک حیات بننے کے لائق جانتی ہو؟ جان لو کہ ان کا گھر مرکز وحی و نبوت ہے اور علم و حکمت اور آداب کا گھر ہے اگر تم اپنی بیٹی کو اس گھر کی خادمہ بننے کے لائق جانتی ہو تو ہم اس رشتہ کو قبول کرلیں گے اور اگر اس کے لائق نہیں جانتی ہو تو انکار کردیں گے۔"

   ان کی بیوی نے جواب میں کہا:" اے حزام! خدا کی قسم میں نے اس کی بہتر صورت میں تربیت کی ہے اور خداوند متعال و قدیرسے دعا کی ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں سعادتمند ہو جائے اور میرے مولا امیرالمؤمنین ( علیہ السلام) کی خدمت کےلائق اور صالح ہو، پس آپ اسے میرے مولا امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب کے ازدواج میں قرار دیجئے۔"

   عقیل نے ام البنین کی اجازت سے ان دو بزرگ شخصیتوں کے درمیان نکاح پڑھا۔ ان کا مہر، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق قرار دیا جو آپ (ص) نے اپنی بیٹیوں اور ہمسروں کے لئے معین کیا تھا اور وہ پانچ سو درہم تھے، جبکہ ام البنین کے باپ کہتے تھے:

   " وہ ایک تحفہ ہے، ہماری طرف سے، رسول خدا (ص) کے چچیرے بھائی کی خدمت میں اور مالو دولت کی ہمیں کوئی لالچ نہیں ہے۔"

حضرت علی علیہ السلام سے ام البنین کے ازدواج کی تاریخ

   علی علیہ السلام نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی رحلت کے بعد ام البنین سے شادی کی ہے۔ امیرالمؤمنین کی ام البنین سے شادی کی صحیح اورحتمی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ لیکن مورخین نے حضرت ابو الفضل العباس کی عمر میں اختلاف نظر کے پیش نظر کہ شہادت کے وقت وہ 32 یا 39 سال کے تھے، ان کی تاریخ پیدائش سنہ 24 ھ یا سنہ 26ھ بتائی ہے۔ اس لئے ان کا اعتقاد ہے کہ ام البنین کی شادی، تحقیقا سنہ 23 ہجری سے پہلے واقع ہوئی ہے، لیکن بعض مورخین نے کئی دوسری تاریخیں بھی ذکر کی ہیں۔

ام البنین کا علی (ع) کے گھر میں داخل ہونا:

   فاطمہ کلابیہ، شرافت، نجابت، پاک دامنی اور اخلاص کا مجسمہ تھیں۔ علی (ع) کے گھر میں قدم رکھنے کے وقت کہا: " جب تک نہ فاطمہ زہراء(س) کی بڑی بیٹی اجازت دیں، میں اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی۔"

   یہ خاندان رسالت کے تئیں ان کا انتہائی ادب و احترام کا مظاہرہتھا۔ جس دن حضرت ام البنین نے علی علیہ السلام کے گھر میں پہلی بار قدم رکھا، امام حسن اور امام حسین علیھما السلام بیمار تھے اور صاحب فراش تھے۔ ابو طالب کی بہو گھر میں داخل ہوتے ہی عالم ہستی کے ان دو عزیزوں اوراہل بہشت کےجوانوں کے سرداروں کےسراھنے پر پہنچیں۔اور ایک ہمدرد ماں کے مانند ان کی تیمارداری کرنے لگیں اور مسلسل یہ کہتی تھیں کہ:" میں فاطمہ زہراء (س) کی اولاد کی کنیز ہوں۔"

حضرت زہراء(س) کی اولاد سےام البنین کی بے لوث محبت:

   ام البنین حتی الامکان یہ کوشش کر رہی تھیں کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے بچوں کے لئے ان کی ماں کی رحلت سے پیدا ہوا خلاء پر کرسکیں، کیونکہ ان کی ماں کمال جوانی میں ان سے جدا ہوئی تھیں اور وہ ماں کی مامتا سے محروم ہوچکے تھے۔

   فاطمہ زہراء سلام اللہ کے بچے اس پارسا خاتون کے وجود میں اپنی ماں کو پارہے تھے اور اپنی ماں کے نہ ہونے کے رنج و الم کا کم تر احساس کر رہے تھے۔

   جناب ام البنین، رسول خدا (ص) کی بیٹی کے بچوں کو اپنی اولاد پر مقدم قرار دیتی تھیں اور اپنی محبت کا زیادہ تر اظہار ان کے تئیں کرتی تھیں اور اسے اپنے لئے فریضہ جانتی تھیں، کیونکہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں سب لوگوں کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔

فاطمہ سے ام البنین تک

   فاطمہ کلابیہ نے، حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ایک مختصر مدت کی مشترکہ زندگی کے بعد امیرالمؤمنین کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ انھیں " فاطمہ" کے بجائے " ام البنین" خطاب کریں تاکہ" فاطمہ" (س)اور " کنیز فاطمہ" کے درمیان فرق مشخص ہوجائے اور یہ فرق محفوظ رہے۔

حضرت علی (ع) کے ساتھ ام البنین کےازدواج کا ثمر

  حضرت علی علیہ السلام سے شادی کے نتیجہ میں حضرت ام البنین نے چارشجاع اور بہادر بیٹوں کو جنم دیا، جن کے نام عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان تھے اور ان ہی بیٹوں کی وجہ سے انھیں ام البنین، یعنی بیٹوں کی ماں، کہا جاتا تھا۔ حضرت ام البنین کے یہ چاروں بیٹے کربلا میں شہید ہوئے اور صرف حضرت عباس کی نسل ان کے بیٹے عبیداللہ سے جاری رہی۔

شجاع بیٹے کی پیدائش

   حضرت ام البنین کے پہلے بیٹے حضرت ابوالفضل العباس تھے۔ بعض محقیقین کا اعتقاد ہے کہ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام 4 شعبان سنہ 26 ھ میں پیدا ہوئے ہیں۔ جب حضرت عباس کی ولادت کی خوش خبریامیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو دی گئی، وہ فورا اپنے گھر گئے اور بیٹے کو آغوش میں لےلیا، اس کے بوسے لئے اور اسلامی سنت اور رسم کے مطابق پیدائش کے ساتویں دن ایک بھیڑ کو عقیقہ کے عنوان سے ذبح کیا اوراس کے گوشت کو فقراء کے درمیان صدقہ کے طور پر تقسیم کیا۔ امام علی علیہ السلام نے اس کا نام عباس ( خشمگین: کچھارکاشیر) رکھا، کیونکہ وہ باطل اور گمراہیوں کے مقابلے میں خشمگین اورجری تھے اور نیکیوں کے مقابلے میں ہنس مکھ تھے۔

امام حسین (ع) کے بارے میں حضرت عباس کو ام البنین کی فہمائش:

   جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ کو چھوڑ کر حج اور اس کے بعد عراق ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا، ام البنین، امام حسین (ع) کے ہمراہیوں کو یہ نصیحت کرتی تھیں:"میرے نور چشم امام حسین (ع) کی فرماں برداری کرنا،"

حضرت عباس(ع) کے بارے میں امام صادق(ع) کا ارشاد:

   امام صادق (ع) نے فرمایا:" رحم اللہ عمی العباس لقد اثر وابلی بلاء حسنا۔ ۔ ۔" خدا ہمارے عباس پررحمت کرے، کتنا بہتر امتحان دیا، جاں نثاری کی اور شدید ترین امتحانات پاس کئے ۔ ہمارے چچاعباس کے لئے خدا کے پاس ایک ایسا مقام ہے کہ تمام شہداء اسپر رشک کرتے ہیں۔"

شب عاشور

   شب عاشور عباس، ابا عبداللہ الحسین(ع) کے پاس بیٹھے ہیں۔ اسی دوران دشمنوں کا ایک سردار آتا ہے اور فریاد بلند کرتا ہے:" عباس بن علی اور ان کے بھائیوں سے کہدو کہ ہمارے پاس آجائیں۔ عباس اس آواز کو سنتے ہین لیکن سننے کے باوجود ان سنی کرتے ہیں، اس کی طرف کوئی اعتنا نہیں کرتے ہیں۔ امام حسین (ع) کے سامنے اس طرح با ادب بیٹھے ہیں کہ امام نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: " اس کا جواب دیدو، اگر چہ وہ فاسق ہے"۔ حضرت عباس آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ شمر ذی الجوشن ہے۔ شمر، حضرت ابوالفضل العباس کے ساتھ ان کی ماں کی طرف سے ایک دور دراز رشتہ کے پیش نظر کہ دونوں ایک ہی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، کوفہ سے آتے وقت حضرت ابوالفضل العباس اور ان کے بھائیوں کے لئے اپنے خیال خام میں امان نامہ لے کر آیا تھا اور اسے اپنے خیال میں ان کے حق میں ایک خدمت جانتا تھا۔

   جب شمر نے اپنی بات ختم کی، حضرت عباس(ع) غیض و غضب میں اس کی طرف رخ کرکے بولے:" خدا تمھیں اور اس آمان نامہ کو تیرے ہاتھ میں دینے والے پر لعنت کرے، تم نے مجھے کیا سمجھا ہے؟ میرے بارے میں کیا خیال کیا ہے؟ کیا تم نے یہ سمجھا ہے کہ میں ایک ایسا انسان ہوں جو اپنی جان بچانے کے لئے، اپنے امام اور بھائی امام حسین (ع) کو تنہا چھوڑ کر تیرے پیچھے آئے گا؟ جس دامن میں ہم نے پرورش پائی ہے اور جس پستان سے ہم نے دودھ پیا ہے، اس نے ہمیں اس طرح تربیت نہیں دی ہے کہ ہم اپنے امام اور بھائی کے ساتھ بے وفائی کریں۔"

   مورخین نے لکھا ہے:" واقعہ کربلا کے بعد، بشیر نے مدینہ میں ام البنین سے ملاقات کی تاکہ ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انھیں سنائیں۔ وہ امام سجاد کی طرف سے بھیجے گئے تھے، ام البنین نے بشیر کو دیکھنے کے بعد فرمایا: اے بشیر ! امام حسین ( علیہ السلام) کے بارے میں کیا خبر لائے ہو؟ بشیر نے کہا: خدا آپ کو صبر دے آپ کے عباس قتل کئے گئے۔ ام البنین نے فرمایا:" مجھے حسین ( علیہ السلام) کی خبر بتادو۔" بشیر نے ان کے باقی بیٹوں کی شہادت کی خبر کا اعلان کیا۔ لیکن ام البنین مسلسل امام حسین (ع) کے بارے میں پوچھتی رہیں اور صبر و شکیبائی سے بشیر کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا:

" یا بشیر اخبرنی عن ابی عبداللہ الحسین، اولادی و تحت الخضری کلھم فداء لابی عبداللہ الحسین"

"اے بشیر! مجھے ابی عبدا للہ الحسین  کی خبر بتادو میرے بیٹے اور جو کچھ اس نیلے آسمان کے نیچے ہے، ابا عبداللہ الحسین (ع) پر قربان ہو۔"

   جب بشیر نے امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر دی تو ام البنین نے ایک آہ! بھری آواز میں فرمایا:" قد قطعت نیاط قلبی"،" اے بشیر! تونے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا۔" اور اس کے بعد نالہ و زاری کی۔

   حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا مدینہ میں پہنچنے کے بعد، حضرت ام البنین کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان کے بیٹوں کی شہادت کے بارے میں تسلیت و تعزیت اداکی۔

   رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی، امام حسین علیہ السلام کی شریک تحریک اور قیام حسینی (ع) کے دھڑکتے دل، یعنی زینب کبری سلام اللہ علیہا کے، ام البنین کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے بیٹوں کی شہادت پرکلمات تسلیت و تعزیت کہنے سے اہل بیت (ع) کی نظر میں ام البنین کے بلند مقام و منزلت کا پتہ معلوم ہوتا ہے۔

   حضرت زینب کبری(س) عیدوں وغیرہ کے مانند دوسری مناسبتوں پر بھی احترام بجالانے کے لئے ام البنین کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں۔

چار شہیدوں کی ماں 

 ام البنین کے چار بیٹوں کے کربلا میں شہید ہونے سے، اس صبر و شکیبائی کی مجسمہ خاتون کو چار شہید بیٹوں کی ماں کا شرف اور افتخار ملا اس کے ساتھ ہی شہید شوہر کی بیوی ہونے کا شرف بھی انھیں حاصل تھا۔ انھوں نے مذکورہ جذبات کی روشنی میں کچھ اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ حسب ذیل ہے:

   " اے وہ جس نے میرے کڑیل جوان بیٹے کو اپنے باپ کے مانند دشمنوں پر حملہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے دیکھا۔ علی علیہ السلام کے بیٹے سب کے سب کچھار کے شیروں کے مانند شجاع اور بہادر ہیں۔ میں نے سنا کہ میرے عباس کے سرپر آہنی گرز سے وار کیا گیا، حالانکہ ان کے ہاتھ کاٹ دئے گئے تھے، اگر میرے بیٹے کے بدن میں ہاتھ ہوتے تو کون اس کے پاس آکر جنگ کرنے کی جرات کرتا؟"

   امام حسین علیہ السلام سے ان کی اس قدر محبت ان کی معنویت میں کمال کی دلیل ہے کہ انھوں نے تمام مصائب کو ولایت کی راہ میں فراموش کیا اور صرف اپنے امام اور رہبر کی بات کرتی تھیں۔

ام البنین ، عاشورا کی یاد کی محافظ:

   ام البنین کی اہم خصوصیات میں سے، زمانہ اور اس کے مسائل کی طرف ان کا توجہ کرنا ہے۔ انھوں نے کربلا کے واقعہ کے بعد، نوحہ خوانی اور مرثیہ سرائی سے استفادہ کیا تاکہ کربلا والوں کی مظلومیت کی آواز کو آنے والی نسلوں تک پہنچائیں۔ وہ حضرت عباس (ع) کے بیٹے عبیداللہ، جو اپنی ماں کے ساتھ کربلا میں تھے اور عاشورا کے واقعات کو بیان کرنے کی ایک زندہ سند تھے، کے ہمراہ بقیع میں جاکر نوحہ خوانی کرتی تھیں اور شور و غوغا برپا کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوتے تھے اور ان کے ساتھ نالہو زاری کرتے تھے۔

   امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:" وہ بقیع میں جاتی تھیں اور اس قدر دلسوز مرثیہ خوانی کرتی تھیں کہ مروان، اپنی سنگدلی کے باوجود گریہ کرتا تھا ۔

وفا کے ساحل پر

   جذبات اور محبتکا ایک نتیجہ،اپنے عزیزوں کے تئیں وفاداری کا احساس ہے، اور یہ احساس حضرت ام البنین کی زندگی میں مولائے متقیان کی شہادت کے بعد ان کے کلام میں مشہود تھا۔ ام البنین کی اپنے شوہر کے تئیں وفاداری اس حد تک تھی کہ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد، جوان ہونے کے باوجود اپنی عمر کے آخری لمحات تک اپنے شوہر کے احترام میں دوسری شادی نہیں کی اور امام علی علیہ السلام کے بعد، بیس سال سے زیادہ کی طولانی مدت تک زندہ رہیں۔ جب حضرت علی علیہ السلام کی ایک بیوی " امامہ" کے بارے میں ایک مشہور عرب " مغیرة بن نوفل" سے خواستگاری ہوئی اور اس سلسلہ می‏ ام البنین سے صلاح و مشورہ کیا گیا تو، انھوں نے جواب میں فرمایا:" سزاوار نہیں ہے کہ علی کے بعد ہم کسی دوسرے مرد کے گھر میں جاکر اس کے ساتھ ازدواجی زندگی کا عہدو پیمان باندھیں۔"

   ام البنین کے اس کلام نے صرف " امامہ" کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ اس نے لیلی، تمیمیہ اور اسماء بنت عمیس پر بھی اثر ڈالا اور حضرت علی علیہ السلام کی ان چاروں بیویوں نے زندگی بھر، علی (ع) کے بعد شادی نہیں کی۔

ہنر کے آئینہ میں:

   ام البنین کی دوسری بلند صفات میں سے ان کی فصاحت و بلاغت کی صفت ہے جو ان کے خوبصورت اور لافانی اشعار میں ظاہر ہوئی ہے۔ ان کے لافانی اشعار، جن کی عربوں کے بڑے ادبیوں اور شاعروں نے تجلیل کی ہے، ان میں ان کے وہ دلسوز اشعار ہیں جو انھوں نے اپنے  بیٹے حضرت  ابو الفضل العباس کی شہادت کے بعد کہے ہیں۔

لاتدعونی ویک ام البنین      تذکرینی بلیوث العرین

کانت بنون لی ادعی بھم      والیوم اصبحتُ ولا من بنین

اربعة مثل نسور الرّبی        قد و اصلواالموت بقطع الوتین

" مجھے ام البنین نہ کہئے، مجھے اپنے دلاور شیر یاد آتے ہیں۔ میرے کئی بیٹے تھے، جن کی وجہ سے مجھے ام البنین کہا جاتا تھا، لیکن آج میرا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ میرے چار بیٹے شکاری بازوں کے مانند تھے، وہ سب شہید ہوئے۔"

   مورخین لکھتے ہیں :" ام البنین اپنے بیٹوں، خاص کر امام حسین (علیہ السلام) کے لئے ایسی دلسوز نوحہ خوانی کرتی تھیں اور آنسو بہاتی تھیں کہ، مروان بن حکم جیسے دشمنان اہل بیت (ع) بھی ان کی مرثیہ سن کر گریہ وزاری کرتے تھے۔

   حضرت عباس کے بارے میں ان کے دوسرے اشعار میں " عظیم مجسمہ شجاعت" نامی اشعار ہیں کہ فرماتی ہیں:

یامن رای العباس کرّ علی جماھیر النقد   ووراہ من ابناء حیدر کل لیث ذی لبد

نبئت انّ ابنی اصیب براسہ مقطوع ید     ویلی علی شبلی امال براسہ ضرب العمد

لو کان سیفک فی یدیک لما دنا منہ احد

" اے وہ جس نے عباس کو دشمن پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور حیدر کے بیٹے ان کے پیچھے تھے۔ کہتے ہیں کہ میرے بیٹے کے بازو کاٹے گئے اور ان کے سر پر آہنی عمود سے وار کیا گیا، اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو کوئی تیرے نزدیک آنے کی جرات نہ کرتا!"

   وہ اپنے ان اشعار سے کربلا کے رزم نامہ کو زندہ کرتی تھیں اور عزاداری کی صورت میں وقت کی حکومت پر اعتراض بھی کرتی تھیں اور ان کے گرد جمع ہونے والے لوگوں کو بنی امیہ کے مظالم سے آگاہ بھی کرتی تھیں۔

ام البنین کا علم اور ان کی دانائی

   ام البنین کی زندگی ہمیشہ با بصیرت اور علم و دانش کے نور سے منور تھی اور ان کی یہ بلند فضیلت تاریخ کی کتابوں میں جگہ جگہ پر ذکر کی گئی ہے، جس سے ہمیں اس عالمہ و فاضلہ خاتون کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ اہل بیت (ع) کے ساتھ ان کی محبت اور امامت کے بارے میں ان کی دینی بصیرت اس قدر تھی کہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:" ام البنین کی عظمت و معرفت اور بصیرت کے بارے میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ: " جب وہ امیرالمؤمنین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں اور حسنین(ع) بیمار ہوتے تو وہ ہمدردی اور مہربانی کے ساتھ پیش آتی تھیں اور ان کے ساتھ ہم کلام ہوتی تھیں اور حد درجہ محبت سے ان کے ساتھ برتاؤ کرتی تھیں، جیسے ایک ہمدرد اور مہربان ماں پیش آتی ہے۔"

   ان کے اور ان کے عظمت والے بیٹے میں ان کا علم متجلی ہے۔ وہ ایک محدثہ ہیں اور انھوں نے اپنے بیٹیوں کی علم و دانش سے تربیت کی ہے۔ اگر چہ ان کے بیٹے " باب علم نبی" کے فرزند تھے، لیکن اپنی ماں کے علم و دانش سے بھی بہرہ مند تھے، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت عباس (ع) کے بارے میں فرماتے ہیں:

" انّ ولدی العباس زقّ العلم زقا" " بیشک میرے بیٹے عباس نے بچپن میں ہی علم سیکھا ہے اور جس طرح کبوتر کا بچہ اپنی ماں سے پانی اور غذا حاصل کرتا ہے، اسی طرح اس نے مجھ سے معارف کی تربیت پائی ہے۔

حضرت ام البنین (ع) کی رحلت

   حضرت ام البنین، حضرت زینب کبری (س) کی رحلت کے بعد دارفانی کو الوداع کہہ گئی ہیں۔

   تاریخ لکھنے والوں نے ان کی تاریخ وفات مختلف بتائی ہے،اس طرح کہ ان میں سے بعض نے ان کی تاریخ وفات کو سنہ 70 ہجری بیان کیا ہے اور بعض دوسرے مورخین نے ان کی تاریخ وفات کو 13 جمادی الثانی سنہ 64 ہجری بتایا ہے اور دوسرا نظریہ زیادہ مشہور ہے۔

   ام البنین کی مہر و محبت اور مبارزہ سے چھلکتی زندگی آخری لمحات میں تھی، ام البنین کی زندگی کی آخری رات تھی۔ خادمہ فضہ نے اس مودّب خاتون سے مخاطب ہوکردرخواست کی کہ ان آخری لمحات میں اسے ایک بہترین جملہ سکھائے ۔ ام البنین نے ایک تبسم کے بعد گنگناہٹ کی حالت میں فرمایا:" السلام علیک یا ابا عبداللہ"

   اس کے فورا بعد فضہ نے ام البنین کو احتضار کی حالت میں پایا اور دوڑ کے علی علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی اولاد کو بلایا۔

   تھوڑی ہی دیر بعد اماں! اماں ! کی آواز مدینہ میں گونج اٹھی۔

   حضر فاطمہ زہراء (س)کے بیٹے اور نواسے ام البنین کو ماں کہکر پکارتے تھے اور یہ خاتون انھیں منع نہیں کرتی تھیں، شائد اب اس میں یہ کہنے کی طاقت باقی نہ رہی تھی کہ:" میں فاطمہ (س) کی کنیز ہوں۔"

   حضرت امام زین العابدین آنسو بہاتے تھے۔ ۔ ۔

   بہر حال ام البنین (ع) کو جنت البقیع میں، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو پھپھیوں : صفیہ و عاتکہ کے پاس امام حسن علیہ السلام اور فاطمہ بنت اسد علیہا السلام کی قبروں کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔

ام البنین (ع) کی زیارت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو:

" السلام علیک یا زوجة ولی اللہ، السلام علیک یا زوجة امیرالمؤمنین، السلام علیک یا ام البنین، السلام علیک یا ام العباس ابن امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، رضی اللہ تعالی عنک وجعل منزلک وما واکِ  الجنہ ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔ ۔ ۔

 

Read 7772 times