حضرت زینب کبرٰی (س) کی عقیلہ بنی ہاشم سے شہرت کے راز کا بیان

Rate this item
(0 votes)
حضرت زینب کبرٰی (س) کی عقیلہ بنی ہاشم سے شہرت کے راز کا بیان

حضرت آیت اللہ جوادی آملی کی جانب سے درس اخلاق میں :

حضرت زینب کبرٰی (س) کی عقیلہ بنی ہاشم سے شہرت کے راز کا بیان

اس معظمہ بی بی کے عقیلہ بنی ہاشم کے لقب سے مشہور ہونے کے راز سے متعلق کچھ وضاحت عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔

بعض لوگ عاقل نہیں ہیں اور عقل کے حصول کی تگ و دو میں ہیں ؛ بعض عاقل ہیں اور عقل ان کے لیے ایک "حال" کی صورت میں ہے یعنی یہ ان کا دیرپا وصف نہیں ہے بلکہ کبھی ہے اور کبھی نہیں ہے ؛ بعض عاقل ہیں اور عقل ان کے لیے بمنزلہ ملکہ ہے ؛ اور بعض ایسے عاقل ہیں کہ عقل ان کی فصلِ مقوّم ہے ۔

جن ہستیوں کے لیے عقل فصلِ مقوّم کی منزلت پر ہے ، وہ حقیقی معنوں میں عقیلہ ہیں ۔ حسین بن علی سلام اللہ علیھما عقیلہ بنی ہاشم ہیں اور زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا بھی عقیلہ بنی ھاشم ہیں ؛ یہ تاء مبالغے کی ہے نہ کہ تانیث کی ۔ جب کہا جاتا ہے کہ انسان خلیفۃ اللہ ہے یہ اسی طرح ہے ۔ آدم خلیفۃ اللہ ہیں نہ کہ خلیف اللہ ، کیوں ؟ اس لیے کہ یہ تاء مبالغہ کی تاء نہیں ہے ۔ جیسا کہ ہم کہتے ہیں : فلاں شخص علاّمۃ ہے ۔ اس بنا پر وجود مبارک حسین بن علی سلام اللہ علیہ بھی عقیلۃ بنی ہاشم ہیں اور وجود مبارک زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا بھی عقیلۃ بنی ہاشم ہیں ؛ عقل ان کے لیے بمنزلہ فصل مقوّم ہے ۔ اگر عقل کسی شخص کے لیے فصل مقوّم ہو ، تو اس سے کمالات جنم لیتے ہیں ؛ عقل اس کے لیے مقہور ہے نہ کہ اس پر مسلط ہے ۔ بعض لوگوں کو کمال حفظ کرتا ہے لیکن بعض لوگ کمال کے حافظ ہیں ؛ ذات اقدس الٰہی نے وجود مبارک پیغمبر ( علی و علی الہ آلاف التحیۃ والثناء) کے بارے نہیں فرمایا کہ  تو خلق عظیم کا مالک ہے یا خلق عظیم تیری صفت ہے  بلکہ فرمایا : «إِنَّک لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیمٍ»؛[1] یعنی تو خلق عظیم پر (مسلّط) ہے ۔

اس کی وجہ یہی ہے کہ آنحضور ( علی و علی الہ آلاف التحیۃ والثناء)  عدل و فضیلت پر مسلط تھے ۔ بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ فضیلت ان سے جدا نہ ہو جائے اور بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی فضیلت کی حفاظت کریں ۔ اگر انسان کی ذات روحانی بلندیوں پر فائز ہو جائے اور وہ خلیفہ خدا ہو جائے اور نورانی ہو جائے ، تو اس کی نورانی ذات خلق عظیم کا منشا ٹھہرتی ہے ۔ فرمایا : «إِنَّک لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیمٍ»؛[1] یعنی تو خلق پر مسلط ہے اور خلق تیرے اختیار میں ہے نہ یہ کہ آپ ( علی و علی الہ آلاف التحیۃ والثناء) اخلاق کے واسطے سے کمال حاصل کرنا چاہتے ہوں ۔ اخلاق کا کمال اس امر میں مضمر ہے کہ وہ تجھ سے پھوٹتا ہے ۔ بعض لوگوں کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا ہے : «فَهُوَ عَلَی نُورٍ مِن رَبِّهِ»؛[2] اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو نور کے ہمراہ حرکت کرتے ہیں بعینہ ان عام لوگوں کی طرح جو چراغ کے ساتھ حرکت کرتے ہیں ؛ بعض لوگ نورانی ہیں اور وہ جہاں کہیں بھی ہوں ، نور ہیں ۔ اس طرح کے افراد کے بارے قرآن کریم کی تعبیر یہ ہے کہ «فَهُوَ عَلَی نُورٍ مِن رَبِّهِ» یعنی نور ان کے قدموں تلے ہے ؛ نور ان کا مرکب اور سواری ہے اور یہ نور پر سوار ہیں ۔

آفتاب نور پر مسلط اور راکب ہے نہ یہ کہ نور آفتاب پر راکب ہو ۔ شمس علی نور خلق کیا گیا ہے چونکہ نور شمس سے ہے لیکن دن اور یہ زمانہ نور کے ساتھ روشن ہیں ۔ خود اس زمانہ کا کوئی نور نہیں ہے بلکہ یہ نور سورج سے حاصل کرتا ہے لیکن خود سورج کی تخلیق «علی نور من ربّه» کی گئی ہے ۔ عقیلہ بنی ہاشم عقل پر مسلط ہیں اور عقل ان کے اختیار میں ہے ۔ وہ اس قدر قوی ہیں کہ علم و عقل  «ما عُبد به الرحمن»،[3] کے معنوں میں ان کے مقہور ہیں ؛ اسی طرح دوسری جانب اگر کوئی جہل میں گرفتار ہو جائے تو وہ جہل کا مرکب اور سواری ہے ۔ سورہ مبارکہ اسراء میں ابلیس کی یہ بات ذکر ہے کہ جہاں خدا ابلیس کے اس قول کی حکایت فرما رہا ہے ، اس نے کہا : میں سرکش لوگوں پر سوار ہوں گا ، ان کی گردن اور تحت الحنک کا کنٹرول حاصل کروں گا ۔ «لَأَحْتَنِکنَّ ذُرِّیتَهُ».[4] "اِحتَنَکَ" باب افتعال سے ہے اور اس کا معنی ہے کہ مرکب پر سوار ہوا اور اس کی حنک تھام لی ؛ جو لوگ گھڑ سوار ہیں وہ گھوڑے کی حنک اور تحت حنک پر مسلط ہوتے ہیں ۔ لگام سوار کے اختیار میں ہوتی ہے ۔ ابلیس نے کہا : میں بھی ایسے ہی ہوں کہ  «لَأَحْتَنِکنَّ ذُرِّیتَهُ» یعنی ان پر سوار ہوں گا یہ میری سواریاں ہیں اور مجھے سواری کا موقع دیں گی ؛ ان کی حنک اور تحت حنک میرے اختیار میں ہے ۔ اس بنا پر اگر کوئی شخص انشاء اللہ اس مقام پر پہنچ گیا کہ پہلے عاقل بنا ، پھر عقیل ہو گیا اور پھر عقیلہ تو وہ «فَهُوَ عَلَی نُورٍ مِن رَبِّهِ»[5]کا مصداق ہے ۔ پہلی کوشش یہ ہو کہ عاقل ہو ؛ عاقل اسم فاعل ہے پھر عقیل بنے ، عقیل صفت مشبہہ ہے اور اس کی دلالت ثبوت پر ہے ۔ اس کے بعد عقیلہ کا مرحلہ آتا ہے ۔ عقیلہ میں تا مبالغے کی ہے ۔ زینب کبرٰی اور حسین بن علی ( سلام اللہ علیھما ) عقیلہ بنی ہاشم تھے ۔ ہم اگر عقل کے بارے کچھ کہنا چاہیں تو ضروری ہے کہ ان ذوات قدسیہ کی سنت ، سیرت اور پاک طینت  کا جائزہ لیں ، ضروری ہے کہ انہیں پہچانیں اور انہیں مانیں ؛ ان کے فرامین پر عمل کریں اور دوسروں تک منتقل کریں ۔

حضرت آیۃ ا۔۔۔ جوادی آملی نے مزید فرمایا :

یہ راہ طے کی جا سکتی ہے ؛ جو چیز ممکن اور قابل کسب نہیں ہے ، وہ رسالت و امامت کا مقام شامخ ہے که «اللّهُ أَعْلَمُ حَیثُ یجْعَلُ رِسَالَتَهُ»؛[6] لیکن عاقل ہونا ، عقیل اور عقیلہ ہونا ممکن ہے ۔ بعض اوقات آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ مردوں کے بارے میں بھی اور خواتین کے بارے میں بھی روایات ہیں کہ آئمہ علیھم السلام نے فرمایا : فلاں شخص «منّا أهل البیت».[7] ہے یہ سلمان رضوان اللہ تعالی علیہ کے ساتھ مختص نہیں ہے ۔ سلمان ، ابوذر ، مقداد اور عمار کے مقام تک پہنچنا ممکن ہے ۔ البتہ اہل بیت (ع) کے مقامات اور ان کے منصب پر فائز ہونا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ لیکن یہ راستہ کھلا ہے بالخصوص جو اشخاص عالم نوجوانی میں ہیں (ایک) اور حوزات علمیہ میں سعی و کوشش کر رہے ہیں (دوّم) یہ دو اسباب مدد کرتے ہیں کہ یہ انشاء اللہ اس راہ کو طے کر لیں اور ایک دوسرے گروہ کے مقابلے میں جو تاریکی کی دلدل میں دھنس چکے ہیں ، «فَهُوَ عَلَی نُورٍ مِن رَبِّهِ» [8] کا مصداق بنیں ۔

اگر انسان انشاء اللہ اپنی راہ ، گفتار اور کردار کا دھیان رکھے تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہر تاریکی سے نجات حاصل کر لیتا ہے ؛ جب اسے راستہ مل جاتا ہے تو اسے طے کرنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے ۔ درست ہے کہ راہ کے آغاز میں دشوار گزار گھاٹی اور صعب العبور درّہ ہے یہ وہی دشوار گزار گھاٹی ہے کہ جس سے متعلق فرمایا : «فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ ٭ وَ مَا أَدْرَاک مَا الْعَقَبَةُ»؛[9] (یعنی پھر وہ گھاٹی پر سے کیوں نہیں گزرا ، اورتم کیا جانو یہ گھاٹی کیا ہے) لیکن سالک انسان کے لیے یہ امر آسان ہو جاتا ہے «فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَ اتَّقَی ٭ وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنَی ٭ فَسَنُیسِّرُهُ لِلْیسْرَی»؛[10] ایسا شخص آسانی سے اچھے کام کرتا ہے ۔ اگر نماز شب دوسروں کے لیے دشوار ہو تو اس کے لیے آسان ہے ۔ اگر عمیق مطالب کا سمجھنا دوسروں کے لیے سخت اور دشوار گزار گھاٹی ہو تو یہ شخص انہیں آسانی سے حل کر لیتا ہے اور انہیں سمجھتا ہے ۔ یہ جو فرمایا : «فَسَنُیسِّرُهُ لِلْیسْرَی» یہ عملی خصلتوں کے ساتھ مختص نہیں ہے ؛ اگر علمی مراحل ہوں تو اسی طرح ہے اور اگر عملی مراحل ہوں تب بھی ایسے ہی ہے ۔

حضرت استاد نے خیال ظاہر کیا : درست ہے کہ بعض مسائل سخت مشکل ہیں ۔ مثال کے طور پر حضرت امیر سلام اللہ علیہ کا قدر کے بارے وہ نورانی بیان کہ فرمایا : «بحرٌ عمیقٌ فلاتلجه»[11] یہ ایک عمیق اور تاریک دریا ہے ؛ اس میں غوطہ زن نہ ہو اور اس بحث میں وارد مت ہو ! قضا و قدر کا مسئلہ ایک روشن مسئلہ نہیں ہے ۔ جبر و تفویض کا مسئلہ ایک آسان مسئلہ نہیں ہے ۔ ان مسائل کا حل دشوار ہے اور ہر شخص کو اس کی توفیق نہیں ہوتی ؛ لیکن یہی عمیق مطلب بعض لوگوں کے لیے انتہائی شفافیت اور روشن انداز سے حل ہو جاتا ہے ۔

اس بنا پر «فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَ اتَّقَی ٭ وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنَی ٭ فَسَنُیسِّرُهُ لِلْیسْرَی»[12] یہ عملی کاموں کے ساتھ مختص نہیں ہے ؛ جس طرح نماز شب پڑھنا ، مستحبی روزے رکھنا ، آنکھ اور کان پر کنٹرول رکھنا بعض کے لیے آسان ہے ، عمیق علمی مطالب سمجھنا بھی بعض افراد کے لیے آسان ہے ۔ اسی باب سے ہے کہ فرمایا : «دُم علی الطهارة یوسع علیک رزقک.»[13] یعنی ہمیشہ با وضو رہو کہ اس سے روزی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ روزی سے مراد صرف روٹی پانی اور اس طرح کی چیزیں نہیں ہے ، علم و اخلاق بھی روزی ہے ؛ عقل و فضیلت بھی اسی طرح روزی ہیں جس طرح سے کھانے پینے کی چیزیں ظاہری روزیاں ہیں ۔ فرمایا : «دُم علی الطهارة» ہمیشہ با وضو رہو ، اس عمل کا بہت زیادہ اثر ہے ۔ انہی راہوں سے وہ چیزیں ملتی ہیں کہ جن کا خدائے سبحان نے وعدہ دیا ہے ۔ یہ امر وجود مبارک پیغمبر (علیه و علی آله آلاف التحیة و الثناء) کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ خدا ایسے لوگوں کے لیے اعلیٰ ترین مراحل آسان فرماتا ہے ۔ اسی باب سے فرمایا : «أَلَمْ نَشْرَحْ لَک صَدْرَک ٭ وَ وَضَعْنَا عَنک وَزْرَک ٭ الَّذِی أَنقَضَ ظَهْرَک ٭ وَ رَفَعْنَا لَک ذِکرَک.»[14] وجود مبارک موسائے کلیم (ع) نے بھی فرمایا : «رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی»[15] اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «قَدْ أُوتیتَ سُؤْلَک یا مُوسَی.»[16]  وہ دشوار کام جو دوسروں کے بس میں نہیں ہے ۔ خدا ان کے لیے آسان فرماتا ہے ؛ ہم سے بھی بعض کاموں کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ ہماری بساط میں بھی ہیں لیکن مشکل ہیں ؛ خدا ان مشکل کاموں کو ہمارے لیے آسان فرماتا ہے  ، جیسا کہ فرمایا : : «فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَ اتَّقَی ٭ وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنَی ٭ فَسَنُیسِّرُهُ لِلْیسْرَی»؛ یہ "سینیں" تحقیقی ہیں نہ کہ تسویفی ، اور یہ «اسْتَکبَرَ» جیسے کلمات کی طرح مبالغہ کا معنی دیتی ہیں ؛ یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کام اس کے لیے بعد میں آسان کریں گے بلکہ اس کا معنی ہے کہ بتحقیق ان کے لیے آسان کریں گے ۔ اس بنا پر عاقل ہونا ، عقیل اور عقیلہ ہونا دوسروں کے بس میں بھی ہے ، لیکن یہ ہے کہ اہل بیت عصمت و طہارت کے ساتھ مربوط عقل کا اوج و کمال ان کی شخصیت کے مطابق ہے اور یہ انہی کے بس میں ہے ؛ لیکن اس کے درمیانے اور نچلے درجے کے مراحل دوسروں کے مقدور بھی ہیں ۔

آیت اللہ جوادی املی نے اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ خدا کی اطاعت لذّت بخش ہے ، فرمایا : ہم جس قدر عقل رکھتے ہیں ، اسی قدر اطاعت الٰہی سے لذّت اٹھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ، اس کا ذکر بعض لوگوں کے لیے شیرین ہے ۔ ماہ رمضان میں ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اپنے نام اور یاد کی شیرینی ہمیں بھی چکھا اور کہتے ہیں : «و أذقنی فیه حلاوة ذکرک.»[17] یہ بمنزلہ زاد و توشہ ہے ۔ گزشتہ بحثوں میں بھی اخلاقی مسائل کے ضمن میں عرض ہوا کہ یہ مراحل مقدّماتی ہیں ، یعنی عبادت کرنا ، واجبات بجا لانا اور محرّمات ترک کرنا ۔۔۔ وغیرہ زادہ راہ اور توشہ ہیں ۔ زاد راہ راستے کے مطابق فراہم کرنا چاہئیے ۔ جو لوگ زاد راہ جمع کرنے میں اپنی عمر بسر کر دیتے ہیں ۔ البتہ یہ کام بھی اچھا کام ہے لیکن یہ لوگ بہت خوب سے محروم رہتے ہیں ۔ ہمارے پاس سفر کے لیے ایک چیز زاد و توشہ ہے ؛ لیکن اس کے علاوہ مقصد اور مقصود بھی ہے اور ہمارا مقصود اس مقصد میں ہے ۔ پس ضروری ہے کہ ہم اس مقصد اور مقصود کو بھی پہچانیں اور راہ بھی طے کریں ۔ قرآن کریم میں راہ کو بھی زاد و توشہ کے عنوان سے ہمارے لیے مشخّص کیا گیا ہے اور مقصد کا تعارف بھی کروایا گیا ہے اور ہم میں سے بہت سوں کا مقصود بھی متعیّن کیا گیا ہے ۔ بالفرض اگر ہم اچھے انسان ہوں ، لیکن ہماری ساری کی ساری سعی و کوشش زاد راہ فراہم کرنے میں ہو ، زادہ راہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ؛ البتہ اگر زاد دنیا سے مربوط ہو تو اضافی زاد ہمارے لیے کار آمد نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی اسے راہ خدا میں خرچ کر کے ثواب حاصل کرے ؛ لیکن آخرت کا زاد جس قدر زیادہ ہو ، اس کے عوض «جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ»[18] زیادہ عطا ہوں گی، محلات اور بالا خانے زیادہ ملیں گے ؛ لیکن ان چیزوں سے ہم ہرگز مقصد سے نزدیک نہیں ہوں گے ۔ یہ جو سورہ مبارکہ بقرہ میں فرمایا : تَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیرَ الزَّادِ التَّقْوَی»؛[19] زادہ راہ مہیا کرو ۔ اچھا ! زادہ راہ مہیا کرو ، لیکن کس کے لیے اور کس چیز کے واسطے ؟ توشہ مقصد اور مقصود کا غیر ہے ۔ توشہ مہیا کرو تاکہ وہ تمہیں مقصد سے نزدیک کرے ۔ مقصد اور مقصود علم و معرفت کے ساتھ درک ہوتا ہے ۔ نماز ہمارے لیے توشہ ہے ۔ لیکن اگر قرب کی شناخت حاصل کر لیں اور ہمارے لیے یہ مسئلہ حل ہو جائے کہ وہ ذات کس طرح سے «أقرب إلیکم من حبل الورید»[20] ہے اور ہم اس سے دور ہیں «ینَادَوْنَ مِن مَکانٍ بَعِیدٍ»،[21] اس کا تعلق زاد راہ اور توشے سے نہیں ہے بلکہ اس کی بازگشت معرفت کی طرف ہے ۔ تقوٰی زاد و توشہ ہے مقصد تک پہنچنے کے لیے ؛ لیکن مقصد کی شناخت کا تعلّق عمل سے نہیں ہے ؛ یہ شناخت نماز و روزے کے ساتھ نہیں ہے بلکہ فہم کے ساتھ ہے اور فہم کے ساتھ ہے ، فہم کے ذریعے ہم سمجھ پاتے ہیں کہ وہ کس طرح ہمارے نزدیک ہے اور ہم اس سے دور ہیں ۔ آپ متواتر نمازیں پڑھیں اور پے در پے روزے رکھیں ، یہ مشکل حل نہیں ہو گی ۔ زاد و توشہ ضروری مقدار میں فراہم کیا جائے ؛ راہ سے زیادہ زادراہ اضافی ہے ۔

وہ کس طرح سے ہمارے نزدیک ہے اور ہم «ینَادَوْنَ مِن مَکانٍ بَعِیدٍ»؛ کے مصداق ہیں ؛ وہ کس طرح سے ہر شخص اور ہر چیز سے زیادہ ہمارے نزدیک ہے اور ہماری ذات کے خود ہم سے بھی زیادہ قریب ہے کہ فرمایا : «وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللّهَ یحُولُ بَینَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهِ»؛[22] ان مسائل کا جواب کہاں ہے ؟ ان مسائل کے لیے باطنی بینائی کی ضرورت ہے اور ان کا تعلق زاد و توشہ اور سواری سے نہیں ہے ؛ یہ مسائل زاد و توشے اور سواری سے مافوق ہیں ۔ ان مطالب کے لیے عقیلہ بنی ھاشم کی ضرورت ہے ۔ ان مسائل کے لیے عقل چاہئیے نہ کہ عبادت ۔ عبادت یا واجب ہے اور واجبات معلوم ہیں ۔ مستحبات بھی مشخص ہیں ؛ البتہ اسی عبادت کو ایک شخص انجام دیتا ہے اور خدائے سبحان سے «جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ»[23] چاہتا ہے ، یہ شخص زادہ راہ کے پیچھے بھاگ رہا ہے ۔ اسی عبادت کو ایک شخص انجام دیتا ہے اور کہتا ہے : خدایا ! تو نے سورہ مبارکہ قمر میں فرمایا : «إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ ٭ فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ»[24] ، وہ «جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ» تو بہت سوں کو دے گا ، ہمیں بھی انشاء اللہ دے گا ، لیکن ہمیں «عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ» کا مقام عطا فرما ! اگر کوئی شخص «عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ» کی فکر میں ہو تو وہ مقصد کی فکر میں ہے ؛ لیکن اگر «جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ» کی فکر میں ہو تو زاد و توشہ کے مطابق اسے میسّر آتا ہے اسے ہرگز «فَادْخُلِی فِی عِبَادِی ٭ وَ ادْخُلِی جَنَّتِی»[25] میں جگہ نہیں ملے گی ۔ وہ «جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ» تک پہنچ جائے گا ؛ یعنی ایسی بہشت میں پہنچ جائے گا کہ جس میں درخت اور پانی ہے ، اس میں جسم اور بدن کے لیے ظاہری لذتیں ہیں ؛ لیکن اسے اس روحانی بہشت جو اللہ تعالیٰ کا قرب ہے ، میں جگہ نہیں دی جائے گی ؛ چونکہ اس نے اس کام کے لیے معرفت اور عقل حاصل نہیں کی ؛ اور وہ عقیلہ نہیں بن سکا ۔ جو عقیلہ ہیں ان کے لیے «جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ» بھی ہیں اور «فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ» بھی ہے انہیں خطاب ہوتا ہے کہ «فَادْخُلِی فِی عِبَادِی ٭ وَ ادْخُلِی جَنَّتِی.» نفس مطمئنہ کہ جو سورہ مبارکہ فجر کی انتہا میں مذکور ہے ، کا ایک واضح ترین مصداق سید الشہداء صلوات اللہ و سلامہ علیہ کی ذات ہے ، یہ خاندان اسی قبیل سے ہے ۔

اس بنا پر ایک زاد و توشہ ہے کہ جو ہمیں بہشت تک پہنچاتا ہے ؛ ایک معرفت ، خلوص ، اخلاص اور قلبی شہود ہے ؛ اور ایک مقام فنا ہے کہ جو ہمیں «جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ» سے بھی بالاتر مقام تک پہنچاتا ہے یعنی «فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ.» اس مقام پر انسان "عنداللّهی" ہوتا ہے ۔ ایک بہشت ہے کہ جو لدنّی ہے اور بعض ایسی بہشتیں ہیں جو «جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ» ہیں ۔ جس طرح ایک علم لدنّی ہے اور ایک علم جو کتاب و سنت میں ہے ، یہ جو ذات اقدس الٰہی نے وجود مبارک پیغمبر (علیه و علی آله آلاف التحیة و الثناء) سے فرمایا : «إنَّک لَتُلَقّی الْقُرآنَ مِن لَدُنْ حَکیمٍ عَلِیمٍ»[26] یعنی آپ کا علم لدنّی ہے ۔ علم لدنّی فقہ ، اصول فلسفہ ، کلام اور عرفان کے مقابلے میں ایک ایسا علم نہیں ہے کہ جو موضوع ، محمول اور موضوع و محمول کے درمیان رابطہ رکھتا ہو ۔ یہی علوم اگر کسی استاد سے سیکھیں یا کتاب میں پڑھیں ۔ تو انہیں کہا جاتا ہے علم عادی ۔ یہ علم گویا کسی ندی کی تہ میں طالب علموں کو نصیب ہوتا ہے ؛ لیکن اگر اس ندی یا نہر کے ہمراہ اوپر کی طرف جایا جائے اور سرچشمہ تک پہنچ جائیں اور یہی علوم سرچشمے سے حاصل کیے جائیں ، تو اسے علم لدنّی کہا جاتا ہے ، لدن یعنی نزد ؛ علم لدنّی یہی قرآن و سنت کے غیبی معارف ہیں ، لیکن یہ «مِن لَدُنْ» ،  «مِن عند» اور خدا سے لیے گئے ہیں چونکہ خدا کے ہاں سے حاصل کیے گئے ہیں  اور کوئی بھی ان سے باخبر نہیں ہے ۔

ہمارے پاس ایک ماء معین ہے اور ایک ماء لدن ، وہ آب جاری جو «تراه العیون و تناله الدلاء» کا مصداق ہے اسے آب معین کہتے ہیں ؛ وہ پانی کہ جسے آنکھ دیکھ رہی ہے اور ڈول اور برتن اس تک دسترس رکھتا ہے اسے کہتے ہیں ماء معین ۔ لیکن وہ پانی جو چشمے کے اندر ہے ، ابھی تک کسی نے اسے نہیں دیکھا اور نہ ہی دیکھے گا اور کسی کی دسترس میں بھی نہیں ہے ، ایسا پانی آب معین نہیں ہے بلکہ آب معین سے بھی مافوق ہے ۔ علوم لدنّی اسی طرح ہیں ؛ اخبار لدنّی اسی طرح ہیں ؛ کمالات لدنّی بھی اسی قبیل سے ہیں ۔ اگر کوئی شخص دنیا میں اس لدنّ اور نزد کے مقام پر فائز ہو جائے اور اس بلند و بالا مقام کو پا لے تو آخرت میں بھی سورہ مبارکہ قمر کی یہ آیت «فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ»[27] اس کے شامل حال ہو گی اور یہ شخص اس مقام پر فائز ہو گا کہ جس کا سورہ مبارکہ فجر کے آخر میں خدائے سبحان نے وعدہ دیا ہے کہ «فَادْخُلِی فِی عِبَادِی ٭ وَ ادْخُلِی جَنَّتِی.»[28]

[1] . سورۀ قلم، آیۀ 4.
[2] . سورۀ زمر، آیۀ 22.
[3] . الكافی، ج1، ص11.
[4] . سورۀ اسراء، آیۀ 62.
[5] . سورۀ زمر، آیۀ 22.
[6] . سورۀ انعام، آیۀ 124.
[7] . عیون اخبار الرضا، ج2، ص64؛ الامالی (شیخ طوسی)، ص45 و 525؛ ر.ك: الثاقب فی المناقب، ص281.
[8] . سورۀ زمر، آیۀ 22.
[9] . سورۀ بلد، آیات 11 و 12.
[10] . سورۀ لیل، آیات 5 ـ 7.
[11] . التوحید (شیخ صدوق)، ص365.
[12] . سورۀ لیل، آیات 5 ـ 7.
[13] . فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج4، ص361.
[14] . سورۀ شرح، آیات 1 ـ 4.
[15] . سورۀ طه، آیۀ 25.
[16] . سورۀ طه، آیۀ 36.
[17] . اقبال الأعمال، ص125.
[18] . سورۀ آل‌عمران، آیۀ 15.
[19] . سورۀ بقره، آیۀ 197.
[20] . ر.ك: سورۀ ق، آیۀ 16.
[21] . سورۀ فصلت، آیۀ 44.
[22] . سورۀ انفال، آیۀ 24.
[23] . سورۀ آل‌عمران، آیۀ 15.
[24] . سورۀ قمر، آیات 54 و 55.
[25] . سورۀ فجر، آیات 29 و 30.
[26] . سورۀ نمل، آیۀ 6.
[27] . سورۀ قمر، آیۀ 55.
[28] . سورۀ فجر، آیات 29 و 30

 

Read 2856 times