شیعہ حضرات پیغمبر اکرم (ص) پر درود پڑھتے وقت ان کی "آل " کو بھی کیوں درود میں شامل کرتے ہیں ؟ کیا اھل سنت سے اس سلسلے میں کوئی سند موجود ہے؟

Rate this item
(1 Vote)
شیعہ حضرات پیغمبر اکرم (ص) پر درود پڑھتے وقت ان کی "آل " کو بھی کیوں درود میں شامل کرتے ہیں ؟ کیا اھل سنت سے اس سلسلے میں کوئی سند موجود ہے؟

اس سوال کا جواب حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے بیان کیا ہے ہم ان کے بیانات کو یہاں پر پیش کرتے ہیں۔

محمد و آل محمد پر درود پڑھنے کے سلسلے میں علمای اھل سنت کی روایات:

جن کتابوں میں مطلق طور پر یا تشھد میں محمد و آل پر درود پڑھنا نقل ہوا ہے، ان میں صحابہ کی ایک تعداد ، جیسے ابن عباس، طلحہ ، ابو سعید خدری ، ابو ھریرہ ، ابو مسعود انصاری، بریدہ ابن مسعود ، کعب بن عجرہ اور خود علی علیہ السلام سے نقل کی گئ ہیں۔

 سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵۶ میں ارشاد ہے: ﴿ إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلاَئِكَـتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّ يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ صَلُّواْ عَلَيْهِ وَسَلِّمُواْ تَسْلِيماً ﴾بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلٰوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی ان پر صلٰوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو۔

اس آیہ شریفہ میں پیغمبر اسلام (ص) کی عظمت کو سب سے عالی طریقے پر بیان کیا گیا ہے ، کیونکہ خود خداوند متعال اور سب مقرب فرشتے  آنحضرت (ص) پر درود اور سلام بھیجتے ہیں۔  اس سے اورکیا بلند مقام ؟ اور اس سے زیادہ اور کونسی عظمت ؟

اب ہم ان روایات کو یہاں پر پیش کرتے ہیں  جو اھل سنت و الجماعت کی معروف حدیثی کتابوں میں زکر ہوئیں ہیں

صحیح بخاری اور حدیث "آل محمد"

" صحیح بخاری" میں ابو سعید  خدری سے نقل ہوا ہے کہ : ہم نے عرض کیا اے رسول خدا (ص) آپ پر سلام بھیجنا تو ہمیں معلوم ہے  لیکن آپ پر درود اور صلوات کیسے بھیجیں گے  تو آنحضرت (ص) نے فرمایا : "قُولُوا الّلهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد عَبْدِکَ وَ رَسُولِکَ کَما صَلَّیْتَ على اِبْراهیمَ و آلِ اِبْراهیمَ وَ بارِکْ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کما بارَکْتَ على اِبْراهیمَ""[1] کہہ دو پروردگارا درود بھیج محمد (ص) اپنے بندے اور رسول پر جیسا کہ ابراھیم اور آل ابراھیم پر درود بھیجا ہے، اپنی برکت بھیج محمد (ص) اور آل محمد (ص) پر جیسا کہ اپنی برکت بھیجی ہے ابراھیم پر۔

اسی کتاب کے اسی صفحہ پر یہ حدیث مکمل طور پر ایک معروف صحابی " کعب بن عجزہ" سے نقل ہوئی ہے کہ: کہ آنحضرت (ص) کی خدمت میں عرض کیا : ہمیں آپ کے اوپر سلام بھیجنے کا طریقہ معلوم ہوا لیکن آپ پر درود اور صلوات کیسے ہونی چاھیئے آنحضرت (ص) نے فرمایا: اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کَما صَلَّیْتَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ، اَلّلهُمَّ بارِکْ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کَما بارَکْتَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ"[2]

یہ بات قابل توجہ ہے کہ بخاری نے ان احادیث کو آیہ شریفہ : إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلاَئِكَـتَهُ ....  کی ذیل میں نقل کئے ہیں۔

مسلم نے اپنی صحیح میں حدیث " آل محمد " نقل کیا ہے۔

 " صحیح مسلم " جو کہ اھل سنت کا دوسرا مشہور حدیثی مجموعہ ہے " ابی مسعود انصاری" نے منقول ہے کہ : آنحضرت (ص) ہمارے پاس تشریف لائے اورہم سعد بن عبادہ کی مجلس میں تھے ، سعد کے فرزند بشیر نے عرض کیا: اے رسول خدا (ص) خدا نے ہمیں آپ پر درود اور صلوات بھیجنے کا حکم دیا  ہے ۔ ہم کیسے آپ پر درود بھیجیں گے؟ آنحضرت (ص) پہلے چپ رہے پھر فرمایا: کہہ دو : " اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کَما صَلَّیْتَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ ، بارِکْ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کما بارَکْتَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ فى الْعالَمینَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ"[3]

سیوطی نے " آل محمد " کی روایت کو اپنی کتاب الدر المنثور میں ذکر کیا ہے۔

 تفسیر الدر المنثور  جو حدیث کی معروف تفسیر یے اسی روایت کو ابو سعید خدری سے  بخاری اور نسائی اور ابن ماجہ اور ابن مردویہ کی سند سے آنحضرت (ص) سے  نقل کرتے ہیں۔ [4] اور اسی کتاب میں  ابو مسعود کی عبارت کو ترمذی اور نسائی اور ابن مردویہ سے نقل کیا ہے۔ [5]  اور اسی مضمون کو مختصر فرق کے ساتھ  مالک ، احمد ، بخاری ، مسلم ابو داود ، نسائی ، ابن ماجہ اور ابن مردویہ ابو احمد ساعدی سے بھی نقل کیا ہے۔ [6]

حاکم نیشابوری نے کتاب المستدرک میں حدیث" آل محمد" کو نقل کیا ہے۔

 حاکم نیشابوری نے " المستدرک علی الصحیحین" ابن ابی لیلی سے نقل کیا ہے کہ : کعب بن عجزہ نے میرے ساتھ ملاقات کی اور کہا: کیا تم چاھتے ہو کہ میں تمہیں ہدیہ دوں جو میں نے پیغمبر اکرم (ص) سے سنا ہے۔ عرض کیا : ہاں ۔ ہدیہ کرو ، اس نے کہا: ہم نے آنحضرت (ص) سے پوچھا آپ کی  اھل البیت پر کس طرح صلوات بھیجیں گے ؟ آنحضرت (ص) نے فرمایا: کہہ دو: : " اَلّلهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کَما صَلَّیْتَ عَلى اِبْراهیمَ وَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ اِنَّکَ حَمیدُ مَجیدُ، اَلّلهُمَ باِرکَ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مَحَمَّد کَما بارَکْتَ عَلى اِبْراهیمَ وَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ اِنَّکَ حَمیدُ مَجید".

پھر حاکم نیشابوری کہ جس کا مقصد ان احادیث کو ذکر کرنا ہے جو " صحیح بخاری" اور " صحیح مسلم" میں موجود نہیں ہیں فرماتے ہیں: اس حدیث کو انھیں الفاظ اور اسی  سند سے بخاری نے موسی بن اسماعیل کی سندکے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے اور اگر میں نے اس کو یہاں نقل کیا ہے وہ اس لئے ہے کہ معلوم ہوجائے کہ  اھل بیت (ع) و آل ، سب ایک ہی ہیں۔ ( البتہ قابل توجہ یہ ہے کہ حاکم نے اس حدیث کو حدیث کساء  جس میں آنحضرت (ص) نے  واضح کیا ہے کہ میرے اھل بیت (ع) علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین ہیں ، کے بعد نقل کیا ہے[7] ۔ اور یہ ایک پر معنی تعبیر ہے )۔

اس کے بعد حاکم ، حدیث ثقلین اور اس کے بعد ابو ھریرہ کی حدیث کو نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت (ص) نے ایک نظر علی (ع) اور حسن اور حسین کی جانب کی ۔ پھر فرمایا: " انا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم [8] میں اس کے ساتھ جنگ کروں گا جو آپ کے خلاف جنگ کرے گا اور صلح کروں گا جو آپ کے ساتھ صلح کرے۔

طبری اور روایت " آل محمد" کی نقل چار سندوں کے ساتھ

محمد بن جریر طبری نے بھی اپنی تفسیر میں اسی آیت کے ذیل میں مندرجہ بالا روایت کو تھوڑے فرق کے ساتھ موسی بن طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے نقل کی ہے  اور ایک اور روایت میں اسی کو ابن عباس سے روایت کیا ہے اور تیسری روایت میں زیاد بن ابراھیم اور چوتھی روایت  کو عبد الرحمان بن بشر بن مسعود  انصاری سے نقل کیا ہے[9]

بیھقی نے بھی اپنی معروف کتاب " سنن" میں متعدد روایات کو اس سلسلے میں نقل کیا ہے کہ جن میں بعض روایات نماز میں اور تشھد کے موقع پر مسلمانوں کے  ذمہ داریوں کو روشن کرتے ہیں۔ ان احادیث میں ایک حدیث ابی مسعود عقبہ بن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ : ایک صحابی آنحضرت (ص) کی خدمت میں آکر بیٹھ گیا ، ہم بھی آنحضرت (ص) کے بیٹھے تھے ان نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم آپ پر سلام بھیجنے کے طریقے کو جانتے ہیں ۔ لیکن نماز پڑھتے وقت کس طرح آپ پر درود بھیجیں گے؟ آنحضرت (ص) تھوڑا چپ ہوئے ، یہاں تک کہ ہم نے سوچا کہ اے کاش یہ آدمی اس طرح کا سوال نہ کرتا ۔ پھر پیغمبر (ص) نے فرمایا "اِذا اَنْتُمْ صَلَّیْتُمْ عَلَىَّ فَقُولُوا الّلهُمَّ صَلَّ عَلى مُحَمَّد النَّبِىِّ الاٌمِىِّ وَ عَلى آلِ مُحَمَّد، کَما صَلَّیْتَ عَلى اِبْراهیمَ وَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ وَ بارِکْ عَلَى مُحَمَّد النَّبىِّ الاٌمِىِّ وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کَما بارَکْتَ عَلى اِبْراهیمَ وَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ، اِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ"

 پھر ابو عبد اللہ شافعی نقل کرتے ہیں کہ : " یہ حدیث صحیح ہے کہ جس میں نماز کے دوران آنحضرت پر درود بھیجنے کے سلسلے میں بات کی گئی ہے۔ [10]

بیھقی نے اور بھی متعدد احادیث کو پیغمبر اکرم (ص) پر درود بھیجنے کے سلسلے میں بیان کی ہیں چاھے وہ مطلق طور پر بیان کی گئی ہیں یا نماز میں آنحضرت (ص) پر درود بھیجنے کے سلسلے میں نقل ہوئیں ہیں۔ خصوصا ایک حدیث کعب بن عجرہ سے منقول ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: : " اِنَّه کانَ یَقُولُ فى الصَّلوهِ: الّلهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ آلِ مُحَمَّد کَما صَلَّیْتَ عَلى اِبْراهیمَ و آلِ اِبْراهیمَ وَ بارِکْ عَلى مُحَّمَد وَ آلِ مُحَمَّد کَما بارَکْتَ عَلى اِبْراهیمَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ"؛آنحضرت (ص) نے اپنی نماز میں یوں فرمایا: " الّلهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ آلِ مُحَمَّد کَما صَلَّیْتَ ... "  [11]

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ خود پیغمبر اکرم (ص) بھی اپنی نماز میں اسی طرح درود و صلوات بھیجتے تھے۔

بیھقی ، ایک اور روایت کی ذیل میں جس میں نماز کے بارے گفتگو نہیں ہوئی ہے کہتے ہیں : یہ روایتیں بھی حالت نماز کے سلسلے بیان ہوئیں ہیں۔ کیونکہ جملہ " قد علمنا کیف نسلم " ( ہم جانتے کہ کس طرح سلام بھیجیں ) تشھد کی سلام کی جانب اشارہ ہے۔ " السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ " پس "صلوات" سے مراد ، تشھد میں صلوات مراد ہے۔ [12]

اس طرح مسلمانوں کو حکم ہوا ہے کہ جیسا کہ تمام اسلامی مذاھب کا عقیدہ ہے کہ تشھد میں رسول اکرم (ص) پر صلوات " السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ" کہیں۔ اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) پر درود اور صلوات بھی بھیجیں۔

اگرچہ یہاں پر اھل سنت کے چار مذاھب کے درمیان تھوڑا اختلاف ہے ، شافعی اور حنبلی کہتے ہیں کہ : پیغمبر پر صلوات دوسرے تشھد میں واجب ہے۔ جبکہ مالکی اور حنفی حضرات اسے کو سنت جانتے ہیں۔ [13] در آنحالیکہ اس روایت کے مطابق سب پر واجب ہے۔

بھر حال جن کتابوں میں محمد و آل محمد (ص) پر صلوات اور درود ( مطلق طور پر یا خصوصا نماز کے  تشھد میں) نقل ہوا ہے ان کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے جو اس مختصر میں بیان ہوجائے۔ جو کچھ اوپر ذکر ہوا وہ ان احادیث اور کتابوں میں سے صرف کچھ نمونے ہیں۔ ان احادیث کو بعض صحابہ  جیسے ابن عباس ، طلحہ ، ابو سعید خدری ، ابو ھریرہ ، ابو مسعود انصاری ، بریدہ ، ابن مسعود ، کعب بن عجرہ اور خود حضرت علی (ع) نے نقل کیا ہے۔

 ہم اس گفتگو کو دو حدیثوں کے ساتھ مکمل کرتے ہیں:

 ابن حجر نے " الصواعق " میں یون نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: لا تصلوا علی الصلاۃ البتراء ، قالوا و ما الصلاۃ البتراء ، قال : تقولون : اللھم صل محمد  و تمسکون ، بل قولوا "اللھم صل علی محمد و آل محمد"  ہر گز میرے اوپر ناقص درود مت بھیجو ، عرض کیا گیا ، ناقص درود کیا ہے، فرمایا : اللھم صل علی محمد کہہ کر رک جاو اور آگے نہ کہو بلکہ کہو: "اللھم صل علی محمد و آل محمد"[14] ۔

سمھودی نے کتاب " الاشراف علی فضل الاشراف" میں ابن مسعود انصاری سے نقل کیا ہے کہ : رسول خدا (ص) نے فرمایا: " من صلی صلاۃ لم یصل فیھا علی و علی اھل بیتی لم تقبل " [15]

جو بھی نما پڑھے جہ جس میں میرے اوپر اور میرے اھل بیت پر صلوات نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہے ، شاید امام شافعی کا مشہور شعر بھی اسی روایت کے تناظر میں بیان ہواہے۔

 یا اھل بیت رسول اللہ حبکم                 فرض من اللہ فی القرآن انزلہ ۔

کفاکم من عظیم القدر انکم                     من لم یصل علیکم لا صلاۃ لہ

 اے رسول اکرم (ص) کے اھل بیت آپ کی محبت خداوند متعال کی طرف سے قرآن میں واجب قرار دی گئی ہے ، آپ کے مقام کی عظمت میں اتنا ہی کافی ہے کہ جو بھی آپ پر درود نہ بھیجے اس کی نماز باطل ہے۔ [16]



[1]  صحیح بخاری ، البخاری الجعفی، محمد بن اسماعیل ابو عبد اللہ تحقیق، مصطفی دیب البغاء، دار ابن کثیر ، الیمامۃ ، بیروت ، ۱۴۰۷ ھ ق ، ۱۹۸۷ ، طبع سوم ، ج ۴ ص ۱۸۰۲ ، ح ۴۵۱۹۔
[2] ایضا
[3] الجمامع الصحیح المسمی صحیح مسلم ، مسلم بن الحجاج ابو الحسین القشیری النیشابوری، تحقیق : محمد فؤاد عبد الباقی ، دار احیاء التراث العربی، بیروت ، بی تا ، ج ۱ ص ۳۰۵ ، ح ۶۵۔
[4] الدر المنثور فی تفسیر الماثور ، سیوطی ، جلال الدین ، کتابخانی آیۃ اللہ مرعشی نجفی ، قم ۱۴۰۴ ، ق ، ج ۵ ص ۲۱۷ ، ( قولہ تعالی ان اللہ و ملاءکتہ الآیۃ )
[5]  ایضا ۔
[6]  ایضا
[7]  المستدرک علی الصحیھین ، محمد بن عبد اللہ ابو عبد اللہ الحاکم النیشابوری ، تحقیقن، مصطفی ، عبد القادر عطا ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت ، ۱۴۱۱، ق ۱۹۹۰ ، طبع اول ج ۳ ص ۱۵۹، ۱۶۰، ۔
[8]  ایضا ص ۱۶۱
[9] جامع البیان فی تفسیر طبری ابو جعفر محمد بن جریر ، دار المعرفہ ، بیروت ۱۴۱۲ ق ، طبع اول ، ج ۲۲ ص ۳۲ سورہ احزاب آیہ ۵۶
[10] السنن الکبری و فی ذیلہ الجوھر النقی، ابو بکر احمد بن الحسین بن علی البیھقی ، مجلس دائرہ المعارف النظامیۃ الکائنۃ ، حیدر آباد، ھند ، ۱۳۴۴، طبع اول ج ۲ ص ۱۴۶ ۔
[11] ایضا ص ۱۴۷۔
[12] ایضا
[13] الفقہ علی مذھب الاربعۃ ، و مذھب اھل البیت وفقا لمذاھب اھل البیت ( علیھم السلام ) ، جزیری، عبد الرحمن ، غروی ، سید محمد ، یاسر مازح ، دار الثقلین ، بیروت ، لبنان ، ۱۴۱۹ ھ ق ، طبع اول ج ۱ ص ۳۱۸ ، ( نیۃ الامام و نیۃ الماموم)

 
[14] الصواعق المحرقہ علی  اھل الرفض و الضلال و الزندقہ ، ابی العباس احمد بن محمد بن محمد بن علی ابن حجر الھیثمی، تحقیق ، عبد الرحمن بن عبد اللہ الترکی ، و کامل محمد الخراط ، موسسہ الرسالۃ ، بیروت ، ۱۹۹۷ طبع اول ج ۲ ص ۴۳۰
[15] جواھر العقدین فی فضل الشرفین ، علی بن عب اللہ الحسن سمھودی ، مطبعۃ العانی م بگداد ، ۱۴۰۵ ، ق طبع اول  ج ۲ ، ص ۶۳۔ ( الثانی ذکر امرہ  (ص)  بالصلاۃ علیھم فی امتثال ما شرعہ اللہ مں الصلاۃ علیھم  و وجہ الدلالۃ علی ایجاب ذالک فی الصلوات ، احقاق الحق و ازھاق الباطل ، قاضی نور اللہ شوشتری  مکتبہ آیۃ اللہ مرعتی ، قم ۱۴۰۹، ق طبع اول ج ۱۸  ص ۳۱۰ ، ( التاسع حدیث ابن مسعود )

 
[16] الغدیر فی الکتاب و السنہ و الادب ، علامہ عبد الحسین امینی ، مرکز الغیر للدراسات الاسلامیۃ ، قم ۱۴۱۶، ھ ، طبع اول ج ۳ ص ۲۴۵، منھاج السنۃ ، دیوان الام الشافعی ، تدقیق و تحقیق صالح الشاعر ، مکتبۃ الآداب ، قاھرہ ، ۱۴۲۷ ھ ، طبع دوم ج ۱ س ۲۱۔

Read 6585 times