سنندج کے شوری افتاء اورشورای علماء : متبرک اشیاء سے تبرک حاصل کرنا جایز ہے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہے۔
شھر نخل تقی کے اھل سنت کے امام جعمہ شیخ عبد الستار حرمی: پیغمبر اکرم (ص) کی ذات پاک یا ان کی چیزوں سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔ ان مقدس مقامات سے متبرک ہونا جن کا تقدس احادیث شریف میں ثابت ہے ، جائز ہے۔ با برکت اوقات مثلا ماہ مبارک رمضان ، ذی الحجۃ کے پہلے دس دن سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔ بعض مشروبات جیسے زمزم کا پانی ، شھد وغیر سے متبرک ہونا بھی جائز ہے۔ خلاصہ کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ : ہر وہ چیزجس کی برکت کے بارے میں کوئی نص اور حدیث وارد ہو اس سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔
اھل سنت کے دینی مدارس کی درسی کتابوں کی شوری کے ممبر اور شورای اھل سنت علماء کے نائب چیئرمین اور شورای افتاء کے سرپرست
برکت اور تبرک لغت میں کسی چیز کے جاری رہنے کو کہتے ہیں ( ابو ھلال عسکری الطروق ، النعوی ص ۹۶) جس چیز میں زیادہ خیر ہو اس کو برکت کہتے ہیں ، تبرک ، اس چیز سے خیر اور برکت طلب کرنا جس میں برکت موجود ہو، اور اسے شارع مقدس یعنی قرآن اور سنت نے اجازت دی ہو۔ ۔ مثال کے طور پر منقول ہے کہ جب پیغمبر اکرم (ص) وضو کرتے تھے تومسلمان اس پانی سے جو آنحضرت کے اعضا سے گرتا تھا تبرک حاصل کرتے تھے ، ( تاریخ طبری ، ج ۳ س ۲۷۵ ، صحیح بکاری ، جلد ۳، ص ۱۸۰، سنن نسایی ، جلد ۱ ص ۸۷) محدثین نے نقل کیا ہے : مدینہ میں جب کسی بچے کی ولادت ہوتی تھی اس کو آنحضرت (ص) کی خدمت میں لایا جاتا تھا اور آنحضرت اسے تبرک کرتے تھے۔ ( المستدرک علی الصحیحین جلد ۴ ص ۴۷۹ – ۴۸۱)،
بخاری نے ابی محذرہ کے حالات میں لکھا ہے: رسول اکرم (ص) نے ان کے سر پر ہاتھ پھیردیا ، اور اس نے آنحضرت کے احترام میں مرتے دم تک اپنے بال چھوٹے نہیں کئے۔ اور انہیں نہیں کاٹا ، ( بخاری ، التاریخ البسیر ج ۴ ص ۱۷۸) تبرک کی اکثر روایتیں حضرت رسول اکرم (ص) کے حیات مبارک میں تھی، اسی طرح صاحبان صحاح اورمسانید نے نقل کیا ہے کہ : رسول اکرم (ص) نے اپنا لعاب دھن میری آنکھوں پر ملا ، اور اس کے بعد میں کبھی بھی آنکھ کے درد میں مبتلا نہ ہوا ، ( مسند امام احمد بن حنبل ، جلد ۱ ، ص ۷۸ ، ھیثمی مجمع الزوائد ، جل ۶ س ۱۵۱)
شھر باباجانی کے اھل سنت امام جمعہ ماموستا ملا احمد شیخی : بہت سی مستند احادیث موجود ہیں کہ آنحضرت (ص) کے لباس اور ان کے وجود پاک سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا۔ کعبہ اور آب زمزم بھی مبارک ہے۔
سرپل ذھاب کے اھل سنت امام جمعہ ماموستا ملا رشید ثںائی ۔ صحابہ ، پیغمبر (ص) کے آب وضو سے اور آنحضرت (ص) کے بالوں سے تبرک حاصل کرتے تھے۔
شھر پاوہ کے تحصیل نوسود کے اھل سنت امام جمعہ ماموستا حسین عینی : یہ مسئلہ مسلمانوں کے درمیان مورد اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ اگر نعوذ باللہ تبرک اس لئے ہو کہ ایک شخص مثال کے طور پر کسی انسان کو زندہ کرے یا مار دے تو اس صورت میں تبرک اثر نہیں کرتا ہے، اور ایسا کرنا بدعت ہے۔ لیکن اگر تبرک کا مقصد ایسا کام نہ ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
مدرسہ مولوی یاری کے پرنسپل ماموستا محمد محمدی یاری : تبرک کے بارے میں اھل سنت کا نظریہ بالکل صحیح اور درست ہے ، اور اصحاب بھی آنحضرت (ص) کے آثار سے تبرک حاصل کرتے تھے اھل سنت کی کتابوں میں خصوصا مسلم اور بخاری میں تبرک کے بارے میں بہت زیادہ بحث کی گئی ہے۔
قصر شیرین کی مسجد النبی (ص) کے امام جماعت ماموستا ملا عادل غلامی : ہم اھل سنت انبیاء ، اولیاء ، اور صالحین کی قبروں کو مبارک جانتے ہیں اور ان سے تبرک حاصل کرتے ہیں اور احترام کرتے ہیں۔
روانسر کے امام جمعہ ماموستا ملا عبد اللہ غفوری
آنحضرت (ص) اور اصحاب کے دور میں تبرک حاصل کرنا رائج تھا ۔ رسول اکرم (ص) کے آب وضو اور محاسن شریف سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا۔
باغلق کے اھل سنت امام جمعہ آخوند رحیم بردی صمدی : تبرک ایک ایسا امر ہے جو قرآن سے ثابت ہے، جیسا کہ حضرت یوسف کے کرتے کو یعقوب کےلئے لایا گیا۔ (جس سے ان کی بینائی واپس آئی)
تایباد کے اھل سنت امام جمعہ مولوی توکلی : صالح افراد اور بزرگان دین کے آثار سے تبرک حاصل کرنا اھل سنت کےنزدیک جائز اور حق ہے۔
خلیل آباد خواب کے مولوی نور اللہ فرقانی : تبرک جائز ہے اور ہم بہت تبرک حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن اور پیغمبر اکرم (ص) کی زیارت کرنے سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جو کچھ تبرک میں انجام نہیں پانا چاھیے وہ یہ ہے عبادت اور پرستش کے عنوان سے حاصل نہیں کرنا چاھیے جو کہ شرک ہے۔
کنگان کے اھل سنت امام جمعہ شیخ جمالی : زندہ انسان سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔
تربت جام کے اھل سنت امام جمعہ مولوی شرف الدین جامی الاحمدی : جس طرح حضرت یوسف کا کرتا ، حضرت یعقوب کے لئے شفا تھا اور ان کی آنکھ بینا ہوئی ۔ تبرک حاصل میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
سمیع آباد کے اھل سنت کے امام جمعہ مولوی امان اللہ برزگر : حضرت یوسف (ع) کا کرتا حضرت یعقوب کےلئے اور رسول اکرم (ص) کی عبای مبارک اویس قرنی کے لئے تبرک کے موارد میں سے ہیں۔ آج کے دور میں بھی بزرگوں اور نیک لوگوں کے آثار تبرک ہیں اور اھل سنت اس پر عقیدہ رکھتے ہیں۔