سامری، ہے کون ؟ سامری کا بچھڑا کیا شیئے ہے ؟

Rate this item
(0 votes)
سامری، ہے کون ؟ سامری کا بچھڑا کیا شیئے ہے ؟

آج کے زمانے میں جب کوئی ریاکاری، منافقت اور ہر قسم کے ہتکھنڈے استعمال کرکے کچھ نامعلوم مقاصد و اہداف کے حصول کے لئے دین اور دینی اقدار کا استعمال کرنے لگتے ہیں تو لوگ انہیں سامری کا خطاب دیتے ہیں لیکن شاید سامری کے بارے میں کچھ زيادہ معلومات سب کے پاس نہیں ہیں۔ چنانچہ کوشش کی ہے کہ ذرا سامری اور اس کے بجھڑے کے بارے میں کچھ تحقیق دوستان عزیز کی خدمت میں پیش کی جائے۔


سامری کا بچھڑا
اللہ نے موسی علیہ السلام سے توریت کے نزول کا وعدہ کیا تو نزول کتاب میں تاخیر ہوئی اور موسی علیہ السلام نے بھائی ہارون علیہ السلام بو بنی اسرائیل کے درمیان چھوڑ دیا اور خود میقات چلے گئے۔
موسی علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام کو ہدایت کی تھی کہ بنی اسرائیل کے مسائل کو دیکھیں اور ان کا انتظام و انصرام سنبھالیں اور خود کوہ طور چلے گئے۔
طے پایا تھا کہ موسی علیہ السلام 30 دن تک روزے رکھیں گے اور کوہ طور میں ہی رہیں گے لیکن عوام کی آزمائش کی غرص سے یہ وعدہ 40 دن تک بڑھ گیا اور جب کوہ طور میں اللہ کا کلام موسی علیہ السلام کو ملا اور دس مقدس فرامین تختوں پر تحریر کئے گئے، تو آپ نے واپسی کا فیصلہ کیا۔
ادھر موسی علیہ السلام کے وعدے میں تاخیر ہوئی اور تیس دن گذر گئے مگر آپ پلٹ کر نہیں آئے، تو بنی اسرائیل پر شیطان کا کامیاب حملہ ہوا اور وہ دھوکہ کھا گئے اور سامری نامی شہرت پسند، اقتدار پسند، اور جاہ پسند بنی اسرائیلی شخص نے سونے کا بچھڑا بنایا اور فریب سے اس سے کچھ آوازیں نکلوائیں اور لوگوں سے کہا: موسی علیہ السلام نے وعدہ خلافی کی ہے، موسی علیہ السلام واپس نہیں آئیں گے اور ہماری تمام بدبختیوں کا واحد سبب یہ ہے کہ ہمارا کوئی "بت" نہیں ہے۔ اسی لئے میں نے سونے کا ایک بت بنا رکھا ہے۔
نادان و احمق و سادہ لوح اور دھوکہ کھانے کے شوقین سامری کے گرد اکٹھے ہوئے، اس کی باتوں کا یقین کرلیا اور بت پرستی میں مصروف ہوئے۔
موسی علیہ السلام واپس پلٹ آئے تو فضا الہی نہیں تھی ہر سو سامری اور اس کے بنائے ہوئے بت کا چرچا تھا اور ہارون علیہ السلام کو جان کا خطرہ پڑ گیا تھا اور کوئی ان کی بات سننے کے لئے تیار نہ تھا؛ موسی علیہ السلام نے یہ دیکھا تو غضبناک ہوئے اور فرمایا: تم نے بہت برا کیا کہ اس بھونڈے فعل میں مصروف ہوگئے۔ اور اس قدر غضبناک ہوئے کہ طور سے لائے ہوئے تختوں کو زمین پر پھینک دیا اور بھائی ہارون علیہ السلام کا گریبان پکڑ لیا اور فرمایا: تم نے لوگوں کو کیوں سامری کے بچھڑے کا دھوکہ کھانے دیا؟
ہارون علیہ السلام نے عرض کیا: بھائی جان مجھ پر ملامت نہ کرنا، اور دشمنوں کی زبانوں کو شماتت کے عنوان سے میری طرف دراز مت کرنا، ان لوگوں نے میری بات نہیں سنی مجھے کمزور دیکھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے مگر میں پھر بھی ان کے کرتوتوں سے متفق نہیں تھا۔
موسی علیہ السلام نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ خداوند متعال تمہیں بخش دے اور ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچا دے جنہوں نے اس بدعت کی بنیاد رکھی۔
موسی علیہ السلام سامری کے پاس پہنچے اور فرمایا: اے سامری! یہ کیا تھا جو تو نے کیا؟ کہنے لگا: جو کچھ لوگ نہیں سمجھ سکے، میں سمجھ چکا، اور اللہ کے فرستادے جبرائیل کے نقش پا میں سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لی اور اسے گوسالے کے جسم پر پھینک دیا اور میرے نفس نے اس طرح میرے لئے فریب کاری کردی۔
موسی علیہ السلام نے فرمایا: تو تم چلے جاؤ تیری زندگی کا انجام یہ ہوگا کہ جو بھی تیرے قریب آئے، تو اس سے کہہ دے کہ مجھے چھونا مت اور تیرے لئے ایک وعدہ گاہ ہوگی ٹل نہیں سکے گی، اور اب تو اپنے معبود کو دیکھ لینا، جس سے تو مسلسل چھپکا رہتا تھا، ہم اسے ضرور جلا ڈالیں گے اور اس کی راکھ کو دریا برد کریں گے۔ (1
اور ہاں ! موسی علیہ السلام نے اس بچھڑے کو جلا کر راکھ  کردیا اور سمندر میں بہایا اور ایک عذاب سامری کے اوپر نازل ہوا کہ آخر عمر تک جو بھی اسے ہاتھ لگاتا شدید بخار میں مبتلا ہوجاتا تھا۔
۔۔۔۔۔
1- اقتباس از سورہ اعراف و سورہ طہ آیات 1 و 95 - 98.

 

Read 4388 times