اگر کوئی حقیقت بین صاحبِ عقل ودانش و فہم و فراست صحیفہ سجادیہ کو تعصب کی عینک کے بغیر دیکھے تو اُس پر یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ دعائیں کسی عام فرد کا کلام نہیں ہے کیونکہ صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں کے جملات خود ہی اس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ یہ جعل سازوں کے اوہام سے برتر و بالاتر ہے کیونکہ اس کے اسلوب بیان اور دعاؤں کے مفاہیم ومعارف سے واضح ہوتا ہے کہ : یہ کلام مخلوق کے کلام سے برتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہے؛ یہی وجہ ہے کہ بعض اہل سنت علماء نے بھی صحیفہ سجادیہ کی عظمت کا اقرار کیا۔
سنہ 1353 ہجری میں شیعہ مرجع دین مرحوم آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی رحمة اللہ علیہ نے صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ اہل سنت کے عالم و دانشور اور «تفسیر طنطاوی» کے مؤلف، مفتی اسكندریہ، علامہ طنطاوی کے نام «قاہرہ» روانہ کیا۔
علامہ طنطاوی نے صحیفہ وصول کیا اور اس بیش بہاء تحفے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواباً تحریر کیا: «کچھ دن پہلے آپ کا خط مبارک ( اسلام کے زاہد پیشوا علی زین العابدین ابن امام حسین شہید اور ریحانہ مصطفی کے کلمات پر مشتمل کتاب) صحیفہ سجادیہ کے ہمراہ موصول ہوا، میں نے کتاب کو نہایت احترام کے ساتھ لیا اور اسے بے مثال کتاب پایا جو ایسے علوم ومعارف اور حکمتوں پر مشتمل ہے جو اس کے علاوہ کسی جگہ دستیاب نہیں ہیں، یقینا یہ ہماری بدبختی ہے کہ یہ گرانبہاء اور علم و معرفت کا زندہ جاوید خزانہ - جو انبیاء کی میراث ہے - اب تک ہماری دسترس سے خارج تھا، میں جتنا بھی اس میں غور کرتا اور پڑھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ کلام، خالق کے کلام سے کم تر اور مخلوق کے کلام سے برتر و بالاتر ہے، واقعا یہ کتنی عظیم کتاب ہے»
مصر کے یہ عظیم عالم اور تفسیر الجواہر کے مصنف صحیفہ کا ملہ کے متعلق رقم طراز ہیں۔ '' علوم و معارف اسلامی کو اس کتاب میں جس انداز سے پیش کیا گیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی''( تفسیر الجواہر)۔
اسی طرح بعض اہل سنت علماء نے اپنی تالیفات میں صحیفہ سجادیہ کا ذکر کرتے ہوئے اس کی بعض دعائیں نقل کی ہیں جس سے اہل سنت علماء کی نظر میں صحیفہ سجادیہ کی عظمت واہمیت کی نشاندہی ہوتی ہے، جیسے شیخ الاسلام قسطنطنیہ شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے ''ینابیع المودۃ'' میں اس صحیفہ سے کچھ دعائیں نقل کی ہے