عصر غیبت کی زندگی کی اپنی خصوصیات ہیں۔ جس زمانے میں حجۃ اللہ نظروں سے اوجھل ہیں اور اللہ کا فیض و فضل ان ہی طرف سے دوسری مخلوقات تک پہنچتی ہے اور آنحضرت(ع) اللہ کے بندوں کے تمام لمحات سے آگاہ ہیں؛ لیکن ہماری آنکھوں سے غائب ہیں، انہیں دیکھا بھی جائے تو پہچاننا ممکن نہیں ہے، ظاہر نہیں ہیں لیکن اللہ کے اذن سے حاضر و ناظر ہیں۔ امر مسلّم ہے کہ ایسے دور کی زندگی کی صورت حال کچھ خاص قسم کی ہوگی۔ زندگی جو مکمل طور پر خوف و ہراس اور امید و انتظآر سے مالامال ہے۔ چنانچہ انسانی تاریخ کے اس دور کو بخوبی خوف و امید کا دور کہا جاسکتا ہے۔
انکار کا خوف
اس دور میں حضرت حجت(ع) تک رسائی، آپ کے دیدار اور زیارت کا امکان بہت کم اور محدود اور امام(ع) کی اپنی صوابدید اور انتخاب پر منحصر ہے۔ ایسے حالات میں اور امام(ع) کی غَیبَت کی طوالت کی وجہ سے ممکن ہے کہ امام زمانہ(عج) کے انکار کا باب بھی کھل جائے۔ کچھ لوگ عصر غیبت کے طویل ہونے کے باعث منکر ہو بھی چکے ہیں اور کچھ شکوک و شبہات پیدا کرکے ہزار سالہ زندگی کو ناممکن سمجھتے ہیں، اور کچھ دوسرے لوگ امام(ع) کے دیدار سے محروم رہنے کے بموجب ذہنی تشویش میں متبلا ہوکر انکاری ہوئے ہیں۔
اس عجیب و غریب صورت حال میں صرف ایک معتقد، محقق مؤمن ـ جو عشق امام(ع) میں سچا ہے ـ احسن انداز سے ایسے شبہات کا جواب دے سکتا ہے اور قرآن اور احادیث نیز معتبر تاریخی منقولات کی روشنی میں امام عصر(عج) کے طول عمر کو قبول کرسکتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کا قائل کرسکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو تحقیق و مطالعہ کرکے عقلی اور نقلی استدلالات کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں اور مہدویت سے متعلق شبہات کا جواب دینے کے درپے ہیں؟ کیا ہم امام صادق علیہ السلام کے بقول "شیطانی شبہات کے مقابلے میں پہاڑ سے زيادہ مضبوط اور استوار اور لوہے سے زیادہ سخت" مؤمنین میں شامل ہیں؟ یہ جاننا ضروری ہے کہ صرف اس طرح کے لوگوں کو امام عصر(عج) کے حقیقی منتظرین کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔ (1)
خداوند متعال نے قرآن کریم میں بارہا ارتداد کو بہت زیادہ امکانی خطرہ قرار دیا ہے جو اللہ کی لعنت اور ابدی عذاب کا سبب بنتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآنی آیات کے درمیان مہدویت کے موضوع اور مصداق کے سلسلے میں ارشاد ہوا ہے:
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ؛ اللہ کا تم میں سے ان بندوں سے (کہ خدا اور حجتِ عصر) پر ایمان لائیں اور نیک اعمال کرتے رہیں، وعدہ ہے کہ (بعد از ظہور) روئے زمین پر انہیں ضرور بہ ضرور خلیفہ قرار دے گا جس طرح کہ اس نے انہیں خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ضرور اقتدار عطا کرے گا ان کے اس دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور ضرور بدل دے گا ان کے ہر خوف کو امن و اطمینان میں؛ وہ میری عبادت کریں گے اس طرح کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو اس کے بعد کفر اختیار کرے تو یہی فاسق لوگ ہوں گے۔ (2) اس آیت شریفہ میں بھی انکارے کے خطرے سے خبردار کیا گیا ہے۔
امام موسی کاظم علیہ السلام نے بھی ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا ہے:
إِذَا فُقِدَ الْخَامِسُ مِنْ وُلْدِ السَّابِعِ فَاللَّهَ اللَّهَ فِي أَدْيَانِكُمْ لَا يُزِيلُكُمْ عَنْهَا أَحَدٌ؛ جب ساتویں امام [یعنی میرا] پانچواں فرزند غائب ہوجائے تو اپنے دین کا خیال رکھو، کہیں کوئی تمہيں تمہارے دین سے دور نہ کردے۔ (3)
انحراف کا خوف
امام زمانہ(عج) کی محبت اور وصال کے راستوں کی تلاش اور عرصۂ فراق کی طوالت اور حتی کہ وصال کے لئے عجلت، مہدویت کے دکانداروں کی منڈی کی رونق کا باعث بن سکتی ہے؛ وہی دکاندار جنہوں نے لوگوں کی اس مخلصانہ محبت اور پاک ترین عقیدت کو بازیچہ اور اپنے لئے شہرت، دنیاوی اعتبار اور مال و دولت کمانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ عباسی بادشاہ مہدی عباسی سے لے ـ
جس نے امام موسی کاظم علیہ السلام کے عصر امامت میں اپنے آپ کو مہدی موعود قرار دیا اور عباسیوں نے اس موضوع کو اپنی بادشاہت کے استحکام کا ذریعہ بنایا (4) ـ حال حاضر تک کہ کچھ لوگ اپنے آپ کو امام(ع) کی زوجہ، امام(ع) کا فرزند، امام(ع) کا نائب، امام(ع) کا باب وغیرہ وغیرہ کہلواتے ہیں؛ سب کے سب اپنے مفادات کے لئے افراد کے خالصانہ عشق و مودت سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور امام مہدی(عج) کے عشاق اور محبین و منتظرین کے عقیدے میں انحراف پیدا کرنے کے مصادیق ہیں۔
نجات دہندہ کے دیرینہ عقیدے اور مہدویت کے اعتقاد سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا امکان اس قدر قوی تھا کہ احادیث میں ہمیں امام زمانہ(عج) کے ساتھ رابطہ رکھنے کے دعوید
اروں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ امام زمانہ(عج) نے اپنے آخری نائب خاص علی بن محمد سمری (رضوان اللہ علیہ) کے نام اپنے آخری خط میں لکھا: "بسم الله الرحمن الرحيم يا علي بن محمد السمري أعظم الله أجر إخوانك فيك: فانك ميت ما بينك وبين ستة أيام فاجمع أمرك ولا توص إلى أحد فيقوم مقامك بعد وفاتك، فقد وقعت الغيبة التامة فلا ظهور إلا بعد إذن الله تعالى ذكره وذلك بعد طول الامد وقسوة القلب وامتلاء الارض جورا وسيأتي شيعتي من يدعي المشاهدة ألا فمن ادعى المشاهدة قبل خروج السفياني والصيحة فهو كذاب مفتر۔۔۔؛ اللہ کے نام سے جو بہت مہربان، نہایت رحم والا ہے۔ اے علی بن محمد سمری! خداوند متعال آپ کے سوگ پر آپ کے بھائیوں کے اجر میں اضافہ فرمائے۔ آپ چھ دن بعد زندگی سے وداع کریں، اپنے امور کو منظم کرنا اور [نیابت خاصہ میں] اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر نہ کرنا، کیونکہ غیبت کبری کا آغاز ہوچکا ہے اور ظہور اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہوگا، اور وہ بھی طویل عرصے کے بعد جب بہت سے دل قساوت کا شکار ہوچکے ہونگے اور زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ آگاہ رہنا جس نے بھی سفیانی کی بغاوت اور آسمانی چیخ سے قبل میرے دیدار کیا، بہت جھوٹا اور بہتان تراش ہے۔ (5)
نیز معصومین علیہم السلام نے ہم سے تقاضا کیا ہے کہ کبھی بھی ظہور کے لئے وقت متعین نہ کریں اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
كَذِبَ الْوَقَّاتُونَ كَذِبَ الْوَقَّاتُونَ كَذِبَ الْوَقَّاتُونَ إِنَّ مُوسَی علیه السلام لَمَّا خَرَجَ وَافِداً إِلَی رَبِّهِ وَاعَدَهُمْ ثَلَاثِینَ یَوْماً فَلَمَّا زَادَهُ اللَّهُ عَلَی الثَّلَاثِینَ عَشْراً قَالَ قَوْمُهُ قَدْ أَخْلَفَنَا مُوسَی عليه السلام فَصَنَعُوا مَا صَنَعُوا؛ [ظہور کے لئے] وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں، وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں، وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں؛ بےشک جب حضرت موسی علیہ السلام اللہ کا حکم لینے [طور سیناء میں] داخل ہوئے تو اللہ انھوں نے اپنی قوم کو 30 دن کا وعدہ دیا اور جب اللہ نے 10 دن کا اضافہ کیا تو ان کی قوم نے کہا: موسی(ع) نے ہمارے سے وعدہ خلافی کی ہے، اور انھوں نے کیا جو کیا (یعنی بچھڑے کے سامنے سجدہ ریز ہوئے اور سامری کے مرید)۔ (6)
چنانچہ اگر مہدویت کے مباحث مصادیق اور وقت کے تعین پر مرکوز ہوجائیں، اور بطور مثال شعیب بن صالح، سید یمانی، سید خراسانی، نفس زکیہ وغیرہ کے لئے مصادیق معین کئے جائیں یا کوئی خاص وقت یعنی سال و ماہ و تاریخ ظہور کے لئے متعین کیا جائے اور پھر نہ وہ اشخاص وہی ہوں جنہیں مذکورہ عناوین کا مصداق گردانا گیا ہے اور نہ اس گھڑی ظہور وقوع پذیر ہو جس کا تعین کیا گیا ہے تو اس کا نتیجہ ظہور و انتظآر پر لوگوں کے عقیدے کے سست ہونے اور اصولی طور پر خود عقیدہ مہدویت کے متنازعہ ہوجانے، اور اس بنیادی عقیدے سے عوامی روگرانی کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا۔
اصلاح اور انتظار کی امید
مذکورہ خدشوں اور مخاوف کے ساتھ ساتھ غیبت کبری کے دوران فردی اصلاح اور ظہور کے لئے مکمل تیاری کی امید بھی ہے؛ یوں کہ انسان تیاری کرے اور پوری آمادگی اور ادب کے ساتھ اپنے آپ کو امام زمانہ(عج) کے حضور میں حاضری دینے کا منتظر ہو، اور یہ کہ انسان جانتا ہے کہ اپنی تیاری اور محنت و کوشش اور اہلیت کے تناسب سے امام زمانہ(عج) کی حکومت عدل میں صاحب منزلت ہوگا اور بہت بہتر انداز سے اسلام اور امت کی خدمت کرسکے گا؛ اور یہ کہ انسان ترکِ گناہ اور فرائض کی ادائیگی کو اپنے امام کی خوشنودی کا سبب جانتا ہے اور عصر ظہور میں سربلند اور رو سفید ہوکر حضرت مہدی(عج) کا دیدار چاہتا ہے؛ یہ سب عصر غیبت کی امید آفرینی کے ثمرات ہیں۔
غیبت کے زمانے میں ہی امام کو یاد رکھنا اور ایمان کا تحفظ کرنا تمام ائمۂ اطہار علیہم السلام کے زمانوں میں مؤمنانہ کردار سے زیادہ بہتر و بالاتر ہے؛ جیسا کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:
مَنْ ثَبَتَ عَلَى مُوَالاَتِنَا فِي غَيْبَةِ قَائِمِنَا أَعْطَاهُ اَللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَجْرَ أَلْفِ شَهِيدٍ مِثْلَ شُهَدَاءِ بَدْرٍ وَأُحُدٍ؛ جو شخص ہمارے
قائم(عج) کی غیبت کے زمانے میں ہماری پیروکاری پر ثابت قدم رہے خداوند متعال اس کا اجر بدر اور احد کے شہداء کی سطح کے ہزار شہیدوں کے برابر قرار دیتا ہے۔ (6)
ایک حقیقی منتظر قطعی انحراف کا باعث بننے والی شیطانی جلدبازیوں سے بالکل دور رہ کر معتبر احادیث اور دعاؤں سے حاصل ہونے والی معرفت کی روشنی میں، بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر صحیح انتظآر کی حالت میں ہوتے ہوئے موت کو گلے لگا لے اور اس کی دنیاوی زندگی زمانۂ ظہور کے ادراک سے قبل ہی اختتام پذیر ہوجائے تو پھر بھی رجعت کے اصولوں اور دعائے عہد کے بیان کے مطابق، نئی زندگی پائے گا اور صدائے تکبیر کے ساتھ اپنی قبر سے محشور ہوگا اور اپنے امام کی مدد کو پہنچے گا۔ چنانچہ حتی کہ پیرانہ سالی اور ظہور کی عدم وقوع پذیری بھی اسے صحیح انتظار سے باز نہیں رکھتی اور
اس کی امید کبھی بھی ناامیدی میں نہیں بدلتی؛ کیونکہ وہ ہر صبح یہ دعا پڑھتا رہا ہے کہ:
"اللَّهُمَّ إِنْ حَالَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ الْمَوْتُ الَّذِي جَعَلْتَهُ عَلَى عِبَادِكَ حَتْماً مَقْضِيّاً، فَأَخْرِجْنِي مِنْ قَبْرِي مُؤْتَزِراً كَفَنِي شَاهِراً سَيْفِي مُجَرِّداً قَنَاتِي مُلَبِّياً دَعْوَةَ الدَّاعِي فِي الْحَاضِرِ وَ الْبَادِي؛ اے خدا! اگر میرے اور میرے امام(ع) کے درمیان حائل ہوئی جسے تو نے اپنے بندوں کے لئے حتمی اور قطعی قرار دیا ہے، تو مجھے میری قبر سے کفن پوش ہوکر، بے نیام تلوار اور برہنہ نیزہ ہاتھ میں لئے داعی حق کی دعوت پر لبیک کہتا ہوا، شہر نشین اور صحرا نشین کے درمیان۔ (8)
کون سے مہدوی نعرے برحق ہیں؟
مخاوف سے جان بچا کر قلب سلیم کے ساتھ عہدہ برآ ہونے اور امید واثق کے ساتھ عاقلانہ و عاشقانہ انتظار کے لئے یہی کافی ہے کہ ہم امام عصر(عج) کی صرف دو توقیعات شریفہ کے پابند ہوں؛
توقیع شریف اسحاق بن یعقوب کے نام:
فَمَنْ أَنْكَرَنِي فَلَيْسَ مِنِّي وَسَبِيلُهُ سَبِيلُ اِبْنِ نُوحٍ ۔۔۔ وَأَمَّا ظُهُورُ اَلْفَرَجِ فَإِنَّهُ إِلَى اَللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَكَذَبَ اَلْوَقَّاتُونَ ۔۔۔ وَأَمَّا اَلْحَوَادِثُ اَلْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَيْكُمْ وَأَنَا حُجَّةُ اَللَّهِ... وَأَمَّا وَجْهُ اَلاِنْتِفَاعِ بِي فِي غَيْبَتِي فَكَالاِنْتِفَاعِ بِالشَّمْسِ إِذَا غَيَّبَهَا عَنِ اَلْأَبْصَارِ اَلسَّحَابُ وَإِنِّي لَأَمَانٌ لِأَهْلِ اَلْأَرْضِ كَمَا أَنَّ اَلنُّجُومَ أَمَانٌ لِأَهْلِ اَلسَّمَاءِ فَأَغْلِقُوا بَابَ اَلسُّؤَالِ عَمَّا لاَ يَعْنِيكُمْ وَلاَ تَتَكَلَّفُوا عِلْمَ مَا قَدْ كُفِيتُمْ وَأَكْثِرُوا اَلدُّعَاءَ بِتَعْجِيلِ اَلْفَرَجِ فَإِنَّ فِي ذَلِكَ فَرَجَكُمْ؛
جو میرا انکار کرے وہ مجھ سے نہیں ہوگا اور اس کی مثال نوح کی بیٹے کی مثال ہے... اور ظہورِ فَرَج اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جو لوگ وقت کا تعین کرتے ہیں وہ جھوٹے ہیں... اور نئے رونما ہونے والے واقعات کے سلسلے میں ہماری حدیثوں کے راویوں رجوع کیا کرنا کیونکہ وہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں جیسا کہ میں خدا کی طرف سے ان پر حجت ہوں... اور یہ کہ لوگ میری غیبت میں میرے وجود سے کیونکر مستفید ہونگے تو میرے وجود سے استفادہ بادلوں میں چھپے سورج سے اسفادہ کرنے کی مانند ہے، میں اہل زمین کے لئے امان ہوں جس طرح کہ ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں۔ ایسے سوالات پوچھنے سے پرہیز کرو جن کا تمہارے لئے کوئی فائدہ نہيں ہے اور اپنے آپ کو ایسی چیزوں کے سیکھنے کے لئے مشقت میں مت ڈالو جن کی تمہیں ضرورت نہيں ہے۔ میرے ظہورِ فَرَج کی تعجیل کے لئے بہت دعا کیا کرو کیونکہ یقینا میرے ظہور میں تمہاری اپنی فراخی اور تمہارے اپنے مسائل کا حل ہے۔
توقیع شریف کے مذکورہ بالا اقتباسات میں ـ عصر غیبت کے دوران ثابت قدمی، ایمان کے تحفظ، عقیدۂ مہدویت اور ظہور کی تعجیل کے لئے دعا اور مراجع تقلید اور مکتب اہل بیت(ع) کے فقہاء اور علماء سے رجوع کے سلسلے میں بہت اہم نکات بیان فرمائے گئے ہیں۔
چنانچہ ایک فرد یا گروہ ـ حتی ظاہری طور پر مہدوی نعروں کے ساتھ ـ اگر فقہائے عظام اور مراجع تقلید کی مخالفت کرے تو اس کے تمام تر نعرے باطل ہیں اور وہ شخص اہل بدعت ہے۔ یہ مسئلہ ہم سے ہمارے امام معصوم، مہدی مُنتَظَر کا تقاضا اور آنجناب کا فرمان ہے جو آپ نے اپنے آخری نائب خاص کے نام اپنے آخری خط میں تحریر فرمایا ہے۔
فرماتے ہیں:
بِسْمِ اَللّٰهِ اَلرَّحْمٰنِ اَلرَّحِيمِ فَقَدْ وَقَعَتِ اَلْغَيْبَةُ اَلتَّامَّةُ فَلاَ ظُهُورَ إِلاَّ بَعْدَ إِذْنِ اَللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَذَلِكَ بَعْدَ طُولِ اَلْأَمَدِ وَقَسْوَةِ اَلْقُلُوبِ وَاِمْتِلاَءِ اَلْأَرْضِ جَوْراً وَسَيَأْتِي شِيعَتِي مَنْ يَدَّعِي اَلْمُشَاهَدَةَ أَلاَ فَمَنِ اِدَّعَى اَلْمُشَاهَدَةَ قَبْلَ خُرُوجِ اَلسُّفْيَانِيِّ وَاَلصَّيْحَةِ فَهُوَ كَذَّابٌ مُفْتَرٍ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ اَلْعَلِيِّ اَلْعَظِيمِ۔
اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے۔۔۔ غیبت تامّہ (یا غیبتب کبری] کا آغاز ہوچکا ہے، اور کوئی ظہور نہیں ہے سوا اللہ کے اذن کی رو سے، بہت طویل عرصے کے بعد، دلوں کی قساوت اور زمین کے ظلم و ستم سے بھر جانے کے بعد، اور یہ کہ بہت جلد کچھ لوگ تمہاری طرف آئیں گے اور دیدار [بمع نیابت] کا دعوی کریں گے لیکن جب تک کہ سفیانی کی بغاوت کا آغاز نہیں ہوا اور آسمانی چیخ سنائی نہيں گئی، ایسا کوئی بھی دعوی کرنے والا جھوٹا اور دھوکہ باز ہے؛ اور اللہ کے سوا کوئی بھی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ (10)
امام زمانہ کے مکتوبات کی پناہ میں عصر غیبت کے انحرافات سے محفوظ رہنا ممکن ہوجاتا ہے اور صحیح انتظار کے سائے میں اعتقادی خرابیوں کی اصلاح کا اہتمام کرکے روز بہ روز امام کی قربت حاصل کی جاسکتی ہے اور زیادہ س
ے زیادہ انسیت پیدا کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکمیل و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج52، ص308۔
2۔ سورہ نور، آیت 55۔
3۔ الکلینی، الکافی، ج1، ص335۔
4- طباطبائی، سید محمد کاظم، گونههای چالش آفرینی عباسیان نخستین در مسأله امامت (امامت کے مسئلے پر ابتدائی عباسیوں کی مسئلہ آفرینیوں کی اقسام)، ص135۔
5۔ احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص297۔ چونکہ یہ توقیع شریف (امام عصر(عج) کا مکتوب) نیابت خاصہ اور امام(ع) کے ساتھ مؤمنین کے بالواسطہ تعلق کے خاتمے کا اعلان ہے لہذا علامہ مجلس نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ممکن ہے کہ دیدار کے دعویدار کے جھٹلانے سے ایسے دعویدار کا جھٹلانا مراد ہو جو دیدار بمع امام(ع) کی نیابت کا دعوی کرے۔ (علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج53، ص318 و 325۔
6- الکلینی، الکافی، ج1، ص368-369۔
7۔ علی بن عبد الکریم بہاء الدین النیلی الجفی، منتخب الأنوار المضیّة , ج1، ص79؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج52، ص125۔
8۔ دعائے عہد سے اقتباس۔
9۔ الراوندي، قطب الدين أحمد بن يحيى، الخرائج والجرائح، ج3، ص1113؛ الحر العاملي، وسائل الشیعة (دار احیاء التراث العربي - بیروت - المحقق الحاج الشيخ محمد الرازي) ج18، ص101، ح9؛ شیخ صدوق، كمال الدين، ج2، ص483، ح4. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج53، ص180، ح10.
10۔ شیخ صدوق، کمال الدین، ص516؛ شیخ طوسی، الغيبة، ج1، ص395۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔