امام جواد علیہ السلام کا مختصر تعارف

Rate this item
(0 votes)
امام جواد علیہ السلام کا مختصر تعارف

نام پدر : علی بن موسی الرضا
نام مادر : سبیکہ ( پیامبر اسلام کی بیوی ماریہ قبطیہ کے خاندان سے )(1)
کنیت : ابو جعفر ثانی
القاب : تقی ، جواد
اریخ شھادت : ۲۲۰ ھ بغداد

ھمعصر خلفاء
امام جواد علیہ السلام اپنے دور امامت میں دو عباسی خلفاء کے ھمعصر تھے :
۱۔ مامون الرشید ( ۱۹۳ ۔ ۲۱۸ )
۲۔ معتصم ( مامون کا بھائی ) ( ۲۱۸ ۔ ۲۲۷ )

امام علیہ السلام کے زندگی کا مختصر جائزہ
علماء کا بیان ہے کہ امام محمدتقی علیہ السلام بتاریخ ۱۰/ رجب المرجب ۱۹۵ ھ ( ۸۱۱ میلادی ) یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے(3)
شیخ مفیدعلیہ الرحمة فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کے کوئی اولاد آپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکا ہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی(4)
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے ہاں عنقریب جوبچہ پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا(15)
ولادت سے متعلق لکھا ہے کہ امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں حاضر رہو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدا مجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی ، جب رات ہوئی تو ہمسایہ کی چندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے ، میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ، ولادت کے بعد میں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیا مگر پھر بھی اس حجرہ میں اتنی روشنی بدستور رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا. تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت (ع) کی آغوش میں دیدیا آپ نے سر اورآنکھوں پربوسہ دیے کر پھرمجھے واپس کردیا، دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بند رہیں تیسرے دن جب آنکھیں کھولیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے سارا ماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایا تعجب نہ کرو، یہ میرا فرزندحجت خدا اور وصی رسول خدا ہیں اس سے جوعجائبات ظہورپذیرہوں ،ان میں تعجب کیا ، محمدبن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح دیگرآئمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہواکرتی تھیں(6)

آپ کی ازواج اوراولاد
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے چند بیویاں تھیں ، ام الفضل بنت مامون الرشید اورسمانہ خاتون یاسری . امام علیہ السلام کی اولاد صرف جناب سمانہ خاتون جوکہ حضرت عماریاسر کی نسل سے تھیں، کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ہیں، آپ کے اولادکے بارے میں علماء کااتفاق ہے کہ دونرینہ اوردوغیرنرینہ تھیں، جن کے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام، ۲ ۔ جناب موسی مبرقع علیہ الرحمة، ۳ ۔ جناب فاطمہ، ۴ ۔ جناب امامہ(7)

پر برکت مولود
امام رضا علیہ السلام کے خاندان اور شیعہ محافلوں میں ، حضرت امام جواد علیہ السلام کو مولود خیر پر برکت کے عنوان سے یاد کیا جاتا تھا ۔ جیسا کہ ابویحیای صنعانی کہتا ہے : ایک دن میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں بیھٹا تھا ، آپ کا بیٹا ابوجعفر جو کہ کمسن بچہ تھا لایا گیا ، امام علیہ السلام نے فرمایا : ہمارے شیعوں کیلئے اس جیسا کوئی مولود بابرکت پیدا نہیں ہوا ہے(8)
شاید ابتداء میں یہ تصور ہوجائے کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ امام جواد علیہ السلام پہلے تمام اماموں کی نسبت زیادہ بابرکت ہیں ، حالانکہ اس طرح نہیں ہیں ، بلکہ جب موضوع کی جانچ پڑتال کی جائے اور قرائن و شواھد کا ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ امام جواد علیہ السلام کی ولادت ایسے گھٹن حالات میں واقع ہوئی ہے جو شیعوں کیلئے خاص خیر و برکت کا تحفہ کہا جاسکتا ہے ۔ کیوں اس لئے کہ امام رضا علیہ السلام کا زمانہ ایک خاص عصر میں پڑھا تھا کہ آنحضرت (ع) اپنے ما بعد کا جانشین اور امام کے پہچنوانے میں مشکلات کا سامنا ہوچکا تھا جو اس سے پہلے کے اماموں کے دور میں ایسا نہیں ہوا تھا ۔ کیونکہ ایک طرف امام کاظم علیہ السلام کے شہادت کے بعد واقفیہ کا گروہ امام رضا علیہ السلام کی امامت کا منکر ہوچکے تھے تو دوسری طرف امام رضا علیہ السلام ۴۷ سال کی عمر شریف تک کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی جس کی وجہ سے دشمن طعنہ دے رہا تھا کہ امام رضا مقطوع النسل ہیں اور ہم خود امامت زیر سوال آچکی تھی کہ اس کے بعد کوئی امام کا نام و نشان نہیں ہے جبکہ پیغمبر اسلام کے حدیث شریف کے مطابق بارہ امام ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے نسل سے ۹ امام پیدا ہونگے ۔

کمسن امام :
امام جواد علیہ السلام کی زندگی کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سب سے پہلا وہ امام ہیں جو بچپنی کے عالم میں امامت کی منصب پر فائز ہوچکے ہیں اور لوگوں کیلئے یہ سوال بن چکا تھا کہ ایک نوجوان امامت کی اس سنگین اور حساس مسئولیت کو کیسے سنبھال سکتا ہے ؟ کیا کسی انسان کیلئے یہ ممکن ہے کہ اس کمسنی کی حالت میں کمال کی اس حد تک پہنچ جائے اور پیغمبر کے جانشین ہونے کا لائق بن جائے ؟ اور کیا اس سے پہلے کے امتوں میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے ؟
اس قسم کے سوالات کوتاہ فکر رکھنے والے لوگوں کے اذھان میں آکر اس دور کے جامعہ اسلامی مشکل کا شکار ہوچکی تھی لیکن جب قادر مطلق و حکیم کے خاص لطف و عنایت جو ہر زمانے میں جامعہ بشریت کیلئے ارمغان لاچکی ہے اپنے آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا تھا۔ اس مطلب کے ثبوت کیلئے ہمارے پاس قرآن و حدیث کی روشنی میں شواہد و دلائل فراوان موجود ہیں ۔
۱۔ حضرت یحیی علیہ السلام : یا یحیی خذالکتاب بقوۃ و آتیناہ الحکم صبیا ( سورہ مریم آیہ ۱۲ )
۲۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا بچپنی میں تکلم کرنا ( سورہ مریم آیات ۳۰ سے ۳۲ تک کا تلاوت )
یہ بات ہمارے ائمہ کے اقوال میں بھی استفادہ ہوتا ہے اور واقعات جو تاریخ میں موجود ہیں ۔ (والسلام)
--------------
(1)کلینی ، اصول کافی ، ج1 ص 315 و 492 ، تهران ، مکتبه الصدوق ، 1381هـ ؛ ابن شهر آشوب ، مناقب آل ابیطالب ، ج 4 ، ص 379 ، قم ، المطبعه العلمیه
(2)کلینی ، اصول کافی ، ج 1 ، ص 492 ، تهران ، مکتبه الصدوق ، 1381هـ ؛ شیخ مفید ، الارشاد ، ص 316 ، قم ، مکتبه بصیرتی . بعض علماء نے آپ کی ولادت اسی سال کے ۱۵ رجب کو قرار دیا ہے ( طبرسی ، اعلام الوری ، ص 344 ، الطبعه الثالثه ، دارالکتب الاسلامیه )
(3)روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ؛ شواہدالنبوت ص ۲۰۴ ، انورالنعمانیہ ص ۱۲۷
(4)ارشاد ص ۴۷۳
(5)اعلام الوری ص ۲۰۰
(6)المناقب، ج4، ص394
(7)ارشاد مفید ص ۴۹۳ ؛ صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ؛ روضة الشہداء ص ۴۳۸ ؛ نورالابصار ص ۱۴۷ ؛ انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ؛ کشف الغمہ ص ۱۱۶ ؛ اعلام الوری ص ۲۰۵
(8) شیخ مفید ، الارشاد ، ص 319 ، قم ، مکتبه بصیرتی ؛ طبرسی ، اعلام الوری ، ص 347 ، الطبعه الثالثه ، المکتبه الاسلامیه ؛ فتال نیشابوری ، روضه الواعظین ، ص 261 ، الطبعه الاولی ، بیروت ، موسسه الاعلمی للمطبوعات 1406 هـ ؛ کلینی ، اصول کافی ، ج1 ، ص 321 ، تهران ، مکتبه الصدوق ؛ علی بن عیسی الاربلی ، کشف الغمه ، ج3 ، ص 143 ، تبریز ، مکتبه بنی هاشئ 1381 هـ .
 
Read 1730 times