ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہے

Rate this item
(0 votes)
ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہے
تحریر: آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی



جو لوگ شیعوں کے بارہ میں غلط فہی میں مبتلا ہوکر شیعہ حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں یا دشمنان اسلام کے سیاسی اغراض پر مبنی مسموم افکار کی ترویج کرتے ہیں وہ جادۂ تحقیق سے منحرف ہوکر اپنے مقالات یا بیانات میں یہ اظہار کرتے ہیں کہ ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ ،شیعہ عقیدہ ہے اور اسے تمام اسلامی فرقوں کا عقیدہ تسلیم کرتے ہوئے انھیں زحمت ہوتی ہے۔
کچھ لوگ تعصب ونفاق کے علاوہ تاریخ وحدیث اورتفسیر ورجال سے ناواقفیت،اسلامی مسائل سے بے خبری اور عصر حاضر کے مادی علوم سے معمولی آگاہی کے باعث تمام دینی مسائل کو مادی اسباب وعلل کی نگاہ سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں اور اگر کہیں کوئی راز یا فلسفہ سمجھ میں نہ آئے توفوراً تاویل وتوجیہ شروع کردیتے ہیں یا سرے سے انکار کربیٹھتے ہیں۔
اس طرح اپنے کمرہ کے ایک کونے میں بیٹھ کر قلم اٹھاتے ہیں اور اسلامی مسائل سے متعلق گستاخانہ انداز میں اظہار نظر کرتے رہتے ہیں جب کہ یہ مسائل ان کے دائرہ کا رومعلومات سے باہر ہیں، اس طرح یہ حضرات قرآن وحدیث سے ماخوذ مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ مسائل کا بہ آسانی انکار کردیتے ہیں۔ انھیں قرآن کے علمی معجزات، اسلامی قوانین اور اعلیٰ نظام سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے لیکن انبیاء کے معجزات اور خارق العادہ تصرفات کے بارے میں گفتگو سے گریز کرتے ہیں تاکہ کسی نووارد طالب علم کے منہ کا مزہ خراب نہ ہو جائے یا کوئی بے خبر اسے بعید از عقل نہ سمجھ بیٹھے۔
ان کے خیال میں کسی بات کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر آدمی سمجھ سکے یا ہر ایک دانشوراس کی تائید کرسکے یا ٹیلی اسکوپ، مائیکرو اسکوپ یا لیبوریٹری میں فنی وسائل کے ذریعہ اس کا اثبات ہو سکے۔
ایسے حضرات کہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو انبیاء (ع) کو ایک عام آدمی کی حیثیت سے پیش کرنا چاہئے اور حتی الامکان ان کی جانب معجزات کی نسبت نہیں دینا چاہئے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ دنیا کے حوادث کی نسبت خداوند عالم کی جانب بھی نہ دی جائے یہ لوگ خدا کی قدرت، حکمت، علم، قضا وقدر کا صریحی تذکرہ بھی نہیں کرتے جو کچھ کہنا ہوتا ہے مادہ سے متعلق کہتے ہیں۔
خدا کی حمد وستائش کے بجائے مادہ اور طبیعت (Nature)کے گن گاتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی لے میں لے ملا سکیں، جنہوں نے تھوڑے مادی علوم حاصل کئے ہیں یا فزکس، کمیسٹری، ریاضی سے متعلق چند اصطلاحات، فارمولے وغیرہ سیکھ لئے ہیں اوراگر انگریزی یا فرانسیسی زبان بھی آ گئی تو کیا کہنا۔
یہ صورت حال کم وبیش سبھی جگہ سرایت کر رہی ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، عموماً اس صورت حال کا شکار کچے ذہن کے وہ افراد ہوتے ہیں جو علوم قدیم وجدید کے محقق تو نہیں ہیں لیکن مغرب کے کسی بھی نظریہ یا کسی شخص کی رائے کو سو فیصدی درست مان لیتے ہیں چاہے اس کا مقصد سیاسی اور استعماری ہی رہا ہو، ہمارے بعض اخبارات، رسائل، مجلات و مطبوعات بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر انہیں عوامل سے متاثر ہو کر سامراجی مقاصد کی خدمت میں مصروف ہیں ۔
انہیں یہ احساس نہیں ہے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر لوگ اور ان کے حکام کی علمی، عقلی، فلسفی اور دینی معلومات بالکل سطحی ہوتی ہیں، وہ اکثر بے خبر اور مغرض ہوتے ہیں (بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق ٨١ فیصدافراد ضعف عقل و اعصاب ا ور دماغ میں مبتلا ہیں)اور اپنے پست اور انسانیت سے دور سیاسی مقاصد کے لئے دنیا کے مختلف مقامات پر اپنے سیاسی مفادات کے مطابق گفتگو کرتے ہیں، البتہ جو لوگ ذی علم و استعداد، محقق و دانشور ہیں ان کا معاملہ فحشاء و فساد میں ڈوبی اکثریت سے الگ ہے۔
ان کے معاشرہ میں ہزاروں برائیاں اور خرافات پائے جاتے ہیں پھر بھی وہ عقلی، سماجی، اخلاقی اور مذہبی بنیاد پر مبنی مشرقی عادات و رسوم کا مذاق اڑاتے ہیں۔
مشرق میں جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے اسے ''مغرب زدہ ہونا'' یا مغرب زدگی کہا جاتا ہے جس کی مختلف شکلیں ہیں اور آج اس سے ہمارا وجود خطرے میں ہے، انہوں نے بعض اسلامی ممالک کی سماجی زندگی سے حیاو عفت اور اخلاقی اقدار کو اس طرح ختم کر دیا ہے کہ اب ان کا حشر بھی وہی ہونے والا ہے جو اندلس (اسپین) کے اسلامی معاشرہ کا ہوا تھا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں ایسے افراد جن کی معلومات اخبارات و رسائل سے زیادہ نہیں ہے اور انہوں نے مغربی ممالک کا صرف ایک دو مرتبہ ہی سفر کیا ہے،مغرب زدگی، مغرب کے عادات و اخلاق کے سامنے سپرانداختہ ہوکر موڈرن بننے کی جھوٹی اور مصنوعی خواہش، جو دراصل رجعت پسندی ہی ہے کو روشن فکری کی علامت قرار دیتے ہیں،اور اغیار بھی اپنے ذرائع کے ذریعہ مثلاً اپنے سیاسی مقاصد کے لئے انہیں مشتشرق، خاورشناس کا ٹائٹل دے کر ان جیسے افراد کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔
ظہور حضرت مہدی (ع) کے بارے میں بھی ادھر ہمارے سنّی بھائیوں میں سے کچھ مغرب زدہ احمد امین، عبدالحسیب طٰہٰ حمیدہ جیسے افراد نے امام مہدی (ع) کے متعلق روایات نقل کرنے کے باوجود تشیع پر حملے کئے ہیں گویا ان کے خیال میں یہ صرف شیعوں کا عقیدہ ہے یا کتاب و سنت، اقوال صحابہ و تابعین وغیرہ میں اس کا کوئی مدرک و ماخذ نہیں ہے، بے سر پیر کے اعتراضات کر کے یہ حضرات اپنے کو روشن فکر، مفکر اور جدید نظریات کا حامل سمجھتے ہیں،غالباً سب سے پہلے جس مغرب زدہ شخص نے ظہور مہدی (ع) سے متعلق روایات کو ضعیف قرار دینے کی ناکام و نامراد کوشش کی وہ ابن خلدون ہے، جس نے اسلامی مسائل کے بارے میں ہمیشہ بغض اہلبیت (ع) اور اموی افکار کے زیر اثر بحث و گفتگو کی ہے۔
''عقاد '' کے بقول اندلس کی اموی حکومت نے مشرقی اسلام کی وہ تاریخ ایجاد کی ہے جو مشرقی مورخین نے ہرگز نہیں لکھی تھی اور اگر مشرقی مورخین لکھنا بھی چاہتے تو ایسی تاریخ بہر حال نہ لکھتے جیسی ابن خلدون نے لکھی ہے۔
اندلس کی فضا میں ایسے مورخین کی تربیت ہوتی تھی جو اموی افکار کی تنقید و تردید کی صلاحیت سے بے بہرہ تھے، ابن خلدون بھی انہیں افراد میں سے ہے جو مخصوص سیاسی فضا میں تربیت پانے کے باعث ایسے مسائل میں حقیقت بین نگاہ سے محروم ہو گئے تھے، فضائل اہلبیت (ع) سے انکار یا کسی نہ کسی انداز میں توہین یا تضعیف اور بنی امیہ کا دفاع اور ان کے مظالم کی تردیدسے ان کا قلبی میلان ظاہر ہے۔ ابن خلدون معاویہ کو بھی ''خلفائے راشدین'' میں شمار کرتے ہیں۔
انہوں نے مہدی (ع) اہل بیت (ع) کے ظہور کے مسئلہ کو بھی اہل بیت (ع) سے بغض و عناد کی عینک سے دیکھا ہے کیونکہ مہدی (ع) بہرحال اولاد فاطمہ (ص) میں سے ہیں خانوادہ رسالت کا سب سے بڑا سرمایۂ افتخارہیں لہٰذا اموی نمک خوار کے حلق سے فرزند فاطمہ(ص) کی فضیلت کیسے اتر سکتی تھی چنانچہ روایات نقل کرنے کے باوجود ان کی تنقید و تضعیف کی سعی لاحاصل کی اور جب کامیابی نہ مل سکی تو اسے ''بعید'' قرار دے دیا۔
اہل سنت کے بعض محققین اور دانشوروں نے ابن خلدون اور اس کے ہم مشرب افراد کا دندان شکن جواب دیا ہے اور ایسے نام نہاد روشن فکر افراد کی غلطیاں نمایاں کی ہیں۔
معروف معاصر عالم استاد احمد محمد شاکر مصری ''مقالید الکنوز'' میں تحریر فرماتے ہیں ''ابن خلدون نے علم کے بجائے ظن و گمان کی پیروی کر کے خود کو ہلاکت میں ڈالا ہے۔ ابن خلدون پر سیاسی مشاغل، حکومتی امور اور بادشاہوں، امیروں کی خدمت و چاپلوسی کا غلبہ اس قدر ہو گیا تھا کہ انہوں نے ظہور مہدی (ع) سے متعلق عقیدہ کو ''شیعی عقیدہ'' قرار دے دیا۔ انہوں نے اپنے مقدمہ میں طویل فصل لکھی ہے جس میں عجیب تضاد بیان پایا جاتا ہے ابن خلدون بہت ہی فاش غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، پھر استاد شاکر نے ابن خلدون کی بعض غلطیاں نقل کرنے کے بعد تحریر فرمایا: اس(ابن خلدون) نے مہدی (ع) سے متعلق روایات کو اس لئے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس پر مخصوص سیاسی فکر غالب تھی، پھر استاد شاکر مزید تحریر کرتے ہیں کہ: ابن خلدون کی یہ فصل اسماء رجال، علل حدیث کی بے شمار غلطیوں سے بھری ہوئی ہے کبھی کوئی بھی اس فصل پر اعتماد نہیں کرسکتا۔''
استاد احمد بن محمد صدیق نے تو ابن خلدون کی رد میں ایک مکمل کتاب تحریر کی ہے جس کا نام ''ابراز الوہم المکنون عن کلام ابن خلدون'' ہے۔ اس کتاب میں استاد صدیق نے مہدویت سے متعلق ابن خلدون کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا مکمل جواب دیا ہے اور ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا ہے۔
ہر چند علمائے اہل سنت نے اس بے بنیاد بات کا مدلل جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک متفق علیہ اور اجتماعی ہے مگرہم چند باتیں بطور وضاحت پیش کر رہے ہیں :
١۔ شیعوں کا جو بھی عقیدہ یا نظریہ ہے وہ اسلامی عقیدہ و نظریہ ہے، شیعوں کے یہاں اسلامی عقائد و نظریات سے الگ کوئی عقیدہ نہیں پایا جاتا، شیعی عقائد کی بنیاد کتاب خدا اور سنت پیغمبر (ص) ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی عقیدہ شیعی عقیدہ ہو مگر اسلامی عقیدہ نہ ہو۔
٢۔ ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ علمائے اہلسنت بھی اس پر متفق ہیں اور یہ خالص اسلامی عقیدہ ہے۔
٣۔ آپ کے نزدیک ''اسلامی عقیدہ'' کا معیار کیا ہے؟ اگر قرآن مجید کی آیات کی تفسیر اسی سے ہوتی ہو تو کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟ اگر صحیح، معتبر بلکہ متواتر روایات (جو اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں) سے کوئی عقیدہ ثابت ہو جائے تب بھی کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟
اگر صحا بہ و تابعین اور تابعینِ تابعین کسی عقیدہ کے معتقد ہوں تو بھی وہ عقیدہ اسلامی نہیں ہے؟ اگر شواہد اور تاریخی واقعات سے کسی عقیدہ کی تائید ہو جائے اور یہ ثابت ہو جائے کہ یہ عقیدہ ہر دور میں پوری امت مسلمہ کے لئے مسلّم رہا ہے پھر بھی کیا آپ اسے اسلامی عقیدہ تسلیم نہ کریں گے؟
اگر کسی موضوع سے متعلق ابی دائود صاحب سنن جیسا محدث پوری ایک کتاب بنام ''المہدی''، شوکانی جیسا عالم ایک کتاب ''التوضیح'' اسی طرح دیگر علماء کتابیں تحریر کریں، بلکہ پہلی صدی ہجری کی کتب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہوتب بھی یہ عقیدہ اسلامی نہ ہوگا؟
پھر آپ ہی فرمائیں اسلامی عقیدہ کا معیار کیا ہے؟ تاکہ ہم آپ کے معیار و میزان کے مطابق جواب دے سکیں، لیکن آپ بخوبی جانتے ہیںکہ آپ ہی نہیںبلکہ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ مذکورہ باتوں کے علاوہ اسلامی عقیدہ کا کوئی اور معیار نہیں ہو سکتا اور ان تمام باتوں سے ظہور مہدی (ع) کے عقیدہ کا اسلامی ہونا مسلّم الثبوت ہے چاہے آپ تسلیم کریں یا نہ کریں۔
 
Read 1884 times