ابن تیمیہ كی نظر میں حضرت رسول اكرم (ص) اور دوسروں كی زیارت كرنا

Rate this item
(0 votes)
ابن تیمیہ كی نظر میں حضرت رسول اكرم (ص) اور دوسروں كی زیارت كرنا

اقتباس از تاریخ وھابیت؛ علی اصغر فقیھی - مترجم: اقبال حیدر حیدری
ابن تیمیہ نے اپنے فتووں میں كھا ھے كہ اگر قبور پر نماز اور دعا كی جائے تو یہ كام ائمہ مسلمین كے اجماع اور دین اسلام كے خلاف ھے اور اگر كوئی شخص یہ گمان كرے كہ مشاہد اور قبور پر نمازپڑھنا اور دعاكرنا مسجدوں سے افضل ھے توایسا شخص كافر ھے۔۱
ابن تیمیہ مسجد النبی اور آنحضرت (ص)كی قبر كے بارے میں كھتا ھے كہ مسجد النبی اور آنحضرت كی قبر كی زیارت بذات خود ایك نیك اور مستحب عمل ھے اور اس طرح كے سفر میں نمازیں قصر پڑھی جائیں گی(یعنی اس كا یہ سفر، سفر معصیت نھیں ھے كہ اگر سفر معصیت هوتو نماز پوری پڑھنا ضروری ھے) اور اس طرح كی زیارت (جو مسجد النبی كی زیارت كے ضمن میں هو) بھترین اعمال میں سے ھے اور اسی طرح قبور كی زیارت كرنا مستحب ھے جیسا كہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بقیع اور شہدائے اُحد كی زیارتوں كے لئے جایا كرتے تھے اور اپنے اصحاب كو بھی اس عمل كی ترغیب دلاتے تھے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایاكہ جس وقت زیارت كے لئے جایا كرو تو اس طرح كھا كرو:
”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ اَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُوٴمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِكُمْ لاٰحِقُوْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَمِنْكُمْ وَالْمُسْتَاخِرِیْنَ وَنَسْئَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِیَةَ، اَللّٰهم لاٰتَحْرِمْنَا اَجْرَهم وَلاٰ تَفِتْنَا بَعْدَهم وَاغْفِرْ لَنَاوَلَهم“
”سلام هو تم پر اے مسلمین ومومنین، اور انشاء اللہ ھم بھی تم سے ملحق هونے والے ھیں، خدا رحمت كرے ان لوگوں پر جو اس دیار میں ھم سے پھلے آئے یا بعد میں آئیں گے ،میں اپنے لئے اور تمھارے لئے خداوندعالم سے عافیت كا طلبگار هو ں، بارالہٰا! ھم پر اجر ثواب كو حرام نہ كر، اور ھمیں اور ان لوگوں كو بخش دے“۔
قارئین كرام! جب عام مومنین كی قبروں كی زیارت جائز هو تو پھر انبیاء، پیغمبروں اور صالحین كی قبور كی زیارت كا ثواب تو اور بھی زیادہ هوگا، لیكن اس سلسلہ میں ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی كا دوسرے انبیاء سے یہ فرق ھے كہ آپ كے اوپر ھر نماز میں صلوات او رسلام بھیجنا ضروری ھے، اسی طرح اذان اور مسجد میں داخل هوتے وقت كی دعا یھاں تك كہ كسی بھی مسجد میں داخل هونے كی دعا اور مسجد سے باھر نكلتے وقت آپ پر سلام بھیجا جاتا ھے، اسی وجہ سے امام مالك نے كھا كہ اگر كوئی شخص یہ كھے كہ میں نے حضرت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كی ھے تو اس كا یہ كہنا مكروہ ھے، اور قبور كی زیارت سے مراد صاحب قبر پر سلام ودعا ھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ سلام و دعا ،كامل ترین انداز میں،نمازاذان او ردعا كے وقت درود وسلام بھیجنا ھے، ۲ اور اسی لئے كبھی یہ اتفاق نھیں هوا كہ اصحاب پیغمبرآنحضرت (ص)كی قبر مطھر كے نزدیك نھیں گئے ،اور كبھی انھوں نے حجرے كے اندر سے یا حجرے كے باھر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت نھیں كی، لہٰذا اگر كوئی شخص فقط آنحضرت كی قبر كی زیارت كی وجہ سے سفر كرے اور اس كا قصد مسجد النبی میں نماز پڑھنا نہ هو، تو ایسا شخص بدعتی اورگمراہ ھے۔ ۳
ابن تیمیہ نے اس سلسلہ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے لئے سفر كرنے والوں كے لئے، چند قول نقل كئے ھیںكہ چونكہ یہ سفر، سفر معصیت ھے لہٰذا كیا نماز پوری هوگی یا قصر۔ ۴
ابن بطوطہ كے قول كے مطابق ابن تیمیہ قائل تھا كہ چونكہ یہ سفر، سفر معصیت ھے لہٰذاكیا نماز پوری پڑھنا ضروری ھے؟۵
اسی طرح ابن تیمیہ كھتا ھے: مسلمانوں كے ائمہ اربعہ نے خلیل خدا جناب ابراھیم كی قبراور دیگر انبیاء كی قبروں كی صرف زیارتوں كے لئے سفر كرنے كو مستحب نھیں جانا ھے، لہٰذا اگر كوئی شخص ایسے سفر كے لئے نذر كرے تو اس نذر پر عمل كرنا واجب نھیں ھے۔ ۶
اس كے بعد زیارت كے طریقہ كے بارے میں كھتا ھے كہ اگر زیارت سے كسی كا مقصد صاحب قبر كے لئے دعا كرنا هو تو اس كی یہ زیارت صحیح ھے لیكن اگر كوئی كام حرام هو جیسے (صاحب قبر كو) خدا كا شریك قرار دینا، (گویا ابن تیمیہ كی نظر میں صاحب قبر سے استغاثہ كرنا اور اس كو شفیع قرار دینا شرك كا باعث ھے) یا اگر كوئی كسی كی قبر پر جاكر روئے، نوحہ خوانی كرے یا بے هودہ باتیں كھے تو اس كی یہ زیارت باتفاق علماء حرام ھے، لیكن اگر كوئی شخص كسی رشتہ دار اور دوستوں كی قبر پر جاكر ازروئے غم آنسو بھائے تو اس كا یہ كام مباح ھے البتہ اس شرط كے ساتھ كہ اس گریہ كے ساتھ ندبہ او رنوحہ خوانی نہ هو۔ ۷ اسی طرح مَردوں كے لئے زیارت كرنا مباح ھے، البتہ عورتو ںكے بارے میں اختلاف ھے كہ وہ قبور كی زیارت كرسكتی ھیں یا نھیں؟ ۸
البتہ ابن تیمیہ صاحب كفار كی قبور كی زیارت كے بارے میں فرماتے ھیں كہ ان كی زیارت كرنا جائز ھے تاكہ انسان كو آخرت كی یاد آئے، لیكن جب كفار كی قبور كو دیكھنے كے لئے جائے تو ان كے لئے خدا سے استغفار كرنا جائز نھیں ھے۔ ۹
اسی طرح ابن تیمیہ صاحب كا عقیدہ یہ بھی ھے كہ قبور كے نزدیك نماز پڑھنا یا قبروں پر بیٹھنا (یا ان كے برابر بیٹھنا) اور قبروں كی زیارت كو عید قرار دینا یعنی كئی لوگوں كا ایك ساتھ مل كر زیارت كے لئے جانا جائز نھیں ھے، ۱۰ چنانچہ وہ كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے پاس آنحضرت پر صلوات اور سلام بھیجنا ناجائز ھے كیونكہ یہ كام گویا آنحضرت كی قبر پر عید منانا ھے۔ ۱۱
یھی نھیں بلكہ جناب كا عقیدہ تو یہ بھی ھے كہ وہ احادیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے بارے میں وارد هوئی ھیں وہ تمام علمائے حدیث كی نظر میں ضعیف بلكہ جعلی ھیں، اسی طرح موصوف فرماتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مبارك پر ھاتھ ركھنا یا قبر كو بوسہ دینا جائز نھیں ھے اور مخالف توحید ھے، ۱۲ اور اسلامی نظریہ كے مطابق كوئی ایسی قبر یا روضہ نھیں ھے جس كی زیارت كے لئے جایا جائے، اور قبور كی زیارت كا مسئلہ تیسری صدی كے بعد پیدا هوا ھے یعنی اس سے قبل زیارت قبور كا مسئلہ موجود نھیں تھا۔ ۱۳
سب سے پھلے جن لوگوں نے زیارت كے مسئلہ كو پیش كیا اور اس سلسلہ میں حدیثیں گڑھیں، وہ اھل بدعت اور رافضی لوگ ھیں جنھوں نے مسجدوں كو بند كركے روضوں كی تعظیم كرنا شروع كردی، چنانچہ روضوں پر شرك، جھوٹ اور بدعت كے مرتكب هوتے ھیں۔ ۱۴
جب ابن تیمیہ سے زیارت كے بارے میں سوال كیا گیا اور اس كے جواب كو شام كے قاضی شافعی نے دیكھا تو اس نے اسی جواب كے نیچے لكھا كہ میں نے ابن تیمیہ كے جواب اور سوال میں مقابلہ كیا اور وہ چیز جو ابن تیمیہ اور ھمارے درمیان اختلاف كا باعث بنتی ھے وہ یہ ھے كہ اس نے انبیاء كرام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبور كی زیارت كو معصیت او رگناہ كھا ھے۔
لیكن ابن كثیر نے اس مطلب كو ذكر كرنے كے بعد كھا كہ ابن تیمیہ كی طرف اس مذكورہ بات كی نسبت دینا صحیح نھیں ھے (یعنی اس نے زیارت كو معصیت قرار نھیں دیا)، ابن كثیر صاحب جو ابن تیمیہ كے مشهور ومعروف طرفدار مانے جاتے ھیں مسئلہ زیارت میں ابن تیمیہ كے نظریہ كی توجیہ اور تصحیح كرتے ھیں۔ ۱۵

پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیهم السلام كی قبروں كی زیارت كے بارے میں وضاحت

ابن تیمیہ اپنے نظریات میں عام طور پر تمام قبور او رخاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے مسئلہ میں بھت زیادہ ہٹ دھرمی سے كام لیتا ھے، اسی وجہ سے اپنی دو كتابوں”الجواب الباھر“ اور ”الرد علی الاخنائی“ میں جب بھی اس طرح كے مسئلہ كو بیان كرتا ھے اور كسی مدرك اور سند كو ذكر كرتا ھے تو اس كو كئی كئی بار اور مختلف انداز سے تكرار كرنے كی كوشش كرتا ھے، اور وہ احادیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كو مستحب قرار دیتی ھیں ان كو ضعیف اور جعلی بتاتا ھے، ان احادیث میں سے جن كو اھل سنت نے مختلف طریقوں سے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل كیا ھے منجملہ وہ حدیث جس میں آنحضرت نے فرمایا: ”مَنْ زَارَ قَبْرِی وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِی“ (جس شخص نے میری قبر كی زیارت كی اس كی شفاعت مجھ پر واجب ھے)، اس حدیث كو صحیح نھیں مانتا، جبكہ زیارت سے متعلق احادیث صحاح ستہ اور اھل سنت كی معتبر كتابوں میں موجود ھیں او رمختلف طریقوںسے نقل كی گئی ھیں اور بھت سے علماء نے ان كو صحیح شمار كیا ھے اور ان احادیث كے مضامین پر عمل بھی كیا ھے ۱۶
ھم یھاں پر ان احادیث كے چند نمونے بیان كرنا مناسب سمجھتے ھیں:
امام مالك (مالكی مذھب كے امام) اپنی كتاب ”موطاء“ میں عبد اللہ ابن دینار سے روایت كرتے ھیں كہ ابن عمر جب بھی كسی سفر پر جاتے تھے یا سفر سے واپس آتے تھے تو آنحضرت (ص)كی قبر پر حاضر هوتے تھے اور وھاں نماز پڑھتے تھے اور آپ پر درود وسلام بھیجتے تھے اور دعا كرتے تھے، اسی طرح محمد (ابن عمر) نے كھا:اگر كوئی مدینہ میں آتا ھے تو اس كے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے پاس حاضر هوناضروری ھے۔ ۱۷
ابو ھریرہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت نقل كرتے ھیں كہ آپ نے فرمایا كہ خدا نے مجھے اپنی والدہٴ گرامی كی قبر كی زیارت كرنے كی اجازت عطا فرمائی ھے، ۱۸
اسی طرح ابوبكر نے حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت كی ھے جو شخص جمعہ كے دن اپنے ماں باپ یا ان میں سے كسی ایك كی زیارت كرے اور ان كی قبر كے پاس سورہ یٰس پڑھے تو خدا اس كو بخش دیتا ھے۔ ۱۹
اسی طرح عبد اللہ بن ابی ملیكہ كی روایت ھے كہ اس نے كھا:میں نے دیكھا كہ ایك روز جناب عائشہ قبرستان سے واپس آرھی ھیں تو میں نے ان سے عرض كیا اے ام الموٴمنین ! كیا پیغمبر اكرم نے قبور كی زیارت سے منع نھیں فرمایا تھا؟! تو انھوں نے جواب دیا كہ ٹھیك ھے پھلے ایسا ھی حكم كیا تھا لیكن بعد میں خود انھوں نے حكم فرمایا كہ قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو۔ ۲۰
اسی طرح پیغمبر اكرم (ص)كی ایك دوسری حدیث جس میں آپ نے فرمایا : جو شخص میری زیارت كے لئے آئے اور اس كے علاوہ اور كوئی دوسرا قصد نہ ركھتا هو، تو مجھ پر لازم ھے كہ میں روز قیامت اس كی شفاعت كروں۔ ۲۱
جناب سمهودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے بارے میں ۱۷ حدیثیں سند كے ساتھ ذكر كی ھیں، جن میں سے بعض كوھم زیارت كے بارے میں وھابیوں كےعقیدہ كے بیان كریں گے۔
اسی طرح سمهودی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے آداب كو تفصیل سے بیان كرتے ھیں جس كا خلاصہ یہ ھے:
ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن الحسین السامری حنبلی نے، اپنی كتاب ”المُستَوعِب“ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے سلسلہ میں آداب زیارت كے باب میں لكھا ھے كہ جب زائر قبر كی دیوار كی طرف آئے تو گوشہ میں كھڑا هوجائے اور قبر كی طرف رخ یعنی پشت بقبلہ اس طرح كھڑا هو كہ منبر اس كی بائیں طرف هو، اور اس كے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سلام ودعا كی كیفیت بیان كی ھے، اور اس دعا كو ذكر كیا ھے:
”اَللّٰهم اِنَّكَ قُلْتَ فِی كِتَابِكَ لِنَبِیِّكَ عَلَیْہِ السَّلاٰمُ: < وَلَوْاَنَّهم اِذْظَلَمُوْا اَنْفُسَهم جَاْوٴُكَ فَسَتَغْفرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَهم الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّاباً رَحِیْماً۔ > وَاِنِّی قَدْ اَتَیْتُ نَبِیّكَ مُسْتَغْفِراً وَاَسْاٴلُكَ اَنْ تُوْجِبَ لِیَ الْمَغْفِرَةَ كَمَا اَوْجَبْتَها لِمَنْ اَتَاہُ فِی حَیَاتِہِ، اَللّٰهم اِنِّي اَتَوَجَّہَ اِلَیْكَ بِنَبِیِّكَ“۔
”خداوندا !تو نے اپنی كتاب میں اپنے پیغمبر (ص)كے لئے فرمایاھے:<اے كاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم كیا تھا تو آپ كے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناهوں سے استغفار كرتے اور رسول بھی ان كے حق میں استغفار كرتے، تو یہ خدا كو بڑا ھی توبہ قبول كرنے والا اور مھربان پاتے>، میں اپنے گناهوں كی بخشش كے لئے تیرے نبی كی خدمت عالیہ میں حاضر هوا هوں، اور تجھ سے اپنے گناهوں كی مغفرت چاھتا هوں اور امید ھے كہ تو مجھے معاف كردے گا ،جس طرح لوگ تیرے نبی كی حیات میں ان كے پاس آتے تھے اور تو ان كو معاف كردیتا تھا، اے خدائے مھربان میں تیرے نبی كے وسیلہ سے تیری بارگاہ میں ملتمس هوتا هوں“۔
حنفی عالم دین ابومنصور كرمانی كھتے ھیں كہ اگر كوئی تم سے آكر یہ كھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تك میرا سلام پهونچادینا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی بارگاہ میں حاضر هوكر اس طرح كہنا كہ آپ پر سلام هو فلاں فلاں شخص كا، اور انھوںنے آپ كو خدا كی بارگاہ میں شفیع قرار دیا ھے تاكہ آپ كے ذریعہ خداوندعالم كی مغفرت اور رحمت ان كے شامل حال هو، اور آپ ان كی شفاعت فرمائیں۔
سمهودی مذاھب اسلامی كے معتبر اور قابل اعتماد علماء میں سے ھیں، انھوں نے اپنی كتاب كے تقریباً ۵۰ صفحے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كی زیارت اور اس كے آداب اور قبر مطھر سے توسل سے مخصوص كئے ھیں، اور متعدد ایسے واقعات بیان كئے ھیں كہ لوگ مشكلات اور بلا میں گرفتارهوئے اور آپ كی قبر مطھر پر جاكر نجات مل گئی ۔ ۲۲
مرحوم علامہ امینیۺ نے زیارت قبر پیغمبر (ص)كی فضیلت اور استحباب كے بارے میں جھاں اھل سنت سے بھت سی روایات نقل كی ھیں وھیں تقریباً چالیس سے زیادہ مذاھب اربعہ كے بزرگوں كے قول بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے بارے میں نقل كئے ھیں۔ ۲۳
قارئین كرام!یھاں پر مناسب ھے كہ محمد ابوزَھرَہ عصر جدید كے مصری موٴلف كا قول نقل كیا جائے، وہ كھتے ھیں: ابن تیمیہ نے اس سلسلہ (زیارت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں تمام مسلمانوں سے مخالفت كی ھے بلكہ جنگ كی ھے۔
روضہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت،دراصل پیغمبر كی عظمت، آپ كے جھاد، مقام توحید كی عظمت كو بلند كرنے میں كوشش اور شرك اور بت پرستی كی نابودی كی كوششوں كی یاد دلاتی ھے، خود ابن تیمیہ روایت كرتے ھیں كہ سَلفِ صالح جب آپ كے روضہ كے قریب سے گذرتے تھے تو آپ كو سلام كرتے
نافع، غلام اور راوی عبد اللہ ابن عمر سے مروی ھے كہ عبد اللہ ابن عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر پر سلام كرتے تھے اور میں نے سیكڑوں بار ان كو قبر منور پر آتے دیكھا اور میں نے یہ بھی دیكھا كہ اپنے ھاتھ كو منبر رسول سے مس كرتے ھیں، وہ منبر جس پر آنحضرت (ص)بیٹھا كرتے تھے ،پھر وہ اپنے ھاتھ كو اپنے منھ پر پھیرلیا كرتے تھے ،اسی طرح ائمہ اربعہ جب بھی مدینہ آتے تھے تو آنحضرت كی قبر كی زیارت كیا كرتے تھے۔ ۲۴
عمومی طور پر دوسری قبروں كی زیارت كے بارے میں ابن ماجہ نے روایت نقل كی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”زُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّها تُذَكِّرُكُمُ الآخِرَةَ“۔
”قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت تمھیں آخرت كی یاددلائے گی“۔
اسی طرح جناب عائشہ كی روایت كے مطابق پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبروں كی زیارت كی اجازت عطا فرمائی ھے۔ ۲۵
ابن مسعود سے منقول ایك اورروایت میں ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”كُنْتُ نَہَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ القُبُوْرِ، فَزُوْرُوْها فَاِنَّها تُزَہِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَكِّرُ الٓاخِرَةَ“۔
”پھلے میں نے تم كو قبروں كی زیارت سے منع كیا تھا لیكن (اب اجازت دیتا هوں كہ) قبروں كی زیارت كیا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت دنیا میں زہد پیدا كرے گی اور آخرت كی یاد دلائے گی“۔
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایك اور روایت ھے جس میں آپ نے فرمایا كہ قبروں كی زیارت كیا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت تمھیں موت كی یاد دلاتی ھے۔ ۲۶
سخاوی كھتے ھیں كہ آنحضرت خود بھی زیارت قبور كے لئے جاتے تھے اور اپنی امت كے لئے بھی اجازت دی كہ وہ بھی زیارت كے لئے جایا كریں، جبكہ پھلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبور كی زیارت سے منع فرمایا تھا۔
قبروں كی زیارت كرنا ایك سنت ھے اور جو شخص بھی زیارت كرتا ھے اس كو ثواب ملتا ھے البتہ زائر كو حق بات كے علاوہ كوئی بات زبان پر جاری نھیں كرنا چاہئے، اور قبروں كے اوپر نھیں بیٹھنا چاہئے، اور ان كو بے اھمیت قرار نھیں دینا چاہئے اور ان كو اپنا قبلہ بھی قرار نھیں دینا چائے ۔
چنانچہ روایت میںوارد هوا ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی والدہ گرامی اور عثمان بن مظعون كی قبروں كی زیارت كی اور عثمان بن مظعون كی قبر پر ایك نشانی بنائی تاكہ دوسری قبروں سے مل نہ جائے۔
اس كے بعد سخاوی كھتے ھیں كہ َمردوں كے لئے قبور كی زیارت كے مستحب هونے پر دلیل اجماع ھے جس كو عَبدرَی نے نقل كیا ھے اور نُوو ی شارح صحیح مسلم نے كھا ھے كہ یہ قول تمام علمائے كرام كا ھے۔
ابن عبد البِرّ اپنی كتاب ”استذكار“ میں ابوھریرہ كی حدیث پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل كرتے هوئے اس طرح كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس وقت قبرستان میں جاتے تھے ،تو اس طرح فرماتے تھے:
”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ دَارَ قومٍ مُوٴْمِنِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰہ بِكُم لاحقُونَ، نَسْاٴَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِیَةِ“۔
اس حدیث كے مضمون كے مطابق قبروں پر جانے اوران كی زیارت كرنے كے سلسلہ میںعلما كا اجماع واتفاق ھے كہ مَردوں كے لئے جائز ھے اوراس سلسلہ میں متعدد احادیث موجود ھیں۔
لیكن عورتوں كے سلسلہ میں خصوصی طور پر صحیح بخاری میں نقل هوا ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك عورت كو دیكھا كہ ایك قبر كے پاس بیٹھی گریہ كر رھی ھے تو آپ نے اس سے فرمایا كہ اے كنیز خداپرھیزگار رهواور صبر كرو، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس عورت كو منع نھیں كیا كیونكہ اگر عورتوں كا قبور كی زیارت كرنا اور وھاں پرگریہ كرنا حرام هوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس كو منع فرماتے۔ ۲۷
اسی طرح زیارت كے بارے میں ایك حدیث جلال الدین سیوطی نے بیہقی سے نقل كی اور انھوں نے ابوھریرہ سے نقل كی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہدائے احد كے بارے میں خاص طور پر فرمایا :
”اَشْہَدُاَنَّ ہٰوٴُلاٰءِ شُہْدَاٌ عِنْدَ اللّٰہِ فَاتُوهم وَزُوْرُوْهم وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ. لاٰیُسَلِّمُ عَلَیْهم اَحَدٌ اِلٰی یَومَ القِیَامَةِ اِلاّٰ رَدُّوْا عَلَیْہِ“
”میں گواھی دیتا هوں كہ یہ حضرات خدا كی بارگاہ میں شھید ھیں ،ان كی قبروں پر جاؤ اور ان كی زیارت كرو، قسم اس خدا كی جس كے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے، تا روز قیامت اگر كوئی شخص ان كو سلام كرے گا تو یہ ضرور اس كا جواب دیں گے“
اسی طرح وہ روایت جس كو حاكم نے صحیح مانا ھے اور اس كو بیہقی نے بھی نقل كیاھے كہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہدائے احد كی قبور كی زیارت كے لئے جاتے تھے تو كھتے تھے:
”اَللّٰهم اِنَّ عَبْدَكَ وَنَبِیَّكَ یَشْہَدُ اَنَّ ہٰوٴُلاٰءِ شُہَدَاءٌ وَاِنَّہُ مَنْ زَارَهم اَوْ سَلِّمْ عَلَیْهم اِلٰی یَومَ الْقَیَامَةِ رَدُّوْا عَلَیْہِ“
”خداوندا !تیرا بندہ اور تیرا نبی گواھی دیتا ھے كہ یہ شہداء راہ حق ھیں ،اوراگر كوئی ان كی زیارت كرے یا (آج سے) قیامت تك ان پر سلام بھیجے تویہ حضرات اس كے سلام كا جواب دیں گے۔ ۲۸
واقدی كھتے ھیں: پیغمبر اكرم:صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھر سال شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے اور جب اس وادی میں پهونچتے تھے تو بلند آواز میں فرماتے تھے:
”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ “۔
”سلام هو تم پر اس چیز كے بدلے جس پر تم نے صبر كیا اورتمھاری كیا بھترین آخرت ھے“۔
ابوبكر، عمر اورعثمان بھی سال میں ایك مرتبہ شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے، اورجناب فاطمہ دختر نبی اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوتین دن میں ایك دفعہ احد جایا كرتی تھیںاور وھاں جاكر گریہ وزاری اور دعا كرتی تھیں۔
اسی طرح سعد بن ابی وقّاص بھی قبرستان میں پیچھے كی طرف سے دا خل هوتے اور تین بار سلام كرتے تھے۔
واقدی كھتے ھیں كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مُصْعَب بن عُمَیر جو كہ شہداء احد میں سے ھیں، كے پاس سے گذرے تو ٹھھرگئے ان كے لئے دعا كی اور یہ آیہٴ شریفہ پڑھی:
< رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاہَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْهم مَنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْهم مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوا تَبْدِیلاً ۔ >۔ ۲۹
”مومنین میں سے ایسے بھی مرد میدان ھیں جنھوں نے اللہ سے كئے وعدہ كو سچ كردكھایا، ان میں سے بعض اپنا وقت پورا كرچكے ھیں اور بعض اپنے وقت كا انتظار كررھے ھیں، اور ان لوگوں نے اپنی بات میں كوئی تبدیلی نھیں كی ھے“۔
اس كے بعد فرمایا: میں خدا كے حضور میں گواھی دیتا هوں كہ یہ لوگ خدا كی بارگاہ میں شھید ھیں،ان كی قبور كی زیارت كے لئے جایا كرو اور ان پر درود وسلام بھیجا كرو، كیونكہ وہ(بھی) سلام كا جواب دیتے ھیں۔ اس كے بعد واقدی نے ان اصحاب كے نام شمار كئے ھیں جو شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے نیزان كی زیارت كی كیفیت اور طریقہ بھی بیان كیا ھے۔ ۳۰
اب رھا شیعوں كے یھاں مسجدوں كو تعطیل كرنے كا مسئلہ تو ھم اس سلسلہ میں یہ كھیں گے كہ یہ بھی ان تھمتوں میں سے ھے جو قدیم زمانہ سے چلی آرھی ھے اور اس كی اصل وجہ بھی شیعوں سے دشمنی اور بغض وعناد ھے، چنانچہ بعض موٴلفین نے اپنی اپنی كتابوں میں اسے بغیر كسی تحقیق كے بیان كردیا، اور شیعوں سے بد ظنی كی بناپر اس نظریہ كو اپنی كتابوں میں بھی داخل كردیا ،جبكہ حقیقت یہ ھے كہ شروع ھی سے شیعوں كی مساجد سب سے زیادہ آباد اور پررونق رھی ھیں جیسا كہ كتاب تاریخ مذھبی قم كے موٴلف نے بھی بیان كیا ھے، آج بھی دنیا كی سب سے بھترین ،خوبصورت اور قدیمی ترین مساجد كو ایران میں دیكھا جاسكتا ھے،جو گذشتہ صدیوں سے اسی طرح باعظمت باقی ھیں۔
اور یہ مسجدیںجونماز جماعت كے وقت بھر جاتی ھیں اس كی داستانیں زبان زد خاص وعام ھیں، اس وقت شھروں ،قصبوں اور دیھاتوں میں ایسی ہزاروں مسجدیں ھیں جن میں بھترین فرش وغیرہ موجود ھیں ۔
جب بھی كوئی مسافرایران آتا ھے تو وہ ایران كے پایہٴ تخت” تھران“ میں ضرور جاتا هوگا تھران میں سیكڑوں مسجد یں ھیں جن میں بھترین وسائل اور كتابخانے ھیں ۔ یہ مسجدیںكسی بھی وقت نمازیوں سے خالی نھیں هوتیں اور ان سب میں وقت پر نماز جماعت قائم هوتی ھے، اور تھران كے علاوہ بھی دوسرے شھروں مثلاً مشہد، قم، اصفھان، شیراز وغیرہ میں كسی بھی جگہ دیكھ لیں كھیں پر بھی مسجدیںمعطّل نھیں هوئی ھیں بلكہ اپنی پوری شان وشوكت كے ساتھ بھری هوئی ھیں،اور تمام مساجد میں نماز جماعت قائم هوتی ھے۔
خلاصہ یہ كہ چاھے ایران میں جو شیعت كا مركز ھے یا دوسرے علاقوں میں كوئی بھی زمانہ ایسا نھیں گذرا جھاں پر مسجد غیر آباد هو، اور شیعہ مسجدوں كی رونق دوسر ے فرقوں سے كم رھی هو۔

قبور كے نزدیك نماز پڑھنا

صحیح مسلم میں قبور كے نزدیك آنحضرت (ص)كے نماز پڑھنے كے بارے میں بھت سی روایات بیان هوئی ھیں۔ ۳۱
ابن اثیراس حدیث ”نَہٰی عَنِ الصَّلاٰةِ فِیْ الْمَقْبَرَةِ“كو نقل كرنے كے بعد كھتے ھیں كہ مقبروں میں نماز كو ممنوع قرار دینے كی وجہ یہ ھے كہ مقبروں كی مٹی، خون اور مردوں كی نجاست سے مخلوط هوتی ھے لیكن اگر كسی پاك قبرستان میں نماز پڑھی جائے تو صحیح ھے، اس كے بعد ابن اثیركھتے ھیں كہ ”لاتجعلوا بیوتكم مقابر“(یعنی اپنے گھروں كو قبرستان نہ بناؤ)گذشتہ حدیث كی ھی طرح ھے یعنی تمھارے گھر نماز نہ پڑھے جانے میں قبرستان كی طرح نہ هوجائیں، كیونكہ جو مرجاتا ھے وہ پھر نماز نھیں پڑھتا، چنانچہ مذكورہ معنی پر درج ذیل حدیث دلالت كرتی ھے: ”اِجْعَلُوا مِنْ صَلاٰتِكُمْ فِی بُیُوْتِكُمْ وَلاٰ تَتَّخِذُوْا قُبُوْراً“ (اپنے گھروں كو قبرستان كی طرح قرار نہ دو كہ كبھی اس میں نماز نہ پڑھو بلكہ كچھ نمازیں گھروں میں بھی پڑھا كرو)بعض لوگوں نے كھا ھے كہ اس حدیث كے معنی یہ ھیں كہ اپنے گھروں كو قبرستان قرار نہ دو كہ اس میں نماز پڑھنا جائز نھیں ھے ،لیكن پھلے والے معنی بھتر ھیں ۔ ۳۲
شوكانی نے خطابی كی كتاب ”معالم السنن “ كے حوالہ سے مقبروں میں نماز پڑھنے كو جائز قراردیا ھے اسی طرح اس نے حسن (حسن بصری) سے نقل كیا ھے كہ انھوں نے مقبرہ میں نماز پڑھی، اوریہ بھی كھا كہ رافعی وثوری (سفیان ثوری) اور اوزاعی اور ابوحنیفہ قبرستان میں نماز پڑھنے كو مكروہ جانتے تھے لیكن امام مالك نے قبرستان میں نماز پڑھنے كو جائز قرار دیاھے۔
امام مالك كے بعض اصحاب نے یہ دلیل پیش كی كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك سیاہ اور فقیر عورت كی قبر كے نزدیك نما ز پڑھی ھے، ۳۳ `مالك كی روایت كاخلاصہ یہ ھے كہ ایك غریب عورت بیمار هوئی، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جب یہ مرجائے تو مجھے خبر كرنا، لیكن چونكہ اس كو رات میں موت آئی توآپ كو خبر نھیں كی گئی اور اس عورت كو رات ھی میں دفن كردیا گیا، جب دوسرا روز هوا تو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس كی قبر پر گئے او راس پر نماز پڑھی اور چار تكبیریں كھیں ۔ ۳۴

ندبہ اور نوحہ خوانی كے بارے میں وضاحت

ابن تیمیہ نے میت پر ،نوحہ خوانی اورگریہ كرنے كو ممنوع قرار دیا ھے، اور وھابی حضرات بھی اس طرح كے كاموں كو گناھان كبیرہ میں شمار كرتے ھیں۔ ۳۵
جبكہ احمد ابن حنبل اور بخاری كی روایت كے مطابق جب عمر كو ضربت لگی تو صُھیب (غلام عمر) نے چلانا شروع كیا: ” وااخاہ، وا صاحباہ“اس وقت جناب عمر نے كھا كہ كیا تم نے نھیںسنا كہ حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ھے كہ اگر میت پر گریہ كیا جائے تو اس گریہ كی وجہ سے اس پر عذاب هوتا ھے؟!
جناب ابن عباس كھتے ھیں كہ جب عمر كا انتقال هوا، تو میں نے اس بات كو جناب عائشہ كے سامنے پیش كیا تو انھوں نے فرمایا: بخدا جناب رسول خدا نے كبھی اس طرح كی كوئی بات نھیں كھی ھے بلكہ انھوں نے تو یہ فرمایا ھے كہ اگر كفار پر اس كے اھل خانہ گریہ كریں تو اس كے عذاب میں اضافہ هوتا ھے۔ ۳۶
اسی طرح میت پر رونے اور گریہ كرنے كے جائز هونے پر صاحب ”منتقی الاخبار“ نے انس بن مالك سے یہ ورایت نقل كی ھے كہ جب رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا انتقال هوا تو حضرت فاطمہ زھرا(ع)نے فرمایا:
”یَا اَبَتَاہُ، اَجَابَ رَبّاً دَعَاہُ، یَا اَبَتَاہُ جَنَّةُ الْفِرْدُوْسِ مَاوَاہُ، یَا اَبَتَاہُ اِلٰی جِبْرِیْلَ نَنْعَاہُ“۔
”اے میرے پدر محترم آپ نے دعوت حق پر لبیك كھی اور جنت الفردوس كو اپنا مقام بنالیا،اور جناب جبرئیل نے آپ كی وفات كی خبر سنائی“۔
اسی طرح انس سے ایك دوسری روایت كے مطابق جب جناب رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی روح جسم سے پرواز كر گئی تو جناب ابوبكر حجرے میں تشریف لائے اور اپنے منھ كو آنحضرت كی دونوں آنكھوں كے پیچ ركھا اور آنحضرت كے دونوں رخساروں پر اپنے دونوں ھاتھوں كو ركھا اور كھا: ”وانبیاہ وا خلیلاہ وا صفیاہ“ اس روایت كو احمد ابن حنبل نے بھی نقل كیا ھے۔ ۳۷
یھی نھیں بلكہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی متعدد بار اپنے رشتہ داروں اور اصحاب كے انتقال پر گریہ فرمایا ھے، جیسا كہ انس بن مالك نے روایت كی ھے كہ جب آپ كی ایك بیٹی اس دنیا سے چلی گئی تو آپ اس كی قبر پر بیٹھ گئے درحالیكہ آپ كی چشم مبارك سے آنسوںبہہ رھے تھے، اور ایك مقام پر جب آپ كی بیٹی كا ایك بیٹامرنے كے نزدیك تھا تو آپ نے گریہ شروع كیا۔ ۳۸
اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے چچا حمزہ كو شھید پایا تو گریہ كیا اور جب آپ كو یہ معلوم هوا كہ جناب حمزہ كو مُثلہ كردیاگیا (یعنی آپ كے ناك وكان اور دوسرے اعضاء كاٹ لئے گئے) تو آپ چیخیں مار مار كر روئے۔ ۳۹
اور جب جناب حمزہ كی شھادت واقع هوئی اور جناب صفیہ دخترعبد المطلب نے جناب حمزہ كے لاشہ كو تلاش كرنا شروع كیا تو انصار نے آپ كو روكا، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ان كو آزاد چھوڑدو، جب جناب صفیہ نے اپنے بھائی كی لاش پائی تو رونا شروع كیا، جس وقت آپ گریہ كرتی تھیں رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی گریہ كرتے تھے اور جب آپ چیخیں مارتی تھیں تو رسول گرامی بھی چیخیں مارتے تھے ۔ ۴۰
جب جناب فاطمہ زھرا = جناب حمزہ كے اوپر گریہ كرتی تھیں توپیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی گریہ كرتے تھے، اسی طرح جب جناب جعفر بن ابی طالب جنگ موتہ میں شھید هوئے تو رسول گرامیجناب جعفر كی زوجہ اسماء بنت عمیس كے پاس گئے اور ان كو تعزیت پیش كی، اس موقع پر جناب فاطمہ زھرا= تشریف لائیں درحالیكہ آپ گریہ كررھی تھیں اور كھتی جاتی تھیں: ”واعماہ“ (ھائے میرے چچا) اس موقع پر حضرت پیغمبر اسلام نے فرمایا كہ جعفر جیسے مَرد پر گریہ كرنا چاہئے، ۴۱
مزید یہ كہ نافع نے ابن عمرسے روایت كی ھے كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ احد سے واپس هوئے تو انصار كی عورتیں اپنے شھید شوھروں پر گریہ كر رھی تھیں اس وقت پیغمبر نے فرمایا حمزہ پر كوئی گریہ كرنے والا نھیں ھے ،یہ كہہ كر آپ سوگئے،جب بیدار هوئے تو دیكھا كہ عورتیں یوں ھی گریہ كر رھی ھیں آپ نے فرمایا: ورتیں آج جو گریہ كریں تو حمزہ پر كریں۔ ۴۲
ابن ہشام او رطبری نے اس سلسلہ میں كھا ھے كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنی عبد الاشھل وظفر كے گھروں میں سے ایك گھر كی طرف گذرے تو وھاں سے جنگ احد میں هوئے شھیدوں پر رونے كی آوازیں سنائی دیں تو اس پر آنحضرت كی آنكھیں بھی آنسووں سے بھرآئیں اور آپ گریہ كرتے هوئے فرماتے تھے: جناب حمزہ پر كوئی رونے والا نھیں،یہ سن كر سعد بن مُعاذ واُسید بن حُضَیر بنی عبد الاشھل كے گھروں میں گئے اور اپنی اپنی عورتوں كو حكم دیا كہ جناب حمزہ پر بھی گریہ كریں۔
اسی طرح ابن اسحاق كا بیان ھے كہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ احد سے مدینہ واپس پهونچے، تو”حَمنَہ دختر جَحش“ راستہ میں ملی اور جب لوگوں نے اس كو اس كے بھائی عبد اللہ ابن جحش كی شھادت كی خبر سنائی تو اس نے كھا: <انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ > اور اس كے لئے خداوندكریم كی بارگاہ میں طلب مغفرت كی، اس بعد كے اس نے اپنے ماموں حمزہ ابن عبد المطلب كی شھادت كی خبر سنی، اس نے پھر وھی آیت پڑھی اور ان كے لئے بھی استغفار كیا، لیكن جب اس كو اس كے شوھر مصعب بن عمیر كی شھادت كی خبر سنائی گئی تو اس نے چیخیں ماریں ،اور جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حمنہ كو اپنے بھائی اور ماموں كی شھادت پر صبر اور اپنے شوھر كی شھادت پر نالہ وشیون كرتے دیكھا تو فرمایا: بیوی كی نظر میں شوھر كی اھمیت كچھ اور ھی هوتی ھے۔ ۴۳
اور جب جناب ابوبكر اس دنیا سے گئے تو جناب عائشہ نے ابوبكر كے لئے نوحہ وگریہ كی مجلس ركھی جب جناب عمر نے عائشہ كو اس كام سے روكا، تو جناب عائشہ او ردیگر عورتوں نے اس بات كو نہ مانا،چنانچہ جناب عمر نے ابوبكر كی بہن ام فروہ كو چند تازیانے بھی مارے، اس كے بعد گریہ كرنے والیعورتیں وھاں سے مجبوراً اٹھ كر چلی گئیں۔ ۴۴

حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی گفتگو اور عورتوں كا گریہ كرنا

واقدی كھتے ھیں كہ جنگ احد میں سعد بن ربیع شھید هوگئے، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور وھاں سے ” حمراء الاسد“ گئے، جابر ابن عبد اللہ كھتے ھیں كہ ایك روز صبح كا وقت تھا میں آنحضرت كی خدمت میں بیٹھا هوا تھا، چنانچہ جنگ احد میں مسلمانوں كے قتل وشھادت كی باتیں هونے لگیں، منجملہ سعد بن ربیع كا ذكر آیا تو اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا كہ اٹھو ! سعد كے گھر چلتے ھیں، جابر كھتے ھیں كہ ھم بیس افراد هونگے جو آنحضرت كے ساتھ سعد كے گھر گئے وھاں پر بیٹھنے كے لئے كوئی فرش وغیرہ بھی نہ تھا چنانچہ سب لوگ زمین پر بیٹھ گئے اس وقت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سعد بن ربیع كا ذكر كیا اور ان كے لئے خدا سے طلب رحمت كی اور فرمایا كہ میں نے خود دیكھا ھے كہ اس روز سعد كے بدن كو نیزوں نے زخمی كرركھا تھا، یھاں تك كہ ان كو شھادت مل گئی، جیسے ھی عورتوں نے یہ كلام سنا تو رونا شروع كردیا، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی آنكھوں سے بھی آنسوجاری هوگئے اور پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان عورتوں كو رونے سے منع نھیں فرمایا۔ ۴۵

اس سلسلہ میں شافعی كا نظریہ

كتاب ”الاُم“ تالیف شافعی میں”بكاء الحیّ علی المیت“ (زندہ كا میت پر گریہ كرنا)كے تحت اس طرح بیان هوا ھے كہ جناب عبد اللہ ابن عمر كی طرف سے جناب عائشہ سے كھا گیا كہ كسی میت پر زندہ كا گریہ كرنا اس پر عذاب كا باعث هوتا ھے، تو جناب عائشہ نے كھا كہ ابن عمر نے جھوٹ نھیں كھا لیكن اس سے غلطی، یا بھول چوك هوئی ھے، (یعنی اصل حدیث یہ ھے كہ)پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے سامنے جب ایك یهودی عورت كا جنازہ آیا در حالیكہ اس كے رشتہ دار اس پر روتے جارھے تھے تو آپ نے فرمایا كہ یہ لوگ رو رھے ھیں جبكہ ان كے رونے كی وجہ سے یہ قبر میں عذاب میں مبتلا ھے۔
ابن عباس كھتے ھیں كہ جب جناب عمر كو ضربت لگی اور ان كا غلام صُھیب رونے لگا اور كہنے لگا:”وا اخیاہ وا صاحباہ“ تو عمر نے اس سے كھا تو روتا ھے جبكہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ھے میت پر اھل خانہ كا گریہ كرنا اس كے لئے عذاب كا باعث هوتا ھے، جناب ابن عباس كھتے ھیں كہ جب عمر اس دنیا سے چلے گئے تو میں نے اس بات كو جناب عائشہ سے دریافت كیا۔ عائشہ نے كھا خدا كی قسم پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس طرح نھیں فرمایا بلكہ آپ نے یہ فرمایا ھے كہ كفار كی میت پر اس كے اھل خانہ كا گریہ اس كے عذاب كو زیادہ كردیتا ھے، اس كے بعد جناب عائشہ نے فرمایا كہ تمھارے لئے قرآن كافی ھے كہ جس میں ارشاد هوتا ھے: <ولا تزر وازةوزر اخریٰ۔> 65 (اور كوئی نفس دوسرے كا بوجھ نھیں اٹھائے گا) س كے بعد جناب ابن عباس نے بھی كھا: <واللّٰہ اضحك وابكی۔> ۴۶
شافعی نے مذكورہ مطالب كو ذكر كرنے كے بعد آیات وروایات كے ذریعہ مذكورہ روایت”ان المیت لیعذب“۔ كے صحیح نہ هونے كو ثابت كیا ھے۔ ۴۷
حوالہ جات

۱. الفتاوی الكبری ج۲ص ۴۳۱۔
۲. الجواب الباھر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔
۳. الجواب الباھر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔
۴. الجواب الباھر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔
۵. رحلہٴ ابن بطوطہ جلد اول ص ۵۸۔
۶. الفتاوی الكبریٰ ج ۲ ص ۲۱۹۔
۷. الجواب الباھر، ص ۴۵۔
۸. الرد علی الاخنائی ص ۲۳، شاید یھی وجہ رھی هو كہ آج كل بقیع اور دوسرے قبرستانوں میں عورتوں كو جانے سے روكا جاتا ھے، صاحب فتح المجید كھتے ھیں (ص۲۲۵) كہ عورتوں كے لئے قبور كی زیارت مستحب نھیں ھے محمد بن عبد الوھاب نے اپنی توحید نامی كتاب میں جناب ابن عباس ۻ سے یہ روایت نقل كی ھے جو عورتیں قبور كی زیارت كے لئے جاتی ھیں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر لعنت كی ھے۔
۹. الجواب الباھر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔
۱۰. الجواب الباھر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔
۱۱. الجواب الباھر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔
۱۲. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۳۰،۳۱۔
۱۳. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۶۶۔
۱۴. كتاب الرد علی الاخنائی ص۳۲۔
۱۵. البدایہ والنھایہ ج ۱۴ ص ۱۲۴۔
۱۶. ان میں سے احمد ابن حنبل كی پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ھے كہ آنحضرت نے فرمایا: ”نھیتكم عن زیارة القبور فزوروھا فان فی زیارتھا عظة وعبرة“(میں پھلے تم كو زیارت سے منع كرتا تھا لیكن اس وقت كھتا هوں كہ قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو كیونكہ قبور كی زیارت سے انسان كو پند او رنصیحت حاصل هوتی ھے) احمد ابن حنبل نے اس حدیث كو چند طریقوں سے نقل كیا، (مسند احمد ابن حنبل ج۵ ص۳۵۶، ۳۵۷،۳۵۹، اور ددوسرے چند مقامات پریہ حدیث نقل ھے)
۱۷. موطاء ص ۳۳۴، طبع دوم، مصر۔
۱۸. صحیح مسلم ج۳ ص ۶۵، سنن ابی داود ج۳ ص ۲۱۲۔
۱۹. شرح جامع صغیر، سیوطی ص ۲۹۸۔
۲۰. فتح المجید ص ۲۵۵۔
۲۱. شفاء الغرام ج ۲ ص ۳۹۷۔
۲۲. وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ج۴ ص۱۳۷۱ سے ۱۴۲۲تك۔
۲۳. الغدیر ج ۵ ص۱۰۹ ۔ اوراس كے بعد ۔
۲۴. المذاھب الاسلامیہ ص ۳۴۳۔
۲۵. سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۵۰۰۔
۲۶. سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۵۰۱۔
۲۷. سخاوی حنفی ،كتاب ”تحفة الاحباب“ ص ۴،۵۔
۲۸. الخصائص الكبریٰ جلد اول ص ۵۴۶،۵۴۷۔
۲۹. سورہ احزاب آیت ۲۴۔
۳۰. كتاب المغازی جلد اول ص ۳۱۳،۳۱
۳۱. صحیح مسلم ج ۳ ص ۵۵، منجملہ یہ حدیث كہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك میت كی قبر پر دفن هونے كے بعد نماز پڑھی اور چار تكبیریں كھیں اور دوسری روایت كے مطابق: آنحضرت (ص)ایك تازہ قبر كے پاس پهونچے اور اس پر نماز پڑھی اور اصحاب نے بھی آپ كے پیچھے صف باندھ لی ۔
۳۲. النھایہ ج ۴ ص۴ ۔
۳۳. نیل الاوطار جلد اول ص ۱۳۶۔
۳۴. موطاء ابن مالك ص ۱۱۲،۱۱۳۔ اس حدیث كو بخاری نے بھی نقل كیا ھے ۔
۳۵. فتح المجید ص ۳۷۳۔
۳۶. مسند احمد، جلد اول ص۴۱،۴۲، مسند عمر، وصحیح بخاری ج۲ ص ۷۹۔
۳۷. منتقی الاخبار، تالیف ابن تیمیہ حنبلی (ابن تیمیہ كے دادا) ھمراہ نیل الاوطار، شوكانی ج۴ ص ۱۶۱۔
۳۸. صحیح بخاری ج۲ ص ۹۶۔
۳۹. ابن عبد البر، كتاب استیعاب جلد اول ص ۲۷۴۔
۴۰. مغازی واقدی جلد اول ص ۲۹۰،” اِذَا بَكَتْ صَفِیِّةُ یَبْكٰی، وَاِذَا نَشَجَتْ یَنْشَجْ“
۴۱. استیعاب جلد اول ص۲۱۲۔
۴۲. مسند احمد ابن حنبل ج۲ ص ۴۰، نُویری كھتے ھیں كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصار كو اپنے شھیدوں پر روتے دیكھا تو آپ نے بھی گریہ كیا اور كھا كہ جناب حمزہ پر كوئی رونے والی نھیں ھے (نھایة الارب ج ۱۷ ص ۱۱۰)
۴۳. سیرة النبی ج ۳ ص ۵۰، تاریخ طبری جلد ۳ ص ۱۴۲۵، حدیث ۱۔
۴۴. تاریخ طبری ج۴ ص ۲۱۳۱، ۲۱۳۲،(حلقہ اول)
۴۵. المغازی جلد اول ص ۳۲۹،۳۳۰،دیار بكری كابیان ھے كہ جناب حمزہ پر نوحہ وگریہ كے بعد سے پیغمبر اكرمنے رونے سے منع كردیا، دوسرے روز انصار كی عورتیں آپ كی خدمت میں آئیں اور كھا كہ ھم نے سنا ھے كہ آپ نے رونے سے منع فرمایا ھے جبكہ ھمیں اپنے مردوں پر رونے سے سكون وآرام كا احساس هوتا ھے، تب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جب تم نوحہ وگریہ كرو تو اپنے چھروں پر طمانچہ نہ مارو اور اپنے چھروں كو نہ نوچو اور اپنے سروں كو نہ منڈواؤ او راپنے گریبان چاك نہ كرو، (تاریخ الخمیس جلد اول ص ۴۴۴)
۴۶. سورہ انعام آیت ۱۶۴۔
۴۷. یہ جملہ سورہ والنجم آیت ۴۴ سے اقتباس ھے۔ <وانّہ ھُوَاضحك واٴبٰكی>،اور یہ كہ اس نے ہنسایا بھی ھے اور رلایا بھی ھے)
۴۸. كتاب الاُمّ شافعی ج۸ ص ۵۳۷۔
Read 1931 times