رمضان المبارک کے آداب و شرائط/ نزول قرآن ، رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ

Rate this item
(0 votes)
رمضان المبارک کے آداب و شرائط/ نزول قرآن ، رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ

رمضان المبارک کا مہینہ نزول قرآن ، رحمتوں  اور برکتوں کا مہینہ ہے ۔ یہ مہینہ عبادت، بندگی ، توبہ و استغفار اور اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔

رمضان المبارک  کے آداب مندرجہ ذیل ہیں :

1۔ چاند کا دیکھنا
اس مہینے کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ اس مبارک مہینے کے چاند کو دیکھا جائے اور اس چیز کو «سنن النبی» اور «تهذیب» شیخ طوسی (ره) نے ذکر کیا ہے کہ چاند کا دیکھنا سنت نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  ہے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ماہ مبارک رمضان کے چاند کو دیکھتے اور اس مہینے کی دعا کو پڑھتے تھے ۔ (1)

2۔ سحری اور افطاری کا کھانا
سحری اور افطاری اس مہینے کی سنت میں شمار ہوتا ہے اور اسی طرح شریعت اسلام میں  «صوم وصال»؛ یعنی ایک روزے کے بعد دوسرا روزہ  بغیر کچھ کھائے پیے منع کیا گیا ہے،ہاں مگر جب کوئی مجبوری ہو یعنی کھانے کے لیے کچھ نہ یا پھر سوئے رہے اور اذان کے بعد آنکھ کھولی تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
شیخ مفید نے کتاب مقنعہ میں لکھا ہے کہ : آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے نقل ہوا ہے «سحرى» کھانا مستحب ہے اگرچہ ایک گھونٹ پانی کا ہی کیوں نہ ہو ۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ذکر ہوا ہے کہ بہترین سحری «کھجور» ہے؛ کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اسے کھاتے تھے ۔ (2)
کتاب سنن النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں جب آپ افطار کرتے تھے تو آپ کی افطاری میں ،حلوہ ،کھجور ،دودھ،روٹی ہوا کرتی تھی اور بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا کہ جب کچھ نہیں ہوتا تھا تو آپ پانی سے روزہ افطار کرتے تھے ۔ (3)
اہم تکتہ: سحری اور افطاری میں حلال کھانے پر توجہ کی جائے تفسیر روح البیان  میں ذکر ہے کہ سحری اور افطاری میں چاہے ایک لقمہ ہی کیوں نہ ہو وہ حلال کا ہونا چاہیے کیونکہ حرام لقمہ ایسا ہے کہ جیسے زہر کھا رہے ہوں۔ (4)

3۔نماز و دعا اور استغفارو صدقہ کا کثرت سے انجام دینا
اس مبارک مہینے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ اس ماہ کو نماز و دعا اور اسی طرح استغفارو صدقہ سے گزارا جائے اور اس کا ذکر سنن النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) میں آیا ہے ۔
سید بن طاوس نے کتاب «اقبال» میں تاریخ نیشابورى  سے روایت نقل کی ہے کہ جب بھی ماہ مبارک رمضان آتا تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چہرے کا رنگ بدل جاتا آپ کا زیادہ و قت نماز و دعا میں گزرتا اور لوگوں کو استغفار کی تاکید کرتے ۔ (5)
کتاب «فقیه» میں روایت نقل ہے کہ: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی ماہ مبارک رمضان آتا تو سارے قیدیوں کو آزاد کر دیتے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے (6)
کتاب کشف الاسرار میں آیا ہے کہ: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: «من صام رمضان و قامه ایمانا و احتسابا غفر له ما تقدّم من ذنبه» جو بھی ماہ رمضان میں روزے رکھے اور اس کی راتوں میں جاگے اور روزہ رکھنے کو فریضہ سمجھے تو خدا اس کےپچھلے تمام  گناہوں کو معاف کر دے گا ۔(7)

اسی طرح خطبہ شعبانیہ میں بھی ذکر ہوا ہے کہ نماز کے وقت دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں اور یہ بہترین وقت ہے دعا کے لیے ،اور خدا اپنے بندوں کی مناجات کو سنتا ہے اور انکی حاجات کو مستجاب کرتا ہے ،آواز آتی ہے کہ اے لوگوں اپنے نفس کو استغفار کے لیے آزار کرو،تمہارے کندھوں بہت بوج ہے اور یہ کندھے وہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں اس لیے استغفار کرو اور سجدہ کرو ،اور جو بھی ایک آیہ کریمہ کی تلاوت کرے گا وہ ایسے ہےکہ جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں پورا قرآن ختم کیا ہو ۔ (8)

4۔ اعضاو جوارح کا روزہ
روزہ کے آداب میں اس کی بھی بہت زیادہ تاکید ہے کہ انسان اعضا و جوارح کا بھی خیال رکھے یعنی ان کا بھی روزہ ہونا چاہیے تفسیر جامع نے کافی ، فقیہ اور تہذیب سے نقل کیا ہے محمد ابن مسلم نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا:جب بھی روزہ رکھو تو تمہارے ہر عضو کا روزہ ہونا چاہیے یعنی کان ، آنکھ ، ہاتھ ، پاؤں  سب کا روزہ ہونا چاہیے ۔ (9)
امام صادق (علیہ السلام )نے فرمایا : روزہ رکھنا ،فقط کھانے پینے کی چیزوں کا روزہ نہیں ہے حضرت عیسی (علیہ السلام) کی ماں مریم (علیھا السلام) نے کہا کہ : «میں نے منت مانی ہے کہ خداوند متعال کی ذات کے لیے روزہ رکھوں » یعنى، میں فقط اور فقط خدا کی مدح کے لیے بولوں گی ۔
ایک مرتبہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے سنا کہ ان کی ازواج میں سے ایک روزے کی حالت میں اپنے خادم کو برا بھلا کہہ رہی ہے تو آپ نے فرمایا کہ : اس کے لیے کھانا لے آؤ تو اس نے کہا نہیں میں روزے سے ہوں تب آپ نے فرمایا کہ: «کیسا روزہ ! اگر روزے سے ہوتی تو ایسے الفاظ سے بات نہ کرتی ،فقط بھوک کا روزہ نہیں ہوتا »۔
امام(علیہ السلام) نے فرمایا:جب بھی روزہ رکھو تو تمہارے ہر عضو کا روزہ ہونا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ بھوک کی حالت میں آنکھ ،کان حرام میں مبتلا ہوں اور فرمایا کہ جس دن روزہ رکھو وہ دن تمہارے باقی دنوں کی طرح نہ ہو ۔ (10)

5۔ماہ مبارک کے آخری عشرے میں خصوصی توجہ
ماہ مبارک رمضان کے آخری دس دنوں میں خصوصی توجہ ہونی چاہیے کہ یہ دس دن اہم اہمیت رکھتے ہیں ان دس دنوں میں خصوصی توجہ دینا سنت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) میں سے ہے اور اعتکاف بھی بیٹھے۔
کافى میں امام صادق (علیہ السلام) سے  روایت ہے کہ:جیسے ہی ماہ مبارک کا آخری عشرہ آتا تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اسے ایک خاص انداز سے گزارتے اپنی بیویوں سے نزدیکی نہ کرتے پوری پوری رات عبادت کرتے ان دس دنوں میں انہیں کوئی فارغ نہیں پاتا تھا ۔ (11)
کتاب «دعائم» میں حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ :ماہ مبارک رمضان کے آخری دس دنوں میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنا بستر جمع کر دیتے تھے اور اپنی کمر کو عبادت کے لیے باندھ دیتے اور جیسے ہی ۲۳ رمضان کی رات آتی تو اپنے گھر والوں کو کہتے خبردار آج کوئی سوئے نا اور کسی کو نیند آنے بھی لگتی تو اس کے منہ پر پانی ڈالتے اور یہی روش حضرت زہراء (سلام اللہ علیھا) کی بھی ہوتی کہ کسی اس رات سونے نہ دیتیں اور کہتی کہ اس رات کھانا کم کھاؤ تاکہ کسی کو نیند نہ آئے اور یہ فرماتیں :محروم ہے وہ انسان جو اس رات کو بھی سوتا ہے ۔ (12) رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اور ان کی اہل (علیھم السلام) نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ اس ماہ کی اہمیت کو درک کریں اور خاص طور پر اس مبارک مہینے کے آخری عشرے کو پوری توجہ سے گزاریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)  طباطبائی، محمد حسین، سنن النبی (ص)، فقهی، محمدهادی، ص 302،ح 343، کتاب فروشى اسلامیه ،تهران، چاپ هفتم، 13788ش.

(2)  وہی، ص 295، ح 333.
(3)  وہی، ص 294- 301.
(4)  آلوسی، تفسیر روح البیان، ج 1،ص 296. قال ابو سلیمان الدارانی قدس سره لأن أصوم النهار و أفطر اللیل على لقمة حلال أحب الى من قیام اللیل و النهار و حرام على شمس التوحید ان تحل قلب عبد فی جوفه لقمة حرام و لا سیما فی وقت الصیام فلیجتنب الصائم أکل الحرام فانه سم مهلک للدین و السنة.
(5)  طباطبایی، محمدحسین، سنن النبی، ص 300، ح 336.
(6) همان، ص 296، ح 335.
(7) میبدی، کشف الأسرار و عدة الأبرار، ج ‏1، ص 488 و 489.
(8) شیخ صدوق، امالى، کمره‏اى، ص 94 و 95.
(9) بروجردی،سید محمد ابراهیم، تفسیر جامع، ج 1، ص 300، انتشارات صدر، تهران، چاپ ششم، 1366ش.
(10) بهبودی، محمد باقر، گزیده کافى، ج ‏3، ص 134و 136، انتشارات علمی و فرهنگی، تهران، چاپ اول، 1363ش.
(11) طباطبائی، محمد حسین، همان، ص 301 و 302،ح 342.
(12)  وہی، ص 296، ح 336.

Read 1879 times