تحریر: سید ثاقب اکبر
اب کے یہ مہینہ دنیا میں عجب حالات میں آیا ہے۔ ایک طرف رمضان کریم، اللہ کریم کا خاص مہینہ ہے، عبادت و مناجات اور دعا و تضرع کا مہینہ اور دوسری طرف سماجی فاصلوں کی تاکید، گھروں میں رہنے پر زور، مساجد میں رونقیں کم، گلیاں اور سڑکیں بہت حد تک سنسان۔ پابندیاں، مجبوریاں، قدغنیں اور تنہائیاں۔ اس ماہ میں، ان دنوں یہ عالم ہے۔ اس مہینے میں کرونا کی وباء سے پوری دنیا میں پیش آنے والے بے شمار اور بے پناہ مسائل ہیں، لیکن ہر طرف سے ایک ہی تلقین ہے: سماجی فاصلہ، Social Distance۔ البتہ اللہ کے بہت سے بندے اس دور اِبتلا میں بھی خیر کے پہلو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور وہ ایسا کیوں نہ کریں کہ خود پروردگار عالم نے فرما رکھا ہے: وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ "بسا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں ناگوار گزرتی ہے جبکہ وہی تمھارے لیے خیر ہوتی ہے۔"(سورہ بقرہ، ۲۱۶) کتنے خدا کے بندے ہیں جو تنہائیوں کی ساعتیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک عارفِ الہیٰ تنہائی میں محوِ راز و نیاز تھے کہ اُن کے کوئی دوست آپہنچے۔ کمرے میں اکیلے بیٹھے دیکھا تو کہنے لگے: تنہا بیٹھے ہو۔ اُنھوں نے سرد آہ کھینچ کے کہا: اب تنہا ہوگیا ہوں۔
قرآن حکیم کی کئی آیات ایسی ہیں، جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی طرف رغبت دلاتی ہیں۔ مثلاً: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً "اپنے پروردگار کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔"(سورہ اعراف، ۵۵) ایک اور خوبصورت آیت دیکھیے: وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ "اپنے پروردگار کو صبح و شام دل ہی دل میں یاد کرو، زاری و خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ اور تم غفلت میں پڑے لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ۔" ہمارے دینی ادب میں اسی کیفیت کو "مناجات" کہتے ہیں۔ یہ لفظ "نجویٰ" سے نکلا ہے، جس کا معنیٰ ہے "سرگوشی۔" آج جبکہ ہنگامے فرو ہوچکے، رفت و آمد محدود ہوچکی، محفل آرائیاں اور مجالسِ نشاط کے سلسلے رُک چکے، پھر ماہ مبارک بھی آگیا ہے اور اللہ والوں کے لیے مناجات اور خدا کو تنہائی میں پکارنے کا ایک موقع بھی اپنے ساتھ لے آیا ہے۔ ہم اپنے مذہبی ماحول میں دیکھتے ہیں کہ اجتماعی عبادات پر بہت زور ہے۔ محافل دعا اور مجالس ذکر برپا ہوتی رہتی ہیں۔ شب ہائے قدر میں بھی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ میلاد نبوی ﷺ اور ذکر اہل بیتؑ کی محافل و مجالس کا بھی ایک وسیع سلسلہ ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر شہرِ اعتکاف کا اہتمام۔
ان میں سے بہت سی محفلیں اور مجلسیں نہایت اہم ہیں، لیکن اجتماعیت کے اس تصور نے تنہائی کی عبادتوں اور ضرورت کے تصور کو گہنا دیا ہے۔ ہمیں ہر معاملے میں اعتدال کا سبق دیا گیا ہے۔ اعتکاف کا تو تصور ہی تنہائی میں ذکر و فکر سے عبارت ہے۔ اس کے لیے بھی جب شہر بسا دیئے جائیں اور اسے اجتماعی عبادت کی شکل دے دی جائے تو "عبادت" تو شاید رہ جائے، لیکن اعتکاف کے مقاصد اس سے پورے نہیں ہوں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے خاص بندے جن میں انبیاء پیش پیش ہیں، ایسے مواقع تلاش کرتے تھے کہ انہیں تنہائی میں اپنے پروردگار کے ساتھ محفل ذکر و فکر جمانے کی مہلت مل جائے۔ وہ تنہائی میں، یکسو ہو کر اپنے اللہ کو یاد کریں۔ توبہ و انابت، استغفار و استمداد، دعا و مناجات اور تضرع و زاری کے لیے تنہائی کی چند گھڑیاں درکار ہوتی ہیں۔ نماز تہجد میں ایک یہ مقصد بھی کار فرما ہے۔ نبی کریم ﷺ کا اعلان بعثت سے پہلے غار حرا میں جانا اور اپنے اللہ سے لَو لگانا، ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ بڑے بڑے عرفاء اور علماء کی گوشہ نشینیاں بلکہ پہاڑوں اور غاروں میں جاکر عبادت اور غور و فکر کرنا اور پھر معارف و دانش اور حکمت و دانائی کے جواہر پارے لے کر بندگانِ خدا کے پاس آنا، ہماری کتابوں میں مذکور و مرقوم ہے۔ ہم تو یہاں تک جانتے ہیں کہ بہت سی اہم علمی و فقہی کتابیں، تفاسیر اور ادب پارے زندان میں تخلیق پائے ہیں۔ تنہائیوں کی برکات کے کتنے پہلو ہیں، جن سے بہت سے لوگ بے خبر ہیں۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بارے میں مروی ہے کہ وہ زندان میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ کا یہ کہہ کر شکر بجا لائے کہ "پروردگارا! میری کتنی آرزو تھی کہ میں جی بھر کر تیری عبادت کروں، تو نے مجھے یہ موقع عطا فرمایا ہے۔" علامہ اقبال کا سحر خیزی کی حوالے سے یہ شعر بہت شہرت رکھتا ہے:
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
اللہ تعالیٰ اس ماہ ِمبارک میں دستیاب ہماری ان تنہائیوں کو اپنی یاد سے آباد کر دے، ہماری غفلتوں کو دُور کر دے، ہمارے دلوں کو اپنے ساتھ جوڑ لے، اپنی محبت سے ہمارے دل معمور کر دے۔ یا اللہ! ہمیں بھی اپنے اُن بندوں کے ساتھ ملحق کر دے، جو تجھے چپکے چپکے پکارتے تھے، گریہ و زاری کے ساتھ اور تیری یاد سے اپنے سینوں کو آباد رکھتے تھے۔ تیرے بندوں کی مناجات اور دعاؤں کے خزانے ہمارے پاس ہیں۔ قرآن حکیم جو تیرے نبیﷺ کے سینے پر نازل ہوا اور اسی مہینے میں نازل ہوا، جو تیری حبل ِ متین ہے، ہمارے پاس ہے۔ نبی کریمﷺ اور اُن کے جانشینوں کی دعاؤں کے خزانے ہمارے پاس ہیں۔ ہم صحیفہ کاملہ جیسی دعاؤں کے وارث ہیں۔ ہمیں ان کا حقیقی حامل و وراث بنا دے۔ اس مہینے میں ہماری توبہ قبول فرما۔ اپنے بندوں پر مہربانی فرما اور کرونا کی اس وبا سے اپنے بندوں کو بیداری کے ساتھ اور خیر کے عزم کے ساتھ نجات دے۔ اپنی خاص رحمتوں کے ساتھ "یاارحم الراحمین۔"
ماہ مبارک، عبادت اور تنہائی
Published in
نظریات و دینی مقالے