تحریر: مظفر حسین کرمانی
انسان کو جو باقی مخلوقات سے ممتاز کرنے والی چیزیں ہیں ان میں سے ایک اسکا صاحب ارادہ ہونا ہے، انسان جو عمل، سوچ و حرکت انجام دیتا یے اسکی انجام دہی اسکے ارادہ کرنے سے ہی ہوتی ہے، بقیہ مخلوقات کا اگر ہم مشاہدہ کریں تو وہ ایسے نہیں ہیں، یعنی یوں نہیں ہے کہ وہ کسی عمل کا ارادہ کریں، اور پھر اسے انجام دیں بلکہ غریزی و طبیعی ہدایات کے سبب وہ کوئی بھی فعل انجام دیتے ہیں..
لیکن چونکہ انسان عقل و شعور رکھتا ہے اور انکا تقاضا یہ ہے کہ وہ صاحب ارادہ بھی ہو، اگر اسے قوت ارادہ سے مفقود رکھا جائے تو بجائے اسکے کہ وہ کسی شئی کے درست ہونے کا ادارک کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ شئی بہتر ہے لیکن اس کے لئے حرکت نہیں کر سکتا۔
یا کسی شئی کو برا سمجھتا ہے لیکن اسے ترک نہیں کرسکتا یا خود کو اس سے محفوظ نہیں رکھ سکتا، خود اس شئی کے درست و غلط کی تشخیص دینے کے لئے جو سوچ و بچار کرتا یے وہ خود ایک ارادے کے تحت انجام پاتی ہے...اللہ تعالی نے انسان کو بہت ہی عالی و نفیس نعمتوں سے نوازا ہے، جس کا خود اسے علم نہیں ہے، ہمیں صرف وہ نعمتیں سمجھ میں آتی ہیں جو موٹی موٹی ہوں،، لیکن وہ نعمتیں جو ظریف و نفیس ہیں انکا ادراک نہیں کر پاتے اور حقیقی معنوں میں انسان کی اصل و بڑی نعمتیں جو اسے خدا کی طرف سے عطا ہوئی ہیں وہ یہی نفیس نعمتیں ہیں...
ارادہ:
انسان کی کیفیت وجودی و نفسانی جو اسے کسی بھی سوچ و عمل کی انجام دہی پر اسے ابھارتی ہے۔ انسان بعض اوقات بہت سی چیزوں کو درست گردانتا ہے مگر انہیں انجام نہیں دیتا، اسکی آرزو ہوتی ہے کہ وہ الٰہی انسان بنے جسکی ذات، اعمال و تفکر کا محور فقط اللہ کی ذات ہو مگر یہ اس سے ہو نہیں پاتا، یہ اس لئے کہ اگرچہ اسکی آرزو ہے و ارادہ بھی کرتا ہے مگر اسکا ارادہ اسکے عمل کی انجام دہی میں اسکا محرک (حرکت میں لانے والا) نہیں بن پاتا.. انسان کے وجود میں بہت سی قوتیں ہیں جن کے ذریعے ہماری شخصیت بنتی ہے لیکن ہم خود اس سے آگاہ نہیں ہوتے۔ اصلا اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ یہ جو شخصیت وجود میں آئی ہے اسکے عوامل و اسباب کیا ہیں۔
انسان کے وجود میں پروردگار کی طرف سے عقل، فطرت، نفس امارہ، غرائز و شہوات رکھی گئی ہیں اور باہر و بیرون سے بھی مختلف عوامل ہوتے ہیں مثلا گھرانہ، خاندان، دوستان و معاشرہ، یہ سب ملکر انسان کی شخصیت کو تشکیل دیتے ہیں، اگر انسان عقل و فطرت کے تابع ہو و اپنے نفس کو تمرین کرائی ہو، انکے مطابق چلنے کی تو اسکا ہر ارادہ الٰہی ہوگا یعنی اسکی ہر حرکت حکم خدا کے تحت انجام پائے گی لیکن اگر اسکے برعکس انسان کے وجود میں شہوات و نفس امارہ غالب ہو تو اسکا ارادہ انہی کے تابع ہوگا اگرچہ وہ ان سے بعض اوقات بیزاری کا اظہار کرے، لیکن چونکہ اس نے اپنے وجود کو انکے فرامین کے مطابق چلنے کی مشق و تمرین کرائی ہے تو اس کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ ان سے چھٹکارا پا سکے، اگر ان سے لاتعلقی کا ارادہ کرے گا بھی تو وہ بہت ہی ضعیف ہوگا۔
اسی طرح بیرونی عوامل بھی انسان کی شخصیت سازی و اسکے ارادوں پر حاکم ہوتے ہیں، مثلا آپ کا دوست یا سہیلی، اگر آپ نے ایسے فرد کو اپنا دوست بنایا ہے جس کے وجود کا پیکر شہوات و نفس امارہ یا معاشرے میں موجود فاسد نظریات سے تشکیل پایا ہے تو خواہ نخواہ وہ آپ پر بھی اثر انداز ہوگا،، اسی لئے قرآن و آئمہ معصومین علیہم السلام نے دوستی کے معیار ذکر کئے ہیں کہ کن کو انسان اپنا دوست بنائے وگرنہ روز قیامت انہی دوستوں کی دوستی پر شکوہ کرے گا کہ کاش اسے دوست نا بنایا ہوتا...ماہ رمضان جہاں اپنے ساتھ بہت ساری برکات لیکر آتا ہے وہاں اسکی ایک برکت یہ ہے کہ اسکے طفیل انسان کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے ارداے کو مضبوط بنائے و ان فاسد و غلط عادتوں سے خود کو بچائے و چھڑائے جنکا وہ خوگر و عادی ہو گیا ہے۔
عام دنوں میں انسان کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی کسی عادت یا گناہ و غلط کام کو ترک کرے جسے ترک کرنے کا وہ ارادہ رکھتا ہے مگر کر نہیں پاتا، یہ ماہ ان اعمال و افکار سے جان چھڑانے کیلئے بہترین فرصت ہے۔ یہ ماہ درحقیقت انسان کے نفس کو مشق کرانے کا مہینہ ہے، انسان کے سامنے اسکی پسندیدہ غذا ہوتی ہے مگر وہ اسے ہاتھ نہیں لگاتا، کسی غلط عمل کو انجام دینے کی آرزو کرتا ہے مگر اس سے خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی ماہ ہے جس میں وہ بندہ بھی جس نے پورا سال خود کو دیگر چیزوں میں سرگرم رکھا ہوتا ہے وہ بھی اس ماہ میں اللہ کی جانب رجوع کرتا ہے، اگر ہم اس ماہ اپنے نفس کو تمرین کرائیں فرامین خدا کے تحت چلنے کی و اپنے ارادے کو ارادہ الٰہی کے مطابق کرنے کی تو یقینا ہم کامیاب ہونگے، اور اسکے بعد اپنی باقی زندگی بھی اسکے بھیجے ہوئے قوانین کے ماتحت گزار پائیں گے اور بے شک اللہ ہماری اس کام میں مدد کرے گا... اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس ماہ کی برکات کو سمجھنے و اس سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ماہ رمضان ارادے کی مضبوطی کا مہینہ
Published in
نظریات و دینی مقالے