عصر حاضر میں قیام حسینیؑ کے استمرار کیلئے معاشرتی اور انسانی علوم میں تبدیلی کی ضرورت(1)

Rate this item
(0 votes)
عصر حاضر میں قیام حسینیؑ کے استمرار کیلئے معاشرتی اور انسانی علوم میں تبدیلی کی ضرورت(1)

تحریر: پیمان محمدی[1]،  
تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی گریجویٹ

درحقیقت ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ ملک کے اندر انسانی و معاشرتی علوم میں ایک بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسروں کے فکری، علمی اور تحقیقی کام سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھیں۔ نہیں، بعض معاشرتی و انسانی علوم اہل مغرب کی ایجاد ہیں۔ انہوں نے اس میدان میں کام کیا ہے، سوچ بچار کی ہے اور مطالعہ کیا ہے، ان کے مطالعہ سے استفادہ کرنا چاہیئے۔ بات یہ ہے کہ  مغربی معاشرتی و انسانی علوم کی بنیاد، غیر الہیٰ ہے، غیر توحیدی اور مادی بنیاد ہے کہ جو اسلامی اصولوں کے ساتھ سازگار نہیں ہے، دینی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ معاشرتی علوم اس وقت صحیح، مفید اور انسان کی درست تربیت کرنے والے ہوں گے اور فرد اور معاشرے کو نفع پہنچائیں گے، جب ان کی اساس اور بنیاد الہیٰ تفکّر اور الہیٰ نطریہ کائنات پر قائم ہو۔ آج موجودہ صورتحال میں یہ چیز معاشرتی علوم میں موجود نہیں ہے، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ یہ کام ایسا نہیں ہے کہ جس میں جلدی کی جائے۔ یہ ایک طویل المدت کام ہے۔ ایک اہم کا ہے۔(ایران کے اساتذہ اور یونیورسٹی کے طلباء سے ملاقات  کے موقع پر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے بیانات۱۱-۰۴-۱۳۹۳)

دنیا میں موجود ٹیکنالوجی، علم، اس کے نواقص اور خلاؤں کے متعلق تحقیق و بررسی کا موضوع ان موضوعات میں سے ہے کہ جس نے کئی عشروں سے یونیورسٹی کے محققین اور طلابِ علومِ دینی کو مشغول کر رکھا ہے۔ یہ موضوع خاص طور پر معاشرتی و انسانی علوم کے شعبہ میں بھی قابلِ غور رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مغربی معاشرتی و انسانی علوم، غیر مغربی معاشروں میں قابلِ استفادہ ہیں یا نہیں۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سے مفکرین، خاص طور پر ایران اور مصر جیسے ممالک کے دانشمندوں نے اس بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی ہے۔ واضح طور پر اس موضوع نے تین طرح کے ردعمل ایجاد کئے  ہیں:

1۔ پہلا گروہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اس کے قائل ہیں کہ علم اور ٹیکناجی مغربی و غیر مغربی نہیں ہے، اصولی طور پر نہ کوئی دینی علم ہے اور نہ کوئی سیکولر یا علم ِدین کی ضد ہے۔ اس نظریہ کے مطابق علم، علم ہے اور ٹیکنالوجی، ٹیکنالوجی ہے، بطور مثال ہمارے پاس کوئی اسلامی معاشرہ شناس ہے، نہ کوئی غیر اسلامی معاشرہ شناس یا نہ ہی کوئی سائیکالوجی ہے اور نہ ہی اسلامی اقتصاد و غیر اسلامی اقتصاد ہے۔ سائیکالوجی سائکالوجی ہے، اس کا مغربی یا مشرقی ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے، یونیورسٹی کی زبان میں علم ارزش اور راہ و روش سے خالی ہوتا ہے۔

2۔ دانشوروں کا دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ مغرب کی ہر چیز منفی و محکوم نہیں ہے، ان کی مفید علمی پیش رفت اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکتے ہیں اور مضر و نقصان دہ ترقی سے دور رہیں۔ اس نظریہ کے مطابق مغرب، اچھے مغرب اور برے مغرب کو شامل ہے، اچھے مغرب سے فائدہ اٹھانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ البتہ اس نظریئے کے مقدمات پہلے نظریئے کے مقدمات کے مشابہ ہیں۔ اس گروہ کا اہم اور مشترک مقدمہ یہ ہے کہ بطور کلی ایجاد شدہ علم اور ٹیکنالوجی کی ماہیت اور بطور خاص معاشرتی و انسانی علوم، علمی معرفت اور مغربی سیکولر دانشوروں کے نظریہ کے زیر اثر قرار نہیں پاتے۔

3۔ تیسرا گروہ ان افراد پر مشتمل ہے کہ جو مغربی معاشرتی و انسانی علوم کو ان کی علمی معرفت[2]  اور ان کے غیر توحیدی نظریئے کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور ضروری موارد کے علاوہ اس کا استعمال جائز نہیں سمجھتے ہیں۔ دانشوروں کا آخری گروہ انجینئرنگ علوم کی مثال دیتا ہے کہ ناکارہ چیز کا نتیجہ بیکار اور باطل ہوتا ہے۔ [3]۔ یہ گروہ اس بات کا  قائل ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے بھی اسلامی ہوں، ان کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی اسلامی ہو اور اسی طرح وہ نظریات جو ملک کو ادارہ کرنے میں استعمال ہوتے ہیں، وہ بھی اسلامی ہونے چاہئیں۔

اس حصے میں مذکورہ بالا نظریات کی جانچ پرکھ اور ان پر تنقید کرنے سے پہلے ایک نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض افکار و نظریات کو قبول کرنے سے نہ تو ان تمام دوسرے نظریات کی نفی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی خلاف ورزی۔ مثال کے طور پر جب ایران میں اعلیٰ تعلیم[4] میں اضافہ ہوا اور آخری بیس سالوں میں پوسٹ گریجویٹ (ماسٹرز اور پی اچ ڈی) کورسز کے فارغ التحصیل افراد کی تعداد بڑھی تو ضرورت اس بات کا باعث بنی کہ اس ملک (ایران) میں مغربی معاشرتی و انسانی علوم سے آگاہی اور ان کی تعلیم حاصل کرنے اور مغربی دانشوروں کی آواز سننے میں اضافہ ہو۔(دوسرا نظریہ)۔ جب یہ تعلیمی دورانیہ مرحلہ تکمیل کو پہنچا اور اساتذہ اور یونیورسٹی اسٹوڈنٹس نے انسانی و اجتماعی علوم کے میدان میں مہارت، خلاقیت اور علمی ایجادات پر دسترسی حاصل کر لی تو پھر یہ توقع ہے کہ افراد کا یہ گروہ اسلامی اور داخلی انسانی و معاشرتی علوم کی تولید کے لیے قدم اٹھائے۔(تیسرا نظریہ)۔

اسی بنا پر ضروری نہیں ہے کہ کسی ایک نظریئے کو ہر حال میں قبول کریں، بلکہ اسٹوڈنٹس، اساتید اور ملک کے طلباء کی توانائی، مہارت اور پختگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکن ہے کہ دوسرے اور تیسرے نظریئے میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں اور تکامل کے مراحل طے کرنے اور قدرت حاصل کرنے کے بعد تیسرے نظریئے کی طرف رجحان پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ موضوع ایک ٹیکنیکل پارٹ بنانے کے مشابہ ہے۔ ممکن ہے کہ ایک ملک کے اندر ٹیکنیکل پارٹس ایجاد کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو، لہذا وہ پہلے اسے درآمد کرے گا، ایک مدت گزارنے کے بعد جب پیداوار کی صلاحیت پیدا کرلی تو اس پارٹ کی ریورس انجینئرنگ کرے گا اور اسے بنا لے گا۔ ممکن ہے کہ مکمل مہارت حاصل کرنے اور تحقیق و ترقی[5] کرنے کے بعد بہتر پارٹس ڈیزائن کرکے انہیں مارکیٹ میں لے آئے اور آخرکار اس میدان میں معروف برآمد کرنے والے میں تبدیل ہو جائے۔ انسانی و معاشرتی علوم کا شعبہ بھی اسی طرح سے ہے۔ ممکن ہے کہ ایک معاشرہ وقتی طور پر مجبوری کے تحت مغربی نظریات سے استفادہ کرے اور پھر قدرت حاصل کرنے کے بعد خود توحیدی و الہیٰ نظریات پیش کرنے کی جانب رخ کرے۔

گفتگو کے اس حصے میں، قرآن اور روایات اہل بیتؑ کی نگاہ سے پہلے نظریئے کی جانچ پرکھ اور اس پر تنقید کریں گے۔ یہ نظریہ اس بات کا قائل ہے کہ علم، علم ہے اور ٹیکنالوجی، ٹیکنالوجی۔ یہ نظریہ ایک مغربی معاشرے اور ایک مغربی و سیکولر دانشور کے تولید شدہ انسانی و معاشرتی علوم اور ایک عابد و الہیٰ مفکر کے تولید شدہ علوم کے درمیان کسی فرق کا قائل نہیں ہے۔ شاید تھوڑا سا صرف نظر کرتے ہوئے کسی حد تک قدرتی، ٹکنیکل اور انجینئرنگ علوم کے بارے میں اس استدلال کو قبول کیا جا سکتا ہے، مگر انسانی و معاشرتی علوم کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔

سب سے پہلے روایاتِ اہل بیتؑ کی بنا پر انسان اور اور معاشروں کی تقدیر و سرنوشت سے مربوط علم کو دو حصوں یعنی صحیح و غیر صحیح علم میں تقسیم کرسکتے ہیں اور صحیح علم کا منبع صرف اہل بیتؑ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ البتہ دوسری درجہ بندیاں جیسا کہ مفید اور غیر مفید علم، علم و فضل وغیرہ بھی کلام اہل بیتؑ میں موجود ہیں کہ ہر ایک کے بارے میں دقیق تحقیق و بررسی کسی اور موقع کی متقاضی ہے۔ امام باقرؑ فرماتے ہیں: ”شَرِّقاً و غرِّباً فَلا تَجِدَانَ عِلماً صَحِیحاً اِلّا شَیئاً خَرَجَ مِن عِندِنَا اَھْلَ الْبَیْتِ“[6]۔ "مشرق جائیں اور مغرب جائیں، آپ صحیح علم حاصل نہیں کرسکتے سوائے اس چیز کے جو  ہم اہل بیتؑ سے صادر ہوئی ہو۔" یہ روایت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کم از کم انسانی معاشرے اور انسان سے مربوط علوم کہ جن کا واسطہ انسان کی دنیوی و اخروی تقدیر سے ہے، کا منبع ضروری ہے کہ اہل بیت ؑ کی گفتگو پر مبنی ہو۔ اس بنا پر روایات کے مطابق معصومین ؑ کی تعلیمات پہلے نظریئے کے منافی اور معارض ہیں۔

قرآن سورہ مبارکہ نساء میں فرماتا ہے: وَ لَنْ یَّجعَلَ اللہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً۔ "اللہ ہرگز کافروں کو مؤمنوں پر غالب نہیں آنے دے گا۔"[7]۔ یہ آیت ”نفی سبیل“ کے نام سے مشہور ہے کہ جو عملی طور پر مؤمنین کو سختی سے منع کرتی ہے کہ وہ کافروں کے تسلط اور غلبے کو قبول نہ کریں۔ بعض اسلامی ممالک جیسا کہ ایران میں یہ آیت قانون اساسی کی بعض شقوں جیسے شق نمبر ۱۵۲ و ۱۵۳ کی تشکیل کا منبع ہے۔ البتہ اس کی کوئی وجہ نہیں بنتی کہ ہم اس آیت کو مؤمنین پر کفار کے معاشی اور فوجی غلبے میں محدود کریں اور ثقافتی غلبے یعنی اصطلاحاً نرم تسلط کو اس سے مستثنیٰ کریں۔ آیت اللہ العظمیٰ خمینی ؒ اس آیت کے حالات اور وسعت کو کسی خاص میدان میں محدود نہیں سمجھتے اور قرآن کے مشہور مفسر علامہ طباطائی بھی اسے کسی خاص زمانے میں محدود نہیں جانتے۔ امام خمینیؒ اپنی کتاب البیع میں فرماتے ہیں: بل یمکن ان یکون لہ وجہ سیاسی، ھو عطف نظر المسلمین الی لزوم الخروج عن سلطۃ الکفار بأیّۃ وسیلۃ ممکنۃ؛ ممکن ہے اس آیت ”آیت نفی سبیل“ پر کوئی سیاسی وجہ استوار ہو، منتہی اس آیت کا اس طرف بھی رجحان ہے کہ جس طرح سے بھی ہوسکے، مسلمان کفار کے غلبے اور تسلط سے آزاد ہوں۔[8]

علامہ طباطبائیؒ تفسیر المیزان میں تاکید فرماتے ہیں کہ یہ حکم کسی خاص زمانے میں محدود نہیں ہے۔ اس آیت میں یہ جو فرمایا ہے کہ خداوند متعال ہرگز کافروں کو مؤمنین پر فوقیت نہیں دیتا ہے اور نہ ہی ان پر مسلط کرتا ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ آج سے حکم مؤمنین کے فائدے اور کفار کے نقصان میں ہے اور ہمیشہ کے لیے ایسا ہی ہوگا۔[9] اس مقدمے کے پیش نظر، جب انسانی و معاشرتی علوم کا نقشہ، مؤمنین پر تسلط اور فوقیت حاصل کرنے اور انہیں مغربی تہذیب و تمدن میں ڈھالنے کی غرض سے تیار کیا جائے، تو یہ ”سبیل“ کا مصداق ہے اور آیت شریفہ ”نفی سبیل“ کے مطابق فقہی اعتبار سے اس سے اجتناب کرنا واجب ہے۔ اس اجتناب کی ایک غرض انسانی و معاشرتی علوم میں ایسے نظریات کی طرف رجوع نہ کرنا یا ان پر بھروسہ نہ کرنا ہے اور اس کی اہم ترین وجہ، مغربی نظریات کی جگہ ایسے نظریات کا نقشہ تیار کرنا، انہیں وسعت دینا اور پیش کرنا ہے کہ جن کی بنیاد الہیٰ و توحیدی اصولوں کے مطابق ہو؛ جسے ”معاشرتی و انسانی علوم میں انقلاب و تحول“ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہم اگلے پہرے میں مختصر شواہد کی طرف اشارہ کریں گے کہ جو مغرب میں معاشرتی و انسانی علوم کی جہت کو واضح کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1]۔ This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
[2]Epistemology 
[3]۔ Garbage in, Garbage out (waste input carries waste output)
[4]۔ Higher education
[5]۔ R&D
[6]۔ اصول کافی، ج ۲، ص۲۵۱، ح ۳.
[7]۔ سورہ نساء: آیت۱۴۱
[8]۔ کتاب البیع، ج.2، ص. 722.
[9]۔ المیزان، ج. 5، ص. 189.
Read 1570 times