اسلام وہ عظیم مذہب ہے جو امن و سلامتی، محبت اور انسانی حقوق کی پاسداری کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام کے امن و سلامتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کیلئے نام ہی "اسلام" پسند کیا۔ اسلام اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے محض "امن و سلامتی" ہے۔ لہذا اسلام وہ واحد مذہب ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی، محبت و رواداری، اعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام نے ہمیں روحانیت، اخلاق انسانی، حقوق بشریت اور احترام انسانیت کا درس دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں ظلم اور ظالم کے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ و جذبہ دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں مشکلات پر صبر کرنے کا درس دیا ہے۔ آج پوری دنیا امن اور انسانی حقوق کے نام پر اکٹھی ہو رہی ہے لیکن ہم فرقہ واریت، نسلی و لسانی و علاقائی تعصبات، انتہاء پسندی، دہشتگردی، جنونیت، پسماندگی اور جہالت جیسی بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ ہم نے مذہب کے پیغام کو بھلا کر اپنے اوپر مذہبی ہونے کی مہر تو لگوا لی، لیکن اس مہر کے ساتھ ہم نے امن و سلامتی کی بجائے شدت پسندی کو ترجیح دی، ہم نے محبت کی بجائے نفرت کو ترجیح دی۔
یہ نفرت کہیں مذہبی تعصب کے نام پر تو کہیں علاقائی تعصب کے نام پر، یہ نفرت کہیں عزت کے نام پر تو کہیں دولت کے نام پر، غرضیکہ ہم نے مذہب کے پیغام امن و محبت کو بھلا دیا۔ دین اسلام ہمیں انسانیت کا احترام اور انسانیت سے محبت کرنا سکھاتا ہے۔ محبت کرنا کیونکہ صفت حسن ہے۔ اگر اس صفت کو انسان ٹھکرائے گا تو نفرت وجود میں آئے گی، خواہ وہ کسی ذریعے سے بھی ہو، دولت کی بناء پر ہو یا اناء پرستی کی بناء پر اور پھر یہی نفرت شدت پسندی کی طرف لے جائیگی۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے اس صفت کا مرکز و محور اپنی ذات کو بنایا، کیونکہ خدا تعالیٰ سے محبت ہی انسان کو امن و سکون اور احترام انسانیت سکھاتی ہے۔ اسی صفت کی بناء پر انسان مکمل طور پر انسان کہلاتا ہے۔ اگر یہ صفت ختم ہو جائے تو انسانیت ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ہر طرف قتل و غارت اور درندگی کا بازار گرم ہوتا دکھائی دیتا ہے، لہذا اسلام کا پیغام امن و محبت کا پیغام ہے۔
وطن عزیز جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا، اس کا اصول بھی امن و سلامتی اور محبت ہے۔ اس لئے برصغیر کو سرزمین اولیاء و سرزمین محبت کہا جاتا ہے۔ اس سرزمین پر مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی سنہری تاریخ موجود ہے۔ مگر استعمار اور سیکولرزم کی آمد کے بعد تقسیم برصغیر کے وقت اس مذہبی رواداری اور بھائی چارے کو نفرتوں میں تبدیل کیا گیا، جس سے شدت پسندی، دہشتگردی اور قتل و غارت کی فصل پکتی رہی اور جس کا پھل مہذب معاشروں کی جدائی کی صورت میں نکلتا رہا۔ پھر اسلام کے نام پر مسلمانوں میں تکفیر کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا، جس سے قتل و غارت بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ استعمار اور سیکولر قوتوں کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مذہب اسلام کو شدت پسند اور دہشتگردانہ مذہب بنایا جائے، لیکن جو چیز ان کے مقابل آئی وہ مذہب اسلام کا پیغام امن و محبت اور رسول ختمی مرتبت صلی الله علیه وآله وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ اس لئے اسرائیل و امریکہ جیسی عالمی طاقتیں اسلام کے نام پر دہشتگردی پھیلاتی رہیں۔
کبھی انہی طاقتوں نے وہابیت کو استعمال کیا تو کبھی داعش جیسی درندہ صفت تنظیمیں بنائی۔ پھر یہی طاقتیں چند شدت پسند افراد کے ذریعے قتل و غارت اور دہشتگردی کروا کر اسلام کو شدت پسندی سے ملحق کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انہی کے ذیل میں میکرون جیسے لوگ بھی نظر آنے لگے، جنہوں نے برملا اسلام کو شدت پسند کہا اور اس کے بعد یہ طاقتیں رسول ختمی مرتبت صلی الله عليه وآله وسلم کی بھی توہین کرتی نظر آنے لگیں۔ اب یہ صیہونی طاقتیں اسلام کے خلاف دلائل اکٹھے کرکے اقوام عالم کو اسلام سے متنفر کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ طاقتیں اپنی ناکامیوں کا رونا رو رہی ہیں، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب جس میں امن، محبت اور روحانیت شامل ہو، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جبکہ مذہب اسلام واحد مذہب ہے، جس میں سب سے زیادہ امن، محبت اور روحانیت موجود ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کو کسی بھی جہت اور پہلو سے دیکھیں تو ہمیں ہر جگہ فراوانی کے ساتھ محبت، رحمت، شفقت، نرمی، احسان اور عفو و درگزر کا عنصر ہی غالب نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عفو و درگزر، محبت، رحمت، امن و سلامتی ہی سارا دین ہے۔
بلاشبہ اتنی محبت، اتنی رحمت اسلام کے علاوہ کسی مذہب میں نہیں۔ افسوس ہم لوگوں نے اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا تو دور، ان تعلیمات کا مطالعہ کرنا بھی چھوڑ دیا۔ پھر بات وہی ہے کہ ہم نے اپنے اوپر مذہب اسلام کی مہر تو لگوا لی، لیکن اسلام کی تعلیمات سے روگردانی کرتے رہے۔ اس لئے ہمارا معاشرہ شدت پسندی سے قتل و غارت کی طرف بڑھتا رہا اور عالمی طاقتیں بھی محبت بھرے اسلام کے ساتھ کھل کر سازش کرتی رہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم ظلم، نفرت، شدت پسندی، فرقہ واریت، نسلی و علاقائی تعصبات اور بے اعتدالیوں سے اپنا ہاتھ روک لیں اور امن و محبت کو فروغ دیں۔ جب جہالت و زر یکجا ہو جائے تو اہل علم و شعور کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کو محبت اور امن کے ساتھ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مذہبی رواداری اور بھائی چارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ عالمی طاقتیں ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں اور ایک بہترین صالح معاشرہ قائم ہوسکے۔
تحریر: شاہد عباس ہادی