جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات(2)

Rate this item
(0 votes)
جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات(2)

مسئلہ کشمیر پر دوسروں کو سننے اور سمجھنے کے حوالے سے تین پروگرام ہوچکے ہیں۔ سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کے پہلے آنلائن سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلیمن کے سیکرٹری برائے امورِ خارجہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی (ایران) نے کہا کہ  ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے ہم اس مسئلے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے ساتھ دینی تعلق کے علاوہ ہمارا جغرافیائی، علاقائی اور آئندہ نسلوں کی سلامتی اور ترقی کا تعلق بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتیں جو مرضی ہے کرتی رہیں، ہمیں انسانی، اسلامی اور عوامی سطح پر اس مسئلے کے حل کیلئے آواز اٹھاتے رہنا چاہیئے۔  یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ ہم ساری ذمہ داری حکمرانوں پر ڈال کر اپنی جان نہیں چھڑوا سکتے۔

اس سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان جمہوری اتحاد پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر حفیظ الرحمان (پاکستان) نے اس مسئلے پر اپنی پارٹی کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہٹ دھرمی اور ضد کا جواب بھی اگر ہٹ دھرمی اور ضد سے دیا جائے گا تو اس سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ انہوں مسئلہ کشمیر کے سارے فریقوں کو لچک دکھانے کا احساس دلایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، کشمیری اور ہندوستانی مساوی طور پر اس مسئلے کو اپنا ایک اہم مسئلہ تسلیم کریں اور اس کو حل کرنے کیلئے ہر طرف سے ممکنہ نرمی دکھائی جانی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے بچپن سے اب تک عالمِ اسلام اور خصوصاً اس منطقے کی جو حالت دیکھی ہے، اگر ہم وہی اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کرنا چاہتے ہیں تو یہ انتہائی کم فہمی اور زیادتی ہے۔

سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کا دوسرا آنلائن سیشن 12 نومبر2020ء کو ہوا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے معروف محقق اور کالم نگار محترم طاہر یسین طاہر (پاکستان) نے کہا کہ مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں اپنے حقیقی مسائل کی خبر ہی نہیں۔ اس موقع پر انہوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی نرگسیت، خود پسندی اور پدرم سلطان بود جیسی کیفیت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک تو ہمیں خواہ مخواہ کی خود پسندی اور انانیت سے پیچھا چھڑانا چاہیئے۔ اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں کہ مسلمانوں کا ماضی بہت شاندار تھا بلکہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم نے اپنے ماضی اور اسلاف سے علم و فن میں کتنی میراث پائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام کی قدر و منزلت ان کے علم و فن کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اغیار کی اندھی تقلید سے مسلمانوں کے سیاسی و اقتصادی مسائل حل ہونے والے نہیں۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی مظلومیت کی انتہاء یہ ہے کہ آج کے جدید عہد میں وہاں میڈیا پر پابندیاں لگا کر انسانوں پر بدترین ظلم کیا جا رہا ہے اور اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ مظلومین کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مظلومیت اس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے کہ جب جہانِ اسلام کے قدآور ممالک بھی کشمیریوں کے بجائے ہندوستان کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر سے بھی بڑا مسئلہ اقتصادی لالچ اور انسانی بے حسی کا مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق ہمیں مادی و اقتصادی لالچ کے بجائے انسانی اقدار کو اجاگر کرنا چاہیئے اور عالمی برادری میں موجود بے حسی کے خاتمے کے حوالے سے سوچ بچار کرنی چاہیئے۔ اس موقع پر انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آج چین میں بھی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، ہمیں اس سے بھی آگاہ رہنا چاہیئے۔

دوسرے سیشن کے دوسرے مقرر جناب عبدالمناف غِلزئی (جرمنی) مدیر مجلہ پیغامِ نجات نے کہا کہ دینِ اسلام کو قبول کرنے کے بعد ہر مسلمان کو اپنے مسائل حل کرنے کیلئے قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی پیچیدگی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود اس مسئلے کو  غیر مسلموں کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں اور اسی طرح اس کا حل بھی چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقی معنوں سے دین اسلام کی بالادستی کی قبولیت اور نفاذ میں ہی ہمارے سارے مسائل کا حل ہے۔ اگر ہم اپنے اوپر اور اپنی سوچ کے اوپر دینِ اسلام کے نفاذ کی بات نہیں کرتے تو یہ مسائل حل ہونے والے نہیں۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ دینِ اسلام سے بڑھ کر ہمارے دکھوں کی دوا کسی اور کے پاس نہیں، لہذا ہم جتنے اسلامی تر ہوتے جائیں گے، اتنے ہی ہمارے مسائل حل ہوتے جائیں گے۔ اس سلسلے کا تیسرا سیشن 19 نومبر 2020ء کو ہوا، جس کی روداد عنقریب اگلی قسط میں بیان کی جائے گی۔

تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Read 1408 times