عصر حاضر کے مسلمانوں کے مسائل اور انکا حل سیرت امیرالمومنین (ع) کی روشنی میں (1)

Rate this item
(1 Vote)
عصر حاضر کے مسلمانوں کے مسائل اور انکا حل سیرت امیرالمومنین (ع) کی روشنی میں (1)
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آج مسلمانوں کا وہ درخشاں دور ختم ہوگیا جن پر انہیں ناز تھا اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کل یورپ کے گھٹتے ہوئے ماحول میں علم و حکمت کے چراغ روشن کرنے والے آج اپنے گھروں سے تاریکی کو دور کرنے کے لئے روشنی کے محتاج ہیں۔ کل جنہوں نے اپنے کرشماتی ذہنوں کو بروئے کار لاکر مغربی ممالک کو نور کی لہروں سے نہلا دیا تھا۔ آج وہی اپنے سماج کی تاریکیوں کو ختم کرنے کے لئے انہیں ممالک کے محتاج ہیں۔ جنہیں کل انہوں نے شعور کی روشنی کے ساتھ زندگی کی روشنی بھی  عطا کی تھی، کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب اہل یورپ جہل و ظلمت بھرے معاشروں میں حیران و سرگرداں تھے اور مسلمانوں کو لالچ بھری نظروں سے دیکھتے تھے، وہ مسلمانوں کی کتب کا ترجمہ کرتے جو ان کی درسگاہوں کی زینت بنتی لیکن آج مسلم معاشرے کی ثقافتی و تعلیمی پسماندگی، اخلاقی بدحالی اور معاشی استحصال کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اغیار کی طرف سے سیاسی اور فوجی یلغار کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ بقول علاّمہ اقبال
دیروز مسلم از شرف علم سر بلند
امروز پشت مسلم و اسلامیاں خم است

اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا؟ اس کا علاج کیوں کر ممکن ہے؟
اس لئے کہ جو ہوا سو ہوا، اس کی وجہ ہماری غفلت رہی ہو یا اسلام سے دوری رہی ہو یا آپسی اختلافات لیکن اب اس کا علاج کیا ہے؟ آج کل کے دور میں جو حالات ہیں وہ بہت ہی سنگین صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی آیة اللہ العظمٰی خامنہ ای آج کل کے حالات کا تقابل حضرت علی (ع) کے دور حکومت سے کرتے ہوئے فرماتے ہیں، آج کے دور کے حالات وہی ہیں جو حضرت علی (ع) کے دور میں موجود تھے ہم موجودہ دور میں آپ کی نظر سے دنیا کی حقیقت اور سماج کی واقعیت کو دیکھتے ہوئے بےشمار مسائل کا حل کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں اس زمانے میں ہم ہر وقت سے زیادہ نھج البلاغہ کے محتاج ہیں۔ (1) حضرت آیة اللہ العظمٰی خامنہ ای کی اس فرمائش کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کو درپیش بنیادی مسائل کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے اور پھر نھج البلاغہ اور سیرت امیر الموٴمنین (ع) کی روشنی میں ان مسائل کا قابل قبول حل پیش کیا جا سکے جو آج کے مسلمانوں کو درپیش ہیں۔

مسلمانوں کے موجودہ مسائل:
(1) تعلیمی پس ماندگی اور جھالت:
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں جو چیز کلیدی حیثیت کی حامل ہے وہ ان کی تعلیم ہے۔ اور ہمارا مشاھدہ یہ بتاتا ہے کہ جس قوم نے تعلیمی میدان میں قدم آگے بڑھائے ہیں اس نے اپنی تعلیم کی روشنی میں ترقی کی منزلوں کو بھی یکے بعد دیگرے طے کیا ہے اور جو قوم جہالت کا شکار رہی ہے وہ ہمیشہ پسماندہ رہی ہے، تعلیم کی کس قدر اہمیت ہے؟ اور تعلیم قوموں کے لئے کون سا سرمایہ حیات ہے؟ اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ خود قرآن مجید کی بے شمار آیات اس کے والا مقام کا پتہ دے رہی ہیں، تعلیم کی اہمیت اور اس کی افادیت کو جس قدر مکتب اسلام نے بیان کیا ہے شاید ہی کوئی ایسا دین ہو جس نے تعلیم کے سلسلے میں اس قدر تاکید کی ہو(2) لیکن افسوس جس قدر تعلیم کی تاکید اسلام کے اندر ہے اسی قدر مسلمان تعلیم سے بیگانہ ہیں۔

(2) فقر و ناداری:
تعلیمی پسماندگی اور جہالت کے علاوہ دوسرا مسلمانوں کا سب سے اہم مسئلہ فقر و ناداری ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جو دھیرے دھیرے پورے مسلم معاشرہ کے بدن میں سرایت کر رہا ہے اور اگر جلد اس کا علاج نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج بہت ہی زیادہ سنگین ہونگے اس لئے کہ علم اقتصاد کے ماہرین کا خیال ہے کہ جس معاشرہ کی اکثریت فقیر ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ (3)

(3) اختلاف و افتراق:
کسی بھی قوم کی نابودی کے لئے اب اس سے زیادہ عذاب اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو وہ جہالت اور غربت و افلاس کی چکی میں پس رہی ہو اور دوسری طرف آپس میں اختلاف و افتراق کا شکار ہو، وہ چیز جس نے آج مسلمانوں کو بالکل بےبس بنا دیا ہے وہ آپس کا اختلاف ہے، سچ ہے قرآن نے کتنی اچھی تعبیر استعمال کی ہے، ”اگر تمھارے اندر اختلاف رہا تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ضعف و سستی تمھارے اندر پیدا ہو جائے گی اور تم کسی قابل نہ رہو گے۔“ (4) مگر آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے قرآنی دستورات کو سرے سے نظر انداز کرتے ہوئے اس قدر اپنے اندر اختلاف پیدا کر لیا ہے کہ ہمارے اختلاف کی آگ میں استعمار اپنی روٹیاں سینک رہا ہے اور ہمیں دکھا دکھا کر کھا رہا ہے اور ہم فقر و ناداری میں تڑپ رہے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سب اختلاف کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ بقول سید جمال الدین اسد آبادی، ”اسلامی ممالک کو جو مرض لاحق ہے اس کی تشخیص کے لئے میں نے بہت فکر کی اور بہت سوچا آخر انجام میں نے پایا کہ مہلک ترین مرض تفرقہ ہے لیکن گویا مسلمانوں نے تنہا اس سلسلہ میں اتحاد کیا ہے کہ متحد نہ ہوں۔“(5) امام خمینی رضوان اللہ اسی تفرقہ کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ”تفرقہ آج کے دور میں اسلام سے خیانت ہے چاہے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ہو۔“(6)

(4) قرآنی تعلیمات سے دوری:
قرآنی تعلیمات کی فراموشی نے ہی آج مسلمانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ انہیں خود بھی نہیں معلوم واپس جانے کا راستہ کیا ہے، چنانچہ امام خمینی رضوان اللہ مسلمانوں کی مشکلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اسلام اور قرآنی تعلیمات سے دوری ہے۔“ (7)

(5) بدعتوں کا رواج:
مسلم معاشرہ آج جن انگنت مسائل سے دوچار ہے ان میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بدعتوں کو ہم نے اپنے پورے سماج میں یوں رچا بسا لیا ہے، گویا ہمارے لئے کوئی ایسی کتاب نازل ہی نہیں ہوئی جو ھمارے لئے آئین زندگی کی حیثیت رکھتی ھو، جو ہمارے لئے مشعل راہ ہو بلکہ جو کچھ ہے، وہ تمام کی تمام وہ چیزیں ہیں جنہیں ہمارا تقلیدی ذہن انجام دینے پر اکساتا ہے اور ہم دین سے بےخبر بنا سوچے سمجھے انہیں شریعت کا جز بنا کر انجام دیتے رہے ہیں، چنانچہ شھید مطہری اسی مشکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”انواع تحریف میں سب سے خطرناک تحریف، دینی اسناد، آسمانی کتب، احادیث اور سیرہٴ پیمبر (ص) میں تحریف ھے۔ “8 لیکن ہمارا حال یہ ہےکہ جس جگہ بھی کسی بھی عنوان کے تحت کوئی ایسا نعرہ بلند ہوتا ہے، جو ہمیں اچھا لگتا ہو تو فوراً اسے اپنا شعار بنا لیتے ہیں، حتٰی دین میں داخل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور بےجا تحلیل اور تفسیر کرکے یہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں کہ یہ چیز تو پہلے سے ہی اسلام میں موجود تھی کوئی نئی چیز نہیں جبکہ اسلام اس طرح کی چیزوں کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتا ہے۔(9)
 
ان تمام مسائل کو دیکھنے کے بعد ہر احساس رکھنے والا انسان جو ایسے سماج اور معاشرہ سے تعلق رکھتا ہے کہ جس کے اندر لاتعداد ایسے مسائل ہیں جو سماج کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں لیکن ان کا کوئی حل کہیں نظر نہیں آ رہا، حیران و سرگرداں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہے کہ کل کیا ہوگا؟ اور ہمارا یہ معاشرہ اور سماج یوں افسردہ و ساکت ہے، جیسے فرشتہٴ موت کے گہرے سے گہرے سانسوں نے اسے کہر آلود بنا دیا ہو، کسی جنگ کے دیوتا نے بڑھ کر اپنی خونخوار انگلیوں سے اس کی نبض تھام لی ہو، دور دور تک سناٹا چھایا ہوا ہے! ظلمت و تاریکی کے امنڈتے ہوئے بادل ماحول کو خوفناک بنانے پر تلے ہیں، ساتھ ہی ظلم و استبداد کی آندھیاں گو کہ ہر شیٴ کو متلاشی کر دینے کے درپے ہیں، ایسے میں کہیں کوئی ٹمٹماتا دیا بھی تو نہیں جس کی روشنی میں اپنی منزل کا پتہ لگایا جا سکے، لیکن اسی تاریکی و ظلمت کے مہیب سناٹے میں ایک آواز ہے جو بار بار ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے، گوکہ کوئی چراغ تاریخ اور زمانے کے دبیز پردوں کے پیچھے سے ہماری حالت دیکھ رہا ہو اور اپنے نور سے ہمیں ہدایت کا راستہ دکھانا چاہتا ہو۔۔۔۔“ میں تمہارے درمیان اس چراغ کی مانند ہوں کہ تاریکی میں بھی اگر کوئی اس سے قریب ہوتا ہے تو اس کے نور سے استفادہ کرتا ہے۔ اے لوگو! میری باتوں کو سنو اور یاد رکھو اور دل کے کانوں کو کھول کر سامنے لاوٴ تاکہ سمجھ سکو۔ (10) “یہ آواز کسی اور کی نہیں بلکہ اس چراغ ہدایت کی ہے کہ ظلمتوں نے مل کر جس کا گلا گھوٹنا چاہا لیکن ناکام رہیں، لیکن افسوس کا مقام اس وقت ہوگا جب اس چراغ ہدایت سے ہم کچھ حاصل نہ کرسکیں تو آئیے چلتے ہیں، در باب العلم پر اور اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔

ہمارے مسائل کا حل:
1۔ تحصیل علم:
 یہی وہ راہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرسکتے ہیں اور معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکتے ہیں، حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:
"العلم اصل کل خیر" (11) علم ھر اچھائی کی بنیاد ہے۔ "اکتسبوا العلم یکسبکم الحیات" (12) تم علم حاصل کرو علم تمھیں زندگی عطا کرے گا۔ "ایھا الناس اعلموا انّ کمال الدین طلب العلم و العمل بہ" (13) اے لوگو! جان لو کہ دین کا کمال یہ ہے کہ علم حاصل کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ "الحکمة ضالة المومن فخذ الحکمة و لو من اھل النفاق"(14) حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے، پس حکمت کو لے لو چاہے اہل نفاق سے ہی کیوں نہ ہو۔ اور خود حضرت علی (ع) کی سیرت یہ رہی ہے کہ آپ نے بےشمار شاگردوں کی تربیت کی۔ بقول ابن ابی الحدید: ”علوم کے سارے سرچشمہ آپ ہی کی ذات پر منتھی ہوتے ہیں۔" (15) آپ تعلیم و تعلم کے اس قدر شیدا تھے کہ تاریخی کتب میں ملتا ہے کہ میدان جنگ میں بھی اگر کوئی سپاہی آپ سے کوئی سوال کرتا تو آپ اسے فوراً جواب دیتے اور اس کے فکری شبہات کا ازالہ کرتے۔ (16) حتٰی اگر ایک ہی سوال آپ سے کئی بار بھی ہوتا تو بھی آپ جواب دینے میں کوئی تامل نہیں کرتے اور جس حالت میں ہوتے اسی حالت میں جواب دیتے چنانچہ جنگ جمل میں ایک سپاہی نے آپ سے خدا کی وحدانیت کے بارے میں سوال کیا تو لشکریوں نے اسے ٹوکا اور کہا یہ کون سی سوال کرنے کی جگہ ہے؟ تو امام نے جواب دیا: ”دعوہ فانّ الّذی یریدہ الا عرابی ھو الّذی نریدہ من القوم“(17)۔ ”سلونی سلونی قبل ان تفقدونی“ یہ وہ جملہ ہے جسے تاریخ کبھی بھلا نہیں پائے گی، آپ کی نظر میں تعلیم کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ ان روایات سے لگایا جا سکتا ہے۔

الف:
 اے لوگو! ایک حق میرا تمہارے اوپر ہے اور ایک حق تمہارا میرے اوپر ہے۔ تمھارا حق جو میرے اوپر ہے وہ یہ کہ میں تمھیں نصیحت کروں اور تمھاری معیشت کو نظم بخشوں اور تمھیں تعلیم دوں تاکہ تم جاھل نہ رہ جاوٴ۔ (19)۔ ان روایات سے بخوبی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ علی کی زندگی میں تعلیم اولین درجہ کی اہمیت رکھتی ہے، نیز یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ حاکم کا جس طرح اپنی رعیت پر حق ہوتا ہے، اسی طرح رعیت کا حاکم پر بھی حق ہوتا ہے، جس میں ایک تعلیم ہے، علم کی اس قدر تاکید کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ایک عالم انسان کا علم اسے افراط و تفریط کا شکار ہونے سے روکتا ہے کیونکہ افراط و تفریط دو ایسی آفات ہیں جو دین کو اس کی اصلی راہ سے ہٹاکر دین کی نابودی کا باعث بنتی ہیں اور افراط و تفریط وہیں ہوتی ہے جہاں جہل ہوتا ہے، "لا تری الجاھل الّا مفرطاً اٴو مفرّطا"۔ (20)

1۔ تعلیم کے لئے سب سے مفید وقت:
نہ صرف یہ کہ مولائے کائنات (ع) نے تعلیم کی افادیت کے پیش نظر اپنے حکیمانہ اقوال سے بنی نوع بشر کو تعلیم کی طرف متوجہ کیا ہے بلکہ بتایا ہے کہ تعلیم و تربیت کے لئے سب سے اچھا وقت کون سا ہو سکتا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں، ”جوان کا دل ایک خالی زمین کی مانند ہے جو دانہ بھی اس میں ڈالیں وہ اسے قبول کر لیگا۔“(21) امام حسن مجتبٰی (ع) سے خطاب کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں،” میں نے تمھاری تعلیم و تربیت میں جلدی کی اس سے قبل کہ تمھارا قلب سخت ہو جائے تمھاری عقل و فکر کو دوسرے امور میں مشغول کردے۔۔“ (22) حضرت علی (ع) کے دہان مبارک سے نکلے ہوئے یہ کلمات ان تمام افراد کے لئے مشعل راہ ہیں، جو اپنے بچوں کے لئے ایک خوشگوار مستقبل کا خواب دیکھ رہے ہیں، اس سے قبل کہ ان کے بچوں کے دل سخت ہو جائیں۔ دینی معارف اور تمام وہ باتیں جو ان کے مستقبل کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہیں انہیں تعلیم دے دینی چاہیئے۔
 
2۔ سالم اور بھتر معیشت کے لئے جدوجہد:
آج ہمارے سماج اور معاشرے میں کچھ ایسے افراد بھی ہیں کہ جو معیشت کو بہتر بنانے کے لئے بھاگ دوڑ کو دنیاداری سے تشبیہ دیتے ہیں اور ان کا خیال یہ ے کہ اس چند روزہ زندگی کے لئے بھاگ دوڑ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے تو جو کچھ بھی روکھی سوکھی ملے اسی پر گزر بسر کرلینا بہتر ہے اور اپنے زعم میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہی  زھد ہے، جبکہ ان کے لئے بہترین ذریعہ معاش کا فراہم ہے، اگر وہ چاہیں تو ایک خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں لیکن وہ اسے دنیاداری سے تعبیر کرتے ہوئے فرار اختیار کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے امام (ع) ارشاد فرماتے ہیں "لیس منا من ترک الدنیا الآخرہ" ۔(23) اور حقیقی زھد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں، "الزھد بین کلمتین من القرآن قال اللہ سبحنہ لکی لاتاٴسوا علی مافاتکم و لا تفرحوا بما آتاکم و من لم یائس علی الماضی و لم یفرح بالآتی فقد اخذ الزھد بطرفیہ" (24) بلکہ ان افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنہوں نے دنیا کی نعمتوں سے بھی استفادہ کیا اور اپنی آخرت بھی سنوار لی آپ فرماتے ہیں، "ان المتقین ذھبوا بعاجل الدنیا آجل الاجل الآخرہ۔۔ سکنوا الدنیا فافضل ما سکنت و اکلوھا ما اکلت فحظوا من الدنیا بما حظی بہ المعترفون" (24) جہاں کچھ ایسے متدین افراد ہیں کہ جو زھد کے معنی کی غلط تفسیر کرتے ہوئے دنیا کی نعمتوں کو خود پر حرام کرلیتے ہیں اور نتیجةً فقر و ناداری میں زندگی بسر کرتے ہیں، وہیں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں کہ جو اپنے لئے بڑے بڑے کاموں کی منصوبہ بندی  کا تصور ذھن میں لئے بیٹھے رہ جاتے ہیں اور معیشت کی طرف توجہ نہیں دے پاتے، کیونکہ وہ چھوٹے موٹے کاموں کو اپنے لئے بےعزتی کا سبب سمجھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے کام کی تلاش میں یوں ہی بیٹھے بیٹھے عمر گزر جاتی ہے اور کوئی بھی کام ہاتھ نہیں آتا ہے جبکہ یہی افراد اگر حضرت علی (ع) کی سیرت کا مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ہوگا کہ آپ معیشت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے تھے۔

جب ھم حضرت علی (ع) کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ملتا ہے کہ علی (ع) بیلچہ چلاتے اور زمین کی نعمتوں کو آشکار کرتے تھے۔(26) درخت کاری و زراعت کرتے تھے اور قناتیں اور کنوئیں کھودتے تھے۔(27) کسی نے آپ کے ہاتھوں ایک من خرمہ کی گھٹلیاں دیکھیں تو سوال کیا کہ اے امیر المومنین!(ع) ان کا کیا مصرف ہے؟ آپ نے جواب دیا خداوند متعال کے اذن سے ان گھٹلیوں سے خرمے کے درخت تیار کرونگا اور پھر آپ نے ان سے ایک نخلستان بنایا اور اسے راہ خدا میں وقف کردیا۔(28) ایک بوڑھا شخص فقیری کر رہا تھا آپ نے پوچھا کون ہے؟ جواب ملا نصرانی ہے، آپ نے حکم دیا کہ اسے بیت المال سے کچھ خرچ کے لئے دے دو۔(29) آپ کی حکومت کے دوران عمومی رفاہ کا یہ حال تھا کہ کوفے میں رہنے والا غریب سے غریب شخص بھی گیہوں کی روٹی کھاتا اور اس کے سر پر چھت کا سایہ رہتا تھا۔ (30) فقر و ناداری کے بارے میں آپ کے اقوال یقیناً ہمارے معاشرے کے لئے رہ گشا ثابت ہو سکتے ہیں۔ کہیں آپ نے فقر کو موت سے تعبیر کیا ہے تو کھیں فقر کو اپنے وطن میں غربت قرار دیا ہے۔ آپ کی نظروں میں معیشت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ جہاں آپ نے اپنی وصیت میں اور دوسری باتوں کی طرف اپنے فرزندوں کو متوجہ کیا ہے، وہیں اس طرف بھی ان کو متوجہ کیا ہے کہ ان کی معیشت کبھی خراب نہ ہو۔(31)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات و حواشی:
1۔ کنگرہ بین المللی نھج البلاغہ مباحث و مقالات آیة اللہ خامنہ ای صفحہ 52
2۔ ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون۔۔ زمر 9
3۔ نگاھی بہ فقر و فقر زدائی از دیدگاہ اسلام نقل از انتھونی کربلا سٹر ظھور و سقوط لیبرالیزم صفحھ 374
4۔ و اطیعوا اللہ و لا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم۔۔۔ انفال 46
5۔ یادنامہ سید جمال الدین، ج1 مقالہ دکتر عثمان امین، ص 239
6۔ صحیفہ نور ج8 ص 43
7۔ شناخت کشورھای اسلامی، غلام رضا، ص36
8۔ آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی ص 29
9۔ اذا ظھرت البدعة فی امتی فلیظھر العالم علمہ و الاّ فعلیہ لعنة اللہ و الملائکة و الناس اجمعین، آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی نقل از سفینة البحار ج1 ص63
10۔ انما مثلی بینکم مثل السراج فی الظلمة یستضیئی بہ من ولجھا فاسمعوا ایھا الناس و عوا و احضروا آذان قلوبکم تفھموا۔ شرح نھج البلاغہ علامہ محمد تقی جعفری ج9، نھج البلاغہ ترجمہ و حواشی علامہ مفتی جعفر حسین ص 514
11۔ 12۔ 13۔ غرر الحکم، باب علم
14۔ کافی ج1، ص 35
15۔ ابن ابی الحدید شرح نھج البلاغھ
16۔ امام علی (ع) و مباحث اعتقادی، محمد دشتی ص 32
17۔ ایضا
18۔ سئل عن الخیر ما ھو فقال علیہ السلام لیس الخیر ان یکثر مالک و ولدک و لکنّ الخیر ان یکثر علمک۔ نھج البلاغھ، حکمت 94
19۔ ایھا الناس انّ لی علیکم حقا و لکم علیّ حق فامّا حقکم علیّ فالنصیحة لکم و توفیر فیئکم علیکم و تعلیمکم کی لا تجھلوا و تاٴدیبکم کیما تعلموا۔ نھج البلاغھ، خطبھ 34
20۔ نھج البلاغھ، حکمت70
21۔ و انّما قلب الحدیث کالارض الخالیة ماالقی فیھا من شیٴ قبلتھ۔ اما م علی(ع) و امور معنوی و عبادی، محمد دشتی ص 28
22۔ فبادرتک بالادب قبل ان یقسو قلبک و یشتغل لبّک لتستقبل بجدّ راٴیک من الاٴمر (وھی مدرک)
23۔ من لا یحضرہ الفقیہ ج3، ص156
24۔ نھج البلاغہ فیض الاسلام، حکم
25۔ نھج البلاغہ فیض الاسلام، مکتوب 27
26۔ کان اٴمیر الموٴمنین یضرب بالمرّ و یستخرج الاٴرضین، فروع کافی ج5، ص74
27۔ فروع کافی، ج5، ص 75
28۔ وسائل الشیعھ، ج13، ص 203
29۔ مناقب، ج1، ص 321
30۔ استعملتموہ حتیّ اذا کبر و عجز منعتموہ اٴنفقوا علیہ من بیت المال، تجلی امامت نقل از المصدر، ص 206
31۔ مااصبح بالکوفة اٴحد الاّ ناعما اٴنّ اٴدنی ھم منزلة لیاٴکل البرّ و یجلس فی الظلّ و یشرب من ماء الفرات، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص 99
 تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
 
 
Read 1666 times