دنیا حیرت کے مارے انگشت بہ دندان ہے، یہود و نصاریٰ اور آل سعود کے ایوانوں میں انسان نما مخلوق دنگ رہ گئی ہے کہ جمہوریہ یمن کے جس محاذ کو محمد بن سلمان 3 ہفتوں میں فتح کرنے کی آرزو رکھتا تھا، وہ آرزو یمنی مجاہدین کے برہنہ پاؤں تلے روندی جا چکی ہے اور اس محاذ کو 6 سال بیت چکے ہیں جبکہ اتنی طولانی مدت کا خمیازہ سعودیہ کی اقتصاد کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں دو ایسے اسلامی ممالک ہیں، جن کو جغرافیائی اعتبار سے شکست دینا تقریباً ناممکن ہے اور وہ دو ممالک "افغانستان اور یمن" ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: ۱۔ یہاں پر موجود مشکلات اور وسائل کی عدم فراہمی ہر صاحبِ عقل کو یہاں سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ۲۔ یہاں کے لوگوں کی مقاومت، ان کا پختہ عزم اور سب سے بڑھ کر خدا پر توکّل ان کو صبحِ نو دکھاتا ہے۔ اسی لیے یمن کو شکست دینا محلّات میں بیٹھی شہنشایت کا کام نہیں، "زمین کہاں آسمان کہاں؟" پس سعودیہ، یمن میں آ کر مکمل طور پر پھنس چکا ہے۔
یمن نے 2000ء میں اپنی عسکری طاقت کی ایک وسیع و عریض نمائش کی، جس کے بعد امریکہ نے یمن سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اس دوستی کا صلہ اس وقت کے صدر "علی عبداللہ صالح" کو تب ملا جب امریکہ نے اسے دو اختیارات کے مابین لا کھڑا کیا، یا تو وہ یمن کی عسکری قدرت کو تباہ کرے، یا حکومت کی کرسی سے دستبردار ہو جائے۔ منصب کی لالچ میں آکر علی عبداللہ صالح نے 2005ء میں امریکی عہدہ داران اہلکاروں کی زیر نگرانی، یمن کے فضائی و بحری عسکری ذخائر کو جدعان کے علاقے میں تباہ کر دیا، جس پر وہاں موجود امریکی عہدہ داران نے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔ اسی بات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سعودی عرب نے 2015ء میں اپنے اتحادی ملک امریکہ کیساتھ ملکر یمن پر جنگ مسلط کی، جس کا سنگِ بنیاد یمن کی شہری آبادی پر گولہ باری کرکے متعدد بےگناہ شہریوں کو شہید کرکے رکھا گیا۔
ستم تو تب ہوا جب نام نہاد اسلامی اتحادی بلاک نے بھی سعودیہ کا ساتھ دیتے ہوئے یمنی شہداء کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگ لیا۔ سعودیہ نے پہلے یمن کا مکمل طور پر محاصرہ کرکے اس کی اشیائے خورد و نوش سمیت ہر قسم کی ترسیل کو مکمل طور پر بند کر دیا اور پھر وحشیانہ فضائی حملے کرکے آئے روز بےگناہ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو شہید کرتا چلا گیا۔ اس سفاک مجرم نے سکول، مدارس، مساجد، شادی ہالز، بچوں کی سکول بَس اور عام شہریوں کے گھروں کو بخوبی و اَحسن نشانہ بنا کر ظلم و بربریت کا تمغہ اپنے نام کیا۔ اس وحشی درندے نے یمن میں بےگناہ شہریوں کے خون کی ہولی کھیلی اور ان کو ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم کر دیا۔
اب ایسے میں جب یمن کا پاک لہو کھول اٹھا اور حوثی مجاہدین اپنے عزیز و اَقارب کے خون کا جائز انتقام لینے اور سلب شدہ انسانی حقوق کو غاصبوں سے واپس لینے کیلئے بھوکے، پیاسے، برہنہ پا ہو کر خدا پر توکّل کرتے ہوئے میدان میں آئے اور دشمن کو مختلف محاذوں پر لوہے کے چنے چبوائے، تب جا کر دشمن کی چیخوں کی آوازیں دنیا کو سنائی دیں اور مسئلہ یمن دنیا کے سامنے اُبھر کر آیا۔ یمنی مجاہدین آزاد، خود مختار، شجاع، غیرتمند اور باوفا لوگ ہیں، جو ذلت و رسوائی کو کبھی قبول نہیں کرتے۔ یمن کے محصور مگر خداداد صلاحیتوں کے حامل ذہین ترین سائنسدانوں نے مختصر مدت کے اندر اپنا دفاعی سامان تیار کرتے ہوئے خود ساختہ ڈرون طیارے، کروز میزائلز اور بلاسٹک میزائلز بنا ڈالے، جنہوں نے اس جنگ کی کایا ہی پلٹ دی۔
حوثی مجاہدین نے دشمن کو اپنے اکثر و بیشتر محاذوں سے بھگا کر سعودیہ کی حدود کے قریب کر دیا اور ان کے ہزاروں کرائے کے فوجیوں کو جہنم واصل کرکے بہت سارے فوجیوں کو قیدی بنا لیا، بلکہ اب تو کچھ محاذوں پر یہ جنگ سعودیہ کی سرحد کے اندر لڑی جا رہی ہے، جن میں سعودی علاقے "نجران اور جیزان" شامل ہیں۔ بِنابَراَیں یہ جنگ یمن کے متعدد محاذوں پر بھی جاری ہے، جن میں "مأرب، تعز، الحُدیدۃ" سمیت دیگر کچھ علاقے شامل ہیں۔ یمنی مجاہدین نے سعودیہ کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے "توازن الردع(توازن کی خاطر جوابی حملے)" کے نام سے ابھی تک سعودی عرب کے وسط میں 6 بڑے حملے کیے ہیں، جس میں سعودیہ کے حساس مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں یمنی میزائلز اور ڈرون طیاروں نے سعودیہ میں نصب شدہ جدید ترین امریکی دفاعی سسٹم "پیٹریوٹ(Patriot)" کے ریڈار کو ناکام بنا کر اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں سعودیہ کو بےشمار خسارہ اٹھانا پڑا۔
یمنی مسلح افواج کی جانب سے اس نوعیت کا آخری حملہ 7 مارچ 2021ء کو کیا گیا، جس میں یمنی مجاہدین نے سعودی بندرگاہ "رأس التنورة" میں موجود "آئل ریفائنری کمپنی آرامکو" کو متعدد "صمّاد3" ڈرون طیاروں اور "ذوالفقار" نامی ایک بلاسٹک میزائل سے اپنا کامیاب ہدف بنایا۔ جس کے بعد سعودی عرب نے ہمیشہ کی طرح اس حملے کا الزام بھی ایران کے سر پر تھونپ دیا۔ یمن کا ابھی تک سعودیہ کی جانب سے گھیراؤ جاری ہے، جس کے باعث انہیں غذائی قلت کا بھی سامنا ہے مگر سعودیہ، ہمیشہ ایران پر الزام لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ ایران یمن میں میزائلز، ڈرون طیارے اور اپنے فوجی بھیجتا ہے، لیکن آج تک سعودیہ اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دے سکا، کیونکہ زمینی حقائق بھی اس کی نفی کرتے ہیں، جہاں یمنیوں کا محاصرہ کرکے ان کی طبی و غذائی ترسیل کو روکا جا رہا ہے، وہاں ایران کیسے اپنے میزائل یا فوجی بھیج سکتا ہے؟ اور ویسے بھی قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں سعودیہ نے یمن کو ہمیشہ یمنی مجاہدین ہی واپس کیے ہیں، کبھی ایک بھی ایرانی فوجی واپس نہیں کیا جبکہ یمن کی جانب سے سعودیہ کو سعودی، اماراتی، سوڈانی اور دیگر جنسیات کے فوجی واپس کیے جاتے ہیں جو کہ کرائے کے فوجی ہوتے ہیں۔
یمن کی تنظیم انصار اللہ کے قائد اور مجاہدین انتہائی بہادر و شجاع ہیں کہ جس کے بارے میں سید العرب سید حسن نصراللہ (روحی لہ الفداء) فرماتے ہیں: "اے کاش! میں آپ کے ساتھ ہوتا۔ اے کاش! میں آپ کے باعزت و شجاع قائد کے پرچم تلے، آپ کے جنگجوؤں میں سے ایک جنگجو ہوتا۔" اسی یمنی قوم کے بارے میں رہبر معظم سید علی خامنہ ای(دامت برکاتہ) فرماتے ہیں: "یمنی قوم ایسی قوم ہے، جس میں خداداد صلاحتیں پائی جاتی ہیں۔" محمد بن سلمان کے ہوتے ہوئے بظاہر یمن کی یہ جنگ نہیں رُک سکتی، کیونکہ وہ اس جنگ کو کینے کی آگ سے کھیل رہا ہے، جس کی طرف سید العرب (روحی لہ الفداء) نے 2020ء کے اپنے آخری انٹرویو میں فرمایا: "سعودیہ ان چند سالوں میں عقل سے کام نہیں لے رہا بلکہ کینہ پروری سے چل رہا ہے۔ یمن کے خلاف اس جنگ میں کونسی عقلمندی، کونسی منطق، کونسی اقدار، کونسا قانون، کونسا مفاد اور کونسا اصول ہے؟ یہ جنگ صرف عناد و کینے سے لبریز ہے۔"
اس کے علاوہ اقوام متحدہ بھی یمن کے معاملے میں ظالم کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آتی ہے، جو یمنی غیرتمند قوم کے سامنے ایسی شرطیں پیش کر رہی ہے، جو صرف سعودیہ کے مفاد میں ہیں اور ایسی صورت میں کبھی بھی جنگ بندی نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سعودیہ جنگ بندی کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور دوسری طرف مجرمانہ حملے کرتا ہے۔ اسی لیے "اقوام متحدہ یمن" میں موجود انصار اللہ کے رُکن محمد البُخیتی نے کہا ہے: "یہ لوگ اصولاً ہی اَمن و سلامتی کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلامتی کا تصور یہ ہے کہ یمن اپنے حملے بند کر دے جبکہ سعودیہ، یمن پر اپنے حملے جاری رکھے۔ یعنی سلامتی کے متعلق انکا فہم، شکست خوردہ ہونا ہے جبکہ یمن کبھی بھی شکست خوردہ نہیں ہوسکتا۔ یمن ایک طاقتور ملک ہے۔"
یمنی مسلح افواج اور مجاہدین آخری چند عرصے میں مسلسل سعودیہ پر قہر بن کر ٹوٹ رہے ہیں، جس کے باعث سعودیہ کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں، جس میں "مذاکرات، مذاکرات" کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ سعودیہ سلامتی نہیں چاہتا مگر حوثی مجاہدین اپنے اس عمل سے سعودیہ کو سلامتی پر مجبور کر رہے ہیں کہ جس کا ثمرہ شاید ہمیں یمن میں سلامتی کی صورت میں مل سکتا ہے۔ روایات میں ظہورِ امام مہدیؑ کے حوالے سے یمن کے حالات پر نظر رکھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ اِن شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب "یمن کا پاک لہو" ظہور کی راہ ہموار کر دے گا اور استعمار و استکبار کے نجس ایوانوں کو تہہ و بالا کر دے گا، *"إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيْدًا. وَّنَرَاهُ قَرِيْبًا. ترجمہ: وہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں جبکہ ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں(سورۃ المعارج/6،7)"۔
تحریر: سید محمد علی نقوی