فوائد غیبت مہدی موعود(عج)

Rate this item
(0 votes)
فوائد غیبت مہدی موعود(عج)
مہدی موعود(عج) کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک مسلم ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں، جن کے مطابق قیامت سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فرد قیام کرے گا، جو آپ ؐکا ہم نام ہوگا اور اس کا لقب مہدی ہوگا، جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔ امام مہدی (عج) کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف شیعہ حضرات ہی نہیں رکھتے بلکہ اہل سنت کے بہت سے مشہور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ (عج) کی ولادت باسعادت سے متعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں، جیسے: ابن حجر ہیثمی (الصواعق المحرقہ) سید جمال الدین(روضۃ الاحباب) ابن صباغ مالکی (الفصول المہمۃ) سبط ابن جوزی(تذکرۃ الخواص )۔۔۔۔۔ وغیرہ۔ امام زمانہ (عج) کی غیبت کے منکرین کا اعتراض ہے کہ امام غائب کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ لوگوں کی ہدایت کے لئے امام کا ان کے درمیان موجود ہونا ضروری ہے، تاکہ امام تک لوگوں کی رسائی ہو۔

ہم یہاں منکرین غیبت امام زمانہ (عج) کے اعتراض کا اجمالا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
۱۔ امام زمانہ(عج) کی غیبت اور آپ (عج) کا شیعوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کے درمیان کوئی ملازمہ نہیں ہے۔ قرآن کریم انسان کے اولیاء خدا سے بہرہ مند ہونے کی داستان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے نقل کرتا ہے۔ بنابریں عصر غیبت میں بھی امام زمانہ(عج) کا لوگوں کے ساتھ خاص طریقے سے رابطہ قائم کرنے اور ان افراد کا آپ (عج) کے فرامین پر عمل کرنے اور آپ (عج) کے وجود سے کسب فیض کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ امام زمانہ (عج) کا لوگوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کا ذمہ دار امام نہیں بلکہ خود عوام ہیں، جو آپ (عج) کی رہبری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ محقق طوسی (رہ) تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں: (وجوده لطف و تصرفه لطف آخر و عدمه منا) "امام کا وجود بھی لطف اور امام کا تصرف کرنا ایک اور لطف اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے۔" {یعنی امام زمانہ(عج) بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ہیں، انہیں بھی کوئی نہیں پہچانتا تھا، لیکن پھر بھی وہ امت کے لئے فائدہ مند ہیں}

۲۔ امام (عج) کے پیروکاروں کا امام (عج) کے وجود سے کسب فیض کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ آپ (عج) تک تمام لوگوں کی رسائی ممکن ہو بلکہ اگر ایک خاص گروہ جو آپ (عج) کے ساتھ رابطہ قائم کرسکتا ہو اور وہ آپ (عج) کے وجود سے فیض حاصل کرے تو دوسرے لوگ بھی ان افراد کے ذریعے آپ (عج) کے وجود کے تمام آثار و برکات سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں۔ یہ مطلب شیعوں کے بعض نیک اور شائستہ افراد کی آپ (عج) کے ساتھ ملاقات کے ذریعے حاصل ہوچکا ہے۔

۳۔ امام اور پیغمبر کے لئے حتی ان کے ظہور کے وقت بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگوں کی ہدایت براہ راست اور بلا واسطہ انجام دیں بلکہ اکثر اوقات وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے سے یہ کام انجام دیتے تھے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے دور میں دوسرے شہروں کے لئے اپنے نمائندے معین فرماتے تھے، جو لوگوں کی ہدایت اور رہبری کا کام انجام دیتے تھے اور یہ روش صرف رہبران الہیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ طول تاریخ میں انسانوں کے درمیان یہ طریقہ رائج تھا۔ اسی وجہ سے امام زمانہ (عج) بھی اپنے نمائندوں کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتے ہیں، جیسا کہ غیبت صغریٰ کے زمانے میں آپ (عج) نواب اربعہ (نیابت خاصہ) کے ذریعے اور غیبت کبریٰ کے زمانے میں عظیم المرتبت عادل فقہاء و مجتہدین (نیابت عامہ) کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتے ہیں۔

۴۔ شیعہ عقائد کے مطابق امام معصوم کا وجود لطف الہیٰ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ امام انسان کو اطاعت و عبادت سے نزدیک اور گناہ و مفاسد سے دور کرتے ہیں۔ بے شک یہ اعتقاد (کہ امام معصوم ان کے درمیان موجود ہیں، گرچہ لوگ انہیں نہیں دیکھتے یا انہیں نہیں پہچانتے، لیکن وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں پہچانتے ہیں اور ان کے اچھے اور برے کاموں سے بھی واقف ہیں، نیز آپ (عج) کسی وقت بھی ظہور کرسکتے ہیں، کیونکہ آپ (عج) کے ظہور کا وقت معلوم نہیں ہے) انسان کی ہدایت و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

۵۔ امامت کے اہداف میں سے ایک ہدف امام معصوم کا لوگوں کی باطنی ہدایت ہے۔ امام لائق اور پاکیزہ دل رکھنے والے افراد کو اپنی طرف جذب کرکے انہیں کمال تک پہنچاتے ہیں۔ واضح ہے کہ انسان کے اس طرح ہدایت سے ہمکنار ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ امام کے ساتھ ظاہری رابطہ برقرار کرے۔

گذشتہ بیانات کی روشنی میں امام زمانہ (عج) کو بادل کے پیچھے پنہان روشن آفتاب سے تشبیہ دینے کا مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے۔ اگرچہ بادل کے پیچھے پنہان سورج سے انسان مکمل طور بہرہ مند نہیں ہوتا ہے،لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ بہرحال امام زمانہ (عج) کے وجود کے آثار و برکات سے بہرہ مند نہ ہونے کا سبب انسانوں کی طرف سے خاص حالات کا فراہم نہ کرنا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اس عظیم نعمت کے فوائد سے محروم ہیں اور اس محرومیت کا سبب وہ خود ہیں نہ کہ خداوند متعال اور امام، کیونکہ خداوند متعال اور امام کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مشکل در پیش نہیں ہے۔

خواجہ نصیر الدین طوسی (رہ) آپ (عج) کی غیبت کے بارے میں لکھتے ہیں: (واما السبب غیبته فلایجوز ان یکون من الله سبحانه و لا منه کما عرفت فیکون من المکلفین و هو الخوف الغالب و عدم التمکین و الظهوریجب عند زوال السبب) لیکن یہ جائز نہیں کہ امام زمانہ (عج) کی غیبت خدا کی طرف سے یا خود آپ (عج) کی طرف سے ہو، جیسا کہ آپ جان چکے ہیں۔ پس اس کی وجہ خود عوام (لوگ) ہیں، کیونکہ ان کے اوپر خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا ہی اس کا سبب ہے اور جب بھی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی تو ظہور واجب ہو جائے گا۔ گذشتہ بیانات امام زمانہ(عج) کے وجود کے تشریعی و تربیتی آثار تھے، لیکن حجت الہیٰ کے تکوینی آثار و برکات نظام خلقت اور کائنات کا باقی ہونا ہے۔ یعنی ان کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں۔ اسی طرح حجت خدواندی اور انسان کامل کے بغیر کائنات بے معنی ہے۔

اسی بنا پر روایات میں موجود ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی، کیونکہ اگر ایک لحظہ کے لئے بھی زمین حجت خدا سے خالی ہو تو وہ اپنے اہل سمیت نابود ہو جائے گی۔(لو لا الحجة لساخت الارض باهلها) یہاں سے اس عبارت کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے جو کہ بعض دعاوں میں موجود ہے:(بیمنه رزق الوری و بوجوده ثبتت الارض و السماء) "امام زمانہ(عج) کے وجود کی برکت سے ہی موجودات رزق پا رہه ہیں اور آسمان و زمین برقرار ہیں۔" امام اور حجت خدا واسطہ فیض الہیٰ ہیں، خدا اور بندگان کے درمیان واسطہ ہیں، جن برکات و فیوض الہیٰ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی، امام ان فیوض و برکات کو خدا سے لے کر بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ لہذا امام زمانہ(عج) کی طولانی عمر اور ظہور سے صدیوں قبل آپ(عج) کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طویل مدت میں کبھی بندگان خدا الطاف الہیٰ سے محروم نہ رہیں اور امام کے وجود کی جو برکات ہیں، وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتی رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ تجرید لاعتقاد، بحث امامت
2۔ کمال الدین، شیخ صدوق، باب 45۔ حدیث 4، ص485
3۔ الرسائل، سید مرتضیٰ، ج2، ص297 – 298
4۔ اصول کافی، ج1، کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
5۔ اصول کافی، ج1، کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
6۔ نوید امن و امان، آیۃ اللہ صافی گلپایگانی، ص 148
 
 
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
Read 1165 times