علامہ ریاض نجفی نے خاندانی منصوبہ بندی کو خلاف شرع قرار دیدیا

Rate this item
(0 votes)
علامہ ریاض نجفی نے خاندانی منصوبہ بندی کو خلاف شرع قرار دیدیا

 وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے علی مسجد ماڈل ٹاﺅن میں خطبہ جمعہ میں واضح کیا ہے کہ قرآنی تعلیمات کی رو سے رزق، روزگار، آمدنی نہ ہونے کے خدشہ سے بچوں کی پیدائش روکنا ٹھیک نہیں۔ موجودہ مخلوق اور پیدا ہونے والوں کے رزق کا ضامن اللہ ہے۔ ہر شخص کے دنیا میں آنے اور جانے کا نظام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ انسانی کوششیں لا حاصل ثابت ہوتی ہیں۔ کئی لوگ بچوں کی پیدائش روکنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جسے پیدا ہونا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ اس کے برعکس کتنے لوگ اولاد کی خواہش میں کتنے جتن کرتے ہیں لیکن بچہ نہیں ہوتا۔ یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر نظامِ قدرت میں آبادی کم کرنا ہو تو اس کے کئی اسباب بن جاتے ہیں۔ 2005ء میں ہونے والے زلزلہ سے 75 ہزار شہری موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ اب کرونا سے بھی گذشتہ سال سے کافی اموات واقع ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماہ ِ مبارک مغفرت کا مہینہ ہے، اس کی قدر کی جانا چاہیئے۔ شام کے وقت جب روزہ سے خشتگی بڑھ جاتی ہے تو روزہ دار کی دوسروں کی شفاعت کی دعا بھی قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ یہ اس کے تمام اعضاء و جوارح کا روزہ ہو۔ بعض افراد کے نیکی نہ کرنے کے باوجود نعمتوں اور ترقی پر تعجب نہیں کرنا چاہیئے۔ قرآن بتاتا ہے کہ انہیں تدریجی طور پر عذاب کی طرف لے جایا جا رہا ہے، پھر اچانک ان کی گرفت ہوگی۔ نعمت سے زیادہ اہم اللہ کی رحمت ہے، جس کے بغیر ایک لمحہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ ”ہوا“ اللہ کی رحمت ہے، جس کے بغیر جینا محال ہے۔

حافظ ریاض نجفی نے کرونا کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کو لازم قرار دیتے ہوئے کہا کہ دیگر مقامات کے علاوہ مسجد میں بھی ماسک اور فاصلے کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ انسانی صحت و زندگی کی خاطر مجتہدین نے فقہی قواعد کے مطابق نماز جماعت میں دو افراد اور صفوں کے مابین تین سے چار فٹ فاصلہ کی اجازت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن میں کافی انبیاء و رسل کا تذکرہ ہے لیکن سب کو ”اُسوہ“ یعنی نمونہ نہیں کہا گیا۔ فقط حضرت ابراہیم ؑ اور آںحضور کو اُسوہ قرار دیا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کے لئے دو مرتبہ اور حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے لئے ایک مرتبہ یہ کلمہ استعمال کیا گیا ہے۔ اب اِس حکومت میں کچھ اور ہستیوں کو بھی ”اسوہ“ کے طور پر شامل کیا جا رہا ہے۔ دینی بزرگان، صحابہؓ، صحابیاتؓ حد درجہ قابلِ احترام ہیں۔ ان کے اچھے کاموں کی پیروی کی جانا چاہیئے، بہت سے اصحاب ؓ کی دین کے لئے بہت قربانیاں ہیں، لیکن جب تمام انبیاء کو قرآن اسوہ قرار نہیں دیتا تو پھر کسی صحابی یا صحابیہ کو کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ریاستِ مدینہ میں کسی صحابی کو نہیں بلکہ حضور کو اسوہ قرار دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو دین میں نئی باتیں شامل کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے، جن سے تفرقہ اور بگاڑ پیدا ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کا حکم دیا گیا اور جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا۔ اس سے بعض مفسرین نے قرآن مراد لیا اور بعض نے حضرت علیؑ۔ انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں بیان کئے گئے انبیاء اور سابقہ امتوں کے واقعات اور قصے عبرت حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ حضرت ابراہیم کے قصہ میں اللہ پر توکل، بھروسہ اور اس سے عشق کا سبق ملتا ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطر بے آب و گیاہ سرزمین میں نوزائیدہ بچے اور شریکِ حیات کو یکہ و تنہا چھوڑ دینا معمولی بات نہیں۔ بیٹے کو اللہ کی رضا کے لئے ذبح کرنا، آگ میں ڈالے جانے کے امتحان میں کسی کی مدد قبول نہ کرنا اور اس طرح کی مثالوں میں سامانِ عبرت ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے بعد حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے، جنہوں نے اپنے قبیلہ کو اللہ کی طرف دعوت دی تو اس کے امراء نے مطالبہ کیا کہ غریب اور کم درجہ کے لوگوں کو خود سے دور کریں۔ حضرت نوح ؑنے ان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔ رسول اکرم سے بھی یہی مطالبہ کیا گیا تھا کہ امیروں کے لئے ایک خاص وقت مقرر کریں تو اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ اے حبیب! ہرگز ایسا نہ کرنا، ورنہ آپ کو نقصان ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ایمان معیار ہے، مال، دولت یا منصب و مقام نہیں۔

Read 883 times