شيعوں کے مشہور علماء کا يہ عقيده ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تحريف نہيں ہوئی ہے اور وه قرآن جو آج ہمارے ہاتھوں ميں ہے بعينہ وہی آسمانی کتاب ہے جو پيغمبر گرامی پر نازل ہوئی تھی اور اس ميں کسی قسم کی زيادتی اور کمی نہيں ہوئی ہے اس بات کی وضاحت کے لئے ہم يہانچند شواہد کی طرف اشاره کرتے ہيں:
١۔پروردگار عالم مسلمانوں کی آسمانی کتاب کی صيانت اور حفاظت کی ضمانت ليتے ہوئے فرماتا ہے :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (1)
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں.
واضح ہے کہ ساری دنيا کے شيعہ چونکہ قرآن مجيد کو اپنے افکار اور کردار کے لئے اساس قرار ديتے ہيں لہذا اس آيہ شريفہ کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے اس آيت ميں موجود اس پيغام پر کامل ايمان رکھتے ہيں جو اس کتاب خدا کی حفاظت سے متعلق ہے .
٢۔شيعوں کے عظيم الشأن امام حضرت علی نے جو ہميشہ پيغمبر اکرم کے ہمراه رہے اور کاتبان وحی ميں سے ايک تھے آپ سے لوگوں کو مختلف موقعوں اور مناسبتوں پر اسی قرآن کی طرف دعوت دی ہے ہم اس سلسلے ميں ان کے کلام کے کچھ حصے يہاں پيش کرتے ہيں:
”واعلموا أن ھذا القرآن ھو الناصح الذ لايغش والھاد الذ لايضلّ” (2)
جان لو کہ يہ قرآن ايسا نصيحت کرنے والا ہے جو ہرگز خيانت نہيں کرتا اور ايسا رہنمائی کرنے والا ہے جو ہرگز گمراه نہيں کرتا.
”ن للهّ سبحانہ لم يعط أحداً بمثل ھذا القرآن فنہ حبل للهّ المتين و سببہ المبين”(3)
بے شک خداوند سبحان نے کسی بھی شخص کو اس قرآن کے جيسی نصيحت عطا نہيں فرمائی ہے کہ يہی خدا کی محکم رسی اور اس کا واضح وسيلہ ہے.
”ثم أنزل عليہ الکتاب نورًا لا تطفأ مصابيحہ و سراجًا لا يخبو توقده.ومنھاجًا لا يضل نھجہ . .. و فرقانا لا يخمد برھانہ”(4)
اور پھر آپۖ پر ايسی کتاب کو نازل کيا جس کا نور کبھی خاموش نہيں ہوگااور جس کے چراغ کی لو کبھی مدھم نہيں پڑ سکتی وه ايسا راستہ ہے جس پر چلنے والا کبھی بھٹک نہيں سکتا اور ايسا حق اور باطل کا امتياز ہے جو کمزور نہيں پڑ سکتا .
شيعوں کے امام عالی شان امام حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب کے گہربار کلام سے يہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجيد کی مثال ايک ايسے روشن چراغ کی ہے جو ہميشہ اپنے پيروکاروں کے لئے مشعل راه کا کام کرے گا. اور ساتھ ہی ساتھ اس ميں کوئی ايسی تبديلی نہيں ہوگی جو اس کے نور کے خاموش ہوجانے يا انسانوں کی گمراہی کا باعث ہو .
٣۔شيعہ علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہيں کہ پيغمبر اسلام نے يہ ارشاد فرمايا ہے :
”ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزيں چھوڑے جارہا ہوں ايک کتاب خدا (قرآن) ہے اور دوسرے ميرے اہل بيت ہيں جب تک تم ان دو سے متمسک رہو گے ہرگز گمراه نہيں ہوگے.”
يہ حديث اسلام کی متواتر احاديث ميں ايک ہے جسے شيعہ اور سنی دونوں فرقوں نے نقل کيا ہے.اس بيان سے يہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ شيعوں کی نظر ميں کتاب خدا ميں ہرگز کسی قسم کی تبديلی واقع نہيں ہوسکتی کيونکہ اگر قرآن مجيد ميں تحريف کا امکان ہوتا تو اس سے تمسک اختيار کر کے ہدايت حاصل کرنا اور گمراہی سے بچنا ممکن نہ ہوتااور پھر اس کے نتيجہ مينقرآن اور حديث ثقلين کے درميان ٹکراؤ ہوجاتا .
٤.شيعوں کے اماموں نے اپنی روايات ميں (جنہيں ہمارے تمام علماء اور فقہا نے نقل کيا ہے) اس حقيقت کو بيان کيا ہے کہ قرآن مجيد حق وباطل اور صحيح و غلط کے درميان فرق پيدا کرنے والا ہے لہذا ہر کلام حتی ہم تک پہنچنے والی روايات کے لئے ضروری ہے کہ انہيں قرآن مجيد کے ميزان پر تولا جائے اگر وه قرآنی آيات کے مطابق ہوں تو حق ہيں ورنہ باطل. اس سلسلے ميں شيعوں کی فقہ اور احاديث سے متعلق کتابوں ميں بہت سی روايتيں ہيں ہم يہاں ان ميں سے صرف ايک روايت کو پيش کرتے ہيں : امام صادق فرماتے ہيں:
”مالم يوافق من الحديث القرآن فھو زخرف”(5)
ہر وه کلام باطل ہے جو قرآن سے مطابقت نہ رکھتا ہو .
اس قسم کی روايات سے بھی يہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تحريف نہيں کی جاسکتی اسی وجہ سے اس کتاب کی يہ خاصيت ہے کہ وه حق و باطل ميں فرق پيدا کرنے والی ہے اورہميشہ باقی رہنے والی ہے .
٥.شيعوں کے بزرگ علماء نے ہميشہ اسلام اور تشيع کی آفاقی تہذيب کی حفاظت کی ہے ان سب نے اس حقيقت کا اعتراف کيا ہے کہ قرآن مجيدميں کبھی کوئی تحريف نہيں ہوئی ہے چوں کہ ان تمام بزرگوں کے نام تحرير کرنا دشوار کام ہے لہذا ہم بطور نمونہ ان ميں سے بعض کا ذکر کرتے ہيں :
١۔جناب ابوجعفر محمد بن علی بن حسين بابويہ قمی (متوفی ٣٨١ ھ) جو ”شيخ صدوق” کے نام سے مشہور ہيں فرماتے ہيں :
” قرآن مجيد کے بارے ميں ہمارا عقيده ہے کہ وه خدا کا کلام ہے وه ايک ايسی کتاب ہے جس ميں باطل نہيں آسکتا وه پروردگار حکيم و عليم کی بارگاه سے نازل ہواہے اور اسی کی ذات اس کو نازل کرنے اور اس کی محافظت کرنے والی ہے .”(6)
٢۔جناب سيد مرتضیٰ علی بن حسين موسوی علوی (متوفی ٤٣٦ ھ)جو ”علم الہدیٰ” کے نام سے مشہور ہينفرماتے ہيں:
”پيغمبر اکرم کے بعض صحابۂ کرام جيسے عبدلله بن مسعود اور اُبیّ بن کعب وغيره نے بارہا آنحضرت کے حضور ميں قرآن مجيد کو اول سے لے کر آخر تک پڑھا ہے يہ بات اس حقيقت کی گواہی ديتی ہے کہ قرآن مجيد ترتيب کے ساتھ اور ہر طرح کی کمی يا پراگندگی کے بغير اسی زمانے ميں جمع کر کے مرتب کيا جاچکا تھا.”(7)
٣۔جناب ابوجعفر محمد بن حسن طوسی (متوفی ٤٦٠ ھ)جوکہ شيخ الطائفہ کے نام سے مشہور تھے وه فرماتے ہيں:
”قرآن مجيد ميں کمی يا زيادتی کا نظريہ کسی بھی اعتبار سے اس مقدس کتاب کے ساتھ مطابقت نہيں رکھتاکيونکہ تمام مسلمان اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہيں کہ قرآن مجيد ميں کسی طرح کی زيادتی واقع نہيں ہوئی ہے اسی طرح ظاہراً سارے مسلمان متفق ہيں کہ قرآن مجيدميں کسی قسم کی کمی واقع نہيں ہوئی ہے اور يہ نظريہ کہ (قرآن ميں کسی قسم کی کمی واقع نہيں ہوئی ہے) ہمارے مذہب سے زياده مناسبت رکھتا ہے جناب سيد مرتضی نے بھی اس بات کی تائيد کی ہے اور روايات کے ظاہری مفہوم سے بھی يہی بات ثابت ہوتی ہے کچھ لوگوں نے بعض ايسی روايتوں کی طرف اشاره کيا ہے جن ميں قرآن مجيد کی آيات ميں کمی يا ان کے جابجا ہوجانے کا ذکر ہے ايسی روايتيں شيعہ اور سنی دونوں ہی کے يہاں پائی جاتی ہيں۔ ليکن چونکہ يہ روايتيں خبر واحد ہيں ان سے نہ تو يقين حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی ان پر عمل کيا جاسکتا ہے( 8) لہذا بہتر يہ ہے کہ اس قسم کی روايتوں سے روگردانی کی جائے۔”( 9 ) .
٤۔جناب ابوعلی طبرسی صاحب تفسير ”مجمع البيان” فرماتے ہيں:
”پوری امت اسلاميہ اس بات پر متفق ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کا اضافہ نہيں ہوا ہے ا س کے برخلاف ہمارے مذہب کے کچھ افراد اور اہل سنت کے درميان ”حشويہ” فرقہ کے ماننے والے قرآن مجيد کی آيات ميں کمی کے سلسلے ميں بعض روايتوں کو پيش کرتے ہيں ليکن جس چيز کو ہمارے مذہب نے مانا ہے جو صحيح بھی ہے وه اس نظريہ کے برخلاف ہے.”(10)
٥۔جناب علی بن طاؤس حلی (متوفی ٦٦٤ ھ) جو ”سيد بن طاؤس” کے نام سے مشہور ہيں فرماتے ہيں :
”شيعوں کی نگاه ميں قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تبديلی واقع نہيں ہوئی ہے”( 11)
٦۔ جناب شيخ زين الدين عاملی (متوفی ٨٧٧ ھ) اس آيہ کريمہ:(إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) کی تفسير کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ:
”يعنی ہم قرآن مجيد کو ہر قسم کی تبديلی اور زيادتی سے محفوظ رکھيں گے.”(12)
٧۔کتاب احقاق الحق کے مؤلف سيد نور لله تستری (شہادت ١٠١٩ ھ) جو کہ شہيد ثالث کے لقب سے مشہور ہيں فرماتے ہيں: ” بعض لوگوں نے شيعوں کی طرف يہ نسبت دی ہے کہ وه قرآن ميں تبديلی کے قائل ہيں ليکن يہ سارے شيعوں کا عقيده نہيں ہے بلکہ ان ميں سے بہت تھوڑے سے افراد ايسا عقيده رکھتے ہيں اور ايسے افراد شيعوں کے درميان مقبول نہيں ہيں (13)”.
٨۔جناب محمد بن حسين (متوفی ١٠٣٠ ھ)جو”بہاء الدين عاملی ” کے نام سے مشہور ہيں فرماتے ہيں کہ:
”صحيح يہ ہے کہ قرآن مجيد ہر قسم کی کمی و زيادتی سے محفوظ ہے اور يہ کہنا کہ امير المومنين علی کا نام قرآن مجيد سے حذف کرديا گيا ہے” ايک ايسی بات ہے جو علماء کے نزديک ثابت نہيں ہے جو شخص بھی تاريخ اور روايات کا مطالعہ کرے گااس کو معلوم ہوجائے گا کہ قرآن مجيد متواتر روايات اور پيغمبر اکرمۖ کے ہزاروں اصحاب کے نقل کرنے کی وجہ سے ثابت و استوارہے اور پيغمبراکرم کے زمانے ميں ہی پورا قرآن جمع کيا جاچکا تھا.” ( 14)
٩۔کتاب وافی کے مؤلف جناب فيض کاشانی (متوفی ١٠٩١ ھ) نے آيت (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) کو اور اس جيسی آيتوں کو قرآن مجيد ميں عدم تحريف کی دليل قرار ديتے ہوئے يوں لکھا ہے: ”اس صورت ميں يہ کيسے ممکن ہے کہ قرآن مجيد ميں تحريف واقع ہو ساتھ ہی ساتھ تحريف پر دلالت کرنے والی روايتيں کتاب خدا کی مخالف بھی ہيں لہذا ضروری ہے کہ اس قسم کی روايات کو باطل سمجھا جائے.”( 15)
١٠ ۔جناب شيخ حر عاملی (متوفی ١١٠٤ ھ) فرماتے ہيں کہ :
”تاريخ اور روايات کی چھان بين کرنے والا شخص اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ قرآن مجيد، متواتر روايات اور ہزاروں صحابہ کرام کے نقل کرنے سے ثابت و محفوظ رہا ہے اور يہ قرآن پيغمبر اکرم کے زمانے ميں ہی منظم صورت ميں جمع کيا جاچکا تھا.’ ‘ ( 16)
١١ ۔بزرگ محقق ”جناب کاشف الغطائ” اپنی معروف کتاب ”کشف الغطائ” ميں لکھتے ہيں:
”اس ميں شک نہيں کہ قرآن مجيد خداوندکريم کی صيانت و حفاظت کے سائے ميں ہرقسم کی کمی و تبديلی سے محفوظ رہا ہے ا س بات کی گواہی خود قرآن مجيدبھی ديتا ہے اور ہرزمانے کے علماء نے بھی يک زبان ہو کر اس کی گواہی دی ہے اس سلسلے ميں ايک مختصر سے گروه کا مخالفت کرنا قابل اعتناء نہيں ہے .”
١٢ ۔اس سلسلہ ميں انقلاب اسلامی کے رہبر حضرت آية لله العظمیٰ امام خمينی رحمة لله عليہ کا بيان بھی موجود ہے جسے ہم ايک واضح شاہد کے طور پر پيش کرتے ہيں: ہر وه شخص جو قرآن مجيد کے جمع کرنے اس کی حفاظت کرنے، اس کو حفظ کرنے ، اس کی تلاوت کرنے اور اس کے لکھنے کے بارے ميں مسلمانوں کی احتياط سے آگاہی رکھتا ہو وه قرآن کے سلسلے ميں نظريہ تحريف کے باطل ہونے کی گواہی دے گا اور وه روايات جو اس بارے ميں وارد ہوئی ہيں وه يا تو ضعيف ہيں جن کے ذريعے استدلال نہيں کيا جاسکتا يا پھر مجہول ہيں جس سے ان کے جعلی ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے يا يہ روايتيں قرآن کی تاويل اور تفسير کے بارے ميں ہيں يا پھر کسی اور قسم کی ہيں جن کے بيان کے لئے ايک جامع کتاب تاليف کرنے کی ضرورت ہے اگر موضوع بحث سے خارج ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو يہاں پر ہم قرآن کی تاريخ بيان کرتے اور ساتھ ہی ساتھ يہ بھی واضح کرتے کہ ان چند صديوں ميں اس قرآن پر کيسے حالات گزرے ہيں اور اس بات کو بھی روشن کرديتے کہ جو قرآن مجيد آج ہمارے ہاتھوں ميں ہے وه بعينہ وہی آسمان سے آنے والی کتاب ہے اور وه اختلاف جو قرآن کے قاريوں کے درميان پايا جاتا ہے وه ايک جديد امر ہے جس کا اس قرآن سے کوئی تعلق نہيں ہے جسے لے کر جبرئيل امين پيغمبر کے قلب مطہر پر نازل ہوئے تھے.”( 17)
نتيجہ:مسلمانونکی اکثريت خواه وه شيعہ ہوں يا سنی اس بات کی معتقد ہے کہ يہ آسمانی کتاب بعينہ وہی قرآن ہے جو پيغمبر خدا پر نازل ہوئی تھی اور وه ہر قسم کی تحريف ، تبديلی ، کمی اور زيادتی سے محفوظ ہے. ہمارے اس بيان سے شيعوں کی طرف دی جانے والی يہ نسبت باطل ہوجاتی ہے کہ وه قرآن ميں تحريف کے قائل ہيں اگر اس تہمت کا سبب يہ ہے کہ چند ضعيف روايات ہمارے ہاں نقل ہوئی ہيں تو ہمارا جواب يہ ہوگا کہ ان ضعيف روايات کو شيعوں کے ايک مختصر فرقے ہی نے نہيں بلکہ اہل سنت کے بہت سے مفسرين نے بھی اپنے ہاں نقل کيا ہے يہاں ہم نمونے کے طور پر ان ميں سے بعض روايات کی طرف اشاره کرتے ہيں :
١۔ابوعبدلله محمد بن احمد انصاری قرطبی اپنی تفسير ميں ابوبکر انبازی سے اور نيز ابی بن کعب سے روايت کرتے ہيں کہ سوره احزاب (جس ميں تہتر آيتيں ہيں) پيغمبر کے زمانے ميں سوره بقره (جس ميں ( دو سو چھياسی آيتيں ہيں) کے برابر تھا اور اسوقت اس سوره ميں آيہ ”رجم” بھی شامل تھی .(18)
ليکن اب سوره احزاب ميں يہ آيت نہيں ہے)اور نيز اس کتاب ميں عائشہ سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا :
”پيغمبر کے زمانے ميں سورهٔ احزاب ميں دوسو آيتيں تھيں پھر بعد ميں جب مصحف لکھا گيا تو جتنی اب اس سوره ميں آيتيں ہيں ان سے زياده نہ مل سکيں” ( 19)
٢۔کتاب ”الاتقان” کے مؤلف نقل کرتے ہيں کہ ”اُبیّ ” کے قرآن ميں ايک سو سولہ سورے تھے کيونکہ اس ميں دو سورے حفد اور خلع بھی تھے .جب کہ ہم سب جانتے ہيں کہ قرآن مجيد کے سوروں کی تعداد ايک سو چوده ہے اور ان دو سوروں (حفد اور خلع) کا قرآن مجيد ميں نام ونشان تک نہيں ہے. ( 20)
٣۔ہبة لله بن سلامہ اپنی کتاب ”الناسخ والمنسوخ” ميں انس بن مالک سے نقل کرتے ہيں کہ وه کہتے ہيں : ”پيغمبر اکرمۖ کے زمانے ميں ہم ايک ايسا سوره پڑھتے تھے جو سورهٔ توبہ کے برابر تھا مجھے اس سوره کی صرف ايک ہی آيت ياد ہے اور وه يہ ہے: ”لوأن لابن آدم واديان من الذھب لابتغیٰ اِليھما ثالثاً ولو أن لہ ثالثاً لابتغیٰ ليھا رابعاً ولا يملأ جوف ابن آدم اِلا التراب و يتوب للهّ علیٰ مَن تاب!”
جب کہ ہم سب جانتے ہيں کہ اس قسم کی آيت قرآن ميں موجود نہيں ہے اوريہ جملے قرآنی بلاغت سے بھی مغايرت رکھتے ہيں.
٤۔.جلال الدين سيوطی اپنی تفسير در المنثور ميں عمر بن خطاب سے روايت کرتے ہيں کہ سوره احزاب سوره بقره کے برابر تھا اور آيہ ”رجم” بھی اس ميں موجود تھی ( 21)
لہذا شيعہ اور سنی دونوں فرقوں کے کچھ افراد نے قرآن ميں تحريف کے بارے ميں ايسی ضعيف روايتوں کو نقل کيا ہے جنہيں مسلمانوں کی اکثريت نے خواه وه شيعہ ہوں يا سنی قبول نہيں کيا ہے . بلکہ قرآن کی آيتوں، عالم اسلام کی صحيح اور متواتر روايتوں ،اجماع، ہزاروں اصحاب پيغمبرۖ کے نظريات اور دنيا کے تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تحريف ، تبديلی ، کمی يازيادتی نہ آج تک ہوئی ہے اور نہ ہی رہتی دنيا تک ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) سوره حجر آيت : ٩
2) نہج البلاغہ (صبحی صالح) خطبہ نمبر ١٧٦
3) گذشتہ حوالہ
4) نہج البلاغہ (صبحی صالح) خطبہ نمبر ١٩
5) اصول کافی جلد ١ کتاب فضل العلم باب الاخذ بالسنة و شواہد الکتاب روايت نمبر ٤
6) الاعتقادات ص ٩
7) مجمع البيان جلد ١ ص ١٠ ميں سيد مرتضیٰ کی کتاب ”المسائل الطر ابليسيات”سے نقل کرتے ہوئے
8) ايسی روايت جو حد تواتر تک نہ پہنچتی ہو اور اس کے صدق کا يقين بھی نہ کيا جاسکتا ہووه خبر واحد کہلاتی ہے.(مترجم)
9) تفسير تبيان جلد ١ ص ٣
10) تفسير مجمع البيان جلد ١ ص ١
11) سعد السعود ص ١١٤٤
12) اظہار الحق ج ٢ ص ١٣٠
13) آلاء الرحمن ص ٢٥
14) آلاء الرحمن ص ٢٥
15) تفسير صافی جلد ١ ص1 ٥
16) آلاء الرحمن ص ٢٥
17) تہذيب الاصول ، جعفر سبحانی(دروس امام خمينی قدس سره )جلد ٢ص ٩٦
18) تفسير قرطبی جز ١٤ ص ١١٣ سوره احزاب کی تفسير کی ابتداء ميں
19) گذشتہ حوالہ
20) اتقان جلد ١ ص ٦٧
21) تفسير درالمنثور جلد ٥ ص ١٨٠ سوره احزاب کی تفسير کی ابتداء ميں