اسلامی ثقافت اور علم عرفان مىں چالیس كى عدد كو خاص قسم كى اہمىت حاصل ہے، جیسے حاجات کے لیے، عرفانى سیىر وسلوك كے اہم ترىن مقامات تک رسائى كے لىےچالیس روزہ چلّہ كشى،چہل حدیث، چالیس روز كا اخلاص كى روایت:
من أخلص لله أربعين صباحا ظهرت ينابيع الحكمة من قلبه على لسانه۔
جامع الأخبار(للشعيري) ؛ ص94)
چالیس سال كى عمرمىں بلوغ عقل والى حدیث،چالیس مؤمنىن كے لىے دعا كرنے كى تاكید، بدھ كى چالیس راتیں ، مؤمن كے ساتھ چالیس لوگوں كا امضاء شدہ شہادت نامہ دفنانا وغىرہ ہمارى روایات میں بہت زیادہ ہیں۔
- اسلامی ثقافت ميں حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپؑ كے جانثاروں كى شہادت كے چالیسوہں روز کو كہتے ہیں۔، امام مظلومؑ كى شہادت كے پہلے چالیسویں كو رسول خدا ﷺ كے بزرگ صحابى حضرت جابر بن عبد اللہ انصارىؓ اور عطیہ عوفى نے سب سے پہلے آپؑ كى قبر مطہر پر آكر زیارت كى، اور بعض روایات كے مطابق اسیران آل محمدؐ پہلے اربعین كو كربلا پہنچے اور وہاں جابرابن عبداللہ سے ملاقات كى، جبكہ دىگر بعض مؤرخین نے اس رواىت كى نفى كرتے ہوئے كہا كہ اہل بیتؑ پہلے اربعین كو كربلا نہیں پہنچے
(منتہى الآمال ج۱، ص ۳۴۲)۔
اربعىن حسینى اور پیدل مارچ تارىخ انسانیت میں ایک بے نظیركارنامہ ہونے كے ساتھ امام حسین علیہ السلام كے مقدس اہداف كے تحقق ، شیعہ مذہب كے پرچار، عالمى سطح پر سیرت نبوى اور علوى پر مشتمل سماج كى تشكیل مىں سنگ میل كى حیثیت ركھتى ہے، اس عظیم ظرفیت اور موقع سے استفادہ كرتے ہوئے پورى دنیا مىں اسلام كے نورانى چہرے كو روشناس كراسكتے ہیں،
اس بہترىن موقع پر زائرین ابا عبد اللہ امام حسین علیہ السلام كى ذمہ دارى دو چنداں ہوجاتى ہے كیونكہ اس عظیم اجتماع كا بندوبست امام حسین ؑ ، اہل بىت پىغمبرؐ اور اصحاب باوفا خود ہى كردىے ہىں، پورى دنىا سے ہر رنگ ونسل، ہر مذہب وفرقہ، ہرطبقہ زندگى سے تعلق ركھنے والے بے اختیار امام حسینؑ كى قبر مطہر كى طرف كھینچتے چلے آرہے ہىں ، كىونكہ رسول خداﷺ كا فرمان پاک ہےكہ: قتل حسینؑ مؤمنین كے نفس وجان مىں شعلہ جوالہ بن كر بھڑک رہا ہے جو تا صبح قیامت خاموش نہىں ہوگا
*قال إن لقتل الحسين حرارة في قلوب المؤمنين لا تبرد أبدا*
مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل ج10 ، 318 ، 49 ص : 311)
امام حسینؑ سے لوگوں كى محبت ومودّت مىں روز افزوں اضافہ دىكھنے كو مل رہا ہے، اور اس عشق ومحبت كے ایجاد میں كسى بھى انسان كا كوئى ہاتھ نہىں بلكہ یہ سب كچھ آپؑ كى عظیم اور لازوال قربانى كا نتیجہ ہے كہ آج پورى دنىا كے لوگ رنگ ونسل ، مذہب وفرقے كے جھگڑے، زبان و طبقہ بندى سے ماوراء ہوكر لبیک یاحسینؑ كا نعرہ مستانہ بلند كرتے ہوئے راستے كى تمام تر مشكلات كو پشت سر گزارتے ہوئے كربلا معلى كى طرف ٹھاٹھیں مارتے سمندر كى امنڈ كر آرہے۔ اس عظیم اجتماع كے وقوع كے بارے مىں كسى قسم كى فكر نہىں ہونى چاہىے كیونكہ یہ اللہ كى منشاء كے مطابق وقوع پذىر ہوچكا لیکن فكر اس بات كى ہے كس حد تک اس بحر بیکراں اجتماع كے توسط سے درس كربلا اور اہداف عاشورا كو پورى دنىا كے كونے كونے تک پہنچانے اور فرعونوں ،یزىدیوں ، نمرودوں كے ظلم و ستم كى چكى مىں پسی ہوئی انسانىت كو ان كے چنگل سے كیسے نجات دلائى جائے، مفاد پرستوں، عیاشى كے دلدادہ لوگوں، مقام ومنصب كے اسیروں كو اس دلدل سے كیسے باہر نكالے جائیں ، اور ان كو عاشورائى اور كربلائى بنایاجائے، زائرىن اباعبداللہ ؑ مىں سے ہر ایک اپنى صلاحیت اور استعداد ومہارت كے مطابق اپنى ذمہ دارى كا تعین كرئے۔ان وظائف مىں بعض كا ہم یہاں ذكر كرىں گے۔
*۱: امام حسین ؑ كى زیارت اور پیادہ روى مىں شركت*
زیارت اربعىن اور پىادہ روى اہل بیت پىغمبرﷺ كى سنت مىں سے ایک ہےكہ جو دور حاضرمیں زور پكڑتى جارہى ہے، اس سنّت حسنہ كے احیاء اور اجراء كے لىے تمام مؤمنىن خاص كر علماء دین، طلاب كرام كو خصوصى دلچسپى لینى چاہئے۔ كىونكہ روایات میں امام حسین علیہ السلام كى زیارت كو حج وعمرہ سے بالاتر گردانتے ہوئے امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:
قال الصادق : زيارة الحسين تعدل مائة حجة مبرورة و مائة عمرة متقبلة.
كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط – القديمة) ؛ ج2 ؛ ص41
امام حسینؑ كى زیارت سو مقبول حج اور سو مقبول عمرہ كے برابر ہے۔
دوسرى روایت مىں صادق آل محمدؑ زیارت حسینؑ كو واجب قرار دىتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:
قال الصادق جعفر بن محمد ع:
زيارة الحسين بن علي ع واجبة على كل من يقر للحسين ع بالإمامة من الله عز و جل.
كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط – القديمة) ؛ ج2 ؛ ص41
آپؑ كى امامت كا اقرار كرنے والے ہر شخص پر امام حسین علىہ السلام كى زىارت واجب ہے۔
معتبر روایت مىں آیا ہے كہ ثروت مند افراد سال میں تین بار اور فقراء سال مىں حد اقل ایک بار امام حسینؑ كى زىارت كے لىے كربلا تشرىف لے چلے۔
امام حسن عسكرى ؑ نے مؤمن كى پانچ علامات ذكر فرماىا ہے:
علامات المؤمن خمس: صلاة الخمسين، و زيارة الاربعين، و التختم فى اليمين، و تعفير الجبين و الجهر ببسم الله الرحمن الرحيم.
وسائل الشيعه، ج 10 ص 373 ۔ التهذيب، ج 6 ص 52
ان میں سے ایک زیارت اربعىن ہے۔
ہمارى ذمہ داریوں میں سے سب پہلے خود امام حسىنؑ كى زیارت كو عظیم سے عظیم تر اور پر رونق انداز مىں بجالانا ہے،زیارت اربعین شعائر اللہ مىں سے ہے ، لہذا اس كے لىے جتنا ممكن ہو سكے باشكوہ انداز مىں منعقد كرنا ہم سب كا فریضہ ہے ۔دوسرى طرف اس مقدس سفر كے آداب جیسے زائرىن كے ساتھ مہربانى سے پیش آنا، اول وقت نماز كى ادائیگى، كثرت سے صلوات پڑھنا، ذكر پڑھتے رہنا، زیارت امام حسینؑ كے آداب کی رعایت كرنا واجب ہے۔
*۲: ثقافتى كاموں كو اہمیت دینا*
زیارت امام حسینؑ فقط تعبدى اور عبادى پہلو نہیں ركھتى بلكہ اس كے كئى جہات ہیں ، ان میں سے ایک اہم پہلو دنیا كے مختلف ملكوں سے آئے ہوئے زائرىن كو مذہب اہل بیت كى غنى ثقافت سے آشنا كرنا ہے،كیونكہ امام حسین ؑ سے بڑا كوئى اوروسیلہ نہیں كہ جس كے ذرىعےسے لوگوں كو تو حید، عدل، نبوت، امامت ، معاد، نماز، روزہ، حج ، زكوٰة، خمس، امر معروف، نہى از منكر، تولى وتبرىٰ اور دىگر ضروریات دین كے بارے مىں بتاىا جائے، واجبات كى اہمیت اور بجاآورى كى ضرورت كے متعلق لوگوں كى معرفت میں اضافہ کیا جائے، كیونكہ یہ امور ہزاروں مساجد بنانے،بے شمار كار خیر بجالانے،لاكھوں فقراء كى مدد كرنے سے بھى زیادہ تاثیر گذار ہے،بلكہ بہت كم وقت اور نہاىت قلیل خرچ كے ساتھ بے شمار لوگوں كے قلب وروح پرگہرا اور جاودانہ اثرات مرتب كرسكتے ہیں۔
ثقافتى فعالیت میں سے بعض یہ ہیں ۔ مجالس ابا عبد اللہ ؑ كا انعقاد، خوبصورت روایت گرى، شیعہ مذہب كے اہم ترىن واقعات كو كارٹونزكى شكل میں لوگوں مىں تقسیم كرنا، امام حسینؑ كے گوہربار كلمات كے ساتھ بینرز نصب كرنا، علماء ومراجع عظام اور شہدا كى تصاویركى نمائش، بچوں كے لىے بینٹنگ كے مقابلے ، كوئز مقابلے،پمفلٹ شائع كركے تقسیم كرنا، واقعہ عاشورا، اربعین كى زیارت كى اہمیت كے متعلق روایات پر مشتمل تحقیقی میگزین كى اشاعت جیسے ہزاروں ثقافتى كام كرنا لازمى ہے، ہرموكب مىں معمم عالم دین كا وجود اور مختلف سرگرمىوں میں حصہ لىتے رہنا، ان فعالیات میں سے ایک اوّل وقت كى نماز باجماعت اور بىان احكام شرعى ، ادعیہ وزیارات كو خوبصورت وجذاب لحن مىں پڑھنا ہے ۔
*۳: اربعین كى ثقافت كا نشر واشاعت*
میڈىا پیغام رسانى كا ایک بہترىن وسیلہ ہے ،لیكن ہمارے دشمن اس وسیلے كو ہمارے ہى خلاف نہاىت خطرناك انداز میں استعمال كررہا ہے، طاغوت اور ان كے اشاروں پہ چلنے والے بے دىن حكمران مسلمانوں میں افتراق واختلاف كا بیج بوكر اپنے سیاہ كرتوتوں کو لوگوں كى توجہ ہٹانے كے لیے میڈیاپر ہمارے خلاف زہر افشانى كرتے ہىں ،نجف اشرف سے كربلا معلى تک متصل پیدل چلنے والے كروڑوں انسانوں كے اس سیلاب کا دنیا كى میڈیا پر كہىں بھى تذكرہ نہىں ہوتا، بلكہ اس بے نظیر اجتماع پر پردہ ڈالنے كے لىے سرتوڑ كوشش كرتے ہیں،حد الامكان اس كو چھپاتے ہیں ، كیونكہ یہ عظیم اجتماع دنیا بھر كے ستمگر، بے غیرت، بے دىن، ہوا وہوس كے اسیر حكمرانوں اورانسانى اقدار سے بے خبر،عوام كے خون چوسنے والے مفاد پرست ٹولےكے خلاف سراپا احتجاج اور ان سے اظہار بیزارى كا نام ہے، اس لیے وہ دنیا كے سب سے بڑے اجتماع كو میڈیا كى زینت بنانے سے كتراتے ہىں، اس لیے ہمارے درمیان بہت ماہر اور تربىت یافتہ گروہ ہونا چاہىے جو صرف ابا عبد اللہ امام حسینؑ كے عشق مىں كربلا كى طرف بڑھتے عوامى سمندر کو كوریج دے، پیغام كربلا ، صدائے حق، لبیك ىا حسینؑ كى آواز كو پورى دنیا كے انسانوں تک پہنچائے۔تاكہ حق كے متلاشى اور حقىقت كى جستجو كرنے والوں تک پىغام عاشوراءپہنچنے مىں كوتاہى نہ ہو۔
پىادہ روى اربعین اپنے تمام تر زیبائى و خوبصورتى كے ساتھ ساتھ ایک بہترىن فرصت ہے كہ ہم جدید اسلامى تمدن كو ملموس انداز مىں میڈیا كے ذرىعے سے دنیا تک پہنچائے، اس عظیم موقع سے استفادہ كرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام كے انسان ساز قیام كے اہداف كو سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکڑونک میڈیا كے وسیلے سے دنیا كو دكھایا جائے،میڈیا پیادہ روى اربعین كے صرف عاطفى اور احساساتى پہلو پر توجہ مركوز ركھنے كى بجائے اہداف كى تبیین، اربعین كى خصوصیات اور زیارت كے ثواب، قیام اما حسینؑ كے مقاصد ، آپؑ كے دشمنوں كے سیاہ كرتوت اور امام ؑ كا راہ ہدایت كى طرف نصیحت كے ساتھ بلند اہداف كے حصول كے لىے جان ومال واولاد كى قربانى، شہدا كربلا كے ایثار وفداكارى كا جذبہ جیسے بے شمار حسن وجمال سے بھرے پہلووں كو بھى روشن كرایا جائے، حماسہ حسینى نے طول تارىخ اپنے استمرار میں كبھى خلل آنے نہىں دیا، كبھى ہاتھ پاِؤں كٹوا كر تو كبھى عزىز واقارب كى جان كى قربانى دے كر، كبھى چھپ كر تو كبھى كھلے عام زیارت ابا عبد اللہ امام حسین ؑ كى زیارت كا سلسلہ جارى وسارى رہا، میڈیا كبھى اس خوبصورت پہلو كو بھى اپنے پروگرام كى زینت بنائے۔
*۴: امام زمان عجل اللہ فرجہ الشرىف كے ظہور كے لىے زمینہ سازى كرنا.*
اربعین كے اس عظیم اجتماع میں فرزند زہراء سلام علیہا، منتقم خو ن سیدالشہداؑ حضرت امام مہدى ارواحنا لہ الفداہ ضرور تشرىف لاتے ہیں، اپنے ظہور اور امّت كى مظلومیت دیكھ كر اپنے جدّ بزرگوار امام حسین كے روضہ اطہر پر گریہ كرتے ہونگے، تو كیوں نہ ہم ان كے ظہور اور عافیت كے لىے دعا وگریہ نہ كرىں،اہداف عاشوراء كا تحقق آپؑ كے بابركت ظہور كے ساتھ منسلک ہے،اس لىے اربعین كے بے نظىر اجتماع كے دوران بعض موكب اور خیموں كو امام مہدىؑ كے وجود مقدس، ظہور بابركت، ظہور کی علامات، ظہور كے بعد كے حالات و واقعات،عالمی حكومت ، عدالت وانصاف كے قیام كا دور،ظالم وستگروں كا انجام، آپؑ كى حكومت كى كیفیت وخدو خال وغیرہ كے متعلق احادیث كى تبیین،و تحلیل كے لىے مختص كیاجانا چاہىے كیونكہ عالمى عدالت سے خوفزدہ دشمنوں كى طرف سے امام مہدىؑ كى ولادت، ظہور، امام عسكرى ؑ كے فرزند ہونے، دنىا كو عدل وانصاف سے بھرنے ، ظالموں و خونخواروں كى حكمتوں كا قلع وقمع كے بارے میں ہزاروں قسم كے شبہات ایجاد کئے جارہے ہىں، خود مؤمنین كے ذہنوں كو مشوّش اور اقسام وانواع كے شبہات پیدا كیے گئے ہیں۔
*۵: اتحاد وىكجہتى كا مظاہرہ كرنا*
اربعین حسینى كے بے مثال اجتماع میں متعدد ممالک ، مختلف زبان بولنے والے، مختلف ادیان ومذاہب كے لوگ شریک ہوتے ہیں۔کیونکه ان سب كو حسین بن علىؑ اپنے عشق مىں یکجا کئے ہیں، دنیا كا امن دگرگون ہونے كے بعد ، فرقہ پرستى كے جنّ تھیلى سے باہر آنے كےبعد، قوم وزبان علاقہ پرستى كے دلدل مىں پھنس جانے كے بعد، ایک دوسرے كى تكفیر كے بعد، دین و مذہب كے نام پر لاكھوں انسانوں كو بے جرم وخطا نابود كرنے كے بعداب انسانوں كو امام حسینؑ كى زیارت اربعین كى شكل مىں اتحاد ویکجہتى كا عظیم پلیٹ فارم ہاتھ آیاہے جسے دیکھ كر مشرق ومغرب كے طاغوت اور ان كے پىروكاروں پر وحشت ودہشت طارى ہوچكى ہے اور آئے روز اتحاد كے اس عظىم نكتے كو خراب كرنے، دوسرے فرقوں كے مقدسات كے خلاف غلیظ زبان استعمال كروا كر ایک دوسرے كے جانى دشمن بنانے، نشوونماپاتے نوخیز تمدن اسلامى كو ابتدائى مرحلے مىں ہى تباہ كرنے كے در پے ہیں۔ لیكن امام حسینؑ كى ذات ہى ایسى ہے كہ ہر انسان آپؑ كے عشق و محبت مىں اربعین كے ایام میں ٹھاٹھیں مارتے انسانى سمندر میں غوطہ زن ہونے كے لىے بے تاب نظر آتے ہیں۔كیونكہ امام حسین علیہ السلام نكتہ وحدت واتحاد ہے، اس لىے ہمیں ہر اس چىز سے اجتناب كرنا چاہىے جو ہمارے درمیان اختلاف و تفرقے كا باعث ہو، مشتركات اور عامل اتحاد كى رعایت كرتے ہوئے آپس میں محبت واحترام، ایثار وفداكارى، عزت و مہربانى اور عطوفت ورحمدلى سے پىش آنا چاہىے،تاكہ دنیا ہمارے کردار اور آداب دیكھ كر خود امام حسینؑ كے مقدس اہداف كے بارے مىں غور وفكر كرنے پر مجبور ہوجائے، اگر ہم امام حسینؑ كے عشق مىں بیتاب بعض افراد كے مذہب كے خلاف نازىبا الفاظ استعمال كرئے یا ان كى مذہبى شخصیات كى توہین كرئے یا مقدسات مذہب كے خلاف نازیبا زبان استعمال كرئے تو یقیناہم امام حسینؑ كے اہداف كے خلاف دشمن كا آلہ كار بنے ہوئے ہیں، كىونكہ اسلام اور ہمارا مذہب اس بات كى ہرگز اجازت نہىں دیتا كہ ہم آپس مىں دست وگریباں ہوں اور دشمن كے اہداف كے حصول میں ان كا معاون ومددگار ہو، لہذا اىسے عوامل واسباب كى حوصلہ شكنى ہونى چاہىے جو تفرقے اور دنگا فساد كا سبب ہو۔
*شیخ حسین چمن آبادى*
*پیشکش:مجمع طلاب شگر