ایکنا نیوز- قرآن کریم میں کہا گیا ہے: «قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ». (رعد/ 16)
یہ قرآن کی توحیدی ترین آیت ہے۔ اس میں خدا اور انسانوں کی سرپرستی کے حوالے سے سوالات پوچھے گیے ہیں، ابتدا میں سوال کیا گیا ہے«پروردگار آسمان و زمین کون ہے» اور جواب دیتا ہے «خدا» اور پھر سوال ہوتا ہے «کیوں ایسے لوگوں کو سرپرست چنے جاتے ہیں جو اپنے نفع و نقصان پر قادر نہیں؟
اس آیت میں اللہ تعالی کی قبولیت پر بات نہیں بلکہ خدا کی «ربوبیت» یعنی دنیا کو سنبھالنے اور پرورش کی بات ہے۔ یہاں بہت باریک نکتہ ہے۔ فرعون نہیں کہتا تھا کہ «میں الله هوں»، بلکه کہتا تھا «انا ربکم الاعلی»(نازعات/ 24)؛ یعنی میں دنیا کا سنبھالنے والا ہوں، نه خلق کرنے والا. قرآن کہتا ہے: «وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَی» (زمر/ 3) یعنی اگر بت پرست بتوں کی پوجا کرتے تو اس وجہ سے کہ وہ اللہ تک پہنچے، اسی وجہ سے انکو ہم مشرک کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے خدا کا شریک انتخاب کیا ۔
تاہم جنہوں نے قبول کیا کہ خدا انکے سرپرست بنے نہ صرف باتوں کی حد تک بلکہ عمل میں انکا کردار الہی کردار رہا اور اسی معیار پر انکا اخلاق رہا اور خدا کی راہ پر قایم رہے۔ اسی لیے اس آیت میں یوں سوال کیا جاتا ہے کہ انسان اپنے راستے کو خود تعین کرے اور درست راستے پر چلے یا نادرست کا انتخاب کرے۔؟ ایک بینا اور ہوشیار بنے یا نابینا اور غفلت زدہ رہے؟
* ایرانی مفسر قرآنی اور محقق سیدمجتبی حسینی کی باتوں سے اقتباس