ایکنا نیوز- توسل ان بنیادی مفاہیم میں شامل ہے جن پر دعاوں میں تاکید کی جاتی ہے اور دعا اس سے جلد قبول ہوجاتی ہے توسل میں انسان ایک صالح ولی کا واسطہ دیتا ہے جنکی وجہ سے جلد بخشش ممکن ہوجاتی ہے اور شب قدر کے بعض اعمال میں اس پر تاکید کی گیی ہے مگر کیا قرآن اس چیز کی تائید کرتا ہے؟
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ: اے وہ جو ایمان لائے ہو خدا کی پرواہ کرو
[توسل و] قرب کی کوشش کرو اور اسکی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاو» (مائده: 35).
توسل کسی چیز کے محبت کے ساتھ قریب ہونے کے معنی میں ہے لہذا لفظ «وسیله» کا وسیع معنی ہے اور ہر اس چیز کے معنی میں ہے جس سے خدا کے نزدیک ہونا ممکن ہوسکے۔
«قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ: اے والد گرامی ہمارے لیے بخشش مانگو اور ہم واقعی میں خطا کار تھے»(یوسف: 97)
اس آیت کے رو س دوسروں سے استغفار و بخشش طلب کرنا توحید سے کسی طور متصادم نہیں بلکہ خدا کے لطف و کرم کی طرف ایک راستہ ہے وگرنہ کیسے ممکن تھا کہ یعقوب نبی اپنے فرزندوں کے تقاضے کو تسلیم کرتے اور انکے توسل کا مثبت جواب دیتے؟
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیاء الھی سے توسل جایز ہے اور اس سے مخالفت قرآن مجید سے لاعلمی یا بیجا تعصب کی نشانی ہے جو حقیقی قرآنی تعلیمات سے دور رکھتی ہے۔
هدایت انسانی میں حقیقی پیشواوں کا کردار
توسل پر تأکید اس حوالے سے اہمیت رکھتی ہے کہ مومن اپنے حقیقی رہنماوں کے راستے پر الہی سمت کی جانب توجہ دیں اور اسکے علاوہ ایک محبت کا رشتہ مضبوط ہوتے ہیں۔
«وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا: ہم نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ توفیق الہی سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تو آپ کے پاس آتے اور خدا سے بخشش طلب کرتے اور پیغمبر بھی انکے لیے بخشش مانگتے، یقینا خدا توبہ کرنے والوں پر مہربان ہے۔»(نساء: 64).
یہ آیت واضح کہتی ہے کہ رسول گرامی (ص) کی سمت جانا اور انکو شفیع قرار دینا اور انکو وسیلہ بنانا گناہ کاروں کی بخشش میں موثر ہے۔/