ایکنا نیوز- انسان سختیوں میں خلق ہوا ہے اور زندگی کی مشکلات سے انکا سامنا قدرتی امر ہے تاہم درست مینجمنٹ اور ترتیب سازی سے ان مشکلات میں سکون حاصل کرنا ممکن ہے۔
اس طرح کی مشکلات سے رہائی کے لیے صرف خدا کی مدد سے انسان خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے:«قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ:
کون تمھیں سمندر اور خشکی کی وحشت سے بچا سکتا ہے؟ اس کا منت و سماجت اور چپھکے سے پکارتے ہو کہ ہمیں نجات دی تو ہم شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔» (انعام/ 63).
آرام سکون اور بے نیازی انسان کو غفلتوں میں ڈال سکتی ہے اور اسی وجہ سے خدا جو ارحم الراحمین ہے اور انتہائی مہربان و شفیق، انسان کو سختیوں میں گرفتار کرتا ہے تاکہ گمراہی و غفلت سے باخبر رہ سکے۔
خدا مشکلات میں گرفتار انسان کو تاکید کرتا ہے کہ ایسی حالت میں خداوند بزرگ سے مدد لے تاکہ اسکے سختی سے نکال دیں۔
بعض مشکلات انسان کو ناتوان کردیتی ہے اور ہر قسم کی راہ اس پر بند ہوجاتی ہے اور کبھی تو کفر تک کی نوبت آتی ہے، یہاں وہ مقام ہے کہ خدا انسان کو محکم پناہ گاہ کی طرف ہدایت کرتا ہے:
«وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ: صبر و نماز سے مشکلات کے مقابل مدد لو اور شرک کی آلودگی سے پاک رہنے کے لیے خدا کی مدد لو اور یقینا حق طلب افراد کے علاوہ دوسروں کے لیے یہ کام مشکل ہے» (بقره/ 45).
نماز جو انسان کو خدا کی لامحدود طاقت کی طرف متوجہ کرتی ہے اور تمام چیزوں کو رب کے برابر ناچیز دکھاتی ہے رب کی محبت کو بڑھاتی ہے اور توکل کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور مادیات سے رہائی دلا کر مشکلات کے مقابل مضبوط کرتی ہے۔
تاہم قرآن مجید حقیقی سختی کو قیامت کی سختی قرار دیتا ہے اور تمام دنیا کی مشکلات کو حقیر شمار کرتا ہے لہذا حقیقی مومنین کو بشارت دیتا ہے کہ وہ قیامت میں غم سے رہا ہوگا اور شادماں بہشت بریں میں سکونت پذیر ہوگا: : بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ:
جی ہاں جو خود پورے وجود سے خدا کے برابر تسلیم کرے گا اور نیکو کار ہوگا پس اس کا اجر خدا کے ہاں محفوظ ہے اور اسے کوئی غم نہ ہوگا» (بقره/ 112).