انسان کو آزاد خلق کرکے عدل و انصاف سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدل و انصاف کا تقاضا انسان کی فطرت کا جزء لاینفک ہے۔ جہاں ظلم و زیادتی اپنے اوج پر ہوگی، وہاں عدل و انصاف کی طلب و تڑپ کا احساس بھی زیادہ ہوگا اور یہی احساس بہت سی تحریکوں کو جنم دیتا ہے، کیونکہ انسانی فطرت ہمیشہ انسانی اقدار اور حق و حقانیت کی حاکمیت چاہتی ہے اور اظہر من الشمس ہے کہ فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی اور انہی انسانی اقداروں اور حق و حقانیت کی حاکمیت کی خاطر حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام نے قیام کیا اور اپنے خون کے ذریعے انسان کو بیدار کیا کہ اٹھو اپنی فطرت کی آواز پر لبیک کہو اور یہ مختصر قیام، ایک طرف تمام انسانی اقدار کی تجلی اور مظہر صفات خداوندی سے بھرا پڑا ہے تو دوسری جانب ظلم و بربریت اور شقاوت سے لبالب ہے، کیونکہ کربلا اقدار کی جنگ ہے۔
انقلاب کربلا وجود میں آنے کا سبب، انسانی اقدار اور حق و حقانیت کی پامالی تھی۔ اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: “دیکھ نہیں رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے روکا نہیں جا رہا، میں خروج کر رہا ہوں، تاکہ امر بالمعروف کے ذریعے جد امجد اور پدر کی سیرت کی احیاء کروں۔” اور ان کی سیرت بھی یہی تھی کہ انسان کو جہالت کی ظلمتوں سے نکال کر فطرت اور حق و حقانیت کے خورشید سے ملائیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر بیان کروں تو قیام کربلا کا مقصد و ہدف اسلامی تہذیب و تمدن کی تعمیر نو تھی، جس کے لیے امام حسین علیہ السلام اور ان کے پاک اصحاب نے اپنی جان کی قربانی پیش کی اور حضرت امام سجاد اور حضرت زینب علیھما السلام نے قید و بند اور اسیری کی صعوبتیں جھیلی۔
کربلا مقدمہ مہدویت ہے اور اربعین حسینی زمینہ ظہور امام کے لئے خیمہ گاہ کی تعمیر اور تربیت کا گہوارہ ہے۔ جس کا آغاز امام زین العابدین علیہ السلام اور جناب زینب علیھما السلام کی رہبری میں عصر عاشور کے بعد ہوا اور اب تک جاری و ساری ہے اور ظہور تک جاری رہے گا۔ اسی لیے آئمہ معصومین علیھم السلام نے جہاں انتظار فرج کو افضل ترین عبادت قرار دیا ہے، وہاں زیارت اربعین کے لئے پیادہ روی کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے چنانچہ روایت میں یوں وارد ہوا ہے، رسول اللہ فرماتے ہیں “میری امت کی افضل ترین عبادت انتظار فرج ہے۔” محمد بن فضیل کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے انتظار فرج کے بارے میں سوال کیا تو نے فرمایا:” خداوند متعال فرماتا ہے، “وَ انۡتَظِرُوۡا ۚ اِنَّا مُنۡتَظِرُوۡنَ "اور تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کریں گے۔"
بشير دهان کہتے ہیں: میں نے امام صادق (عليہ السلام) سے سنا ہے، جب آپ ایک شیعہ جماعت کے ساتھ حيره کی طرف جا رہے تھے؛ آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: اے بشير، کیا اس سال حج کیا؟ عرض کی: آپ پر قربان ہو جاؤں، نہیں کیا، امام (ع) عرفہ کے دن قبر حسين (عليه السلام) کے پاس موجود تھا؛ فرمایا: اے بشير خدا کی قسم، کوئی چيز جو اصحاب مكہ کے لئے مكہ میں تھی، تیرے ہاتھ سے نہیں گئی؛ کہا: آپ پر قربان، وہاں عرفات کا میدان بھی تو ہے، (کیسے ممکن ہے کہ میں ان سے برابری کروں اور کوئی چیز ثواب کے اعتبار سے ان کے مقابلے میں کم نہ ہوئی ہو) میرے لئے وضاحت فرمائیں؛ امام نے فرمایا: اے بشير، جب تم میں سے کوئی شخص فرات کے پانی سے غسل کرتا ہے پھر امام حسين بن علی (علیہ السلام) کی قبر مطھر و منور کی سمت آپ کی معرفت کا جو حق ہے، اس کے ساتھ چلتا ہے تو اللہ اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھاتا ہے، یا رکھتا ہے، سو مقبول حج اور سو مقبول عمرہ کا ثواب عطا فرماتا ہے اور سو جہاد کا ثواب جو دشمنان خدا اور دشمنان رسول اللہ کے خلاف کسی مرسل نبی کے ساتھ کیا ہو، کا ثواب بھی اسے دیتا ہے؛ اے بشير سنو اور اس (روایت) کو اس شخص کے لئے بیان کرو، جس کا دل اسے برداشت کرسکے! جو حسين (عليه السلام) کی زيارت كرے، وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے عرش پر اللہ کی زیارت کی ہو۔
جو شخص پیدل زیارت قبر حضرت امام حسین (علیه السلام) کی طرف چلے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھائے گا، ہزار نیکی و حسنات اس کے لئے لکھے گا اور اس کے ہزار گناہ مٹا دے گا اور اس کے لئے ہزار درجات و مراتب کو بلند فرمائے گا۔ پھر فرمایا: جب فرات پر داخل ہوں تو ابتداء غسل کرو اور اپنے جوتے آویزاں کرو اور پابرہنہ راستہ چلو اور ذلیل عبد کی طرح راہ چلو۔ امام صادق (علیہ السلام) ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں: "جو شخص پیدل امام حسین (علیه السلام) کی قبر کی زیارت کے لئے آتا ہے تو اللہ اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھاتا اور رکھتا ہے، اولاد اسماعیل (علیہ السلام) سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھتا ہے۔" یہ سفر اربعین اقدار دینی اور اقتدار دینی کی ایک حسین تجلی ہے، جو ظہور کی آمادگی کی مشق ہے۔
بنی امیہ و بنی عباس کے دور سے لیکر اب تک دشمن کی یہی کوشش رہی کہ مختلف روشوں سے یہ پیادہ روئ اربعین ختم کرے، تاکہ اپنے اقتدار کی کرسی باقی رہے۔ اس کے لئے کبھی ہاتھ قطع کیے تو کبھی بم بلاسٹ کے ذریعے سے راستہ بند کیا تو کبھی وائرس پھیلا کر۔۔۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ جو شعائر الہیٰ کو زندہ کرنے کی خاطر اس کی راہ میں قدم بڑھاتے ہیں، خدا ہمیشہ اسی کی مدد کرتا ہے۔ "یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ"، "یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ (کی پھونکوں) سے اللہ کے نور کو بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، خواہ کفار برا مانیں۔" "یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ"، "یہ لوگ اپنی پھونکوں سے نور خدا کو بجھانا چاہتے ہیں، مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے کے علاوہ کوئی بات نہیں مانتا، اگرچہ کفار کو ناگوار گزرے۔"
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیوں بجھے جسے روشن خدا کرے
اربعین حسینی تجلی اقدار انسانی کا نام ہے۔ اربعین حسینی ظہور امام زمان علیہ السلام کی زمینہ سازی کا ایک مقدمہ ہے۔ اربعین حسینی خدا و اہلبیت سے اظہار عشق کا نام ہے۔ اربعین حسینی ایک ایسی تحریک ہے، جو تمام اختلافات سے مبرا ہو کر زندہ ضمیر انسانوں کو ایک لڑی و سلاسل میں پروتی ہے۔ اربعین حسینی مہدوی معاشرے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ اربعین حسینی عاشقان صلح و دوستی کی میقات ہے۔ اربعین حسینی عشق و جنون کا دوسرا نام ہے۔ اربعین حسینی ایک ایسی تربیت گاہ ہے، جہاں سے انسان عدالت خواہی کی طرف سفر کرتا ہے۔ اربعین حسینی وہ دانشگاہ و مدرسہ ہے، جہاں سے انسان خدائی بن کر آتا ہے۔ اربعین حسینی ظہور کی طرف ایک حرکت ہے۔ اربعین کے دن دنیا بھر سے کروڑوں زندہ ضمیر لوگ جمع ہوتے ہیں اور ہو بہو کسی ماہتاب کی مانند دکھائی دیتے ہیں کہ جو آسمان کربلا میں خورشید عشق و انسانیت کے گرد جمع ہوکر محو گردش ہوں۔ یہ لوگ وقت کے حسین علیہ السلام، یوسف زہراء (عج) سے تجدید عہد کرتے ہیں کہ اب ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، کیونکہ باقی آئمہ معصومین علیہم السلام لوگوں کی غفلت اور بے وفائی سے شہید ہوگئے ہیں۔
اربعین حسینی انسانیت کی خدمت، ایثار و قربانی اور فداکاری کا دن ہے۔ اس کی بہترین مثالیں کربلا سے نجف تک کی پیادہ روی میں دیکھی جاسکتی ہیں کہ جن کو دیکھ کر انسان انگشت بدندان ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اتنا منظم و وسیع ہے کہ اس میں کروڑوں انسانوں میں سے کوئی بھی بھوکا پیاسا نہیں رہتا بلکہ ہر کسی کو اپنی مرغوب و من پسند چیزیں میسر ہیں۔ اگر یوں کہیں کہ پیادہ روئ اربعین بہشت برین کی ایک جھلک ہے۔ افسوس اس سال عاشقان راہ خدا پیادہ روی میں شرکت تو نہیں کرسکے لیکن “گرچہ دوریم بہ یاد تو سخن می گوییم” اور “عالمی جہانی خواہد شد” کے موقف پر کاربند ہوتے ہوئے آج پوری دنیا میں چھ ماہ کے بچے سے لی کر اسی سالہ پیر مرد، ? *لبیک یا حسین* ? کی صدا بلند کرتے ہوئے اپنے گھروں سے نکل رہے ہیں۔
تاکہ پیادہ روی اربعین کی اس ثقافت کو عراق کی سرزمین سے نکال کر ایک عالمی ثقافت میں تبدیل کرسکیں۔ البتہ دشمن بھی اپنی تمام تر کاوشوں کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے، تاکہ اس پیادہ روی میں مختلف چپقلشیں، تفرقہ بازی اور نفرت انگیز شعائر کے ذریعے خرابی پیدا کرے۔ لہذا تمام عاشقان راہ خدا کو اس بات کی طرف متوجہ رہنے کی ضرورت ہے کہ آپ کو بصیرت کا دامن تھام کر حضرت امام سجاد (ع) اور حضرت زینب علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے دشمن کے تمام ناپاک عزائم کو غرق خاک کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمال الدین و تمام النعمہ جلد 2، باب55، ح3،4
ابن قولويه (متوفاى367هـ)، كامل الزيارات، ص320)۔
کامل الزیارات134
سورہ صف آیت 8
سورہ توبہ 32
اربعین مقدمہ ظہور
Published in
نظریات و دینی مقالے